اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-12-14

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1251) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں میاں منظور علی شاہ صاحب ولد سید محمد علی شاہ صاحب کی بسم اللہ کی تقریب پر جو مولوی نور الدین صاحبؓنے کرائی تھی، گیا تھا۔ حسب دستور میں مولوی صاحب کے درس میں جایا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ساتھ کبھی کبھی سیر کو بھی جایا کرتا تھا ۔ میں تقریباً پندرہ بیس دن وہاں رہا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جس زمانہ میں ڈاکٹر عبد الحکیم (جو بعد میں مرتد ہو گیا تھا) قرآن شریف کا ترجمہ کر کے لایا ہواتھا۔ حضرت صاحب سیر کوجاتے تھے اور وہ سناتا جاتا تھا۔ حضور علیہ السلام سنتے جاتے تھے اور بعض دفعہ کچھ فرمایا بھی کرتے تھے ۔


(1252) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا بیٹا عبد الغفور ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اس کو دینے کیلئے مجھے زور دے رہی تھی اور میں منظور نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دن موقعہ پا کر حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ حضور ؑمیں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بیٹا پسند نہیں کرتا۔ حضور ؑ نے مجھے بلایا اور کہا کہ ’’یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے ؟ ‘‘ میںنے عرض کی کہ حضور !یہ لوگ مخالف ہیں اور سخت گوئی کرتے ہیں اس واسطے میں انکار کرتا ہوں ۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دو نہیں ‘‘ یعنی مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دینی نہیں چاہئے ۔


(1253) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑنے فرمایا کہ ’’مشکلات کیا چیز ہیں؟ دس دن کوئی نما زتہجد پڑھے۔ خوا ہ کیسی ہی مشکل ہو خدا تعالیٰ حل کردے گا۔ (اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ)


(1254) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری عمر چونکہ بڑھ رہی تھی ۔ میںنے دعا کرنی شروع کی کہ یا خداوند کریم ! اگر یہ (یعنی حضرت مسیح موعود ) سچا ہے اور میںنے اسکی بیعت نہ کی تو میں جہالت کی موت مروں گا اور اگر یہ سچا نہ ہوا تو میرے اسلام میں فرق آئے گا۔ تُو ہی اپنے فضل سے مجھے صحیح رستہ دکھادے ۔ میںیہ دعا مدت تک کرتا رہا۔ حضور ؑ لاہور تشریف لایا کرتے تھے ایک دفعہ حضور ؑ کا لیکچربریڈلا ہال میں ہو اتھا۔ لوگوںنے حضور ؑ کی گاڑی پر اینٹیں ماریں لیکن پولیس اپنی حفاظت میں حضور ؑ کو خیریت سے لے آئی۔ پھر خد اتعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور میںنے حضور کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔


(1255) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ مولوی کرم الدین کے ساتھ مقدمہ تھا، گورداسپور میں پیشی تھی ۔ جب آواز پڑی تو سب دوست اندر چلے گئے صرف میں یعنی یہ عاجز اور حضرت اقدس دونوں ہی ایک شیشم کے درخت کے نیچے رہ گئے چنانچہ حضور ؑ لیٹ گئے اور میں حضور ؑ کے پاؤں دبا رہا تھااور بہت سی باتیں حضور ؑ کے ساتھ ہوتی رہیں ۔ چنانچہ ان میں سے صرف دو باتیں یاد رہیں ایک یہ کہ میںنے عرض کیا کہ حضور! ؑمجھے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بچہ عطا فرمایا ہے ۔ حضور ؑ اس کا نام رکھ دیویں ۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’پہلے کانام کیا ہے ؟‘‘ تو میںنے عرض کی کہ حضور پہلے کا نام عبد الغفور ہے۔ تب حضور نے فرمایا کہ اس کا نام ’’عبد الرحیم ‘‘ رکھ دو۔
(1256) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ 99۔12۔7کا واقعہ ہے حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی ؓکے سوال کے جواب میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ کی کوئی باریک حکمت ہے کہ مجھے دو بیماریاں لگی ہوئی ہیں ۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں اور ایک نیچے کے حصہ میں۔ اوپر کے حصہ میں تو وہ دَوری بیماری ہے جو ہمیشہ کوئی ہفتہ عشرہ خالی نہیں جاتا جو دورہ کرتی رہتی ہے جس سے دل میں ضعف اور دردسر اور نبض بالکل ساکت ہوجاتی ہے وغیرہ اور نیچے کے حصہ میں بیماری ذیابیطس ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میں نے ان کی نسبت توجہ بھی کی تھی تو یہی جواب ملا کہ یہ بیماری لا علاج ہے لیکن فضل خد اشامل حال رہے گا اور فرمایا کہ ’’کیا عجیب پیشگوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہ مسیح موعود دو زرد چادریں پہنے ہوئے نازل ہوگا۔ وہ یہی اشارہ ہے۔ ورنہ کون سمجھ سکتا ہے کہ آسمان پر کپڑا بنایا جاتا ہے جس سے مسیح کو زرد چادریں دی جاویں گی اور حدیث میں جو دو زرد چادروں کاذکر ہے۔ دراصل انسان کیلئے دو ہی چادریں پردہ پوشی کیلئے کافی ہیں۔ ایک تہ بند اور دوسری اوپر کی چادرکافی ہوسکتی ہے۔‘‘


