اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-01

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1299)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام کے حضور ذکر ہو اکہ مسجد اقصیٰ کے ارد گرد زمین پڑی ہوئی ہے اور لوگوں نے قبضہ کیا ہو اہے ۔اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ مسجداپنی زمین لے لی گی۔‘‘

 

(1300)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میاں جان محمد صاحب(جو میرے ماموں تھے اور مخلص تھے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے جب اپنے 313 ،صحابہ کی فہرست تیار فرمائی اس وقت میاں جان محمد صاحب فوت ہوچکے تھے۔حضور علیہ السلام نے ان کا نام فہرست مذکور میں درج فرما کر ان کے اخلاص کا اظہار فرما دیا)نے ذکر کیا کہ جہاں مسجد اقصیٰ بنائی گئی ہے،سکھ حکومت میں یہ جیل خانہ تھا اور ایک کاردار حکومت کرتا تھا ۔ جب انگریزی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت یہ زمین نیلام کی گئی۔ہندوؤں کا ارادہ تھا کہ یہ زمین خرید کر اس پر گوردوارہ بنایا جائےلیکن حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کو یہ خیال تھا کہ یہاں مسجد بنائی جائے ۔چونکہ دو قوموں میں مقابلہ ہونا تھا، معلوم نہیں کہ بولی کہاں تک بڑھ جائے ،اس لئے ان کی خدمت میں عرض کی گئی کہ کہاں تک بولی دی جائے تو حضرت مرزا صاحب موصوف نے فرمایا کہ ’’بس میری طرف سے یہ جواب ہے کہ آخری بولی میرے نام پر ختم ہو۔خواہ کہاں تک بولی جائے ‘‘ ہندو سات سو روپیہ بولی دے کر ٹھہر گئے۔آخری بولی حضرت موصوف مرحوم کے نام پر ختم ہوگئی۔
نوٹ:خد اجانے حضرت موصوف مرحوم نے کس جوش وغیرت ملّی سے اس زمین کو خرید کر مسجد کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ قبولیت مسجد شہادت دیتی ہے کہ کس پاک نیت سے یہ کام کیا گیا ہے کہ خدا کا پاک نبی مسیح موعودؑ اس میں نماز پڑھتا رہا۔اب آپؑکی جماعت مستفید ہورہی ہے وغیرہ۔یا اللہ بانی مسجد پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور فضل نازل فرما۔آمین۔

 

(1301)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔راجو زوجہ فقیر محمد قادر آباد نے بذریعہ تحریر بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان مجھ سے بیان کیا کہ میری ساس جس کو حضرت صاحبؑ ’’ ہَسّو‘ ‘ کہا کرتے تھے۔پہلی دفعہ مجھے حضور علیہ السلام کے سلام کیلئے لے گئی۔حضورؑ نے پوچھا کہ ہَسّو ! یہ تیری درانی ہے یا بہو ہے ؟ حضورؑ نے بالآخر مبارک باد دی اور دعا دی اور فرمایا ’’ یہ رشتہ کہاں سے لیا ہے ؟‘‘…حضور علیہ السلام ہمارے برتنوں میں ہمارے ہاتھوں سے لے کر کھا لیا کرتے تھے۔ حضور ؑکا لباس بہت سادہ ہوتا تھا اور بال سرخ چمکیلے تھے۔سر پر پگڑی باندھتے۔کُرتے کے اوپر چوغہ پہنتے یا کوٹ اور شرعی پائجامہ پہنتے۔جوتا سادہ ہوتا۔ہاتھ میں سوٹی رکھتے۔

 

(1302)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھاگو اور مائی بھانو صاحبہ قادر آبا دنے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مائی بھاگو اور بھانو ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پنکھا ہلا رہی تھیں کہ مائی بھانو نے دریافت کیا کہ حضورؑ نماز پڑھنے کا ثواب ہوگا؟ تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ نہ ثواب ہوگا نہ عذاب ہوگا۔پانچ وقت کی نماز نہیں چھوڑنی چاہئے۔‘‘ میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی ۔ایک دفعہ ایک مباحثہ میں جمع کی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ’’ مکان تیار کرو۔آپ کی سیدوں میں شادی ہوگی۔‘‘ اس پر لوگوں نے بہت ٹھٹھا اڑایا مگر ہمارے سامنے ایسا ہی واقعہ ہوا ۔پھر حضرت ؑ کو الہام ہوا کہ ’’آپ کے گھر ایک لڑکا ہوگا جو اسلام میں بہت ہوشیار ہوگا‘‘ پھر ہمارے گاؤں کی مسجد میں گئے اور دریافت فرمایا کہ ’’کون کون نماز پڑھتا ہے؟ اور کون کون نہیں پڑھتا؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ بہت کم لوگ پڑھتے ہیں ۔ اس پر حضور علیہ السلام نے جیب سے ایک کاپی نکالی اور فرمایاکہ’’ ان کے نام لکھاؤ ۔اس پر حضرت ام المومنین سلمھا اللہ نے فرمایا کہ ’’آپ نام کیوں لکھتے ہیں ؟ تو حضور علیہ السلام نے کاپی جیب میں ڈال لی اور نام نہ لکھے ۔اب خدا کے فضل سے سب (نماز) پڑھتے ہیں ۔

