اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-29

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1341)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔رحیمن اہلیہ صاحبہ منشی قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری شادی کے چھ ماہ بعدمجھے میرا خاوند قادیان میں لایا اور ایک خط لکھ کر دیا کہ یہ حضرت صاحب کے پاس لے جاؤ۔میں خط لے کر گئی۔ حضورؑ نے وہ خط پڑھا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’تمہارے میاں ڈاکٹر ہیں ؟‘‘ میں نے کہا کہ نہیں حضورؑ ! آپ نے فرمایا ’’کیا حکیم ہیں ‘‘ میں نے عرض کیا نہیں حضورؑ، آپؑنے فرمایا’’پھروہ کس طرح کہتے ہیں کہ تمہارے ہاں اولادنہیں ہوگی۔ تمہارے ہاں اتنی اولاد ہو گی کہ تم سنبھال نہ سکو گی‘‘اس واقعہ کے نو یا دس ماہ بعد مجھے ایک لڑکا پیدا ہوا اوراس وقت میں سولہ بچوں کی ماں ہوں ۔ جن میں سے آٹھ بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں۔الحمد للہ علیٰ ذالک ۔

 

(1342)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ محترمہ ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز صاحب زوجہ چوہدری مولابخش صاحب چونڈے والے سر رشتہ دار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے 6؍مئی1901ء میں بیعت کی تھی۔میں بڑے دلان میں آکر اتری تھی۔ میں پہلے آٹھ یوم رہی تھی ۔میری گود میں لڑکا تھا ۔حضرت اماں جان نے پوچھا۔ اس کا کیانا م ہے؟ میں نے عرض کیا’’مبارک احمد‘‘ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے مبارک کانام رکھ لیا ہے۔حضورؑ نے مسکرا کر فرمایا کہ’’جیتا رہے۔‘‘
مجھے بچپن سے ہی نماز روزہ کا شوق تھا۔ جب میں بیعت کر کے چلی گئی تو مجھے اچھی اچھی خوابیں آنے لگیں۔ میرے خواب میرے خاوند مرحوم کاپی میں لکھتے جاتے۔ جب ایک کاپی لکھی گئی تو حضور ؑ کی خدمت میں اس کو بھیجا اور پوچھا کہ حضورؑ! یہ خوابیں کیسی ہیں ؟ رحمانی ہیں یا شیطانی ؟ حضور علیہ السلام نے لکھ بھیجا تھا کہ ’’یہ سب رحمانی ہیں ۔‘‘

 

(1343)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی تھی ۔پہلے جب میں اپنے خاوند مرحوم مغفور کے ساتھ قادیان میں آئی تھی تومیں آنگن میں بیٹھی تھی۔ جمعہ کا دن تھا ،حضور علیہ السلام نے مہندی لگائی ہوئی تھی اور کمرے میں سے تشریف لائے تھے ۔مجھے فرمایا کہ’’ تم رحیم بخش کی بیوی ہو ؟ میرے ساتھ چھوٹی بچی تھی۔ حضور ؑ نے فرمایا ’’ یہ تمہاری لڑکی ہے ؟‘‘ فرمایا ’’تمہارا کوئی لڑکا بھی ہے ‘‘ میں نے عرض کیا کہ نہیں ،صرف یہی لڑکی ہے۔ ’’اچھا‘‘ فرما کر اندر تشریف لے گئے ۔

 

(1344)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی خادمہ ککے زئی فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بھائی حامد علی صاحب کے پیٹ میں تلی تھی۔ وہ حضور علیہ السلام سے علاج کرانے آتے تھے۔جب اچھے ہوگئے تو حضور ؑ کے خادم بن کر یہاں ہی رہ گئے اور اپنی بیوی کو بھی بلا لیا۔ حافظ نور محمد صاحب والد رحمت اللہ شاکر بھی قادیان آگئے ۔حضورؑ نے حافظ نور محمد صاحب کے والدصاحب سے کہا کہ ’’اپنا بیٹا ہمیں دے دو۔‘‘ مگر اس نے کہا کہ میر اایک ہی بیٹا ہے، آپ کو کس طرح دے دوں ۔ یہ آٹھویں دن حاضر ہو جایا کرے گا۔ حافظ حامد علی صاحب پانچ بھائی تھے ۔یہ دونوں حافظ تھے ۔ (حضور ؑ نے) قرآن مجید سننے کے واسطے ان کو اپنی خدمت میں رکھ لیاتھا۔

