اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-18

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(1274)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اپنے برادرنسبتی عزیز عبد الرحمن خان نیازی سکنہ پشاور سے بعض وہ خطوط حاصل ہوئے ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میرے خسر یعنی خان بہادر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاور کے نام لکھے تھے۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خط کو پہچانتا ہوں اور یہ خطوط حضور کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک خط جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری شادی کی تجویز کے متعلق میں مولوی صاحب موصوف کو لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ کریم
محبی مکرمی اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اس سے پہلے اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے برخوردار محمود احمد کے رشتہ ناطہ کیلئے عام دوستوں میں تحریک کی تھی اور آپ کے خط کے پہنچنے سے پہلے ایک دوست نے اپنی لڑکی کیلئے لکھااور محمود نے اس تعلق کو قبول کر لیا۔ بعد اس کے آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانی لڑکے کیلئے تحریک کروں جس کی عمر دس برس کی ہے اور صحت اور متانت مزاج اور ہر ایک بات میں اس کے آثار اچھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں۔ اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارہ میں استخارہ بھی کروں گا اور بصورت رضامندی یہ ضروری ہوگا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرماویں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف باترجمہ پڑھ لے ۔نمازاور روزہ اور زکوٰۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز بآسانی خط لکھ سکے اور پڑھ سکے اور لڑکی کے نام سے مطلع فرمائیں اور اس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں ۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام

خاکسار مرزا غلام احمد
چونکہ دونو کی عمر چھوٹی ہیں اس لئے تین برس تک شادی میں توقف ہوگا۔
(اس خط پر کسی اور کے قلم سے تاریخ 24؍ اپریل 1902ء درج ہے )

 

(1275)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماںجان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھے فرمایا کہ میرے بچوں کی پیدائش اس طرح ہوئی ہے کہ عصمت انبالہ میں پید اہوئی۔ بشیر اول قادیان میں بیت الفکر کے ساتھ والے دالان میں پیدا ہوا۔ تمہارے بھائی محمود نیچے کے دالان میں پیدا ہوئے جو گول کمرہ کے ساتھ ہے ۔ شوکت لدھیانہ میں پیدا ہوئی۔ تم (یعنی خاکسار مرز ا بشیر احمد) نیچے کے دالان متصل گول کمرہ میں پیدا ہوئے ۔ شریف بھی اسی دلان میں پیدا ہوئے اور مبارکہ بھی اسی میں پیدا ہوئیں۔ مبارک نیچے کی منزل کے اس دالان میں پید اہواجوغربی گلی کے ساتھ ہے اور کنوئیں سے جانب غرب ہے ۔ امۃ النصیر بھی مبارک والے دالان میں پیدا ہوئی اور امۃ الحفیظ اوپر والے کمرہ میں جو بیت الفکر کے ساتھ ہے پید اہوئی ۔

 

(1276)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماں جان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے سنا ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے اس کمرہ میں پیدا ہوئے تھے جو نچلی منزل میں ہمارے کنوئیں والے صحن کے ساتھ شمالی جانب ملحق ہے ۔

 

(1277)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماں جان ام المومنین نے مجھ سے بیان کیا کہ ہماری بڑی بہن عصمت انبالہ میں پیدا ہوئی تھی اور لدھیانہ میں فوت ہوئی ۔اس کی قبر لدھیانہ کے قبرستان گورغریباں میں ہے اور ایک احمدی سپاہی (سابقہ خاوند زوجہ بابو علی حسن صاحب سنوری) کے بیٹے کی قبر کے ساتھ ہے ۔ شوکت بھی لدھیانہ میں فوت ہوئی اور قبرستان حرم سرائے شاہ زادگان لدھیانہ میں ہے ۔

 

