اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-22

مصلح موعود ؓکا نام فضل عمر کیوں رکھا گیا؟

(حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ )

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی ایک پہچان حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے یہ فرمائی ہے کہ الہاماً مجھ پر اسکا ایک نام فضل عمر بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ یعنی اسکی شناخت ان فضیلتوں کی موجودگی سے ہو سکے گی جو حضرت عمرؓ (بن خطاب)میں پائی جاتی ہیں اور ان میں ایک فضیلت تو ایسی ہے کہ وہ سوائے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے دنیا کے کسی اور فرد بشر میں پائی ہی نہیں جاسکتی یعنی

(1)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے زمانہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا دوسرا خلیفہ ہونا جیسا کہ حضرت عمر ؓ (بن خطاب )بعثت اولیٰ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خلیفہ تھے ۔ یہ فضل یا فضیلت ایسی محکم اور ایسی غیر منفک ہے کہ حضرت فضل عمر سے نہ تو پہلے کوئی ایسا شخص ہوا ہے جسے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا دوسرا خلیفہ ہونے کا فخر حاصل ہو نہ آئندہ کوئی ایسا شخص پیدا ہوسکتا ہے جو اس عہدہ پر سرفراز ہو سکے ۔ تیسرا چوتھا پانچواں بیسواں غرض ہر نمبر کا خلیفہ اس سلسلہ میں آسکتا ہے مگر نہیں آسکتا تو دودسرا۔ رہے غیر مبایعین سو وہ تو سرے سے خلافت ہی کے قائل نہیں اور جو کچھ اَور لوگ مصلح موعود ہونے کے مدعی ہیں ان سب میں سے کسی ایک کو بھی جماعت احمدیہ کی خلافت بحیثیت دوسرے خلیفہ مسیح موعود ہونےکے حاصل نہیں اور نہ انہوں نے کبھی ایسا دعویٰ کیا۔ پس یہ ایک ایسا محکم تعین کا نشان مصلح موعود کیلئے بیان کیا گیاہےجس میں اشتباہ کا دخل ہی نہیں رہا اور سوائے ایک انسان کے کوئی اس عہدے کا مدعی ہی نہیں ہو سکتا اور اس صفاتی نام سے ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ مصلح موعود کون ہے؟ اور اگر غور کیا جاوے تو ایسی محکم علامات چار ہیں (1)آپکا حضرت مسیح موعود ؑ کے تخم ذریت اور نسل سےہونا(2)آپ کا نو سالہ میعاد کے اندر پیدا ہونا(3)آپ کا بشیر اوّل کے معاً بعد تولد ہونا(4)اور آپ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا دوسرا خلیفہ ہونا۔

(2)

اس مخصوص فضل کے سوا بعض اور فضیلتیں بھی حضرت عمرؓ (بن خطاب)کی ہیں جو حضرت فضل عمر میں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ جس طرح حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتوحات بہت وسیع ہو گئی تھیں اور اسلام نے بہت ترقی کی تھی اور اکثر متمدن ممالک میں افواج اسلامیہ اور مبلغین اسلام جا پہنچے تھے، اسی طرح حضرت فضل عمر کے زمانہ میں بھی احمدیت اور اسلام کے مبلغ دنیا کے اکثر ممالک اور زمین کے اکثر گوشوں اور کناروں تک پہنچ چکے ہیں اور سلسلہ کی کتابیں ، حالات اور اخبارات اکثر بیرونی اور اجنبی ممالک میں نفوذ کر چکے ہیں اور احمدیت کی فتوحات، رعب، وسعت اور غنائم محتاج بیان نہیں ہے ۔ نیز حضور کے علوم نے لوگوں کو نہایت درجہ سیراب کر دیا ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کی بابت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خواب ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک کنواں ہے جس پر ڈول رکھا ہے ۔ ابوبکر ؓ نے ایک دو ڈول ناتوانی کے ساتھ کنویں میں سے نکالے ۔ پھر وہ ڈول ایک چرسہ بن گیا اور عمرؓ نے اس سے اتنا پانی نکالا کہ آدمی اور اونٹ سب سیراب ہوگئے ۔ سو یہ دوسری مماثلت ہے حضرت فضل عمر کی حضرت عمر ؓ کے ساتھ۔

(3)