 

(1345)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب فنانشل کمشنر صاحب دورہ کی تقریب پر قادیان تشریف لائے تھے تو حضرت اقدسؑ نے جماعت کے معززین کو طلب فرمایا تھا تو ڈاکٹر صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی بذریعہ تار طلب کیا تھا ۔ وہ تین یوم کی رخصت لے کر آئے تھے ۔میں قادیان میں ہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے حضورؑ کے قدموں سے جد ا رہنا مصیبت معلوم ہوتا ہے، میرا دل ملازمت میں نہیں لگتا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’سر دست ملازمت چھوڑنے کی ضرورت نہیں ۔تم ایک سال کے واسطے آجاؤ ۔اکٹھے رہیں گے ۔ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔‘‘ چنانچہ وہ حضور ؑسے اجازت لے کر ایک سال کی رخصت حاصل کر کے قادیان آگئے ۔

 

(1346)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ خربوزے رکھے تھے تو میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ سرور سلطان صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا بشیر احمد صاحب کہنے لگیں ۔’’نظر نہیں آتا، کیا ہے ؟‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا کہ’’نرمی سے بولا کرو اگر تم پٹھانی ہو تو وہ مغلانی ہے اس لئے محبت سے پیش آیا کرو۔‘‘

 

(1347)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمیں پانی کی کمی کی وجہ سے بہت تکلیف تھی ۔ہم سب گاؤ ں کے آدمیوں نے مل کر مشورہ کیا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کریں کہ وہ کنواں لگوادیں ۔حضرت صاحب ؑ، اور بہت سے آدمی آپ کے ہمراہ تھے۔ اس وقت کوٹھیوں کے آگے جو رستہ ہے اس رستے سیر کو جارہے تھے ۔جب واپس ہمارے گاؤں کے قریب آئے تو لوگوں نے عرض کی کہ حضور ؑ پانی کی تکلیف ہے۔آپؑنے فرمایا ’’انشاء اللہ بہت پانی ہوجائے گا۔‘‘ اس وقت گاؤں کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے ۔

 

(1348)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنے وطن میانی میں تھی کہ میرے لڑکے اسحق کو جس کی عمر اس وقت دو سال کی تھی، طاعون کی دو گلٹیاں نکل آئیں ۔ان دنوں یہ بیماری بہت پھیلی ہوئی تھی ۔ہم بہت گھبرائے اور حضرت ؑ کے حضور دعا کیلئے خط لکھا۔لڑکا اچھا ہو گیا تو ایک ماہ کے بعد میں اس کو لے کر قادیان آئی اور اس کو حضورؑ کے سامنے پیش کیا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کو طاعون نکلی تھی۔ حضورؑ اس وقت لیٹے ہوئے تھے ۔سنتے ہی اٹھ بیٹھے اور فرمایا ۔’’اس چھوٹے سے بچہ کو دو گلٹیاںنکلی تھیں ؟ ‘‘ اب خدا کے فضل سے وہ بچہ جوان اور تندرست ہے۔

 

(1349)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہانپوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’صفیہ ! گرم پانی کا لوٹا پائخانہ میں رکھو۔‘‘ مجھ سے کچھ تیز پانی زیادہ پڑگیا ۔جب حضورؑ باہر آئے تو مجھے کہا ۔ ’’ ہاتھ کی پشت کرو‘‘ اور پانی ڈالنا شروع کیا اور ہنستے بھی جاتے تھے ۔پھر فرمایا ۔’’ پانی تیز لگتا ہے‘‘ ؟ میں نے کہا لگتا تو ہے ۔آپ ؑ نے فرمایا ’’اتنا تیز پانی نہیں رکھنا چاہئے ۔‘‘

 

