اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-22

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1325)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبدالعزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت ام المومنین مجھ سے دریافت کرتی تھیں کہ تمہارا گاؤں تو اوجلہ ہے تم سیکھواں کیوں رہتے ہو؟حضورؑ نے فرمایا ’’میں آپ کو بتلاتا ہوں کہ چونکہ میاں عبدالعزیز کی ملازمت پٹوار سیکھواں میں ہے اور پٹواری کو مع عیال حلقہ میں رہنے کا حکم ہے اس واسطے ان کو سیکھواں میں رہنا پڑتا ہے ۔‘‘

 

(1326)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے لڑکا پید اہوا اور فاطمہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب پوچھتی ہیں ’’بشریٰ کی اماں ! لڑکے کا نام کیا رکھا ہے! ‘‘اتنے میں دائیں طرف سے آواز آتی ہے کہ ’’نذیر احمد‘‘میرے خاوند نے یہ خواب حضرت اقدس ؑ کو سنادیا۔ جب میرے ہاں لڑکا پید اہوا تو ماسٹر صاحب نام پوچھنے گئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ’’ وہی نام رکھو جوخدا نے دکھایا ہے۔‘‘ جب میں چلّہ نہا کر گئی تو حضورؑ کو سلام کیا اور دعا کیلئے عرض کی۔آپ نے فرمایا’’انشاء اللہ‘‘ پھر حضورعلیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا’’ ایک نذیر دنیا میں آنے سے تو دنیا میں آگ برس رہی ہے اور اب ایک اور آگیا ہے۔‘‘

 

(1327)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب اکثر گھر میں ٹہلا کرتے تھے۔جب تھک کر لیٹ جاتے تو ہم لوگ حضورؑ کو دبانے لگ جاتے ۔آپ کو اکثر ضعف ہوجاتا تھا۔ اس وقت حضورؑ دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتے اور جس قدر عورتیں وہاں ہوتیں ان سب کو بھی دعا کیلئے فرماتے تو ہم سب دعا کرتے۔حضورؑ بہت ہی خوش اخلاق تھے اور بڑی محبت سے بات کیا کرتے تھے۔جوکوئی حضورؑ سے اپنی تکلیف بیان کرتی حضورؑ بڑی ہمدردی کا اظہار کرتے اور دعا فرماتے۔

 

(1328)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز میرے باپ کا خط آیا میری دو چھوٹی بہنیں تھیں جن کی منگنی پیدا ہوتے ہی میری ماں نے اپنے بھائی کے گھر کر دی تھی۔ جب وہ جوان ہوئیں تو میرے چچا نے نالش کر دی کہ لڑکیوں کا نکاح تو میرے لڑکوں سے ہوچکا ہے۔میرے باپ نے خط میں تمام حال لکھا تھااور دعا کیلئے عرض کی تھی۔میں خط لے کر حضورؑ کے پاس آئی۔ حضورؑ سب بال بچوں کو لے کر باغ میں سیر کو گئے ہوئے تھے۔میں بیٹھی رہی ۔جب حضورؑ تشریف لائے تو جس حجرے میں حضورؑ بیٹھا کرتے تھے چلے گئے۔میں نے دروازہ میں سے عرض کیا کہ حضورؑ! یہ خط میرے باوا جی کا آیا ہے اور سب معاملہ عرض کیا۔حضورؑ نے خط لے کر پڑھا اور سب حال بھی سنا کہ چچوں نے جھوٹا مقدمہ کر دیا ہے۔ فرمایا’’ اچھا ہم دعا کریں گے۔‘‘ دس بارہ دن کے بعد پھر خط آیا کہ چچوں نے مقدمہ کیا تھا واپس لے لیا ہے اور معافی بھی مانگی ہے کہ ہماری غلطی تھی ۔حضورؑ سن کر بہت خوش ہوئے اور کئی بار زبان مبارک سے ’’الحمد للہ‘‘ فرمایااس کے بعد ہم رخصت لے کر چلے گئے۔

 

