اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-30

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1227)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے اور بھائی فضل محمد صاحب ساکن ہرسیاں (جو مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ کے والد ہیں) نے مشورہ کیا کہ قادیان میں دوکان تجارت کھولیںاور حضور علیہ السلام سے مشورہ کرنے کیلئے قادیان آئے۔ حضور علیہ السلام غالباً نما زظہر پڑھ کر اندر تشریف لے جارہے تھے کہ ہم نے سوال کردیا اور اپنی تجویز پیش کردی۔ حضور علیہ السلام اس صحن میں کھڑے ہوگئے جو مسجد مبارک کی اندرونی سیڑھیوں سے مسجد کو آویں تو ایک سیڑھی ابھی باقی رہتی تھی کہ ایک دروازہ اندر جانے کو کھلتا تھا اور آگے چھوٹا ساصحن جسے عبور کر کے حضور اندر گھر میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں صحن میں ایک چوبی سیڑھی لگی ہوئی تھی اس کے اوپر کے مکان میں حضرت خلیفہ اولؓ رہا کرتے تھے۔ اس وقت حضرت خلیفہ اولؓبھی اس چوبی سیڑھی پر چڑھ کر اوپر مکان کو جارہے تھے۔ حضور علیہ السلام نے ان کو بھی بلالیا اور فرمایا کہ ’’ میاں خیر الدین وغیرہ یہاں دوکان کھولنا چاہتے ہیں۔ کیا اعتبار ہے کہ دوکان میں خسارہ ہو یا نفع ہو؟ اچھا اگر خسارہ پڑے گا تو دوکان چھوڑ دیں گے۔ یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے ۔ بعد ش ہم نے مشورہ کیا کہ ہم کو امید نہیں ہے کہ منافع ہو۔ بہتر ہے کہ دوکان کھولنے کا ارادہ ترک کردیں ۔ چنانچہ ہم واپس اپنے گھروں کو چلے گئے ۔

(1228)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم ساکن گاگرن کشمیر نے کہ جب میں1897-98ء میں قادیان گیا۔ تو حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد میں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے کشمیر واپس آنے کی اجازت مانگی ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’یہاں ہی ٹھہرو اور قرآن شریف پڑھو۔‘‘ پھر میںکچھ عرصہ اور ٹھہرا۔ اسکے بعد پھر میں نے حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ کے ذریعہ درخواست کی کہ میرے دو لڑکے سری نگر میں مشرکوں کے پاس ہیں اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان کا کچھ بندوبست کروں ۔ چنانچہ مجھے اجازت دی گئی اور پھر تم دونوں بھائیوں کو (عبد القادر وعبد الرحمن) قادیان لے آیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک

(1229)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد صاحب پہلے حنفی تھے پھر اہل حدیث ہوئے اس وقت وہ اپنے دوست مولوی محمد حسن صاحب مرحوم ساکن آسنور (والد مولوی عبد الواحد صاحب )کو کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ اب بڑے موحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کوئی ایسی جماعت اور نکل آئے جو ہم کو بھی مشرک گردانے۔ والد صاحب فرماتے چنانچہ ایسا ہی ہوا کیونکہ ہم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مُردوں (کو زندہ کرنے والے) اور پرندوں کا خالق مانتے ہیں۔ لیکن جب میرے کانوں نے یہ شعر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا سنا

ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا
اس خدا دانی پہ تیرے مرحبا
مولوی صاحب! یہی توحید ہے
سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے ؟

اس وقت مجھے ہوش آیا اور میںنے تم دونوں بھائیوں کو سری نگر اپنے ماموں کے پاس چھوڑا اورقادیان پیدل چلا گیا۔ اور وہاں بیعت سے مشرف ہوا۔ فالحمد للہ ثم الحمد للہ علی ذالک

(1230) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان پہنچا۔ حضور ؑ گھر میں معہ احباب مہمانان کھانا کھانے کیلئے تیار تھے کہ میں بھی گھر میں داخل ہوا ۔ میرے لئے بھی کھانا آگیا ۔جب کھانا رکھا گیا تو رکابی پلاؤ کی زائد از حصہ رسدی حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر میرے آگے رکھ دی ۔ تمام حاضرین میری طرف دیکھنے لگ گئے ۔ میں حضور علیہ السلام کی شفقت بھری نگاہوں سے خدا تعالیٰ کا شکریہ کرتے ہوئے کہتا ہوں ۔ الحمد للہ علیٰ ذالک ۔

