اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-12-07

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 


(1238) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں صاحبزادہ حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب امیر حبیب اللہ والی ٔ کابل کے حکم سے شہید کئے گئے ، ان کے ذکر پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’اگر سلطنت کابل نے اپنی اصلاح نہ کی تو اس سلطنت کی خیر نہیں ہے ۔ ‘‘

 

(1239) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاںفضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں دوبارہ بیعت کر کے واپس گھر گیا تو اسکے کچھ عرصہ کے بعد میری بیوی نے ایک خواب سنایا کہ آج میں خواب میں حج کو جارہی ہوں اور بہت لوگ بھی حج کو جارہے ہیں اور وہ جگہ ہمارے گاؤں سے مشرق کی جانب ہے جس طرف حج کو جارہے ہیں ۔ جب میں حج کی جگہ پر پہنچی ہوں تو میں اکیلی ہوں اور سیڑھیوں پر چڑھ کر ایک مکان کی چھت پر جا بیٹھی ۔ دیکھتی ہوں کہ ایک بچہ چھوٹی عمر کا وہاں بیٹھا ہے اور اسکے ارد گرد بہت مٹھائیاں پڑی ہیں۔ مجھے اسکو دیکھ کر اپنا بچہ جو کچھ عرصہ ہوئے فوت ہوگیا تھا یاد آیا۔ تو اس بچہ نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اور بچہ دے گا جو اچھا ہوگا ، نیک ہوگا اور بہت باتیں کیں جو مجھے یاد نہیں رہیں۔ خیر اس نے یعنی میری بیوی نے کہا کہ میرے خیال میں وہ قادیان شریف ہی ہے ۔ پس مجھے بھی قادیان شریف لے چلو۔ چنانچہ میں نے اس کو قادیان شریف میں لاکر بیعت میں داخل کردیا۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ ۔ بیعت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات کہتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے قادیان شریف جانے سے نہ روکیں اور میں کوئی چیز نہیں چاہتی۔ صرف میری یہی خواہش ہے ۔ چنانچہ اس میری بیوی کو اس قدر محبت قادیان شریف سے ہوئی کہ اس کو وہاں اپنے گاؤں میں رہنا نہایت ناپسند ہوا اور اس وقت تک اپنی آمدورفت نہ چھوڑی جب تک قادیان شریف میں اپنا مکان نہ بنوالیا اور مکان بنا کر قریباً دوسال آباد ہوکر اس دار فانی کو چھوڑ کر مقبرہ بہشتی میں داخل ہوگئی۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔

 

(1240) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں سید محمد علی شاہ صاحب سے اس معیار کے پیش نظر کہ انبیاء علیہ السلام کی پہلی زندگی ہرقسم کے عیبوں سے پاک اور معصومانہ ہوتی ہے ، عام طور پر حضور ؑ کی نسبت دریافت کرتا تھا ۔ ان کی زبانی جو باتیں مجھے معلوم ہیں وہ حسب ذیل ہیں ۔ سید محمد علی شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب بچپن سے پاک صاف اور نیک ہیں۔ ان کی زندگی کی نسبت کوئی کسی قسم کا شبہ نہیں کرسکتا اور ان کے والد صاحب ان کو اکثر ’’مسیتڑ‘‘ کہا کرتے تھے۔ اگر کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد صاحب کہاںہیں ؟تو وہ کہاکرتے تھے کہ مسجد میں جاکردیکھ ،اگر وہاں نہ ملے تو ناامید نہ ہوجا نا ۔ ملے گا بہر حال مسجد میں۔

 

(1241)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِی(آمین) بذریعہ الہام تعلیم فرمائی تو حضور علیہ السلام نے ایک روز ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اسم اعظم ہے اور ہر ایک قسم کی مصیبت سے حفاظت کا ذریعہ ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ بجائے واحد کے بصورت جمع بھی اسکا استعمال جائز ہے ۔ یہ ان دنوں میں حضرت صاحب پر جناب الٰہی سے نازل ہوئی تھی جن ایام میں مقدمات ہونے والے تھے یا شروع ہوگئے تھے۔

 