(1350)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن آپؑ لیٹے ہوئے تھے اور میں پیر دبا رہی تھی ۔کئی طرح کے پھل لیچیاں ،کیلے ،انجیر اور خربوزوں میں سے آپ نے مجھے بہت سے دئے۔ میں نے ان کو بہت سنبھال کر رکھا کہ یہ بابرکت پھل ہیں ۔ان کو میں گھر لے جاؤں گی تاکہ سب کو تھوڑا تھوڑا بطور تبرک کے دوں۔ جب میں جانے لگی تو حضورؑ نے اماں جان کو فرمایا کہ برکت کو وائی برنم دے دو۔ اسکے رحم میں درد ہے (ایکسٹریکٹ وائی برنم لیکوئڈ ایک دوا رحم کی اصلاح کے واسطے ہوتی ہے) یہ مجھے یاد نہیں کہ کس نے دوا لا کر دی ۔حضورؑ نے دس قطرے ڈال کر بتایا کہ دس قطرے روز صبح کو پیا کرو۔ میں گھر جا کر پیتی رہی۔

 

(1351)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’میں تیسری بار قادیان میں آئی تو میرے پاس ایک کتاب رابعہ بی بی کے قصے کی تھی جسے میں شوق سے پڑھا کرتی تھی۔آپؑنے فرمایا کہ ’’برکت بی بی ! لو یہ درثمین پڑھا کرو۔‘‘
دوا پینے کے بعد مجھے حمل ہوگیا تھا جس کا مجھے علم نہ تھا ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور دو اَور عورتیں بیٹھی ہیں کہ مجھے حیض آگیا ہے۔میں گھبرائی اور تعبیر نامہ دیکھا۔ اس میں یہ تعبیر لکھی تھی کہ ’’جو عورت اپنے آپ کو حائضہ دیکھے وہ کوئی گناہ کرتی ہے ۔‘‘ مجھے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا۔ میںنفل پڑھتی اور توبہ استغفار کرتی اور خدا سے عرض کرتی۔ یا اللہ! مجھ سے کون سا گناہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے؟ تو مجھے اپنے فضل سے بچا اور قادیان آئی ۔ حضور ؑ کے پاؤں دبا رہی تھی کہ میں نے عرض کی ۔’حضورؑ مجھے ایک ایسی خواب آئی ہے جس کو میں حضورؑ کی خدمت میں پیش کرنے سے شرم محسو س کرتی ہوں، حالانکہ نہیں آنی چاہئے کیونکہ حضورؑ تو خدا کے بھیجے ہوئے ہیں ۔آپؑسے نہ عرض کروں گی تو کس کے آگے بیان کروں گی۔ پھر میں نے حضورؑ کی خدمت میں وہ خواب بیان کی ۔حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’وہ کتاب جو سامنے رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ۔‘‘ میں لے آئی آپ نے کتاب کھول کر دیکھا اور بتایا کہ ’’ جو عورت ایسا خواب دیکھےتو اگر وہ حاملہ ہے تولڑکا پید اہوگا اور اگر حاملہ نہیں تو حمل ہو جائے گا۔‘‘ میںنے عرض کی کہ مجھے حضور علیہ السلام کی دوااور دعا سے حمل ہے۔آپؑنے فرمایا’’اب انشاء اللہ لڑکا پیدا ہوگا۔‘‘

 

(1352)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش صاحب باورچی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص جس کے سپرد گائے بھینس وغیرہ کا انتظام تھا وہ چوری سے چیزیں بھی نکال کر گھر کو لے جایا کرتا تھا۔ میاں کریم بخش صاحب نے اس کو منع کیاکہ بھئی تو اس طرح چیزیں نہ نکالا کرمگر وہ لڑ پڑا۔ میں نے جاکر حضور علیہ السلام کو بتایا کہ وہ اس طرح سے کرتا ہے میاں کریم بخش نے اس سے کہا تو وہ لڑپڑا۔ حضور علیہ السلام نے اس کوکہا ۔’’ہم ایسے آدمی کو نہیں چاہتے۔‘‘

 