(1257) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جبکہ مولوی کرم دین والا مقدمہ تھااور گورداسپور میں اسکی پیشی تھی تو وہاں پر میںنے ایک شیشم کے درخت کے نیچے حضرت صاحب کے حضور عرض کی کہ حضور ؑ عشاء کی نما زکے بعد اگر وتر نہ پڑھے جائیں اور پچھلے وقت بھی رہ جاویں تو پھر ان کو کس وقت پڑھا جاوے۔ تب حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’بہتر یہی ہے کہ پہلے وقت ہی پڑھ لئے جاویں ۔‘‘ یعنی نما زعشاء کے بعد ہی پڑھ لینے چاہئیں ۔


(1258) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ 99۔12۔7کو ٹیکہ کے متعلق ذکر چل پڑا۔ فرمایا کہ ’’ٹیکہ ضرور کرانا چاہئے۔ یہ بڑا مفید ہے کیونکہ بعض اوقات چیچک سے لوگ مر جاتے ہیں۔ یہ بڑی خطرناک بیماری ہے ۔ تین دفعہ جس کا ٹیکہ کیا جائے وہ چیچک سے محفوظ رہتا ہے (1) بچپن میں (2) پھر قریباً آٹھ سال کی عمر میں (3) پھر سولہ سترہ سال کی عمر میں۔ فرمایا کہ اگرٹیکہ کرنے والے آویں تو مبارک احمد کو ٹیکہ کرایا جائے ۔ پہلے تینوں لڑکوںکا ٹیکا کرایا ہے کسی کو چیچک نہیں ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب اور فیض احمد صاحب نیٹو ڈاکٹر نے عرض کیا کہ آج قادیان میں ٹیکا کرنے والے آئے ہوئے ہیں۔ اُن سے دریافت کریں گے اگر جاگ مل گیا تو خود ہی اچھی طرح ٹیکہ کر لیویں گے ۔انشاء اللہ ۔


(1259) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل احمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام مسجد اقصیٰ میںکچھ تقریر فرما رہے تھے۔ دوران تقریر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جس کام کے واسطے مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اگر چالیس آدمی بھی ہوجاویں تو میں بڑی کامیابی حاصل کرلوں یا اپنے مقصود کو حاصل کرلوں۔‘‘ ایسا ہی کوئی لفظ تھا جو مجھے اس وقت یا دنہیں رہا۔ اس وقت میرے بائیں جانب حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ بیٹھے تھے۔ جب حضور ؑکے مبارک منہ سے یہ الفاظ نکلے تو حضر ت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہائے افسوس! لوگ اس مبارک وجود کو کیا کہتے ہیں ۔یہ جھوٹ بولنے والا منہ ہے ؟
اسکے بعدجب تقریر ختم ہوئی تو سب لوگ اپنے اپنے مکانوں کی طرف جارہے تھے۔ چنانچہ میں بھی اٹھ کر چلا جب مسجد اقصیٰ سے نیچے اترے تو میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کو جاملا۔ آپ کے ساتھ اُن کا ایک شاگرد جارہاتھا۔ اس وقت شاگرد نے حضور مولوی صاحب سے سوال کیا کہ حضور ؑ! آج جو حضرت اقدس ؑ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میری جماعت سے چالیس آدمی بھی میری مرضی کے مطابق ہو جاویں تو میں کامیاب ہوجاؤں ۔حضور آپ فرماویں کہ ہم کیا گناہ کر رہے ہیں ؟ نما زپڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، کوئی بھی بُراکام نہیں کرتے۔ وہ کیا کام ہے جو حضرت صاحب کرانا چاہتے ہیں تاکہ ہم انکی مرضی کے مطابق ہو جاویں اسکے جواب میں حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہاں! ہے تو، بیشک آپ اچھا کام کرتے ہیں مگر اگر آج ہی آپ کو لنگر سے روٹی نہ ملے تو پھر آپ کو پتہ لگے کیا کیا آپ منصوبہ بازی کرتے ہیں ۔