(1278)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے تھے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح ہمارے بھی بارہ حواری ہیں اور حضور نے ذیل کے اصحاب کو ان بارہ حواریوں میں شمار کیا (1)حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ (2)مولوی محمد احسن صاحب امروہوی (3)میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (4)مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری(5)ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب آف لاہور(6)ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب (7)شیخ رحمت اللہ صاحب آف لاہور (8)سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی(9)ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آف لاہور (10)مولوی محمد علی صاحب ایم اے (11)سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی (12)مفتی محمد صادق صاحب ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پوچھنے پر کہ کیااس فہرست میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا نام نہیں تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب اس وقت فوت ہوچکے تھے بلکہ ان کی وفات پر ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ بات کہی تھی کہ مولوی صاحب کی وفات بڑ ا حادثہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے مخلص آدمی دے رکھے ہیں۔ پھر فرمایا کہ مسیح ناصری کی طرح ہمارے بھی حواری ہیں اور اوپر کے نام بیان فرمائے۔ اس موقعہ پر ہم نے بعض اور نام لئے کہ کیا یہ حواریوں میں شامل نہیں ۔ آپ نے ان کی نسبت فرمایا کہ یہ درست ہے کہ یہ لوگ بھی بہت مخلص ہیں مگر اس گروہ میں شامل نہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات 1905ء کے آخر میں ہوئی تھی۔

 

(1279)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔آمنہ بیگم والدہ محمود احمد نے بذریعہ تحریر بواسطہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب مجھ سے بیان کیا کہ میرے والدین نے 1901ء میں بذریعہ خط میری بیعت کرائی تھی۔بعد میں جب میں قادیان آئی توحضور کے ہاتھ پر بیعت کی چونکہ حضورؑ نے ہی میری شادی کروائی تھی۔شادی کے بعد زیورات وغیرہ کا کچھ جھگڑا ہو گیا مقدمہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ہوا اس لئے ہمیں حضور علیہ السلام نے قادیان ہی بلوالیا۔ میں قادیان آئی اور دو دن حضور ؑ نے اپنے ہی گھر میں رکھا دونوں وقت لنگر خانہ سے کھانا آتا تھالیکن پھر کبھی حضور ؑ اپنے پاس سے بخوشی تبرک کے طور پر بھی بچا ہوا کھانا بھیج دیتے تھے ۔ہم جس دن آئے اسی دن ہی واپس جانے لگے تھے لیکن حضورؑ نے فرمایا کہ ’’جب تک تمہارے مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوتا ،یہیں پر رہو۔‘‘ چنانچہ ہم دودن رہے ۔جب فیصلہ ہمارے حق میں ہوگیا تو حضور علیہ السلام نے میرا زیور مجھے واپس دے دیا اور نہایت ہی محبت سے فرمانے لگے کہ’’ بی بی تمہیں دو دن اس لئے رکھا گیا تھا کہ لڑکیوں کو زیور سے بہت محبت ہوتی ہے اور تمہارا زیور اس لئے لے لیا گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ تم چلی جاتی اور زیور تمہار ا فیصلہ ہونے تک یہیں رہتا اور تمہیں رنج ہوتا ۔اب تمہارا زیور دے کر تمہیں جانے کی اجازت دیتے ہیں ۔‘‘

 

(1280)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب بشیر اوّل یا غالباً بشیر ثانی (یعنی سیدنا حضرت خلیفہ ثانی) کا عقیقہ ہوا تو گول کمرے میں احباب کو کھانا کھلایا گیا تھا اس روز مَیں اور میرے بھائی صاحب میاںامام الدین جو مولوی جلال الدین صاحب شمس کے والد ہیں قادیان میں تھے اور دعوت میں شامل نہیں ہوئے تھے چونکہ ہماری قریبی رشتہ داری قادیان میں تھی اس لئے جب ہم قادیان آتے تھے تووہاں سے ہی کھانا وغیرہ کھایا کرتے تھے اور وہ ہمارے بڑے خاطر گزار تھے ۔ حسب معمول عقیقہ کے روز ہم نے وہاں سے ہی کھانا کھایا تو ان کی ہمسایہ عورت نے کہا کہ آتے تو اُدھر ہیں اور کھانا یہاں سے کھاتے ہیں حالانکہ اُ س عورت پر ہمارے کھانے کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔خواہ مخواہ اُ س نے بات منہ سے نکالی اسکی بات کا اثر ضرور ہم پر ہوا اور کوئی جواب اسکو نہ دیا گیا اور اپنے گاؤں چلے گئے۔جب دوسری دفعہ قادیان آئے اور حضرت صاحبؑ کی خدمت میں پیش ہوئے تو حضور علیہ السلام نے بہت التفات اور محبت سے زور دار الفاظ میں فرمایاکہ’’دیکھو تم ہمارے مہمان ہو جب قادیان آیا کرو تو کھانا ہمارے ہاں کھایا کرو۔اور کسی جگہ سے مت کھانا کھاؤ۔‘‘ ہم حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ہوئے ۔الحمد للہ علی ذالک ـ

