اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-08

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1311)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ کنیزفاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بیان کیا کہ حضرت اقدس ؑ 1905ء میں دہلی تشریف لے گئے۔ حضورؑ ہمارے مکان میں تشریف رکھتے تھے۔اس وقت میں نے حضور کی بیعت کی۔میرے ساتھ عبد الرشید صاحب کے سب خاندان نے بھی بیعت کی۔ آپ نے فرمایا ’’ تم سوچ سمجھ لو۔ تمہارے سب رشتہ دار وہابی ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’حضور میں نے خوب سوچ لیا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’ کل جمعہ کے روز بیعت لوں گا، آج رات اور سوچ لو۔‘‘ جمعہ کے دن آپ نے مولوی محمد احسن صاحب کو فرمایا کہ ‘‘ میرصاحب کی بیوی کو بلا لاؤ‘‘ میں گئی تو حضور نے بڑی محبت سے میری بیعت لی۔ میرے ساتھ میرا ایک رشتہ دار محمد احمد بھی تھا ۔اس نے بھی بیعت کی ۔ بیعت کرنے کے وقت دل بہت خوش ہوا۔بعد میں حضورؑ نے بہت لمبی دعا فرمائی۔

 

(1312)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ کنیز فاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب 1905ء میں دہلی میں تھے اور وہاں جمعہ کو میری بھی بیعت لی اور دعا فرمائی۔ باہر دشمنوں کا بھاری ہجوم تھا ۔میں بار بار آپؑکے چہرے کی طرف دیکھتی تھی کہ باہر اس قدر شور ہے اور حضرت صاحبؑ ایک شیر کی طرح بیٹھے ہیں ۔ آپؑنے فرمایا’’شیخ یعقوب علی صاحب کو بلا لاؤ۔گاڑی لائیں۔‘‘ میر صاحب نے کہا :حضور! گاڑی کیا کرنی ہے ؟ آپ نے فرمایا ’’قطب صاحب جانا ہے‘‘ میں نے کہا حضور اس قدر خلقت ہے۔ آپ ان میں سے کیسے گزریں گے؟ آپؑنے فرمایا’’دیکھ لینا میں ان میں سے نکل جاؤں گا۔‘‘ میر صاحب کی اپنی فٹن بھی تھی ،دو گاڑیاں اور آگئیں۔ہم سب حضرت صاحبؑ کے خاندان کے ساتھ گاڑیوں میں بھر کر چلے گئے۔پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد کے مزار پر تشریف لے گئے اور بہت دیر تک دعا فرمائی اور آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے۔اسکے بعد آپ حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر تشریف لے گئے۔آپؑنے تمام مقبرہ کو خوب اچھی طرح سے دیکھا۔ پھر مقبرہ کے مجاوروں نے حضورؑ سے پوچھا، آپ حضرت نظام الدین صاحب کو کیا خیال فرماتے ہیں ؟ آپؑنے فرمایا ’’ ہم انہیں بزرگ آدمی خیال کرتے ہیں۔ ‘‘پھرآپؑنے مقبرہ کے مجاوروں کو کچھ رقم بھی دی جو مجھے یاد نہیں کتنی تھی پھر آپؑمع مجاوروں کے قطب صاحب تشریف لے گئے۔ وہاں کے مجاوروں نے آپ کو بڑی عزت سے گاڑی سے اتارا اور مقبرہ کے اندر لے گئے کیونکہ مقبرہ نظام الدین اولیاء میں توعورتیں اندر چلی جاتی ہیں لیکن قطب صاحب میں عورتوں کو اندر نہیں جانے دیتے۔ان لوگوں نے حضور ؑ کو کھانے کیلئے کہا۔حضورؑ نے فرمایا ’’ہم پرہیزی کھانا کھاتے ہیں آپ کی مہربانی ہے۔‘‘ وہاں کے مجاوروں کو بھی حضورؑ نے کچھ دیا پھر حضور علیہ السلام وہاں سے شام کو واپس گھر تشریف لے آئے۔ مجاور کچھ راستہ تک ساتھ آئے۔