(1329)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہانپوری اہلیہ شیخ غلام احمدؐ صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ نے کچھ دوائیاں ایک لڑکی کے سپرد کی ہوئی تھیں کہ مجھے کھانے کے بعد دے دیا کرو۔ چونکہ آپ مہندی بھی لگاتے تھے اس لئے گرم پانی کی بھی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ دونوں کام اس لڑکی کے سپرد تھے۔وہ اکثر بھول جاتی تھی اس لئے یہ کام آپ نے میرے سپرد کر دیئے تھے۔ میں نے اچھی طرح سرانجام دیا۔ایک دفعہ جب میں بیمار ہوئی تو حضورؑ نے آکر فرمایا’’صفیہ! کیا حال ہے؟‘‘ چونکہ حضور علیہ السلام کھانا کھا چکے تھے اس لئے میں نے عرض کی۔ حضورؑ ! اب تو بہت اچھا ہے مگر حضورؑ دوائی کھا لیویں۔حضورؑ نے فرمایاکہ’’ صفیہ کو بات خوب یاد رہتی ہے۔‘‘

 

(1330)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھاگو ومائی بھانو صاحبہ قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک میراسی کہا کرتا تھا کہ حضرت صاحبؑ بچپن میں پڑھنے کی طرف بہت متوجہ رہتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے۔ کبھی گھر سے جا کر کھانا اٹھا لاتے۔گھر والوں کو معلوم ہوتا کہ آپؑ تمام کھانا لے گئے ہیں، اس پر آپؑکے والد صاحب فرماتے کہ ان کو کچھ نہ کہا کرو۔

 

(1331)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان میں بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مائی فجو کے ہاتھ بلایا۔ حضور علیہ السلام اس وقت بیت الفکر میں بیٹھے تھے۔ میں دروازہ میں آکر بیٹھ گئی۔ میں نے عرض کی کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ ہم جائیں کیونکہ ہم ہجرت کر کے آئے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایاکہ ’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خدا تعالیٰ پھر لے آئے گا۔ فی امان اللہ ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔‘‘

 

(1332)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمد علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں کئی بار بیعت کرنے کو گئی۔ہم چار عورتیں تھیں۔ جب حضرت صاحب عصر کے بعد باہر سے تشریف لائے تو فرمایاکہ ’’ تُم یُوں بیٹھی ہو جس طرح بٹالہ میں مجرم بیٹھے ہوتے ہیں۔‘‘ ہم سب کی بیعت لی۔ میں نے اپنے لڑکے اسکول میں داخل کرائے ہوئے تھے۔ استادنے مارا۔میں نے جاکر حضورؑ کے پاس شکایت کی۔ آپؑنے فرمایا ’’اب نہیں مارینگے۔تم کوئی فکر نہ کرو۔‘‘ میں نے کہا حضور یتیم لڑکا ہے ۔اسکول والوں نے فیس لگا دی ہے۔ فرمایا’’ فیس معاف ہوجائے گی۔ علاوہ اس کے ایک روپیہ ماہوار جیب خاص سے مقرر فرمایا۔میں نے عرض کی کہ حضور یہ بورڈنگ میں نہیں جاتا،روتا ہے ۔آپؑنے فرمایا ’’کچھ حرج نہیں گھر میں ہی رہے۔‘‘

 

(1333)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری پھوپھی صاحبہ(حضرت مصلح موعود کی تائی) نے ہمیں بتایا کہ ایک بار حضرت صاحب ؑ چالیس دن تک ایک کمرہ میں رہے۔گھر والے کچھ کھانا بھیج دیتے کبھی آپؑکھا لیتے کبھی نہ کھاتے۔جب چالیس دن کے بعد باہر تشریف لائے تو آپؑنے فرمایا خد اتعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ ’’جو بھی دنیا کی نعمتیں ہیں وہ میں سب تم کو دوں گا۔ دو ردراز ملکوں سے لوگ تیرے پاس آویں گے۔‘‘ تو ہم سب ہنستے تھے۔ اب دیکھو وہ سب باتیں پوری ہوگئیں۔

