اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-23

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1214)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے ایک شخص کے بار بار بہ تکرار سوال پر استغفار اور لاحول گیارہ گیارہ دفعہ پڑھنے کا بطور وظیفہ فرمایا تھا (سائل کا سوال تعداد معینہ کا تھا)مجھے ٹھیک یاد نہیں رہا۔ شاید درود شریف بھی گیارہ دفعہ پڑھنے کا ساتھ ہی فرمایا تھا۔

 

(1215)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے میاں فقیر خان صاحب مرحوم ساکن اندور کشمیر (ملازم حضرت راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم جاگیرداریاڑی پورہ کشمیر) نے ،راجہ صاحب موصوف کی بینائی بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی،جب وہ قادیان گئے تو جب کبھی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے باغ میں بیدانہ کے ایام میں جاتے تو حضور علیہ السلام راجہ صاحب موصوف کے آگے خود اچھے اچھے دانے بیدانہ یا شہتوت میں سے چن کر رکھتے۔ راقم عاجزعرض کرتا ہے کہ راجہ صاحب موصوف مہمان خانہ میں رہتے تھے اور حضور علیہ السلام مہمان خانہ آکر راجہ صاحب کو بھی سیر میں شریک فرماتے تھے۔

 

(1216)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا ’’لڑکے کے عقیقہ کیلئے دوبکرے قربان کرنے چاہئیں‘‘ میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے ؟ حضور نے جواب نہ دیا۔ میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا کہ اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے ۔ ایک بکرا کے جواز کا فتوی ٰ نہ دیا ۔ میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کر کے بھی عقیقہ کر سکیں۔

 

(1217)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیمار مہمانوں کی بعض اوقات عیادت فرماتے تھے ۔ راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم کی بھی مہمان خانہ میں آکر عیادت فرماتے تھے۔ ایک دفعہ میاں ضیاء الدین صاحب مرحوم طالب علم تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بورڈنگ میں عیادت فرمائی تھی۔

 

(1218)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑ بمعہ اصحاب اس راستہ کی طرف جو یکوں ٹمٹموں کا راستہ متصل محلہ خاکر وبان بٹالہ کو جاتا ہے ،سیر کو تشریف لے گئے ۔ واپسی پر راستہ کے ایک طرف درخت کیکر کسی کا گرا ہوا تھا ۔ بعض دوستوں نے اس کی خورد شاخیں کاٹ کر مسواکیں بنالیں۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ اس وقت حضرت خلیفہ ثانی بھی تھے (اس وقت دس بارہ سال عمر تھی) ایک مسواک کسی بھائی نے ان کو دے دی اور انہوںنے بوجہ بچپن کی بےتکلفی کے ایک دفعہ کہا کہ ابا تسیں مسواک لے لو۔ حضور علیہ السلام نے جواب نہ دیا۔ پھر دوبارہ یہی کہا۔ حضور علیہ السلام نے پھرجواب نہ دیا ۔ سہ بارہ پھر کہا کہ ابا مسواک لے لو ۔ تو حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’پہلے یہ بتاؤ کہ مسواکیں کس کی اجازت سے لی گئی ہیں ؟ اس فرمان کو سنتے ہی سب نے مسواکیں زمین پر پھینک دیں۔

(1219)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم ومغفور ساکن گاگرن کشمیر نے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی نے دریافت کیا ۔ حضور ! درود شریف کس قدر پڑھنا چاہئے ؟ حضور نے فرمایا ۔’’ تب تک پڑھنا چاہئے کہ زبان تر ہوجائے۔‘‘

 

(1220)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ قیام مقبرہ بہشتی سے پہلے فوت ہوئے اور اس قبرستان میں جو شہیدوں کے تکیہ کے قریب جانب شرق قادیان قدیم واقعہ ہے بطور امانت حسب الارشاد حضرت اقدس مدفون ہوئے تھے۔ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اس طرف سیر کو تشریف لے گئے ۔ واپسی پر مولوی صاحب موصوف کی قبر پرکھڑے ہوکر معہ اصحاب ہمراہیان ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ۔

 