(1242)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے مجھ سے اپنی خواب بیان کی جو یہ ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام ایک میدان میں یاایک مکان میں ٹہل رہے ہیں اور ان کے سر پر سبز دستار ہے اور ہاتھ میں کتاب ہے۔ حضور علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ ’’برکت بی بی ! فلاں جگہ ایک تھان ریشمی سبز رنگ کا پڑا ہے۔ اٹھا لاؤ۔ اور وہ کتاب جو حضور علیہ السلام کے ہاتھ میں ہے وہ مولوی نور الدین صاحبؓ کو دے دی اور مولوی صاحب کے سر پر سفید پگڑی ہے اور چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ مولوی صاحب نے وہ کتاب حضرت میاں محمود احمد صاحبؓکو دے دی اور میاں صاحب کے سر پر سبز ریشمی پگڑی ہے ۔ وہ کچھ لمبی خواب تھی جو انہوںنے بتلائی۔ یہ خواب انہوں نے حضرت ام المومنین صاحبہ کو اسی وقت سنائی تھی ۔ جب حضرت خلیفہ صاحب اوّلؓ کا انتقال ہوا تھا ۔ تو اس وقت حضرت ام المومنین نے فرمایا تھا کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو بتاوے ۔ چنانچہ حضرت ام المومنین کو وہ خواب یاد کرائی گئی تو حضور نے فرمایا کہ وہ خواب تو مجھے یاد ہے ۔

 

(1243)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑ سیدنا مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ ’’دعا نماز میں بہت کرنی چاہئے ‘‘ نیز فرمایا کہ اپنی زبان میں دعا کرنی چاہئے لیکن جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت ہے اسکو انہیں الفاظ میں پڑھنا چاہئے مثلاًرکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلٰی وغیرہ پڑھ کر اور اسکے بعد بیشک اپنی زبان میں دعا کی جائے۔ ‘‘ نیز فرمایا کہ ’’ رکوع وسجدہ کی حالت میں قرآنی دعا نہ کی جائے کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ تذلل کی حالت ہے۔ اس لئے کلام الٰہی کا احترام کرنا چاہئے۔ ‘‘

 

(1244)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے گاؤں کا قاضی فوت ہوگیا اور ا سکے دو چھوٹے بچے اور لڑکی اور اسکی بیوی پیچھے رہ گئی۔ میں اس کیلئے قضا کاکام کرتا رہا اور جو آمدنی گاؤں سے ملانوں کو ہوتی ہے اسکو دیتا رہا۔ چنانچہ میںنے اور میری بیوی نے اس کی لڑکی کو قرآن شریف اور کچھ دینی کتابیں بھی پڑھائیں ۔ جب لڑکے بڑے ہوئے تو ایک دفعہ عید کے دن جب ہم عید کے واسطے مسجد میں گئے اور میں نماز پڑھانے کے واسطے کھڑا ہوا تو اس لڑکے نے کہا کہ میں آج عید کی نماز پڑھاؤں گا۔ میںنے اس کو کہا کہ ہماری نما زتمہارے پیچھے نہیں ہوتی ۔ تُو ہمیشہ پیچھے پڑھتا رہا ہے۔ آج تو کیوں پڑھائے گا ؟ اسکے ساتھیوں نے اسکو کہا کہ تمہاری قضاء لے لے گا۔ اس پر اس ملا نے کے بچے نے زور دیا کہ آج میں ہی نماز پڑھاؤںگا۔ اس بات پر ہماری جماعت کے ایک لڑکے نے جس کا نام شیر محمد تھا اس کو ایک مکا مارا۔ میںنے اس کو منع کیااور سب کو ساتھ لے کر اپنی جگہ حویلی میںنماز اد اکی اور جب میں جمعہ پڑھنے کیلئے اپنی عادت کے مطابق قادیان شریف آیا تو دیکھا کہ میاں عبد الرحیم حجام مسجد میں کھڑا ہے۔ میںنے پوچھا کہ اس جگہ کیوں کھڑے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ حضور علیہ السلام کو مہندی لگانی ہے اور اندر اجازت کیلئے کہلا بھیجا ہے ۔ میںنے یہی موقعہ پایااور وہاں کھڑا ہوگیا۔ جب اجازت ہوئی تو میں بھی اندر چلا گیا ۔ حضور علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ مصافحہ کیااور پاس بیٹھ گیا۔ میںنے وہ سارا قصہ عید والا سنایا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’صبر کرو۔ یہ سب مسجدیں تمہاری ہی ہوجاویں گی۔‘‘ ا سکے علاوہ اور بہت باتیں ہوتی رہیں جو یا دنہیں رہیں ۔ چنانچہ اب وہ مسجد اللہ کے فضل وکرم سے احمدیوں کے پاس ہے ۔

