اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-11

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(1263)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں احمد الدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنانوالی (گجرات) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور میرے والد صاحب جن کا نام محمد حیات تھااور ایک اور دوست جن کا نام غلام محمد صاحب احمدی (جو اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجو دہیں ) اپنے گاؤں چوکنانوالی ضلع گجرات پنجاب سے غالباً 1905ء میں حضرت اقدس ؑ کی زیارت کیلئے دارالامان میں حاضر ہوئے تھے اور مسجد مبارک میں ظہر کی نما زکیلئے گئے تا بیعت بھی ہوجائے اور نماز بھی حضرت اقدس ؑ کے ہمراہ ادا کرلیں اور زیارت بھی نصیب ہو۔ گو اس سے پہلے کئی سال آپ کی تحریر ی بیعت سے بندہ شرف یافتہ تھاجس کا سنہ یاد نہیں۔ لیکن زیارت کاشرف حاصل نہ تھا۔ چنانچہ ایک شخص نے جو کہ ہمارے ہی ضلع کے تھے فرمایا کہ آپ لوگوںنے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زیارت کرنی ہو تو مسجد مبارک میں ظہر کی نماز کے وقت سب سے پہلے حاضر ہوجاؤ۔ وہ دوست بھی مہمان خانہ میں موجو دتھے۔ چنانچہ ہم ہر سہ اشخاص وضو کر کے مسجد مبارک میں چلے گئے ۔ ہم سے پہلے چند ایک دوست ہی ابھی حاضر ہوئے تھے جن میں ہم شامل ہوگئے اور سب دوست اس بدر منیر چودھویں کے چاند کی زیارت اور درشن کا عاشقانہ وار انتظار کر رہے تھے جن میں کمترینان بھی شامل تھے۔ بندہ عین اس کھڑکی کے پاس بیٹھ گیا جہاں سے حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لایا کرتے تھے۔ تھوڑی انتظار کے بعد اس آفتاب ہدایت نے اپنے طلوع گاہ سے اپنے منور چہرہ کو دکھا کرہمارے دلوں کی زمین پر سے شکوک وشبہات کی تاریکیوں کو پاش پاش کر کے جملہ نشیب وفراز عملی و اخلاقی کو دکھا دیااور اپنے درشنوں سے بہرہ ور فرمایا۔ حضور ؑ کے مسجد میں قدم رکھتے ہی بندہ عاشقانہ وار آپ سے بغل گیر ہوگیااور کئی منٹوں تک حضور ؑکے سینہ مبارک سے اپناسینہ لگا کر بغل گیر رہا۔ جب بہت دیر ہوگئی تو میںنے خود ہی دل میں آپ کو تکلیف ہونے کے احسا س کو پاکر اپنے آپ کو آپ سے الگ کیا(یہ واقعہ بیان کرنے کی غرض محض آپ ؑ کے اسوۂ حسنہ پر تبصرہ ہے ) پھر حضور اپنی نشست گاہ میں جو مسجد مبارک کے شمال مغربی گوشہ میں واقعہ تھی تشریف لے گئے۔ ان دنوں مسجد مبارک ایک ایسے تنگ مگر لمبے کمرہ کی صورت میں تھی جس کا یہ عالم تھا کہ ہرصف میں غالباً چھ یا سات آدمی دوش بدوش کھڑے ہوسکتے ہوں گے۔ اور اپنی نشست گاہ پر فروکش ہوئے۔

 

(1264)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضور ؑ نما زپڑھ کر گھر کو تشریف لے جارہے تھے جب مسجد سے نکل کر دوسرے کمرہ میں تشریف لے گئے تو میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میں نے کچھ عرض کرنی ہے ۔ حضور وہاں ہی بیٹھ گئے اور میں بھی بیٹھ گیااور پاؤں دباتا رہا۔ بہت دیرتک باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے اس وقت کچھ خوابیں اپنی اور کچھ خوابیں بیوی کی عرض کیں اور کچھ دینی ودنیاوی بھی باتیں ہوتی رہیں اور بہت دیر تک وہاں بیٹھے رہے ۔ میںنے خیال کیا کہ حضور ؑ نے تو خواہ کتنا ہی وقت گذر جاوے، کچھ نہیں کہنا اور آپ کا میں قیمتی وقت کیوں خرچ کررہاہوں۔ چنانچہ بہت دیر کے بعد میں نے عرض کی کہ حضور مجھ کو اجازت فرماویں۔ حضور ؑ نے فرمایا ’’بہت اچھا جاؤ۔‘‘

 