اسی طرح ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے رؤیا میں دکھایا گیا کہ میں نے دودھ پیا یہاں تک کہ میرے ناخنوں تک اسکی تری پہنچ گئی۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمربن خطاب کو دے دیا ۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ اسکی تعبیر کیا ہے؟ فرمایا اس سے مراد علم ہے۔ پس جس طرح حضرت عمر ؓ کو نبوت کے علم میں سے حصہ ملا تھا اسی طرح حضرت فضل عمر کو بھی حصہ ملا اور دوست دشمن اس کرامت کے مقر ہیں زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ یاد رکھنا کافی ہوگا کہ حضرت عمرؓ کے کام کرنے کی طاقت اور آنجناب کا علم جن کا ہم نے نمبر 2 اور نمبر 3 میں ذکر کیا ہے ایسا ہی حال حضرت فضل عمر کا بھی ہے کہ جسمانی کام کی قوت اور علمی قوت دونوں کو مظاہرہ قریباً ہر قادیان میں رہنے والے احمدی کے سامنے ہوتا رہتا ہے اور اسی کی طرف حضرت مسیح موعودؑکے اس الہام میں اشارہ ہے کہ ایک فرزند تمہیں عطا کیا جائے گا جو قوی الطاقتین ہوگا اور یہ کہ وہ علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا۔

(4)

حضرت عمر ؓ اپنی اس بات پر بھی فخر کیا کرتے تھے کہ میں نے بعض باتیں آنحضرت ﷺ سے عرض کیں تو میری عرضداشت کے بعد میری مرضی کے مطابق قرآنی آیتیں بھی نازل ہوگئیں ۔ منجملہ ان کے ایک آیت حجاب بھی ہے۔ حضرت فضل عمر کی عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اتنی تو نہ تھی کہ وہ حضور کو کوئی مشورہ دیا کرتے لیکن ایک رنگ تو ارد الہامی کا یہاں بھی پایا جاتا ہے۔اس کی مثال وہ رؤیا حضرت فضل عمر کی ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاج اٰتِیْکَ بَغْتَۃًوالا الہام ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا گیا تو آپؑنے فرمایا کہ ہاں آج رات واقعی مجھے یہ الہام ہوا ہے ۔ پس جس طرح حضرت عمر کا القا ربانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی صورت میں ظاہر ہوا اسی طرح حضرت فضل عمر کا رویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی کی صورت میں نمودار ہوا۔ یہ چوتھی مماثلت تھی۔

(5)

پانچویں مماثلت یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دنیا میں ان کے جنتی ہونے کی بشارت دے دی تھی۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی حضرت فضل عمر کو اپنی اولاد میں ہونے کی وجہ سے جنت کی بشارت اسی دنیا میں دے دی۔ جب آپؑنے یہ فرمایا کہ مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کیلئے میری نسبت اور میرے اہل و عیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے…اور شکایت کرنے والا منافق ہوگا ۔ یعنی میری اولاداور میری بیوی کو خدا تعالیٰ نے جنتی بنایا ہے اور مجھے ان کے بہشتی ہونے کی اطلاع اسکی طرف سے مل چکی ہے۔علاوہ ازیں مخصوص طور پر بھی حضور علیہ السلام کو جنتی ہونے کی بشارت حضرت فضل عمرکے تولد ہونے سے پہلے ہی الہاماً بتا دی گئی تھی۔ جیسے کہ فرمایا ’’تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا‘‘یعنی بر خلاف قول مولوی مصری کے پسر موعود کا انجام اچھا ہوگااور اسکی روح کا رفع آسمان کی طرف ہوگا۔
(اس موقع پر ایک ضمنی بات بیان کرنی ضروری ہے کہ پیغامی کہا کرتے ہیں کہ اوروں کیلئے تو یہ مقبرہ بہشتی تھا مگر مسیح موعود کے اہل و عیال کیلئے یہ خاندانی مقبرہ ہے کیونکہ ان کی طرف سے کوئی وصیت کی رقم داخل نہیں کی گئی ۔ اسکے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ حضور انور نے مقبرہ کی بنیاد رکھنے کے وقت اپنی جائداد میں سے اس وقت کے حساب سے ایک ہزار روپیہ کی زمین چندہ میں یعنی وصیت میں دی تھی۔ حضور کو تو خود وصیت کی ضرورت نہ تھی کیونکہ آپ کو تو فریقین بااتفاق رائے جنتی مانتے ہیں ۔ ایک ہزار روپے کی زمین حضور نے دراصل اپنے اہل و عیال ہی کی طرف سے دی تھی)

(6)