 

(1334)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی حکیم قطب الدین صاحب قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپؑنے فرمایا ’’عرق مکو کی بوتل لاؤ۔‘‘ میں لے گئی۔ آپ اکثر ٹہلا کرتے تھے۔آپ کی چابیوں کا گُچھا ازار بند میں بندھا ہوا ہوتا تھاجو کہ لاتوں سے لگتا رہتا تھا۔میری لڑکیاں زندہ نہیں رہتی تھیں ۔ جب یہ چھٹی پیدا ہوئی جس کا نام عائشہ ہے تو میں اس کو لے کر حضور کی خدمت میں گئی۔ حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ ’’حضرت جی! اس کی لڑکیاں زندہ نہیں رہتیں۔مر جاتی ہیں۔ آپؑدعا کریں کہ یہ زندہ رہے اور اس کانام بھی رکھ دیں۔‘‘ حضور علیہ السلام نے لڑکی کو گود میں لے کر دعا کی اور فرمایا’’ اس کا نام جیونی ہے۔‘‘ چونکہ جیونی اس نائن کا نام بھی تھا جو خادمہ تھی ۔ میں نے کہا کہ حضورؑ جیونی تو نائن کا نام بھی ہے ۔حضورؑ نے فرمایا’’جیونی کے معنی ہیں زندہ رہے۔اس کا اصل نام عائشہ ہے۔‘‘ اب یہ میری چھٹی لڑکی خد اتعالیٰ کے فضل وکرم سے اب تک زندہ ہے اور صاحب اولاد ہے۔

 

(1335)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اللہ جوائی صاحبہ اہلیہ مستری قطب الدین صاحب وطن گجرات گولیکی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرا سب خاندان احمد ی تھاصرف میں ہی غیراحمدی تھی۔میری دیورانی نے ایک روز کہا کہ امام مہدی آیا ہو اہے اسے مان لو۔میں نے جواب دیا کہ میرا امام مہدی آسمان سے اترے گا۔میں اسے مانوں گی تمہارا آگیا ہے تم اس کو مان لو،میں نہیں مانتی۔میں نے ان دنوں میں نماز بھی چھوڑ دی تھی محض اس لئے کہ احمدیوں کے گھر میں نماز پڑھنے سے میری نماز ضائع ہو جاوے گی۔اسکے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ ’ایک سڑک بہت لمبی چوڑی ہے اس پر بہت سے آدمی پھاوڑے لئے کھڑے ہیں اور سب سے آگے میں ہوں ۔ایک شخص سفید کپڑے اور سفید داڑھی والا خوبصورت درمیانہ قدہے۔وہ شخص یہ آواز دے رہاہے کہ احمدیوں کا ٹولہ آرہاہے۔ دوزخ کی نالیں بند کردو ۔ یہ آواز اس شخص نے دو دفعہ دی ۔ایک اور شخص دراز قد سیاہ فام جس کے سر پر سرخ ٹوپی تھی،اٹھا اس نے بڑے بڑے ڈھکنے ہاتھ میں پکڑ کر دروازوں کو بند کر دیا۔آگے ایک دروازہ ہے میں اس میں سے گزری تو دیکھا کہ اس میں اندر سبز رنگ کے نہایت خوبصورت درخت ہیں اور گھاس کا بھی بہت ہی سبزہ ہے ۔اسکے بعد میری آنکھ کھل گئی۔میں نے صبح اٹھ کر نماز شروع کر دی ۔میری دیورانی نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج تونے نماز کس لئے پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ میں آج امام مہدی پر ایمان لے آئی ہوں ۔

 