 

(1313)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ 1902ء میں بابو صاحب کو تین ماہ کی رخصت ملی تو ہم ڈیڑھ ماہ قادیان میں رہے۔میں صبح ہی حضرت صاحب کو ملنے آئی تو دادی سے پوچھا۔ حضرت صاحب کہاں ہیں؟ دادی نے کہا اس وقت حضور ؑ سوگئے ہیں ۔تمام رات جاگتے رہے۔رات بارش کا طوفان تھا۔حضورؑ نے فرمایا’’ خدا جانے کوئی عذاب نہ آجائے۔‘‘ تمام رات جاگتے رہے اور دعا کرتے رہے۔اب نماز کے بعد سوگئے ہیں ۔ اس لئے میں واپس آگئی۔پھر ایک بجے گئی تو حضورؑ اس وقت ڈاک دیکھ رہے تھے ۔آپؑنے حضرت ام المومنین صاحبہ کو فرمایا’’دیکھو ! ہم نے ڈاک کھولی تو نوٹ یہاں پر ہی گرپڑے اب مل گئے ہیں کسی نے دیکھے نہیں۔‘‘ میں ہر روز جاتی اور پنکھا جھل کر چلی آتی۔ شرم کی وجہ سے کبھی حضور ؑ سے بات نہ کی۔

 

(1314)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب مہر سنگھ بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری شادی حضورؑ کے حکم سے ہوئی تھی۔میں رخصت ہو کر قادیان ہی آئی تھی اور میری والدہ ساتھ تھیں۔حضرت صاحب کے گھر میں ایک سرد خانہ ہوتا تھا اس میں ہم سب رہا کرتے تھے۔جب میں حضور ؑ کو وضو کراتی تو حضور علیہ السلام ’’جزاکم اللہ‘‘ کہا کرتے ۔حضورؑ لکھا بہت کرتے تھے۔جب بیٹھ کر لکھتے تو ہم حضورؑ کے کندھے دبایا کرتے تھے۔حضورؑ اکثرٹہل کر لکھا کرتے تھے درمیان میں ایک میز رکھی ہوتی اور اس پر ایک دوات پڑی رہتی تھی۔حضورؑ لکھتے لکھتے ادھر سے آتے تو قلم کو سیاہی لگا لیتے ۔پھر ادھر جاتے تو قلم سیاہی میں ڈبو لیتے او ر جب پڑھتے تو اونچی آواز سے پڑھا کرتے تھے اور جو کچھ لکھتے اس کو دہراتے جاتے۔

 

(1315)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ جو1905ء میں آیا تھا۔ اس وقت ہم موضع سیکھواں جو ہماراحلقہ تھا میں سکونت رکھتے تھے۔زلزلہ آنے کے بعد میںکچھ گھی لے کر قادیان میں آئی اس وقت حضورؑ باغ میں معہ خدام سکونت رکھتے تھے۔ حضورؑ نے پوچھا کہ’’ میاں عبد العزیز نہیں آئے؟‘‘ میں نے عرض کی کہ حضورؑ ان کا کوئی افسر آیا ہوا تھا اس واسطے نہیں آسکے۔

 

(1316)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش باورچی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جس وقت میاں مبارک احمد فوت ہوئے تو دادی آئی(میاں شادی خان کی بیوی) اور اماں جی کے گلے مل کر رونے لگی۔تو حضورؑ حجرے سے گھبرا کر باہر نکلے اور کہنے لگے۔’’ یہ مکان رونے کا نہیں ہے بلکہ ہنسنے کا ہے۔‘‘

 

