اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-16

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1206)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔(خاکسار عرض کرتا ہے کہ)حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے سارے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہو اتھا۔ پھر جب وہ مکان بنا جس میں بعد میں میاں شریف رہتے رہے ہیں اور جس میں آج کل ام طاہر احمد رہتی ہیں تو چونکہ اس کاایک حصہ گلی کی طرف سے نمایاں طور پر نظر آتا تھا اس لئے آپ نے اسکے اس حصہ پر بیت البرکات کے الفاظ لکھوا دئیے جس سے بعض لوگوںنے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ شاید یہ نام اسی حصہ کا ہے حالانکہ حضرت صاحب نے اپنے سارے مکان کانام بیت البرکات رکھا ہو اتھا۔ علاوہ ازیںحضرت صاحب نے اپنے مکان کے بعض حصوں کے مخصوص نام بھی رکھے ہوئے تھے مثلاً مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ کا نام بیت الفکر رکھا تھا بلکہ دراصل اس نام میں اس کے ساتھ والا دالان بھی شامل تھا۔ اسی طرح نچلی منزل کے ایک کمرہ کانام جو اس وقت ڈیوڑھی کے ساتھ ہے، بیت النور رکھا تھا اور تیسری منزل کے اس دالان کانام جس میں ایک زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب رہتے رہے ہیں اور اس وقت ام وسیم احمد رہتی ہیں بیت السلام رکھا تھا۔ نیز حضرت والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے سنا ہو اہے کہ جس چوبارہ میں اس وقت مائی کاکو رہتی ہے جو مرز اسلطان احمد صاحب والے مکان کے متصل ہے اور میرے موجودہ باورچی خانہ کے ساتھ ہے اس میں حضرت صاحب نے وہ لمبے روزے رکھے تھے جن کا حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور یہی وہ کمرہ ہے جس میں حضرت صاحب نے براہین احمدیہ تصنیف کی تھی۔

 

(1207)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کا بچہ مبارک احمد فوت ہوا تو اس وقت میں اور مولوی محمد علی صاحب مسجد مبارک کے ساتھ والے کوٹھے پر کھڑے تھے۔ اس وقت اندرون خانہ سے آواز آئی جو دادی کی معلوم ہوتی تھی کہ ’’ہائے او میریا بچیا‘‘ حضرت صاحب نے دادی کو سختی کے ساتھ کہا کہ دیکھو وہ تمہارا بچہ نہیں تھا۔ وہ خدا کا مال تھا جسے وہ لے گیا اور فرمایا یہ نظام الدین کا گھر نہیں ہے ۔ منشی صاحب کہتے ہیں کہ انہی دنوں نظام الدین کا ایک لڑکا فوت ہوا تھا جس پر ان کے گھر میں دنیا داروں کے طریق پر بہت رونا دھونا ہو اتھا۔ سو حضرت صاحب نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ میرے گھر میں یہ بات نہیں ہونی چاہئے۔ اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ کام بہت خراب ہوگیا ہے کیونکہ اس لڑکے کے متعلق حضرت صاحب کی بہت پیشگوئیاں تھیں اور اب لوگ ہمیں دم نہیں لینے دینگے اور حضرت صاحب کو تو کسی نے پوچھنا نہیں،لوگوں کاہمارے ساتھ واسطہ پڑنا ہے ۔ مولوی صاحب یہ بات کر ہی رہے تھے کہ نیچے مسجد کی طرف سے بلند آواز آئی جو نہ معلوم کس کی تھی کہ تریاق ا لقلوب کا صفحہ چالیس نکال کرد یکھو۔ مولوی صاحب یہ آواز سن کر گئے اور تریاق القلوب کا نسخہ لے آئے۔ دیکھا تو ا س کے چالیسویں صفحہ پر حضرت صاحب نے مبارک احمد کے متعلق لکھا ہو اتھا کہ اس کے متعلق مجھے جوالہام ہوا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ یا تویہ لڑکا بہت نیک اور دین میں ترقی کرنے والا ہوگا اور یا بچپن میں فوت ہوجائے گا۔ مولوی صاحب نے کہا خیر اب ہاتھ ڈالنے کی گنجائش نکل آئی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادی سے مراد میاں شادی خاں صاحب مرحوم کی والدہ ہے جومبارک احمد کی کھلاوی تھی اور مبارک احمد اسے دادی کہا کرتا تھا۔ اس پر اس کانام ہی دادی مشہور ہوگیا۔ بیچاری بہت مخلص اور خدمت گزار تھی۔ نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ مبارک احمد 1907ء میں فوت ہوا تھا جب کہ اسکی عمر کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی۔

 