(1335)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد مولوی عبدالغنی صاحب نومسلم تھے۔میں تین سال کی تھی کہ ابا فوت ہوگئے تھے۔میرے چھ بھائی تھے اور میں اکیلی ان کی بہن تھی کہ ہم یتیم ہو گئے تھے۔میں اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں ڈاکٹر اقبال علی غنی اور منظور علی صاحب مرحوم سے بڑی تھی۔ہم امرتسر میں رہتے تھے۔ میرے دونوں بڑے بھائی ڈاکٹر علی اظفر صاحب اور فیض علی صابر جب جوان ہوئے تو مشرقی افریقہ چلے گئے تھے اور وہیں احمدی ہوگئے تھے۔
میں کوئی بارہ سال کے قریب عمر کی ہوںگی کہ بھائی فیض علی صابر صاحب کو دو تین دن کے واسطے گھر امرتسر آنے کا موقع ملا ۔وہ اتفاق اس طرح ہوا کہ ان کی اور ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم مغفور کی نوکری یوگنڈا ریلوے کے مریض قلیوں اور ملازموں کو جو بیمار ہو کر کام کے لائق نہیں رہے تھے واپس بمبئی تک پہنچانے کی لگی۔ان کے جہاز نے ایک ہفتہ قیام کے بعد بمبئی سے واپس ممباسہ کو جانا تھا اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر یہ دونوں حضرت مسیح موعودؑ سے دستی بیعت کرنے کے واسطے روانہ ہو پڑے۔رات کو بارہ بجے امرتسر گھر پہنچے صبح کو قادیان چلے گئے ۔دوسرے دن بیعت کرکے آئے اور واپس بمبئی چلے گئے ۔

 

(1337)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری والدہ مکرمہ مرحومہ مدفونہ بہشتی مقبرہ نمبر130بہت نیک پاک اور عبادت گزار تھیں،جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے احمدی ہوگئے ہیں تو اس لحاظ سے کہ وہ نیک ہوگئے ہیں اور نماز روزہ کے پابند بھی ہوگئے ہیں وہ خوش تھیںلیکن ہمارے ہمسایہ اور رشتہ دار ان کو ڈراتے تھے کہ تیرے بیٹے کافر ہوگئے ہیں۔مرزا صاحب کی نسبت طرح طرح کے اتہام لگاتے اور بکواس کرتے تو وہ رویا کرتی تھیں اور دعا مانگتی تھیں کہ اللہ کریم! ان کی اولاد کو سیدھے رستہ پر رکھے۔ میرے دل میں اس وقت سے کچھ اثر یا ولولہ احمدیت کا ہوگیا تھا جسے میں ظاہر نہیں کرسکتی تھی۔ رشتہ دار مخالف تھے۔ان کے بہکانے سے والدہ بھی مخالف ہی معلوم ہوتی تھیں۔اتفاق یہ ہوا کہ بھائی فیض علی صاحب صابر قریباً ایک سال کے بعد بیمار ہوجانے کی وجہ سے ملازمت چھوڑ کر واپس آگئے۔گھر میں کوئی نگران بھی نہ تھااس لئے بھی دوسرے بھائیوںنے ان کو بھیج دیا۔ان دنوں میرے دوسرے دو بھائی مظہر علی طالب اور منظر علی وصال بھی افریقہ چلے گئے ہوئے تھے۔بھائی فیض علی صاحب صابر جب واپس آئے تو قادیان آتے جاتے رہتے تھے اور گھر میں وہاں کے حالات سنایا کرتے تھے جس سے مجھے تو گو نہ تسلی ہوتی لیکن والدہ ماجدہ مرحومہ کو مخالفوں نے بہت ڈرایا ہو اتھا ۔

 