(1265)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس روز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور ان کا جنازہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں رکھا گیا۔ جس وقت حضورعلیہ السلام نماز جنازہ پڑھانے کیلئے باہر تشریف لائے ۔ میں اس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے نیچے جو میدان ہے وہاں کھڑا تھا۔ اس وقت آپ اگر چہ ضبط کو قائم رکھے ہوئے تھے لیکن چہرہ مبارک سے عیاں ہورہا تھا کہ آپ اندر سے روتے ہوئے آرہے ہیں۔

 

(1266)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آیا۔ جب میری بیوی اندر گھر میں داخل ہونے لگی تو شادی خان دربان نے روک دیا۔ ہر چند کہا گیا مگر اس نے اندر جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ اکثر گاؤں میں اردگرد طاعون کا حملہ ہورہا تھا اور اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور ؑ باہر سے تشریف لے آئے ۔ا لسلام علیکم کے بعد مصافحہ بھی ہوا ، حضور ؑ نے پوچھا کہ ’’اس جگہ کھڑے کیوں ہو؟‘‘ میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میاں شادی خان اندر جانے نہیں دیتا۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آؤ میرے ساتھ چلو‘‘ اور وہ اندر چلے گئے ۔

 

(1267)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے خواب میں دیکھا کہ میں بالکل چھوٹی ہوں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی گود میں بیٹھی ہوں۔ اس وقت میں ایسی محبت سے بیٹھی ہوں جیسے کی ایک چھوٹا بچہ اپنے باپ کی گود میں بیٹھا ہو اہے ۔ اس وقت حضور ؑ نے اپنی زبان مبارک سے بڑی محبت کے ساتھ فرمایا کہ میں برکت بی بی تم کو حکم دیتا ہوں کہ آئندہ تم نماز تیمم سے پڑھ لیا کرو۔ بیماری کی حالت میں غسل جائز نہیں ہے بیمارکو کسی حالت میں بھی غسل جائز نہیں اور میں آپ کو ایک خوشخبری دیتاہوں وہ یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ایک لڑکا دے گا جو صالح ہوگا۔ چنانچہ میںنے یہ خواب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں بمعہ نذرانہ بدست شیخ حامدعلی صاحب اندر گھر میں بھیج دی ۔ جب وہ لڑکا پید اہوا تو حضور علیہ السلام نے اس کا نام ’’صالح محمد ‘‘رکھا۔

 

(1268)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں احمد الدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنانوالی ضلع گجرات (پنجاب) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مسجد مبارک میں اپنی نشست گاہ پر تشریف رکھتے ہوئے باتوں کے دوران میں (غالباً آپ ہی کے الفاظ ہیں) ایک مخالف کی طرف سے آئی ہوئی مگر گالیوں سے بھری ہوئی چٹھی کے پڑھنے جانے پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ا س کو مطبع میں بھیج کر چھپوادیا جائے یا بھیج کر چھپوادو ۔تاکہ اس کا شاید بھلا ہوجائے ۔ فقط

 

(1269)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس رو زعبد اللہ آتھم عیسائی والی پیشگوئی کی میعاد ختم ہوگئی اس سے دوسرے دن جب کچھ سورج نکل آیا تو حضور علیہ السلام باہر تشریف لائے اور جہاں اب مدرسہ احمدیہ کا دروازہ آمدورفت بھائی شیر محمد صاحب کی دوکان کے سامنے ہے اور اس کے جنوب وشمال کے کمرے جن میں طلباء پڑھتے ہیں ،یہ جگہ سب کی سب سفید پڑی ہوئی تھی ۔ کوئی مکان ابھی وہاں نہیں بنا تھا۔ چارپائیاں یا تخت پوش تھے۔ ان پر حضور علیہ السلام مع خدام بیٹھ گئے اور اسی پیشگوئی کا ذکر شروع کردیا کہ ’’خدا نے مجھے کہا ہے کہ عبد اللہ آتھم نے رجوع کر لیا ہے۔ اس لئے اس کی موت میں تاخیر کی گئی ہے ۔‘‘ اس وقت آپؑکے کلام میں عجیب قسم کا جوش اور شوکت تھی اور چہرہ مبارک کی رنگت گلاب کے پھول کی طرح خوش نما تھی اور یہ آخری کلام تھاجو اس مجلس سے اٹھتے ہوئے آپ نے فرمایااور یہ بھی فرمایا کہ ’’حق یہی ہے کہ جو خد انے فرمایا ہے۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی میرے ساتھ رہے یا نہ رہے ۔‘‘

 

(1270)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ضلع سیالکوٹ کے بعض سرکاری کاغذات ملے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام1863ء میں سیالکوٹ میں ملازم تھے اور اس وقت آپ کا عہدہ نائب شیرف کا تھا۔ ان کاغذوں میں جنکی تاریخ اگست اور ستمبر1863ء کی ہے ،یہ ذکر ہے کہ چونکہ مرزا غلام احمد نائب شیرف رخصت پر گئے ہیں اس لئے ان کی جگہ فلاں شخص کو قائمقام مقرر کیا جاتا ہے ۔