(1221)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار راقم عرض کرتا ہے کہ میاں عبد الکریم صاحب مرحوم حیدر آبادی کو میرے روبرو دیوانہ کتے نے بورڈنگ ہائی سکول (جو اس وقت اندرون شہر تھا اور جواب مدرسہ احمدیہ کا بورڈنگ ہے ) کے صحن میں بوقت دن کاٹا تھا۔ میرے سامنے ہی اسے کسولی بھیجا گیاتھا۔ وہاں سے علاج کرا کے جب مرحوم واپس قادیان آیا۔ تو چند روز کے بعد اسے ہلکاؤ ہوگیا۔ اس پر حضرت مولوی شیر علی صاحب نے کسولی کے افسران کو تار دیا کہ عبد الکریم کو ہلکاؤ ہوگیا ہے۔ کیا علاج کیا جائے ؟ انہوںنے جواب دیا

Sorry`nothing can be done for Abdul Karim

افسوس! عبد الکریم کیلئے اب کچھ نہیںہوسکتا۔ تب عبد الکریم کو سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان کے ایک مکان میں علیحدہ رکھا گیا۔ اور مکرم معظم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور خاکسار ا سکے پاس پہرہ کیلئے اپنی مرضی سے لگائے گئے۔ ہم دونوں بھی اسکے پاس جانے سے ڈرتے تھے ۔ بہر حال سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام نے نہایت الحاح سے عبد الکریم کیلئے دعائیں کیں ۔ ڈاکٹروں کو حکم دیا کہ عبد الکریم کو ہر گز زہر دے کر نہ مارا جائے ۔ اسے بادام روغن بھی استعمال کراتے رہے ۔ سو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح پاک کی دعاؤں کی برکت سے اسے شفاء دی۔

 

(1222)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میںنے حضور علیہ السلام کی خدمت میں بعض اپنی کمزوریوں کا ذکر کیا اور عرض کی کہ بعض وقت طبیعت کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ گویا طبیعت میں نفاق آگیا ہے ۔ حضور ؑ نے زور دار الفاظ کے لہجہ میں فرمایا کہ ’’نہیں نہیں کچھ نہیں۔ چالیس سال تک تو نیکی اور بدی کا اعتبار ہی نہیں۔‘‘ پھر میں نے عرض کہ مجھے پے درپے دو خوابیں دہشت ناک آئی ہیں۔ فرمایا سناؤ۔ میںنے عرض کی کہ’’ خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک خنزیر پر سوار ہوں اور وہ نیچے سے بہت تیز بھاگتا ہے مگر میں اسکے اوپر سے گرا نہیں ہوں۔ اسی اثناء میں ایک بچہ خنزیر مری گردن سے پیچھے کی طرف سے چمٹتا ہے ۔ میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ اس کو گردن سے نیچے گرادوں مگر وہ جبراً میری گردن سے چمٹتا ہے اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی۔
دوسری خواب یہ ہے کہ ایک نامعلوم سا آدمی میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ میں اور یہ دونوں نصرانی ہیں۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ دونوں خوابیں اچھی ہیں۔ چنانچہ خواب اول کے متعلق فرمایا کہ تم کسی عیسائی پر فتح یاب ہوگے ۔ مگر بچہ خنزیر کے متعلق کوئی تعبیر نہ فرمائی ۔ اور دوسری خواب کے متعلق فرمایا (اور ایک کتاب علم تعبیر کی بھی سامنے رکھ لی تھی) کہ ایسی خواب کا دیکھنے والا اگر اہلیت رکھتا ہوتو بادشاہ ہوجاوے گا۔ کیونکہ نصرانی نصرت سے نکلا ہے یعنی نصرت یافتہ۔ اور نصاریٰ نصرانی آج دنیا کے بادشاہ ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بادشاہی کی اہلیت نہیں رکھتا تو بڑا متمو ّل ہوجاوے گا۔ اسکے چند روز بعد مجھے بمقام ڈہری والہ داروغہ برائے تصدیق انتقال اراضی زر خرید واقعہ سیکھواں کیلئے جانا پڑا۔ بر مکان چوہدری سلطان ملک صا حب سفید پوش( اب ذیلدار ہیں) ایک عیسائی نبی بخش کے نام کے ساتھ میری مذہبی گفتگو چھڑ گئی ۔ آخر وہ عیسائی مغلوب ہوکر تیزی میں آگیا۔ دفعیہ کے طور پر میں نے بھی اس پر تیزی کی ۔ اس میں بھی وہ مغلوب ہوگیا ا س مجلس میں ایک شخص سوچیت سنگھ نام ساکن چھینا تحصیل گورداسپور جو سکھ مذہب کو ترک کر کے آریہ مذہب اختیار کرچکا تھا، موجو دتھا۔ وہ اس عیسائی کا حامی بن گیااور مجھ پر تیزی کرنے لگا۔ تااس عیسائی کو مشتعل کرے مگر وہ عیسائی بالکل خاموش رہا۔ میںنے اس سکھ آریہ کو کہا کہ میںنے اس کو دفعیہ کے طور پر کہا ہے ۔ ابتداء میںنے نہیں کی مگر وہ سکھ آریہ اشتعال دہی سے باز نہ آیا حتیّٰ کہ اس کو استغاثہ فوجداری عدالت میں دائر کرنے کا اشتعال دلانے سے بھی باز نہ آیا مگر وہ عیسائی باوجود اس سکھ آریہ کے بھڑکانے کے خاموش رہا۔ تب مجھ کو بچہ خنزیر یاد آگیا جو میری گردن سے چمٹتا تھا ۔ احادیث نبویہ میں مسیح موعودعلیہ السلام کے فعل یقتل الخنزیر کی تصدیق بھی ہوگئی ۔

