اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-25

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1283)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ جب میں پہلے پہل اپنے والد خلیفہ نور الدین صاحب کے ساتھ قادیان آئی تو جس طرف اب سردارالنساء رہتی ہے حضرت صاحب ؑکا کچھ مکان ہوتا تھا اور میاں بشیر احمدؐ صاحب والے مکان میں لنگر خانہ ہوتا تھا جس میں میاں غلام حسین روٹیاں پکایا کرتا تھا۔ سالن گھر میں پکا کرتا تھا اور آٹا بھی گھر میں گندھتا تھا۔ جب روٹی پک کر آتی تو سالن برتنوں میں ڈال کر باہر بھیجا جاتا ۔ برتن ٹین کے کٹورے اور لوہے کے خوانچے ہوتے تھے۔ کھانا مسجد مبارک میں بھیجا جاتا اور حضور علیہ السلام سب مہمانوں کے ساتھ مل کرکھاتے ۔


(1284)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک سیٹھ صاحب کہیں سے آئے تھے ان کیلئے پلاؤ پکتا تھا اور اسی طرح ایک کشمیری ہوتا تھا اس کیلئے حضورعلیہ السلام کچھ سادہ چاول پکواتے ۔ پلاؤ عائشہ بنت شادی خان صاحب پکاتی اور خشکہ میری والدہ پکاتی تھیں ۔پُھلکے بھی وہی پکایا کرتی تھیں ۔


(1285)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام نے چندہ کی تحریک فرمائی تو میں قادیان میں آیا اور آپؑاس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے نیچے اُتر کر جو میدان ہے اس میں ٹہل رہے تھے۔ میں نے کچھ چندہ پیش کیا اور آئندہ کیلئے عرض کی کہ میں موازی چار آنے ماہوار دیتا رہونگا انشاء اللہ ۔ حضورؑ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ چندہ دائمی ہے‘‘ ۔میں نے عرض کی کہ میں سمجھتا ہوں کہ چندہ دائمی ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ ہمیشہ اد اکرتا رہونگا ۔سو اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزا ر شکر ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ چندہ کو باقاعدہ ادا کرتاچلا آیا ہوں بلکہ زیادتی چندہ کی بھی توفیق دی (صَدَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی ،وَیُربِی الصَّدَقَات)


(1286)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ساتھ میری ایک چھوٹی لڑکی تھی جس کا نام صغریٰ تھا۔ مکی کی چھلیاں حضرت اُم المومنین (امان جان) کے پاس دیکھ کر لڑکی نے خواہش کی ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’جلد دو۔ زمینداروں کی لڑکیاں ایسی چیزوں سے خوش ہوتی ہیں‘‘ تو آپ نے لڑکی کو چھلی دے دی ۔


(1287)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’جب منشی صاحب نے بیعت کی توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا نام نبی بخش سے عبد العزیز رکھ دیا اور فرمایا’’نبی کسی کو نہیں بخش سکتا۔‘‘


(1288)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ1903ء میں قادیان سالانہ جلسہ پر آئی ۔شام کا وقت تھا ۔ڈاکٹر صاحب اور میرے بھائی اقبال علی صاحب میرے ساتھ تھے ۔حضور علیہ السلام اس وقت اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے ۔مجھ سے پوچھا’’راستہ میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی تھی۔‘‘ میں نے کہا نہیں ۔فرمایا’’کتنے دن کی چھٹی ملی ہے۔‘‘ میں نے کہا دس دن کی ۔پھر فرمایا’’راستہ میں سردی لگتی ہو گی۔‘‘ میری گود میں عزیزہ رضیہ بیگم چند ماہ کی تھی۔ آپ نے فرمایا چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر کرنابڑی ہمت کاکام ہے‘‘ حضورؑ مجھ سے باتیں کرتے تھے کہ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب (اس وقت وہ لنگر خانہ کے افسر اعلیٰ تھے)آئے اور فرمایاحضرت مہمان توکثرت سے آگئے ہیں ،معلوم ہوتا ہے اب کے دیوالہ نکل جائے گا۔ حضورؑ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور لیٹے لیٹے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’میرصاحب! آپ نے یہ کیا کہا؟آپ کو نہیں معلوم کہ مومن کا کبھی دیوالہ نہیں نکلتا جو آتا ہے وہ اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے، جب جاتا ہے تو برکت چھوڑ کر جاتا ہے۔ یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ دیوالہ نکل جائے گا ،پھر ایسی بات نہ کریں۔‘‘ میر صاحب سبحان اللہ،سبحان اللہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے ۔

 