(1338)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرادخاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے گھر میں پرانے رسم ورواج اور پردہ کی بڑی پابندی تھی۔ کنواریوں کو سخت پابندی سے رکھا جاتا تھا۔اچھی وضع کے کپڑے، مہندی ،سرمہ اور پھول وغیرہ کا استعمال ان کیلئے ناجائز تھا۔ ایک مرتبہ بھائی صاحب چھوٹے بھائیوں کے واسطے کوٹوں کا کپڑا لائے۔میرے دل میں خیال پیدا ہو کہ میں بھی اسکی صدری بنا سکتی بچپن کی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی بچوں سے اسی طرح کا علیٰ قدر مراتب ہوتا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ اگر حضرت صاحب ؑ سچے ہیں تو خدا کرے اس کپڑے میں سے کوٹوں کی وضع کے بعد میری صدری کے قابل کپڑا بچ جاوے۔ چنانچہ جب کپڑا بچ گیا تو میں حیران تھی۔میرا دل صدری پہننے کو چاہتا تھا مگر زبان نہیں کھول سکتی تھی۔ پھر میںنے دعا کی اگر حضرت مرزا صاحب سچے ہیں تومیری صدری بن جائے اور ڈرتے ڈرتے اماں جی سے کہا کہ میں اس کی صدری بنالوں ؟ یہ سن کر وہ سخت خفا ہونے لگیں کہ لڑکیاں بھی کبھی صدری پہنا کرتی ہیں؟ اس وقت بھائی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے بول پڑے کہ کونسی شریعت میں لڑکیوں کو صدری پہننا منع ہے؟ اس پر والدہ صاحبہ نے وہ کپڑا میری طرف پھینک دیا ۔میں نے کاٹ کر کے شام تک اسکی صدری سی لی۔ جس میں دو جیب بنالئے تھے۔ جب اس کو پہنا تو خیا ل ہوا کہ جیب خالی نہ ہوناچاہئے اس پر پھر خیال آیا کہ اگر حضرت مرزاصاحب ؑ سچے ہیں تو مجھے کہیں سے ایک روپیہ بھی مل جاوے۔اللہ کریم نے اس کوبھی پورا کردیا۔مجھے ایک روپیہ بھائی نے خود ہی دے دیا۔

 

(1339)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ہمارے ہاں سوہانجنے کا اچار بیٹھ جایا کرتا ہے ۔‘‘ منشی نبی بخش صاحب نے کہا’’میری بیوی سوہانجنے کا اچار بہت اچھا ڈالتی ہے‘‘ اس پر حضرت صاحب نے حضرت ام المومنین سے کہہ کر مجھ سے تین چار چاٹیاں اچار کی ڈالوئیں اور وہ بہت اچھا رہا۔

 

(1340)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ہم آگرہ میں تھے وہاں ڈاکٹر صاحب مرحوم صبح کو اٹھے تو بہت گھبرائے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔اسی حالت میں ہسپتال اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے جب دو بجے واپس آئے تو ویسے ہی پریشان سے تھے۔پوچھا کہ کوئی خط حضورؑ کا قادیان سے آیا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔ فرمایا کہ حضرت اقدس کا خط کئی دن سے نہیں آیا۔خدا کرے خیریت ہو۔طبیعت بہت پریشان ہے۔میںکھانا لائی تو آپ ٹہل رہے تھے کہا،دل نہیں چاہتا ۔جب حضرت صاحب کے خط کو دیر ہوجاتی تو ڈاکٹر صاحب بہت فکر کرتے اور گھبراہٹ میں ٹہلا کرتے اور کہتے خدا کرے حضور ؑ کی صحت اچھی ہو۔ابھی ٹہل رہے تھے کہ قادیان سے حضورؑ کا تار آیا۔ جس میں لکھا تھاکہ حضرت اُم المومنین کی طبیعت خراب ہے ۔آپ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر چلے آئیں۔ مجھے کہا ،دیکھا میری پریشانی کا یہی سبب تھا۔مجھے کہا کہ مجھے بھوک نہیںہے۔ میرے واسطے سفر کا سامان درست کرو۔میں صاحب سے رخصت لے آئوں ۔ دعا کرنا کہ رخصت مل جاوے۔ ایک گھنٹہ کے بعد دس یوم کی رخصت لے کر قادیان چلے گئے ۔ ان دنوں میں صاحبزادی امۃ الحفیظ سلمہا پید اہونے والی تھیں۔ اس لئے حضرت اُم المومنین کی طبیعت ناساز تھی۔ جب ڈاکٹر صاحب واپس آئے تو حبشی حلوہ جو حضرت اُم المومنین نے خود بنایا تھا،آپ کو راستہ میں ناشتہ کے واسطے دیا تھا ،ساتھ لائے اور مجھے بطور تبرک کے دیا ۔

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…