 

(1281)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بی بی رانی موصیہ والدہ عزیزہ بیگم موصیہ زوجہ حکیم محمد عمر صاحب قادیان نے بواسطہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بیان کیا کہ میں نے1901ء میں بذریعہ خط بیعت کی تھی۔چونکہ میری لڑکی عزیزہ بیگم اہلیہ حکیم محمد عمر صاحب قادیان میں تھیں ۔اس واسطے مجھ کو بھی1902ء میں قادیان آنے کی رغبت ہوئی میرے ساتھ میری چھوٹی لڑکی تھی۔جب حضرت صاحب صبح کوکسی وقت سیر کو باہر باغ کی طرف تشریف لے جاتے تھے تو میں بھی اکثر اوقات ساتھ جاتی تھی۔بوجہ معمر ہونے کے اور دیر ہو جانے کے باتیں یاد نہیں رہیں ۔ہاں البتہ یہ یاد ہے کہ ایک دفعہ صبح کے وقت جب حضرت صاحب کھانا کھا رہے تھے میں بھی آگئی ،میری چھوٹی لڑکی نے رونا شروع کیا ۔ حضرت صاحب ؑ نے دریافت کیا تو عرض کی ،روٹی مانگتی ہے ۔آپؑنے روٹی منگوا کر دی مگر لڑکی چپ نہ ہوئی۔ حضور علیہ السلام کے دوبارہ دریافت کرنے پر عرض کیا کہ یہ وہ روٹی مانگتی ہے جو حضور ؑکھا رہے ہیں تب حضور ؑ نے وہ روٹی دی جو حضورؑکھا رہے تھے ۔سو لڑکی نے وہ روٹی جو تھوڑی تھی لے لی اور چپ کر کے کھانے لگ گئی۔ حضورؑ کا یہ کریمانہ وفیاضانہ کام مجھ کو یاد ہے کہ حقیقۃ الوحی میں جو واقعہ غلام محی الدین لکھو کے کا درج ہے وہ یوں ہے کہ حضورؑ نے چوہدری فتح محمدصاحب سیال کو فیروزپور ہمارے گھر بھیجا تھا کہ موضع لکھو کے جاکر ان کے گھر کے حالات دریافت کر کے آویں ۔چنانچہ عزیزہ بیگم اہلیہ حکیم محمد عمر صاحب اور میں بمعیت میرے لڑکے ،مسمی نور محمد مرحوم کے موضع لکھو کے جا کر تحقیق کر کے آئے تھے وہ واقعہ ہماری زبانی ہے ۔ میری لڑکی عزیزہ بیگم کو بہت حالات یاد ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔میرا لڑکا نور محمد بہشتی مقبرہ میں کتبہ نمبر100کے مطابق فوت ہوچکا ہے ۔

 

(1282)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ عبد العزیز سابق پٹواری سیکھواں نے بواسط لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرا لڑکا محمد شفیع تھا وہ بیمار ہو گیا میں نے حضورؑ کی خدمت میں جاکر عرض کی اور حضرت ام المومنین نے بھی سفارش کی کہ ان کا ایک ہی لڑکا ہے آپ دعا کریں۔ حضورؑ نے فرمایا’’انشاء اللہ دعا کرونگا۔‘‘ اور پھر مجھے دوائی بھی دی ۔دوائی منگنیشیا تھا۔ فرمایا۔ ’’ابھی گھول کر پلا دو اور پھر مجھے بھی اطلاع دے دینا۔‘‘ چنانچہ وہ میں نے لا کر پلایا جس سے جلد ہی آرام آگیا میں نے جا کر اطلاع دی کہ حضور اب آرام آگیا ہے۔اس وقت یہی طریق تھا کہ جب کوئی تکلیف ہو تو فوراً حضورؑ کی خدمت میں عرض کر دیتے ۔ حضور علیہ السلا م فوراً تکلیف کے رفع کا انتظام کر دیتے۔

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…