چھٹی مشابہت حضرت عمر ؓاور حضرت فضل عمرؓ کے مزاجوں کی مماثلت ہے۔ حضرت عمر کی غیرت دینی اور جلال کون ہے جو نہیں جانتا اور یہاں حضرت فضل عمر کے بارے میں یہ الہام ہے’’جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کا موجب ہوگا۔ ‘‘ نیز’’ خدا کی رحمت اور غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔‘‘
سب جماعت کے لوگ جانتے ہیں کہ دینی معاملہ میں غیرت اور جلال حضرت فضل عمر کی ایک نمایاں خصوصیت ہے جس طرح کہ وہ حضرت عمر ؓکی تھی۔

(7)

ساتویں مشابہت حضرت عمرؓ کے ساتھ حضرت فضل عمرؓ کی یہ ہے کہ آپ بھی محدث ہیںیعنی ملہم اور حضور کے حق میں خدا نے فرمایا ہے کہ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے (یعنی کلام)
اسی طرح حضرت عمر ؓ کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امم سابقہ کے محدثوں کی طرح عمرؓبھی ایک محدث اور ملہم ہے۔ چناچہ کئی آیتوں کے مضامین پہلے حضرت عمر کے دل پر نازل ہوئے پھر قرآن میں وحی متلو کی صورت میں آگئے۔ اور بعض آپ کے رویاء اورکشف بھی مشہور ہیں ۔ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد فوراً ہی کسی نبی نے آنا ہوتا تو وہ عمر ہوتا یا یہ کہ میں نہ مبعوث ہوتا تو عمر مبعوث ہوتا۔ یہ سب باتیں نور نبوت اور الہامی فطرت اور وحی کی برداشت کی طاقت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور ان ہی باتوں کو احمدیہ جماعت کے لوگ حضرت فضل عمر میں بھی ہمیشہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنی گائے لئے جاتا تھاکہ تھکان کے مارے خود اس گائے پر سوار ہوگیا۔ گائے نے اس سے کہا کہ ہم تو کاشتکاری کیلئے پیدا کی گئی ہیں نہ کہ سواری کیلئے ۔ صحابہ نے عرض کیا سبحان اللہ کیا گائے بیل بھی بولا کرتے ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو اس بات کو مانتا ہوںبلکہ ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی مانتے ہیں حالانکہ وہ دونوں اس مجلس میں موجود نہ تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمر ؓ دونوں صاحب کشف تھے کیونکہ سب معاملہ اس گائے کی تقریر کا کشفی ہے ۔ رہا اس کا ثبوت سو یہ ہے کہ ایک دفعہ اپنی خلافت کے زمانے میں حضرت عمرؓنے جمعہ کا خطبہ پڑھتے پڑھتے ’’یا ساریۃ الجبل یا ساریۃ الجبل‘‘ پکار کر فرمایا۔ حاضرین خطبہ حیران ہوئے اور بعد نماز جمعہ اسکی بابت آپ سے سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اسلامی لشکر کو میدان جنگ میں سخت مصیبت میں دیکھا اور ساتھ ہی یہ نظارہ دیکھا کہ اگر وہ پہاڑ کی طرف پناہ لے لیں تو بچ سکتے ہیں۔اس لئے میں نے سردار لشکر ساریہ کو آواز دی کہ پہاڑ کی پناہ لو، پہاڑکی پناہ لو ۔ کچھ مدت کے بعد جب اس لشکر کے لوگ مدینہ آئے تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم دشمن کے نرغے میں آگئے تھے لیکن ایک آواز آئی کہ اَے ساریہ پہاڑ کی پناہ لو ۔ پس ہم ادھر چلے گئے اور تباہی سے محفوظ ہوگئے۔ سو یہ مشہور کشف ہے جو حضرت عمر ؓ کا صاحب کشف ہونا ثابت کرتا ہے۔ اسی طرح اذان کے کلمات بھی آپ کی معرفت ہی ہم مسلمانوں کو ملے ہیں ۔ پس چونکہ وہ خود محدث ، ملہم اور صاحب کشف تھے اسلئے ان کیلئے یہ ماننا کیا مشکل تھا کہ بیل کلام کرتا ہے یا بھیڑیا بولتا ہے۔ ہاں عام لوگوں کیلئے یہ بات واقعی قابل فہم تھی۔
اسی طرح ہمارے فضل عمر بچپن سے صاحب کشف و رؤیا و الہام ہیں اور انکا صرف ایک یمزقنھم والا الہام ہی 1914ء سے آج تک ہتھوڑے کی طرح اہل پیغام کو توڑ توڑ کر اور پراگندہ کر کر کے دائمی حجت ان لوگوں پر پوری کر رہا ہے اور جب سے یہ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی ہے تب سے تو یہ سلسلہ بہت نمایاں اور کثرت سے ہوگیا ہے۔ یہ ساتویں مشابہت ہوئی۔

