اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-04

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(1002)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قریباً آٹھ دس سال کی عمر کا تھا۔ (اِس وقت میری عمر پچپن سال کی ہے ) ایک دفعہ میرے حقیقی چچا مرحوم حافظ حکیم خد ابخش صاحب احمدی جو اوائل سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مصدق تھے اور بیعت میں صرف اس خیال سے دیر کرتے چلے گئے کہ میں بہت ہی گنہگار اور آلودہ دامن ہوں۔ میرا وجو دسلسلہ حقہ کیلئے ایک بدنما داغ ہوگا اور اس کی بدنامی کا باعث ہوگااور آخر حضور کی رحلت کے بعد اوائل1909ء میں انہوںنے تحریری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ، کسی لمبے سفر سے واپس آئے ۔ جب مجھے معلوم ہواتو میں اُن سے ملنے کیلئے ان کے پاس گیا۔ انہوںنے مجھے ایک کتاب دی جسے لے کر میں بہت خوش ہوا۔ اس کتاب کے مجھے دینے سے اُن کا مقصد یہ تھا کہ میرے والد صاحب اسے دیکھ لیں ۔ دوسرے روز میں شوق سے وہ کتاب ہاتھ میں لئے مسجد کی طرف قرآن کریم کا سبق پڑھنے کیلئے جارہا تھا ۔ اتفاق سے میرے والد صاحب راستہ میں ہی ایک چھوٹی سی مجلس میں بیٹھے تھے۔ میرے ہاتھ میں وہ کتاب دیکھ کر انہوںنے لے لی اور دیکھنے لگے ۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا کتاب ہے ۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ ایک بزرگ ولی اللہ کی کتاب ہے ۔ جن کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اور ساتھ ہی بیان کیا کہ میں ایک دفعہ فساد خون کے عارضہ سے دیر تک بیمار رہاتھا۔ ان ایام میں مجھے ان بزرگ ولی اللہ کے متعلق اطلاع ملی اور یہ بھی کہ ان کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں۔ میں اس وقت بغرض علاج لاہور (یا امرتسر اس وقت خاکسار کو صحیح یاد نہیں رہا کہ کس شہر کانام لیا تھا) گیا ہوا تھا ۔ وہیں یہ بات مجھے معلوم ہوئی تھی جس پر میں نے ان کی خدمت میں (حاضر ہو کر نہیں بلکہ تحریراً یا کسی صاحب کی زبانی جس کی تفصیل اب خاکسار کو یاد نہیں رہی )اپنی صحت یابی کیلئے دعا کے واسطے عرض کیا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخشی ۔ یہ واقعہ بچپن میں میں نے غالباً متعدد دفعہ اپنے والد صاحب (مولوی محمد بخش صاحب) سے سنا تھا۔ اسکے بعد وہ کتاب میرے والد صاحب نے مجھے واپس دے دی اور وہ مدت تک میرے پاس رہی ۔ جب میں بڑ اہوا تو اسکے نام وغیرہ کی شناخت ہوئی۔ یہ کتاب سرمہ چشم آریہ تھی جو 1886ء کی تصنیف ہے ۔
(1003)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لائے تو سردار ہری سنگھ کی درخواست پر آپ اُن کی کوٹھی میں مقیم ہوئے ۔ کھانا وغیرہ کا انتظام جماعت کے ذمہ تھا۔ کوٹھی نہایت خوبصورت اور سجائی گئی تھی۔ باورچی نے کارکنوں سے حضور کیلئے ایک چوزہ مرغ طلب کیا تو وہ لوگ حیران ہوئے کہ اب کہاں سے ملے گا۔ مجھے علم تھا کہ حضور کچھ عرصہ سے چوزہ مرغ بطور دوائی استعمال فرماتے ہیں اس لئے میں نے چار چوزے اپنے پاس اسی غرض سے رکھے ہوئے تھے ۔ میں فورًا گیااور چاروں لے آیا اور وہ چوزے تین دن تک کام آگئے ۔ چونکہ میں نے تین دن کی رخصت لی ہوئی تھی اس لئے میں دن رات حضور کے پاس رہتا اورحضور کے جسم مبارک کو دباتا تھا۔ میں94ء سے حضور کا عاشق تھا۔ رات بھر حضور کے بدن کو دباتا۔ جب حضور کروٹ بدلتے تو کھانسی کی تکلیف کے وقت منہ مبارک سے معصوم بچوں کی سی آواز نکلتی ’’اللہ‘‘ حضور فرماتے تھے کہ خشک کھانسی بھی ایک وبا کی طرح ہے ۔ پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی۔ حمام میں گرم اور سرد دونوں پانی موجو دتھے۔ آپ لوٹے میں دونوں کو ملا کر استعمال فرماتے۔ میرے دباتے ہوئے جب حضور انور کروٹ لیتے تو فرماتے کہ ’’ آپ بس کیجئے‘‘ مگر مجھے ان الفا ظ کے سننے سے از حد خوشی ہوتی اور میں حضور کو دباتا چلا جاتا تھا۔
(1004)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جس دن عدالت میں مقدمہ کی پیشی تھی،صبح نو بجے تک بیعت ختم نہ ہوئی تھی پھر کچہری کیلئے تیاری شروع ہوئی ورنہ لوگ تو بس نہ کرتے تھے۔ رات کو عورتوں کی بیعت کی باری آیا کرتی تھی۔ اُن کے خاوند دروازوں پر کھڑے ہوتے تھے ۔ حضور اقدس کرسی پر اونچی جگہ تشریف رکھے ہوتے ،بلندآواز سے اپنی جگہ پر ہی اللہ اور اسکے رسول کے احکام حسب ضرورت عورتوں کو سناتے تھے اور حضرت صاحب نے میاں بیوی کے حقوق اور تعلقات کو خوب واضح طور پر بیان کیا تھا ۔ حضور عورتوں کی بیعت لیتے وقت ہاتھ یا کپڑا وغیرہ نہ پکڑتے تھے بلکہ آپ اونچی جگہ پر بیٹھ کر اپنی تعلیم سنا دیتے تھے اور پھر لمبی دعا فرما کے اپنے کمرہ میں چلے جاتے تھے ۔ اُن دنوں سخت سردی پڑتی تھی۔ جس دن پیشی تھی اُسی رات مجھ کو خواب آیا اور وہ میں نے حضرت کو سنا دیا تھا کہ دہکتے ہوئے انگاروں سے ایک چولہا بھرا ہو اہے ۔ اُس پر حضور کی آرام کرسی رکھی گئی ہے، اُس پر آپ بیٹھے ہیں ۔ آگ کی بھاپ شعلے مار مار کر تمام بدن سے نکلتی جاتی ہے۔ اسی طرح کپڑوں اور بالوں سے اور ہم لوگ خوش ہورہے ہیں کہ دھواں تو نہیں ہے بلکہ بھاپ ہے۔ بالوں میں سے پانی کے قطرے نیچے گر رہے ہیں ۔ تو میں کہہ رہاہوں کہ سبحان اللہ! ابراہیم علیہ السلام والی پوری مثال ہے ۔ اس موقعہ پر قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًاوَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْم (الانبیاء:70) کی مثال صادق آرہی ہے ۔ جب میں نے یہ خواب حضور کو سنائی تو حضور اقدس علیہ السلام نے ہنس کو فرمایا کہ دشمن نے آگ بھڑکائی مگر اللہ نے ٹھنڈی کر دی ہے۔ تمام دشمنوں نے زور لگایا۔ ایک طرف تمام مخالف تھے اور ایک طرف خدا کا مرسل تھا۔ ایک طرف حکومت کے لوگ اور بڑے بڑے رئیس ،مجسٹریٹ اور وکیل اور چھوٹے چھوٹے ملازم تھے۔ یہ سب لوگ کرم دین پر خوش تھے کہ اُس نے دعویٰ کیا ہے مگر خدا نے اُن کو ناکام کردیا ۔