 

(1223)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پسند نہیں فرماتے تھے کہ احمدی طلباء عیسائی کالجوں میں داخل ہوں ۔ جب خاکسار اور شیح عبد العلی صاحب بھیروی حال ای اے سی تعلیم الاسلام ہائی سکول سے انٹرنس میں بفضل خدا پاس ہوئے اس وقت عبد العلی موصوف نے مجھے یہ بات لاہور میں بتائی کہ حضرت صاحب کرسچن کالج لاہور میں احمدی طلباء کا داخلہ پسند نہیں فرماتے۔ چنانچہ عبد العلی صاحب نے کسی کانام بھی بتایاتھا کہ اسے حضور علیہ السلام نے کرسچن کالج لاہور میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ( غالباً فقیر اللہ خان صاحب انسپکٹر کا نام یا اپنا ہی ؟) خاکسار کو بھی حضورنے اسلامیہ کالج لاہور ہی میں داخل ہونے کی اجازت دی ۔ چنانچہ میں وہاں داخل ہوگیا تھا ۔ بعد میں علی گڑھ کالج چلا گیا۔

 

(1224)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے وقت ایک دفعہ قادیان کا لنگر خانہ گورداسپور منتقل کیا گیا تھا یعنی قادیان میں لنگر خانہ بند کیا گیا اور گورداسپور میں لگایا گیا۔ وہ ایام کرم دین کے مقدمہ کے تھے ۔ جبکہ مجسٹریٹ عمداً نزدیک نزدیک تاریخیں رکھتا تھا تاکہ حضرت صاحب علیہ السلام کو تکلیف ہو ۔ ہم چند طلباء گورداسپور چلے گئے تھے۔

 

(1225)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ لوگ حضور علیہ السلام کے حج کے متعلق اعتراض کرتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال کو خانہ کعبہ کاطواف کرتے دیکھا ہے۔ ہم تو دجال کے پیچھے پڑے ہیں اس کو ساتھ لے کر حج کریں گے۔
نوٹ:پہلے علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ دجال کا طواف کعبہ ایسا ہے جیسے چور (سارق) کسی مکان میں نقب زنی کیلئے گشت کر لے اور مسیح موعودعلیہ السلام کا طواف جیسے کوتوال چوروں کے تعاقب میں گشت کرتا ہے ۔

 

(1226)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں شمس الدین صاحب (غیر احمدی) سابق سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور نے کہ دعویٰ سے پہلے ہم چند شرفاء لاہور سے قادیان اس غرض سے جاتے تھے کہ سیاسی امور میں حضور علیہ السلام ہماری راہنمائی فرماویں۔ لیکن حضور علیہ السلام نے اس وقت کی حکومت کے خلاف ہم کو کبھی بھی کچھ بات نہ کہی ۔ پس ہم نے پھر قادیان جانا ہی چھوڑ دیا۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)