(1231) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں پادری مارٹن کلارک امرتسر نے حضور ؑ کے خلاف اقدام قتل کا استغاثہ کیا، اول عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر امرتسر سے حضور ؑ کے خلاف ورانٹ جاری ہوکر گورداسپور پہنچا لیکن جلد ہی واپس ہوگیا ۔ چوہدری رستم علی صاحبؓ ان دنوں گورداسپور میں بعہدہ کورٹ انسپکٹر مقرر تھے ۔ انہوںنے منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی (پٹواری سیکھوانی) کو اطلاع دی۔ وہ فوراً سیکھواں آئے۔ میں بھی سیکھواں سے شامل ہوا۔ قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں اطلاع کی گئی ۔ حضور علیہ السلام نے اندر ہی بلا لیا۔ حاضر خدمت ہوکر خط چوہدری رستم علی صاحب مرحوم والا پیش کردیا۔ خط پڑھ کر فرمایا (قریب ہی ایک دریچہ تھا جس کے آگے بیٹھ کر حضور علیہ السلام تحریر کاکام کیا کرتے تھے)اس دریچہ کے باہر سے خواب یا کشف میں معلوم ہوا کہ بجلی آئی ہے لیکن واپس ہوگئی (چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وارنٹ امرتسر سے جاری ہوا پھر حکام کو غلطی خود معلوم ہوگئی اور واپس کرایا گیا) پھر دوبارہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں منتقل ہوگیا اور خد انے عزت کے ساتھ بری کیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

(1232) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آپ (حضرت صاحب ) نماز عموماً دوسرے کی اقتدا میں پڑھتے تھے۔ میںنے اس قدر طویل عرصہ میں دو دفعہ حضور علیہ السلام کی اقتدا میں نما زپڑھی ہے۔
(1)قبل دعویٰ مسجد اقصیٰ میں شام کی نماز۔ ایک رکعت میں سورۃ وَالتِّین پڑھی تھی لیکن بہت دھیمی آواز میں جو مقتدی بہ مشکل سن سکے۔
(2)دوسری دفعہ مولوی کرم الدین والے مقدمات میں گورداسپور کو جاتے ہوئے بڑی نہر پر ظہر کی نماز حضور علیہ السلام کی اقتدا میں پڑھی تھی ۔

(1233) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران مقدمات مولوی کرم الدین ،مَیں بعض کاموں کی وجہ سے سولہ سترہ روز کے بعد جب قادیان پہنچا ، حضور علیہ السلام دریچہ بیت الفکر سے جو مسجد مبارک میں کھلتا تھا تشریف لائے اور دیکھتے ہی مجھ کو فرمایا کہ ’’بڑی دیر کے بعد آئے۔‘‘ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضورؑ کو اپنے خدام کو جلد یا بدیر آمدورفت کے متعلق خیال رہتا تھا۔

(1234) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ؑ نے ایک جلسہ کیااور اس کانام ’’جلسۃ الدعا‘‘ رکھا (یہ جلسہ عید گاہ قدیمی متصل قبرستان غربی جانب از قادیان کیا تھا) جلسہ مذکورہ میں حضور ؑ نے تقریر فرمائی کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ یاجوج ماجوج کی جنگ ہوگی اوریاجوج ماجوج روس اور انگریز (برطانیہ) دونوں قومیں ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ جب یہ جنگ ہوگی اس وقت ہم زندہ ہوں گے یا نہیں ؟ اس لئے میں آج ہی دعا کر چھوڑتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس وقت انگریزقوم کو فتح دے ۔ آمین ۔

(1235) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سیاسی شورش کے متعلق فرمایا کہ ’’ایک وقت آئے گا۔ سوائے قادیان کے کہیں امن نہ ہوگا۔‘‘