(1005)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مقدمہ کی تاریخ سے ایک ماہ قبل میری بیوی کو خواب آئی تھی کہ حضرت سلمان فارسی جن کی قبر 9گز لمبی دریائے جہلم کے کنارے پر ہے ، وہ چوک میں کھڑے ہوکر بآواز بلند یہ کہتے ہیں، سنو لوگو!یہ جو دو فریق آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں، ان میں سے ایک سیّد ہے جو مرزا صاحب ہیں اور دوسرا مولوی جو ہے وہ ڈوم ہے ۔ جب حضور کو یہ خواب سنائی گئی۔ تو حضور نے ’’ہیں‘‘ کہہ کر فرمایا کہ ڈوم کیسے ہوتے ہیں۔ اس پر دوستوں نے بتایا کہ ڈوم میراثی ہوتے ہیں ۔ تحصیل دار نواب خان نے بھی کہا کہ حضور میراثی لوگ ڈوم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک روز مفتی محمد صادق صاحب نے بھی اپنی خواب سنائی ۔ خواب مجھے یاد نہیں رہی۔ میں اپنی بیوی کے اکثر خواب حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحر یر کر کے تعبیر منگواتا رہتا تھا ۔
(1006)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمدصاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت میں گئے تو بہت ہجوم حضور کے ساتھ اندر چلا گیا۔ آخر کھلے میدان میںحضور کی کرسی سرکاری جمعدار نے رکھی۔ چار پانچ کرم کے فاصلہ پر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنا وعظ شروع کیا تو محمد دین کمپونڈر نے کہا ۔ حضور! مولوی ابراہیم نے یہاں آکر ہی وعظ شروع کردیا ہے۔ اس وقت میں بھی حضور کے پاس تھا تو حضور نے اپنے ہاتھ سے اپنی جیب سے ایک رسالہ ’’مواہب الرحمن‘‘ نکال کر دیا کہ میری یہ کتاب اُسے دے دو۔ ابھی اُس نے وعظ شروع ہی کیا تھا کہ ڈپٹی صاحب نے حکم دیا کہ اس کو یہاں سے نکال دو۔ اگر وعظ کرنا ہے تو شہر میں جاکر کرے ۔سپاہیوں نے اسی وقت اسے کچہری سے باہر نکال دیا۔ جب اُس نے جلدی سے کتاب پر نظر ماری تو صفحہ25پر نظر پڑی ۔ جہاں لکھا تھا ’’کرم دین کذّاب‘‘ فوراً کرم دین کو جاکر دیا کہ دیکھو تم کو یہ لکھا گیا ہے ۔اُس نے اپنے وکیل شیخ محمد دین کو دکھایا ۔ وکیل نے کہا کہ اس کا بھی دعویٰ کردو۔ اُسی وقت مولوی ابراہیم اور کرم دین اور شیخ محمددین وکیل میاں نظام دین سب جج کی کچہری میں چلے گئے اور اُس کو دکھا کر کہا کہ یہ وہ کتاب ہے اور اب موقعہ ہے۔ ہم دعویٰ آپ کی عدالت میں کرتے ہیں۔ اُس جج نے جواب دیا کہ میرے پاس دعویٰ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ کرم دین بھی سنی مسلمان ہے اور میں بھی سنی مسلمان ہوں ۔ جب جج مذکور نے یہ جواب دیا وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے ۔ بندہ اچانک اُسی وقت اس جج کی کچہری میں ان تینوں کے پیچھے کھڑا یہ کارروائی دیکھ رہا تھا ۔ ہاں البتہ اُس نے ان کو یہ کہا کہ یہ دعویٰ بھی اُسی ڈپٹی کمشنر کے پاس کرو جس کے پاس پہلا دعویٰ ہے۔ ڈپٹی نے خوب دونوں دعووں کو اڑایا اور کرم دین کو کہا کہ تم نے خود اپنے لئے یہ ثابت کردیا ہے کہ ضرور میں جھوٹااور کمینہ ہوں کیونکہ تعزیرات ہند میں یا سرکاری قانون میں تو یہ جرم نہیں ہے کیونکہ مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہ خدا نے الہام سے مجھے یہ کہا ہے ۔ قانون سے جرم تب ہوتا اگر یہاں کرم دین کی ولدیت وسکونت کتاب میں درج ہوتی۔ کیادنیا میں اور کوئی کرم دین نہیں ہے صرف تُو ہی کرم دین ہے ؟