(1289)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین والے مقدمات چل رہے تھے ۔تین اشخاص گورداسپور میں آئے انہوںنے بیعت کی اور بتایا کہ وہ بنارس کے رہنے والے ہیں ۔بعد ش بتکرار انہوں نے کہا کہ حضور ؑ ہمارے جانے کی دیر ہے، بنارس سے بہت لوگ حضور ؑ کی جماعت میں داخل ہونگے۔پہلی دفعہ تو حضورؑ خاموش رہے۔ جب تیسری دفعہ انہوں نے کہا کہ ہمارے جانے کی دیر ہے بہت لوگ بیعت کرینگے توحضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’تم اپنی خیر مانگو خدا جانے لوگ تمہارے ساتھ کیسے پیش آئیں گے۔‘‘(ان تینوں میں ایک معمر اور وجیہہ بھی تھا) خد اجانے پھر کبھی ان کومیں نے نہیں دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا گزری ؟ واللّٰہُ اَعْلَمُ


(1289)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں یہاں قادیان میں بیمار ہوگئی اور دو جانور صدقہ کئے اور حضورؑ کی خدمت میں عرض کی کہ کیا صدقہ کا گوشت لنگر خانہ میں بھیجا جاوے۔حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ غرباء کا حق ہے۔ غرباء کو تقسیم کیا جاوے۔‘‘ چنانچہ غرباء کو تقسیم کیا گیا ۔


(1290)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرز امحمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں پہلی بار قادیان آئی تو حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے مکان پر ٹھہری ۔ تیسرے دن حضرت بیوی جی صاحبہ مجھے حضرت صاحبؑ کے پاس لے گئیں۔ حضرت صاحب ؑ نے فرمایا’’یہ کون ہے؟‘‘ حضرت اماں جان نے کہا کہ مرزا فتح محمد صاحب کی بہو اور مرزا محمود بیگ صاحب کی بیوی ہیں اور پٹی سے آئی ہیں۔ آپؑنے فرمایا ’’ہم جانتے ہیں مرزا صاحب سے ہماری خط وکتابت ہے۔‘‘ پھر میں چلی آئی دوسرے دن میری بیعت ہوئی ۔حضور ؑ جو لفظ فرماتے وہ اماں جان دہراتی جاتی تھیں اور میں بھی ان کے ساتھ کہتی جاتی۔اس وقت نیچے جو بڑا دالان ہے اس میں بیٹھے تھے حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ ’’ آپ کی نندوں کا رشتہ ہوگیا ‘‘ ؟میں نے کہا ’’جی نہیں ‘‘ میرابھائی دیر سے بیمار تھا میرے خاوند نے کہا کہ حضور ؑ سے اجازت لے کر چلو تمہارا بھائی بیمار ہے ۔ آپؑنے فرمایا کہ ’’کوئی خطرہ کی بات نہیں۔ ‘‘پھر ہم دو ماہ بعد پٹی چلے گئے ۔


(1291)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں مولوی عبد الکریم صاحبؓنے یہ آیت لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ (المائدۃ:79) پڑھ کر تقریر کی تو بعد نماز جمعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’دوران خطبہ میں الہام ہوا ہے کہ ’’ وزیر آباد پر بھی لعنت پڑ گئی‘‘۔٭ ( اَللّٰہُمَّ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ ۔آمین)
٭ تذکرہ میں اس الہام کے الفاظ یوں مندرج ہیں ’’ یہ لعنت ابھی وزیر آباد میں برسی ہے‘‘ (تذکرہ صفحہ 268 ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ء)


(1292)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ضرورت امام پر مضمون لکھو (جماعت ابھی تھوڑی تھی) اکثر احباب نے جو کچھ خواندہ تھے مضامین لکھے۔میں نے بھی لکھا جب مضامین جمع ہو گئے تو بعد ش حضور علیہ السلام شام وعشاء کے درمیان سنا کرتے تھے۔ جس روز میرا مضمون پڑھا گیا تو میں موجود نہ تھا۔ مولوی قطب الدین صاحب طبیب قادیان نے مجھے کہا کہ تمہارے مضمون کو سن کر حضرت صاحب ؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ’’ ہے تو وہ جاٹ جیسا لیکن مضمون بہت اچھا لکھا ہے ۔‘‘ مجھے یاد ہے کہ تحریر مضمون کے وقت مجھے دعا کی توفیق مل گئی تھی ورنہ علمی خوبی مجھ میں کوئی نہ تھی نہ اب ہے ۔الحمد للہ ـ


(1293)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارا زمینداری کاکام تھا ایک دفعہ بارش بہت کم ہوئی ،فصل خراب ہوگئی، دانے کھانے کے واسطے بھی بہت کم تھے ۔
ادھر حضرت صاحب کے مختار ،حامد علی صاحب معاملہ لینے کیلئے آگئے ۔سب آدمیوں نے مل کر عرض کی کہ دانے بہت کم ہیں ۔ معاملے کے واسطے اگر بیچ دئیے جائیں تو ہمارا کیا حال ہوگا ؟حامد علی صاحب نے جاکر حضرت صاحبؑکی خدمت میں اسی طرح کہہ دیا۔آپؑنے فرمایا ’’اچھا! اگلے سال معاملہ لے لینا۔اس وقت رحم کرو۔‘‘ چنانچہ اگلے سال اس قدر فصل ہوئی کہ دونوں معاملے ادا ہوگئے ۔آپؑغرباء پر بہت رحم فرمایا کرتے تھے ۔