(1236) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب پہلی دفعہ میں (بادل ناخواستہ ) بیعت کرکے واپس گھر گیا تو میرے دل میں یہی خیال آتا تھا کہ قادیان شریف کو لوگ بڑا بُرا کہتے ہیں اور میں نے تو وہاں اس جگہ سوائے قرآن شریف اور دینی باتوں کے اور کچھ نہیں سنا۔ سب لوگ رات دن یاد الٰہی میں مشغول ہیں ۔ بس میں نے اس خیال کو مد نظر رکھ کر نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کرنی شروع کی کہ اے میرے پید اکرنے والے ربّ ! میرے محسن! میں تیر ا بندہ ہوں ،گنہگار ہوں ،بے علم ہوں ۔ میں نہیں جانتا کہ تیری رضا کے مطابق کون چلتا ہے ؟ اس وقت دنیا میں کسی فرقے میں مجھے نہیں معلوم کہ کون فرقہ راستی پر ہے ؟ پس اے میرے پید اکرنے والے ! میں اس وقت اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں کہ تو مجھے اس راہ پر چلا جس پر تو راضی ہو تا کہ قیامت کے دن مجھے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ۔ اے میرے مولا! جب تو مجھے قیامت کو پوچھے گا تو میں اس وقت بھی یہی عرض کروں گا کہ میرے پیارے اللہ ! میں بے علم تھا اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حضور رکھ دیا تھا اور بار بار یہی عرض کرتا تھا کہ اے میرے پیارے ! مجھے صحیح رستہ بتااور اس پر مجھے چلنے کی توفیق بخش۔ کئی دن کے بعد بٹالہ میں سودا بزازی وغیرہ خریدنے کیلئے گیا تو میں پہلے اُس دوست محمد اکبر صاحب کے پاس ملاقات کیلئے چلا گیا تو وہا ں بھی یہی باتیں شروع ہوگئیں ۔ انہوں نے ذکر کیا کہ کل ایک سیٹھ صاحب مدراس سے تشریف لائے ہیں اور قادیان شریف گئے ہیں ۔ چنانچہ ایسی ایسی باتوں پر میرے دل میں ایسا جوش پیدا ہوا کہ میںنے اس دوست یعنی محمد اکبر صاحب کو کہا کہ اس روز آپ نے میر ا ہاتھ پکڑ کر بیعت والوں میں شامل ہونے کیلئے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا اور میرا دل نہیں چاہتا تھا ۔ آج مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں جوش پید اہوا ہے اور اب میں اسی جگہ سے قادیان شریف جاتا ہوں اور سچے دل سے توبہ کرکے بیعت میں داخل ہوتا ہوں۔ اس پر میرے اس دوست نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میرے ہمراہ قادیان پہنچے اور جب میں بیعت کر کے گھر میں پہنچا تو میری بیوی نے پوچھا کہ آپ سودا لینے گئے تھے اور اب خالی آرہے ہیں تو میرے دل میں وہی خیال گذرا کہ شاید ناراض نہ ہوجاویں ۔ مگر میںنے اس کو سچ سچ کہہ دیا کہ میں قادیان شریف جاکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کر آیا ہوں ۔اس پر انہوںنے کچھ نہ کہا۔

(1237) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد ملک بسو صاحب کے ایک دوست سید محمد علی شاہ صاحب قادیان کے رہنے والے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہم جولی اور بچپن کے دوست تھے۔ ان کی بھتیجی کا رشتہ ان کے بھانجے شاہ چراغ کے ساتھ ہوا اور اس کی شادی پر میں قادیان گیا تھا ۔ اس وقت میری عمر تقریباً اٹھارہ سال کی تھی ۔ شاہ صاحب نے مجھ کو قریباً ایک ہفتہ وہاں رکھا۔ اُن دنوں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح اولؓ مسجد اقصیٰ میں عصر کے بعد قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ شاہ صاحب کے حسب ہدایت میں درس سننے جایا کرتا تھا۔ ان دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صبح کے وقت سیر کو جایا کرتے تھے ۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ بہت سے آدمیوں کا ایک ہجوم بھی ہو اکرتا تھا ۔ میں بھی حضور علیہ السلام کے ساتھ سیر کو کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔ مسجد مبارک ان دنوں چھوٹی سی ہوا کرتی تھی اور حضور ؑ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں شہ نشین پر بیٹھا کرتے تھے اور اکثر مذہبی باتیں اور دینی مسائل کے متعلق گفتگو ہوا کرتی تھی۔ سیر میں بھی حضور علیہ السلام چلتے چلتے تقریر فرمایا کرتے تھے۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)

…٭…٭…٭…