(1007)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین نے ڈپٹی کی عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے بھائی محمدحسین کے متعلق کہا ہے کہ مرتے وقت اس کا منہ سیاہ ہوگیا ہے اس طرح اس کی ہتک کی ہے ۔ ڈپٹی نے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائی محمدحسین کا کوئی لڑکا ہے۔ اس نے کہا کہ ’’ہے‘‘ پوچھا کہ بالغ ہے یا نابالغ ہے ؟ کرم دین نے جواب دیا کہ بالغ ہے۔ اس پر ڈپٹی صاحب نے کہا کہ وہ دعویٰ کرسکتا ہے ۔ تمہارا دعویٰ نہیں چل سکتا ۔ واپسی پردیوی دیال صاحب سب انسپکٹر نے حضور کو بڑی محبت اور احترام سے بڑے بازار شہر سے گزار کر اسٹیشن پر لاکر گاڑی پر سوار کرایا تھا۔ بازار میں سے لانے کی غرض یہ تھی کہ تمام لوگ حضور کی زیارت کر لیں۔ لوگ کھڑے ہوہوکر حضور کو دیکھتے تھے۔ حضور باعزت طورپر گاڑی میں سوار ہوئے اور واپس قادیان روانہ ہوئے ۔
(1008)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور شیرینی کا ایک خوان اُسی وقت پیش کیا اور شام کی دعوت کی ۔
(1009)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شہتیر والا مکان خطرناک ہوتا ہے۔ بعض دفعہ شہتیر ٹوٹ جاتا ہے تو ساری چھت یکدم آپڑتی ہے ۔ یعنی صرف کڑیاں یعنی بالے پڑے ہوئے ہوں۔ اور فرمایا ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ایسے حادثہ سے بچایا تھا۔
(1010)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت یعنی1938ء میں میری عمر74سال کے قریب ہے۔ ہمارا اصل وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر یوپی ہے گو میری زیادہ سکونت باغپت ضلع میرٹھ میں رہی ہے یعنی میں نے اپنی اوائل عمر زیادہ تر اپنے وطن باغپت ضلع میرٹھ میں گزاری تھی اور سنہ 1941ء بکرمی میں کپور تھلہ میں آیا جب کہ میری عمر21؍20سا ل کی تھی۔ میرے کپور تھلہ آنے سے قبل کی بات ہے کہ حاجی ولی اللہ صاحب جو کپور تھلہ میں سیشن جج تھے وہ رخصت پر اپنے وطن سراوہ ضلع میرٹھ میں گئے ۔ اس وقت میرے والدصاحب اور مَیں بوجہ تعلق رشتہ داری اُن سے ملنے کیلئے گئے ۔ حاجی ولی اللہ صاحب کے پاس براہین احمدیہ کے چاروں حصے تھے۔ اور حاجی صاحب موصوف مجھ سے براہین احمدیہ سنا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ کتاب حضرت مرزا صاحب نے بھیجی ہے ۔ اُن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط وکتابت تھی۔ جب میں حاجی صاحب کو براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو اس دوران میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت ہوگئی ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب کہ میں براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو سامعین کہا کرتے تھے کہ اس کتاب کا مصنف ایک بے بدل انشاء پرداز ہے ۔
(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…