(1353)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کے ساتھ باغ میں سیر کو گئیں ۔ ( یہ باغ حضرت کی ملکیت تھا جو ڈھاب کے پار ہے ) اس میں صرف آم ،جامن اور شہتوت وغیرہ کے درخت تھے ۔کوئی پھول پھلواری اور ان کی کیاریاں وغیرہ زیبائش کا سامان نہیں تھا۔بالکل تنہا وہ باغ تھا،توحضور علیہ السلام نے سب کو جامن کھلائے ۔ایک بار حضور ؑ نے چڑوے ریوڑیاں کھلائیں ،حضرت اُم المومنین بھی ساتھ ہوتی تھیں، چھابڑی والے بعض اوقات وہاں پہنچ جایا کرتے تھے۔

 

(1354)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب کی بیوی نے حضرت اُم المومنین صاحبہ سے پوچھا کہ نورجان نے ایسا ارائیوں والا لباس پہناہوا ہے، آپ اسکو اپنی نند کیوں کہتی ہیں ۔آپ نے کہا کہ اسکے بھائی سے پوچھو ۔ پھر آپؑ سے پوچھا۔ آپؑنے فرمایا کہ ’’صرف لباس کی وجہ سے ہم بہن کو چھوڑ دیں ؟ یہ خود سادگی پسند کرتی ہیں ۔ پہلے ایسا ہی لباس ہوتا تھا۔‘‘

 

(1355)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم مغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے بھائی صاحب فیض علی صاحب صابر کا خیال تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اقبال علی غنی اور منظور علی کو قادیان میں تعلیم دلائیں جس کے متعلق انہوںنے بصد مشکل والدہ ماجدہ مرحومہ کو راضی کیا اور جب اس طرح یہ دونوں چھوٹے بھائی قادیان چلے گئے تو کچھ اس خیال سے کہ والدہ کو ان کی جدائی شاق ہوگی اور کچھ بھائی صاحب کی بار بار تحریک سے کہا کہ میںنے بھی قادیان رہنا ہے اور قرآن مجید پڑھنا ہے ،آپ بھی چلیں اور وہاں حالات دیکھیں ۔والدہ مرحومہ اس وعدہ پرراضی ہوئیں کہ وہ صرف چند یوم کے واسطے جائیں گی اور الگ مکان میں رہیں گی اور کہ ان کو حضرت صاحبؑ کے گھر جانے وغیرہ کے واسطے ان کی خلاف مرضی ہر گز مجبور نہ کیا جاوے۔ چنانچہ بھائی صاحب نے ایک مکان خوجہ کے محلہ میں مراد و ملانی کا جو شیخ یعقوب علی تراب کے مکان کے ساتھ گلی کے کونے پر تھا، کرایہ پر لے لیا اور مجھے اور حضرت بوبو جی (اماں جی ) کولے آئے ۔ میں نے کبھی ریل نہ دیکھی تھی۔ بوبوجی کو راستہ میں یکہ اور کچی سڑک کے باعث بہت تکلیف ہوئی ۔چکر آئے اور قے بھی ہوگئی ۔اس مکان پر پہنچ کر وہ تو مصلّے پر لیٹ گئیں ،میں نماز سے فارغ ہو کر کھانا پکانے میں لگ گئی۔ بھائی صاحب نماز پڑھنے چلے گئے ۔بوبوجی نے اس گھبراہٹ میں ہی نما زپڑھی۔ قبلہ کی جانچ بھی نہ کی ۔ نماز کے بعد وہیں غنودگی میں لیٹے تھے کہ بھائی صاحب آگئے۔ والدہ بوبوجی نے اچانک بیدار ہو کر کہا کہ میں نے ابھی ایک بزرگ سفید ریش کو دیکھا جن کے ہاتھ میں عصا تھا۔ انہوںنے تین دفعہ فرمایا ،’’یا حضرت عیسیٰ ؑ‘‘ اس پر بھائی صاحب نے کہا کہ بوبو جی آپ کو تو آتے ہی بشارت ہو گئی ہے اب آپ کو زیادہ تأمل بیعت میں نہیں کرنا چاہئے ۔‘‘

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)