(8)

آٹھویں مشابہت حضرت فضل عمر کی حضرت عمرؓسے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِنَّ اللہَ وَضَعَ الْحَق عَلٰی لِسَانِ عـُمَرَ یعنی اللہ تعالیٰ نے حق کو عمرؓکی زبان پر رکھا ہے۔ اور ایک جگہ روایت ہے کہ خدا نے حق کو عمر کی زبان اور دل دونوں پر جاری کیا ہے۔ سو ایسے ہی الفاظ حضرت فضل عمر کے حق میں الہام الٰہی نے فرمائے ہیں جہاں آپ کو یکہا گیا ہے اور آپ کے آنے کوجَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ فرمایا گیا ہےفَـمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَال ۔ پس یہ آٹھویں مماثلت ہوئی۔

9)

نویں مماثلت دین کے متعلق ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رؤیا دیکھی کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے جارہے ہیں اور وہ قمیصیں پہنے ہوئے ہیں ۔ کسی کی قمیص چھاتی تک ہے کسی کی اس سے بھی کم۔ اتنے میں عمر آپ کے روبرو لائے گئے۔ اس حال میں کہ ان کی قمیص اتنی لمبی تھی کہ زمین پر گھسٹتی جاتی تھی اور وہ اسے کھینچتے تھے ۔ صحابہ ؓنے عرض کیا حضور اس خواب کی کیا تعبیر ہے آپ نے فرمایا دین۔ سو یہاں بھی یہی حال ہے کہ اس قدر دین اور قرآن کے حقائق و معارف حضرت فضل عمر کو دئیے گئے ہیں کہ ہر جلسہ پر آنے والا ، ہر مجلس میں حاضر ہونے والا، ہر خطبے کا سننے والااور ہر وہ شخص جو آپ کی کتابوں اور تفسیر کا مطالعہ کرتا ہے اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ واقعی سر سے پیر تک یہ شخص دین اور کلام اللہ کے معارف سے اس طرح بھرا ہوا ہے جس طرح بلا ٹتگ پیپراگر پانی میں ڈالا جائے تو پانی سے بھر جاتا ہے اور اسکے ہر بُن مُوسے دین ہی دین پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے ۔ اور ہمارے لئے تو یہی کافی ہے کہ نبوت جیسے عظیم الشان دینی مسئلہ کی حقیقت حضور کی وجہ سے ہی جماعت میں متمکن ہوئی۔

(10)

دسویں مشابہت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دعا فرمایا کرتے تھے کہ یا الٰہی اسلام کو معزز اور غالب کر دے یا تو ابوجہل کو مسلمان کر کے یا عمر ابن خطاب کو مسلمان کر کے ۔ سو حضرت عمر کو خدا نے مسلمان کر دیا اور ان کی وجہ سے اسلام کی نصرت ، عزت اور غلبہ کچھ تو فوراً ظاہر ہو گیا ۔ لیکن آگے چل کر آپ کی خلافت کے زمانہ میں تو اس قدر غلبہ اور نصرت اسلام کو حاصل ہوئی کہ حدّ بیان سے باہر ہے۔ بالکل اسی طرح حضرت فضل عمر بھی حضرت مسیح موعود ؑ کی چالیس شبانہ روز کی دعائوں کے نتیجہ میں پیدا ہوئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا تھا کہ میری اولاد کے ذریعے خدا نے ترقی و نصرت اسلام کی بنیاد ڈالنے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ وعدہ بھی ہم نے اس مصلح موعود کے زمانہ میں بشدت پورا ہوتا دیکھ لیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

(11)

مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ نظام سلسلہ کا قیام اور ہر قومی محکمہ کا الگ الگ تعین، مجلس شوریٰ کا قیام کرنا ، سنہ ہجری شمسی کی ترویج ، مختلف قسم کی جماعتی مردم شماریوں کی ابتداء ، شعر کا ذوق، قوت تقریر، امیرالمومنین کا لقب اختیار کرنا، سیاست و تدبیر، عورتوں کے حقوق اور تعلیم کا انتظام دین کیلئے واقفین کا سلسلہ چلانا۔ غرض یہ اور ایسی بہت سی اور باتیں ہیں جو حضرت عمر ؓ کی طرح اس زمانہ میں آپ کی امتیازی خصوصیات میں داخل ہیں۔

(مطبوعہ الفضل 20؍فروری 1944ء)