(1260) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ وفات سے چند یوم قبل حضور علیہ السلام نے لاہور میں امراء کی دعوت کی تھی اور تقریر بھی فرمائی تھی۔ حضور ؑلاہور احمدیہ بلڈنگس میں تشریف لائے ہوئے تھے ۔ جمعہ کی نماز یا ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ میں نماز پڑھ کر فارغ ہوکر بیٹھا تھا۔ حضور ؑ سنتیں پڑھ رہے تھے۔ میںنزدیک ہی حضور ؑ کی دائیں طرف بیٹھا ہو ا تھا۔ حضور ؑنے سلام پھیرتے وقت یا سلام کے معاًبعد میری طرف دیکھا اور جب آنکھیں چار ہوئیں تو حضور ؑ کی آنکھوں کی روشنی سمجھیں یا جلال سمجھیں یا نور سمجھیں۔ بہر حال کچھ بھی ہو اس نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ میں پسینہ پسینہ ہوگیا۔


(1261) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گاؤں میں ایک جگہ مکانوں کے درمیان سفید پڑی ہے وہاں حضرت اقدس ؑ مجھ کو بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہوں گے۔ پہلے کانام عبد الغنی ، دوسرے کا نام ملک غنی، تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا اور آپ کی عمر45سال کی ہوگی یا ہے ۔ اسکے بعد میں بیدار ہوگیا۔ جب میں جمعہ کے دن قادیان شریف میں جمعہ کے واسطے آیا تو رات اسی جگہ یعنی قادیان شریف ہی رہا۔ شام کے بعد جب حضور ؑ مسجد کے اوپر نماز کے بعد گرمیوں میں جیسا کہ ہمیشہ بیٹھا کرتے تھے، بیٹھے تو کچھ صحابی اور بیٹھے تھے اور باتیں ہو رہی تھیں اور میں بھی حضور ؑ کے قدموں میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔ چنانچہ میںنے حضور ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور ؑ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضور ؑ مجھے بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف لے جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہونگے ۔ پہلے کانام عبد الغنی دوسرے کانام ملک غنی اور تیسرے کانام پتال غنی رکھنااور آپ کی عمرپنتالیس برس کی ہوگی یا ہے۔‘‘ اس پر مولوی عبد الکریم صاحب ہنس پڑے اور فرمانے لگے کہ فضل محمد پھر بتلاؤ کہ پہلے کانام کیااور دوسرے کا نام کیا ہے میںنے جب دوبارہ بتایا تو مولوی صاحب پھر بولے کہ میاں ! پھر بتلاؤ تو میںنے حضور ؑ سے عرض کی کہ حضور! مولوی صاحب تو مذاق کرتے ہیں اور مجھے بڑا غم ہورہاہے ۔ حضور مسکرا کربولے کہ ’’آپ کو کیا غم ہے؟‘‘ تو میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میری عمر اس وقت 28 یا30 برس کی ہے اور باقی تھوڑی رہ گئی ہے اور میں نے حضور علیہ السلام کا زمانہ دیکھنا ہے۔ اس پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ قادرہے وہ دگنی کردیا کرتا ہے ۔‘‘ (اور حقیقت میں ان کی عمر دگنی ہو گئی تھی)

(1262) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ؑ اپنے خادموں کی جدائی(وفات وغیرہ) پر صدمہ محسوس فرماتے تھے۔ چنانچہ جس روز میاں محمداکبر صاحب تاجر چوب بٹالہ فوت ہوئے ۔وہ جمعہ کا دن تھا۔ مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری (جو آج کل کشمیری ہائی کورٹ میں وکیل ہیں) نے مسجد اقصیٰ میں بعد نما زجمعہ حضور ؑ کی خدمت میں ایک نظم خود تیار کردہ سنانے کیلئے عرض کی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آج محمد اکبر فوت ہوگیا ہے۔ اس وقت میری طبیعت سننا نہیں چاہتی۔‘‘

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…