 

(1245)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سید محمدعلی شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں لاہور میں محکمہ جنگلات میں ملازم تھا۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ومرزاغلام احمد صاحب اور ان کے بڑے بھائی میرے پاس آکر ٹھہرے۔ اُن دنوں میں انکا ایک مقدمہ چیف کورٹ پنجاب میں درپیش ہونا تھا۔ وہ مقدمہ حضرت مسیح موعود ؑ کے والد صاحب کی طرف سےاپنی کھوئی ہوئی جائیداد لینے کی اپیل تھی۔ اس میں بہت سا روپیہ خرچ ہوچکا تھا۔ مقدمے کی پیروی کے بعد حضور ؑ کے والد صاحب اور بڑے بھائی واپس تشریف لے گئے اور مرز ا غلام احمد صاحب کو عدالت سے حکم سننے کیلئے چھوڑ گئے ۔ میرے ایک دوست ملک بسو صاحب رئیس لاہور تھے۔ (جو خاکسار ملک غلام محمد کے والد صاحب تھے) ان کی گاڑی آجایا کرتی تھی اور حضرت صاحب کو چیف کورٹ میں لے جاتی تھی اور پھر چار بجے ان کو واپس لے آتی تھی۔ ایک روز ایک یادو بجے کے قریب حضرت صاحب ؑ پیدل تشریف لارہے تھے۔ میںنے دور سے دیکھا تو ان کا چہرہ نہایت بشاش تھااور بڑے خوش خوش آرہے تھے۔ میںنے دریافت کیا کہ آپ جلدی آگئے ہیں اور گاڑی کا انتظار نہیں کیا ۔ بڑی خوشی سے فرمانے لگے ’’آج حکم سنایا گیا ہے اس واسطے جلدی آگیا ہوں ۔ گاڑی کا انتظار نہیں کیا۔ ‘‘ میںنے کہا بہت خوش ہیں مقدمہ جیت لیا ہوگا اور میںنے ان کے چہرہ سے دیکھ کر بھی یہی محسوس کیا کہ مقدمہ جیت لیا ہوگا لیکن حضرت صاحب علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’وہی بات پوری ہوئی جو میرے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پہلے فرمائی ہوئی تھی یعنی ’’مقدمہ ہارا گیا‘‘ اور میرے مولیٰ کی بات پوری ہوئی۔ یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور میںنے دل میں کہا کہ باپ کا تو بیڑا غرق ہوگیا ہے اور یہ خوش ہورہے ہیں ۔

 

(1246)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عرب غالباً اسکا نام محمد سعید تھا، قادیان میں دیر تک رہا تھا۔ ایک روز حضور علیہ السلام بعد نماز مسجد مبارک میں حاضرین مسجد میں بیٹھے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر مبارک فرمارہے تھے کہ اس عرب کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غریب تھے۔‘‘ پس عرب کا یہ کہنا ہی تھا کہ حضور علیہ السلام کو اس قدر رنج ہوا کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور محمد سعید عرب پر وہ جھاڑ ڈالی کہ وہ متحیر اور مبہوت ہوکر خاموش ہوگیا اور اسکے چہرہ کا رنگ فق ہوگیا ۔ فرمایا کہ ’’کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھا جس نے ایک رومی شاہی ایلچی کو اُحد پہاڑ پر سارا کاسارا مال مویشی عطا کردیا تھا وغیرہ ۔ اس کو مال دنیا سے لگاؤ اور محبت نہ تھی۔ ‘‘

 