(1294)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اپنے قدیمی مکان کے دروازہ کے آگے کوچہ میں جو جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے گھر کو نکل جاتا ہے بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ غلام مصطفیٰ وشیخ غلام محمد( یہ نوجوان تھے) جو بٹالہ کے رہنے والے تھے موجود تھے ۔ان سے گفتگو کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ رسول کریم ﷺ کے وقت تو قرآن کریم کے متن یعنی مفصل حصہ کی توضیح ہوئی ہے اور دوسرے حصہ مجمل یعنی مقطعات کی توضیح ہمارے زمانہ میں ہوگی(یعنی حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں )


(1295)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کر م دین والے مقدمات چل رہے تھے ایک روز حضورؑ یکہ پر گورداسپور سے قادیان روانہ ہوئے۔ہم تینوں بھائی یعنی میاں جمال الدین ومیاں امام الدین صاحب اور خاکسار راقم یکہ کے ساتھ کبھی بھاگ کر اور کبھی تیز قدمی سے چل کر قادیان پہنچ گئے۔اس روز کھانا ہم نے مسجد مبارک میں ہی کھایا اور حضورؑ نے براہِ شفقت بعض اشیاء خوردنی خاص طور پر اندر سے ہمارے لئے خادمہ کے ہاتھ ارسال فرمائیں ۔الحمد للہ علی ذالک


(1296)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔میں اپنے گاؤں اوجلہ میں تھی اور وہ دن طاعون کے تھے ۔ مجھ کو بخار ہو گیا اور کچھ آثار گلٹی کے بھی نمودار ہو گئے ۔وہاں سے حضورؑ کی خدمت میں عریضہ تحریر کر کے مفصل حال کی اطلاع دی ۔ حضورعلیہ السلام نے جواب تحریر فرمایا کہ ’’میں انشاء اللہ دعا کرونگا۔مکان کو بدل دینا چاہئے۔‘‘ چنانچہ مکان بدلا گیا۔ خدا وند کریم نے ہر ایک طرح سے محفوظ رکھا۔


(1297)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب تین ماہ کی رخصت لے کر آگرہ سے قادیان آئے۔آگرہ میں خورمے بہت عمدہ اور بڑے بڑے بنتے تھے۔حضورؑ کو بہت پسند تھے ڈاکٹر صاحب جب آتے تو حضرت صاحبؑ کیلئے خورمے ضرور لاتے تھے۔ حضور علیہ السلام نے صبح سے کھانا نہیں کھایا ہو ا تھا۔ عصر کے وقت میں آئی۔ آپ بہت خوش ہوئے۔مجھ سے سفر کا حال پوچھتے رہے ۔ اماں جان نے کہا کہ کھانا تیار ہے آپ نے فرمایا ’’ طبیعت نہیں چاہتی‘‘ پھر حضرت اماں جان نے کہا کہ ’’مراد خاتون تو آپ کیلئے آگرہ سے خورمے لائی ہیں۔ ‘‘پہلے تو آپ بہت خوش ہوئے پھر فرمایا’’ یہ مجھے بہت پسند ہیں لاؤ میں کھاؤں۔‘‘ جب سامنے لائے گئے تو فرمایا ’’ اُف اتنے بہت سے۔ ‘‘ حضور ؑ نے کھائے اور کہا’’ یہ میرے لئے رکھو میں پھر کھاؤں گا۔‘‘ میرا اتنا دل خوش ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔پھر میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ کتنی دیر تک آسمان کی طرف منہ کر کے سبحان اللہ ، سبحان اللہ پڑھتے رہے۔


(1298)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش صاحب باورچی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک عورت جو سامانہ کی رہنے والی تھی حج کر کے حضور ؑ کے گھر آئی۔وہ اس وقت پہنچی جبکہ حضورؑ کا تمام کنبہ کھانا کھا چکا تھا۔حضورؑ تھوڑی دیر بعد حجرے سے باہر نکلے اور کہا کہ تم نے کھانا کھا لیا ہے کہ نہیں؟ اس نے کہا ’’ نہیں‘‘ حضور علیہ السلام گھر والوں کو خفا ہوکر کہنے لگے کہ’’ تم نے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ یہی تو میرے بال بچے ہیں۔ ‘‘حضورؑ نے خود کھانا منگوا کر اُسے کھلایا۔


(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)