 

(1272)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر632بیان کردہ ڈاکٹر غلام احمد صاحب میں غلطی واقع ہوگئی ہے۔ صحیح روایت خود ڈاکٹر صاحب موصوف کے والد صاحب شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کی ہے یہ ہے کہ سال1900ء کاواقعہ ہے کہ ایک دفعہ یہ عاجز(شیخ نیاز محمدصاحب )حضرت سیدہ ام المومنین سلمھا اللہ تعالیٰ کیلئے ایک کپڑا بطور تحفہ لایا۔ اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور میں پیش کردیں کیونکہ اس عاجز کو حجاب تھا۔ ان ایام میں مسجد مبارک کی توسیع ہورہی تھی اور اس لئے نماز ایک بڑے کمرے میں جو اَب حضرت میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) کے مکان میں شامل ہے ،ہوتی تھی۔ نماز ظہر کے وقت جب جماعت کھڑی ہوئی تو حضرت خلیفہ اول نے اس عاجز کو آگے بلا کر وہ کپڑ احضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں پیش کیا۔ حضور نے قبول فرما کر اپنے سامنے رکھ لیا۔ نماز کے بعد حضور وہ کپڑا لے کر اوپر تشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت نانا جان مرحوم ہنستے ہوئے باہر تشریف لائے اور پوچھا کہ میاں محمد بخش تھانیدار کا لڑکا کہاں ہے۔ یہ عاجز اس وقت نفلوں میں التحیات پڑھ رہاتھا۔ حکیم مولوی محمدالدین صاحب مرحوم امیر جماعت گوجرانوالہ نے اس عاجز کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہے ۔ حضرت نانا جان وہاں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آج حضرت اقدس بہت خوشی سے مسکراتے ہوئے اندر تشریف لائے اور ام المومنین ؓ کو ایک کپڑا دے کر فرمایا کہ محمد بخش تھانیدار جس نے لیکھرام کے قتل کے موقعہ پر ہمارے کپڑوں کی تلاشی کرائی تھی اس کا لڑکا ہمارے واسطے یہ تحفہ لے کر آیاہے ۔ حضرت نانا جان نے فرمایا کہ حضرت اقدس کی اس غیر معمولی خوشی کو دیکھ کر میں اس لڑکے کو ملنے آیاہوں ۔ اتنے میں یہ عاجز نفل پڑھ کر حضرت ناناجان سے ملا تو وہ اس عاجز سے نہایت محبت سے ملے اور پھرآخر عمر تک اس عاجز سے خاص شفقت فرماتے رہے ۔
اسکے کچھ عرصہ بعداس عاجز کی اہلیہ قادیان آئیں تو حضرت سیدہ اُم المومنین سلمہا اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک دفعہ تمہارے میاں (خاوند) ایک کپڑا بطور تحفہ میرے لئے لائے تو حضرت صاحب اس دن بہت خوشی سے اندر تشریف لائے اور کپڑا دے کر فرمایا کہ معلوم ہے یہ کپڑ اکون لایا ہے؟ پھر خود ہی فرمایا کہ یہ اس تھانیدار کے بیٹے نے دیا ہے جس نے ہمارے کپڑوں کی تلاشی لیکھرام کے قتل کے موقع پر کرائی تھی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی ایمان افروز نظارہ ہے جو دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں دیکھا کہ عرب سرداروں نے ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت اور مخالفت میں گزار دی مگر خدا نے انہی کی اولادوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں میں ڈال کر ان کے خلاف اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں گواہ بنادیا۔

 

(1273)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر508میں جو حافظ نور محمد صاحب کی طرف سے درج ہے میں جس عرب صاحب کے متعلق حافظ صاحب نے بیان کیا ہے کہ ان کی شادی مالیر کوٹلہ سے ہوئی تھی اس کے متعلق خاکسار نے لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک عرب قادیان میں آکر رہے تھے ان کا نام عبدالمحی تھااور حضرت صاحب نے ان کی شادی ریاست پٹیالہ میں کرادی تھی۔ اور میں نے لکھا ہے کہ اگر اس روایت میں انہی عرب صاحب کاذکر ہے تو مالیر کوٹلہ کے متعلق حافظ نور محمد صاحب کو سہو ہوا ہے ۔ سو اس روایت کے متعلق محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ وہ عبدالمحی عرب نہیںتھے بلکہ محمد سعید عرب شامی تھے جو یہاں آئے اور ایک عربی رسالہ بھی انہوںنے لکھا تھا۔ اور ان کی شادی مالیر کوٹلہ میں ہوئی تھی اور عبدالمحی صاحب تو بہت عرصہ بعد قادیان آئے تھے ۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…