(1317)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھولی ۔مائی جیواں عرف ملا قادر آباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ پہلے جب میاں جان محمد کشمیری نے بیعت کی تھی،پھر مولوی صاحب نے، مَیں اس وقت لڑکی تھی۔میری عمر اب اسی(80) سال کی ہے۔جب حضرت صاحبؑ ڈھاب بھروانا چاہتے تو ہندو سکھ آتے، کہ یاں اور ٹوکریاں چھین لیتے۔آپؑکے مکان کے پیچھے لابھا کھڑا ہو کر گالیاں دیتا رہا۔آپ نے اپنی جماعت کو فرمایا کہ ’’چپ رہو‘‘ چھ ماہ کے بعد وہ لابھا ہندو گُڑ کے کڑاہ میں گر کر مر گیا۔ اسکے بعد لیکھرام، آریوں کے ساتھ آپؑکا مباحثہ ہوتا رہا۔

 

(1318)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھولی ۔مائی جیواں عرف ملا قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور علیہ السلام سیر کو آئے تو دیکھا راستہ جو پہلے خراب تھا،نیا بنا ہوا ہے ۔آپؑنے فرمایا ’’ یہ کس نے بنایا ہے ؟‘‘ ہم نے کہا حضورؑ آپ کی اسامیوں نے۔آپ بہت خوش ہوئے اور ہنسے ۔
ایک بار حضورؑتشریف لائے تو میں نئی کنک (گندم) بھنا کر لے گئی۔آپ نے اپنے ساتھ جو تھے ان کو بانٹ دی ۔ خود بھی چکھی اور خوش ہوئے ۔جب حضورؑ سیر کو آیا کرتے تو ہماری کچی مسجد میں آکر نماز اشراق پڑھتے۔ ہم لوگ ساگ روٹی پیش کرتے تو حضور علیہ السلام کبھی بُرا نہ مناتے اور نہ ہی کراہت کرتے۔

 

(1319)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ہم نے قادیان میں مکان بنانا شروع کیا۔ دیواریں وغیرہ بنوائیں تو مرزا نظام الدین نے آ کے گرا دیا۔ اس پر حضور ؑ پُر نور نے فرمایا کہ ’’ اگر خدا نے چاہا تو آپ کا مکان پھر اور کہیں بن جائے گا۔‘‘جب نواب مبارکہ بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں، مَیں قادیان میں ہی تھی، حضرت اُم المومنین کو کچھ تکلیف تھی ، حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی۔ خدا نے شفا بخشی۔ آپؑنے ان کی پیدائش پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔

 

(1320)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ1903ء کا ذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔چار دن کی رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا’’ سفر میں روزہ تو نہیں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہیں ۔حضور ؑنے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’ہم روزہ رکھیں گے۔آپؑنے فرمایا ’’بہت اچھا! آپ سفر میں ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا حضورؑ! چند روز قیام کرنا ہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔آپؑنے فرمایا’’اچھا ! ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیںگے۔‘‘ ہم نے خیال کیاکشمیری پراٹھے خد اجانے کیسے ہونگے؟ جب سحری کا وقت ہوا اور ہم تہجد ونوافل سے فارغ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے (جوکہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے کشمیری تھیں اور پراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں ۔ حضورؑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اور حضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اور فرماتے تھے۔’’ اچھی طرح کھاؤ۔‘‘مجھے تو شرم آتی تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضورؑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں، روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہو رہا تھا۔ اتنے میں اذان ہوگئی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ’’ اور کھاؤ ابھی بہت وقت ہے۔ فرمایا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:188)اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیںابھی وقت بہت ہے۔مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔‘‘ جب تک ہم کھاتے رہے حضورؑ کھڑے رہے اور ٹہلتے رہے۔ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورؑ تشریف رکھیں۔میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑ لونگا یا میری بیوی لے لیں گی۔مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔

 