 

(1303)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحبؑ ہمیشہ جماعت کے ساتھ باہر کھانا کھایا کرتے تھے اور آپ ؑوہی کھانا کھایا کرتے تھے جو سب کیلئے پکتا تھا۔بچوں سے بہت محبت واخلاق سے پیش آیا کرتے تھے ۔ عورتوں کو ہمیشہ نماز کی ادائیگی کے متعلق تاکید بہت کرتے تھے۔

 

(1304)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری والدہ صاحبہ بھی قادیان میں ہی رہا کرتی تھیں ۔ جب میں قادیان آتی تو حضورؑ مجھ کو کہتے تھے کہ’’ تم ہمارے مہمان ہو۔ ہمارے مکان پر رہو۔‘‘ میں تو شرم کے مارے چپ رہتی اور ڈاکٹر صاحب سے کہلاتی ۔حضور ؑ دس روز کی رخصت ہے ،یہ اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہیں۔حضور فرماتے’’ کوئی حرج نہیں ان کی والدہ بھی یہیں رہیںگی۔‘‘ فوراً آدمی میری اماں کی طرف بھیج دیتےکہ جب تک ڈاکٹر صاحب یہاں رہیں آپ بھی یہاں رہیں۔چنانچہ کئی بار ایسا ہوا کہ میری والدہ صاحبہ اور میری بھاوجہ فاطمہ جو ڈاکٹر فیض علی صاحب کی بیوی ہیں یہاں رہتیں۔میرے بھائی باہر نوکری پر ہوتے تو میری والدہ کہتیں۔بہو گھر میں اکیلی ہے میں نہیں آسکتی لیکن حضرت صاحب فرماتے’’ نہیں ڈاکٹر صاحب ہمارے مہمان ہیں ان کو بھی کہو کہ یہاں پر آجائیں۔‘‘ کھانا لنگر خانہ سے آتا۔حضورؑ کی سخت تاکید ہوتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کیلئے کھانا عمدہ ہو۔کریم بخش باورچی کھانا پکایا کرتا تھا جو کہ روز آکر پوچھا کرتا۔لنگر والے روزانہ آکر پوچھتے آپ کیلئے کیا پکایا جائے ؟ پھر آپ علیہ السلام خود پوچھتے’’ کھانا خراب تو نہیں تھا ۔کوئی تکلیف تو نہیں ہے ‘‘ ؟ کہنا نہیں حضورؑ کوئی تکلیف نہیں۔ پھر بھی حضورؑ کی تسلی نہ ہوتی ۔گھر سے کبھی کبھی کوئی چیز ضرور بھیج دیتے۔تین ماہ کی رخصت لے کر ڈاکٹر صاحب آئے حضور ؑ کبھی بھی مہمان نوازی سے نہ گھبراتے تھے اور اپنی ملازمہ سے کہتے تھے۔’’دیکھو ڈاکٹر صاحب تنور کی روٹی کھانے کے عادی نہیں ان کو پھلکے پکا کر بھیجا کرو۔‘‘ روز کھانے کے وقت حضور ؑ آواز دے کر پوچھتے۔’’ صفیہ کی اماں ! ڈاکٹر صاحب کیلئے پھلکے بھیج دئیے؟‘‘ تو وہ کہتی۔بھیجتی ہوں۔تو فرماتے ’’جلدی کرو ،وہ کھانا کھا چکے ہونگے۔‘‘حضور علیہ السلام مہمانوں کا یوں خیال رکھتے جیسے ماں بچے کاخیال رکھتی ہے۔

 

(1305)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رحیمن اہلیہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری والدہ کے ہاں چار لڑکے اور پانچ لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں ۔ جن میں سے صرف میں زندہ رہی اور باقی تمام فوت ہوگئے لیکن15سال کی عمر میں مجھے دق کا مرض شروع ہو گیا ۔ حتیّٰ کہ ڈاکٹروں اور حکیموں نے جواب دے دیا ۔اس مایوسی کی حالت میں میر ے والد مجھے قادیان شریف لائے اور مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا اور دعا کیلئے عرض کی ۔ حضور ؑ نے ایک خط لکھ کر میرے والد کو دیا اور فرمایا کہ’’ میں دعا کرتا ہوں اور تم یہ خط مولوی صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ) کو دو۔وہ اس لڑکی کا علاج کرینگے۔‘‘ چنانچہ اسکے بعد مجھے صحت ہوگئی۔میری شادی ہوئی اور حضورؑ کے فرمانے کے بموجب بچے پیدا ہوئے۔