(1247)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضورعلیہ السلام سیر کے واسطے باہر تشریف لے گئے اور میں بھی ساتھ تھا۔ جب واپس تشریف لائے اور اندر گھر میں داخل ہونے لگے تو میںنے جھٹ آگے ہوکر عرض کی کہ ’’پہلے بزرگ، اگر کسی کو کچھ تکلیف ہوتی تھی تو ا س پر وہ بزرگ اپنے منہ کی لب لگا دیا کرتے تھے اور اسکو شفا ہوجاتی تھی۔ حضور علیہ السلام میری آنکھوں پر ہمیشہ پھنسیاں نکلتی رہتی ہیں۔ اس پر حضور علیہ السلام مسکرا پڑے اور کچھ پڑھ کر میری آنکھوں پر دَم کردیا۔ آج تک قریبا ً پینتیس برس ہوگئے ہیں میری آنکھوں میں کبھی پھنسی نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی دکھنے میں نہیں آئیں ۔ الحمد للہ

 

(1248)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک بابا میراں بخش ہوتا تھا جو سید محمد علی شاہ صاحب کا نائی تھا اور بوڑھا آدمی تھا۔ اس سے بھی میں حضرت صاحب ؑ کی نسبت دریافت کیا کرتا تھا۔ اس نے ہمیشہ یہی ظاہر کیا کہ آپ بچپن سے نیک اور شریف تھے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ حضور ؑ بچپن میں اپنے ہم جھولیوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ریوڑیاں آپ کو مرغوب تھیں جو آپ اپنے ہم جھولیوں میں بانٹ کر کھایا کرتے تھے ۔

 

(1249)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دعا کے متعلق کچھ سوال ہوا ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’دعاہی مومن کا ہتھیار ہے ۔ دعا کو ہر گز چھوڑنا نہیں چاہئےبلکہ دعا سے تھکنا نہیں چاہئے۔ لوگوں کی عادت ہے کہ کچھ دن دعا کرتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ دعا کی مثال حضور علیہ السلام نے کوئیں کی دی کہ انسان کنواں کھودتا ہے جب پانی قریب پہنچتا ہے تو تھک کر ناامید ہوکر چھوڑ دیتا ہے ۔ اگر وہ ایک دو بالشت اور کھودتا تو نیچے سے پانی نکل آتا اور اسکا مقصود حاصل ہوجاتا اور کامیاب ہوجاتا۔ اسی طرح دعا کا کام ہے کہ انسان کچھ دن دعا کرتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے اور ناکام رہتا ہے ۔

 

(1250)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دکان میں فخر الدین ملتانی بیٹھتا تھااور ا سکے جانب شرق میں مولوی کرم الٰہی بزاز کھاروی بیٹھتا ہے اور درمیان میں دروازہ آمدورفت چھوڑ کر جانب شرق متصل میں وہ دکان جس میں عبد الرحیم فالودہ والا بیٹھتا ہے یہ کل جگہ ویران اور منہدم پڑی تھی۔ مرزا نظام الدین وغیرہ ہر موقعہ پر اپنا تسلط جمانا چاہتے تھے۔ یہاں بھی یہی خیال ان کو تھا ۔ ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ا س جگہ پر ایک دن میں مکان تیار کیا جائے ۔ ‘‘ چنانچہ مرزا خد ابخش صاحب نے مجھے کہا کہ اپنے گاؤں سیکھواں سے کچھ آدمی فوراً لاؤ۔ چنانچہ دس بارہ آدمی سیکھواں سے قادیان پہنچ گئے اور مکان تیار ہونا شروع ہوگیا ۔ چونکہ حضرت صاحب شامل تھے اس لئے تمام لوگ جماعت کے (اس وقت ابھی جماعت برائے نام ہی تھی) کام میں مشغول تھے۔ حتیٰ کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بھی میںنے دیکھا کہ اینٹیں اٹھا اٹھا کر معماروں کو دیتے تھے۔ ایک ہی دن میں مکان تیار ہوگیا۔ مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ اس نظارہ کو دیکھتے تھے لیکن طاقت نہ تھی کہ کسی کو آکر روک سکیں۔ شام کے بعد مسجد مبارک میں حضرت صاحب کے حضور مرز ا خد ابخش صاحب نے واقعات پیش کئے اور کامیابی کا اظہار کیا گیا۔ اور سیکھواں سے آدمی پہنچنے کا ذکر کیا گیا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)