(1321)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔رحیمن اہلیہ صاحبہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ روزانہ صبح سیر کیلئے جایا کرتے تھے۔ صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم کی عمر اس وقت اندازاً تین سال کی تھی۔میں اور حافظ حامد علی صاحب کی لڑکی آمنہ مرحومہ امۃ الحفیظ بیگم کو باری باری اٹھا کر ساتھ لے جاتی تھیں۔ چونکہ حضورؑ بہت تیز رفتار تھے۔اس لئے ہم پیچھے رہ جاتے تھے، تو امۃ الحفیظ بیگم ہم سے کہتیں کہ ’’ ابا کے ساتھ ساتھ چلو۔‘‘ اس پرمیں نے کہا کہ میں تھک جاتی ہوں تم حضرت صاحب سے دعا کیلئے کہنا۔ اس پر صاحبزادی نے حضرت صاحب سے کہا ۔آپ نے فرمایا ’’ اچھا! ہم دعاکریں گے کہ یہ تم کو ہمارے ساتھ رکھے۔‘‘ اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اور آمنہ کو اتنی طاقت دی کہ ہم صاحبزادی کو اٹھا کر ساتھ ساتھ لے جاتیں اور لے آتیںمگر تھکا ن محسوس نہ ہوتی۔

 

(1322)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے ساتھ ایک بوڑھی عورت مائی تابی رہتی تھی۔اسکے کمرے میں ایک روز بلی پاخانہ کر گئی۔اس نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا۔ میرے ساتھ جو دو عورتیں تھیں انہوں نے خیال کیا کہ ہم سے تنگ آکر مائی تابی ایسا کہتی ہے۔ایک نے تنگ آکر اپنے خاوند کو رقعہ لکھا جو ہمارے ساتھ آیا ہوا تھا کہ مائی تابی ہمیں تنگ کرتی ہے۔ ہمارے لئے الگ مکان کا انتظام کر دیں ۔جلال الدین نے وہ رقعہ حضورؑ کے سامنے پیش کردیا۔رقعہ پڑھتے ہی حضورؑ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ نے فوراً مائی تابی کو بلایا اور فرمایا، تم مہمانوں کو تکلیف دیتی ہو۔تمہاری اس حرکت سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اس قدر تکلیف کہ اگر خدانخوستہ میرے چاروں بچے مر جاتے تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی مہمانوں کو تکلیف دینے سے پہنچی ہے۔‘‘ مائی تابی نے ہم سے اور حضرت صاحبؑ سے معافی مانگی۔اسکے بعد مائی تابی اور ہم بہت اچھی طرح رہتے رہے۔

 

(1323)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کا ذکر ہے کہ چار پائیوں کی ضرورت تھی تو جلسہ والے ہم سب گھر والوں کی چارپائیاں لے گئے۔آپؑکو معلوم ہو اتو آپؑنے میاں نجم الدین صاحب مرحوم مغفور کو بلا کر فرمایا’’ فضل بیگم کی چارپائی کیوں لے گئے ہو؟ کیا وہ مہمان نہیں؟ بس ان کی چارپائی جہاں سے لائے ہو وہیں پہنچا دو۔‘‘ وہ بیچارے لا کر بچھا گئے۔

 

(1324)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فقیر محمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا تھا تو حضرت صاحب ؑباغ میںتشریف لے گئے تھے ۔میں نواب صاحب کے کام کرتا تھا ۔جب اذان ہوگئی تو ہم سب نماز کیلئے گئے۔ حضرت صاحب بھی تشریف لائے ۔آپؑکچھ باتیں کررہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا۔ حضور! شرمپت آپکا دوست ہے اور وہ مسلمان نہیں ہوا؟ حضرت صاحبؑ نے فرمایا’’ وہ مسلمان نہیں ہو گا مگر مصدق ہو جائے گا۔‘‘ مولوی عبد الکریم صاحب نے پوچھا کہ حضورؑ مصدق کا کیا مطلب ہے ۔آپؑنے فرمایا ’’کہ میری سب باتوں کا یقین کر لے گا۔‘‘

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…