 

(1306)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اس زمانہ میں قادیان آئی جب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی آمین ہوئی تھی۔ میں حضرت کے مکان کے نچلے حصہ میں رہتی تھی۔آپؑکے کمرے کے درمیان میز رکھی ہوئی تھی۔آپؑٹہلتے جاتے اور لکھتے جاتے۔دوات میز پر رکھی ہوتی۔ جب میز کے پاس سے گزرتے تو قلم کو سیاہی لگا لیتے ۔دو عورتیں میرے ساتھ تھیں ۔نیز ہمارے ساتھ ایک مرد بھی تھا۔اُ س نے ہمارے متعلق حضرت صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھ کر ہمارے ہاتھ بھیجا کہ یہ مستورات جو آپؑکی خدمت میں حاضر ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہلیہ مولوی جلال الدین صاحب ضلع گجرات کی ہیں اور دوسری اہلیہ محمدالدین صاحب ۔ دونوں عورتوں کا نام تو حضورؑ نے پڑھ لیا جب تیسری کی باری آئی تو حضور ؑ کمرے سے باہر نکل آئے اور دروازے کی چوکھٹ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور فرمایا۔’’ وہ مولوی فضل الدین صاحب کی بیوی ہیں۔‘‘ تین بار حضور ؑ نے یہی الفاظ دہرائے۔ انگنائی میں حضرت اُم المومنین صاحبہ تشریف رکھتی تھیں۔ بیوی صاحبہ ہنس پڑیں۔ فرمایا ’’لوگوں کو کیا پتہ بیوی صاحبہ کہاں ہیں ؟‘‘ جب اذان ہوئی تو آپؑ نے فرمایا ’’لڑکیو! اذان ہوگئی ہے نماز پڑھو۔‘‘ چونکہ بیوی صاحبہ نے نماز نہیں پڑھی تھی۔حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ’’ بیوی صاحبہ نے نماز نہیں پڑھنی کچھ دن عورتوں کیلئے ہوتے ہیں کہ جن میں وہ نماز نہیں پڑھتیں۔‘‘

 

(1307)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ایام مقدمات مولوی کرم الدین میں ایک روز نصف شب گورداسپور پہنچےچونکہ حضور علیہ السلام بڑے محتاط تھے۔ فرمایا کہ’’شاید عدالت ضمانت طلب کرے۔ میاں فضل الٰہی نمبردار فیض اللہ چک کو بلایا جائے ‘‘ چنانچہ اُسی وقت میں اور میر ابھائی میاں امام الدین صاحب لالٹین ہاتھ میں لے کر فیض اللہ چک کو چل پڑے اور قبل از نماز صبح پہنچ گئے اور میاں فضل الٰہی صاحب کو ساتھ لے کر قبل از کچہری گورداسپور پہنچ گئے لیکن اس روز عدالت نے ضمانت طلب نہ کی ۔

 

(1308)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں عبداللہ آتھم عیسائی کے ساتھ مباحثہ شروع ہوگیا تھا موسم گرما تھا۔پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔ عیسائیوں کے چاہ (کنوئیں) کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے۔ لہٰذا ان کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے۔

 

(1309)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے سودی قرضہ کے متعلق سوال کیا۔فرمایاکہ ’’ یہ جائز نہیں ہے۔‘‘میں نے عرض کی کہ بعض اوقات مجبوری ہوتی ہے مثلاً ایک کاشتکار ہے۔ اسکے پاس کچھ نہیں ہے ۔سرکاری معاملہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ سپاہی سر پر کھڑا ہے۔بجز سود خور ،کوئی قرض نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟فرمایا’’مجبوری تو ہوتی ہے لیکن استغفار ہی کرے اور سودی قرضہ نہ لیوے۔‘‘

 

(1310)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فقیر محمد بڑھئی نے بذریعہ تحریر بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بیان کیا کہ ’’میرا باپ مجھے سنایا کرتا تھا کہ ایک دفعہ مرزا صاحب ایک کوٹھے پر سے گر پڑے ہم آپ کی خبر گیری کو گئے۔ آپ کو جب کچھ ہوش آئی تو فرمایاکہ ’’دیکھو کہ نماز کا وقت ہوگیاہے ؟‘‘

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…