(1208)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو آپ نے اسی دوران میں لاہور سے خط لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو ایک دن کیلئے لاہور بلایا اور ان کے ساتھ میں بھی لاہور چلا گیا ۔ جب مولوی صاحب حضرت صاحب کو ملنے گئے تو حضور انہیں اس برآمدہ میں ملے جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کا برآمدہ جانب سڑک تھا۔ میں یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت صاحب نے کوئی بات علیحدگی میں کرنی ہو، ایک طرف کو ہٹنے لگا جس پر حضور نے مجھے فرمایا آپ بھی آجائیں ۔ چنانچہ میں بھی حضور کے پاس بیٹھ گیا۔ اس وقت حضور نے مولوی صاحب سے لنگرکے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ذکر کیااور فرمایا کہ میں اس کی وجہ سے بہت فکر مندہوں کہ لنگر کی آمد کم ہے اور خرچ زیادہ اور مہمانوں کو تکلیف پہنچنے کااندیشہ ہے اور ان حالات کو دیکھ کر میری روح کو صدمہ پہنچتا ہے ۔ اسی ملاقات میں حضور نے مولوی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ میںلاہور میں یہ مہینہ ٹھہروں گا یہاں ان دوستوں نے خرچ اٹھایا ہوا ہے اس کے بعد میں کہیں اور چلاجاؤں گا اور قادیان نہیں جائوں گا۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت میں یہ سمجھا کہ یہ جو حضور نے قادیان واپس نہ جانے کا ذکر کیا ہے غالباً موجودہ پریشانی کی وجہ سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ کچھ عرصہ کہیں اور گذار کر پھر قادیان جائوں گا مگر اب میںسمجھتا ہوں کہ اس سے غالباً حضور کی مراد یہ تھی کہ میری وفات کا وقت آگیا ہے اور اب میرا قادیان جانا نہیں ہوگا ۔ واللہ اعلم

 

(1209)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے مولوی قطب الدین صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے اجازت مانگی کہ وہ حضور کے کسی مزارعہ دخیلکار سے کچھ زمین خرید لیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا یہ حقوق کامعاملہ ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر آپ کو اجازت دوں تو پھر دوسروں کو بھی اجازت دینی ہوگی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان میں کچھ رقبہ تو ہمارا مقبوضہ مملوکہ ہے یعنی اس کی ملکیت بھی ہماری ہے اور قبضہ بھی ہمارا ہے مگر پیشتر رقبہ ایسا ہے کہ وہ ملکیت ہماری ہے لیکن وہ ہمارے قبضہ میں نہیں ہے بلکہ ایسے مزارعین کے قبضہ میں ہے جنہیں ہم بلا کسی خاص قانونی وجہ کے بے دخل نہیں کرسکتے اور نسل بعد نسل انہی کا قبضہ چلتا ہے اور ہمیں ان کی آمد میں سے ایک معین حصہ ملتا ہے ۔ یہ لوگ موروثی یادخیلکار کہلاتے اور وہ مالکان کی مرضی کے بغیر اپنے قبضہ کی زمین فروخت نہیں کرسکتے ۔ مولوی قطب الدین صاحب نے انہی میں سے کسی کی زمین خریدنی چاہی تھی مگر حضرت صاحب نے اجازت نہیں دی اور واقعی عام حالات میں ایسی اجازت دینا فتنہ کا موجب ہے کیونکہ اول تو اگر ایک احمدی کو اجازت دی جائے تو دوسروں کوکیوں نہ دی جائے ۔ دوسرے: زمینوں کے معاملات میں بالعموم تنازعات پیش آتے رہتے ہیں اور مالکان اور مزارعان موروثی کے درمیان کئی باتوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ان حالات میں اگر ہمارے دخیلکاروں سے جو بالعموم غیر مسلم اور غیر احمدی ہیں، احمدی دوست زمینیں خرید لیں تو پھر ہمارے احمدی احباب کے درمیان تنازعات اورمقدمات کاسلسلہ شروع ہوجانے کا اندیشہ ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم دلوں میں میل آنے کا احتمال ہے۔ ان حالات میں حضرت صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی اور اسی کی اتباع میں آپ کے بعد ہم بھی اجازت نہیں دیتے بلکہ اسی قسم کے وجوہات کی بناء پر ہم عموماً ان دیہات میں بھی اجازت نہیں دیتے جن میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنیٰ ہیں اور ایسے دیہات تین ہیں یعنی ننگل اور بھینی اور کھارا۔ گویا قادیان میں تو ہمارا خاندان مالک ہے اور دوسرے لوگ موروثی یا دخیلکار ہیں اور ننگل ،بھینی اور کھارا میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنیٰ ہیں۔

 

(1210)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور ؑ کی خدمت میں سورۃالحمد خلف امام پڑھنے کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا کہ ’’ قرأت سورۃالحمد خلف امام بہتر ہے ۔‘‘ میںنے عرض کی کہ اگر نہ پڑھا جائے تو نما زہوجاتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ نماز توہوجاتی ہے مگر افضل تو یہی ہے کہ سورۃالحمد خلف امام پڑھا جاوے ۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بِدوں سورۃالحمدخلف امام نماز نہ ہوتی ہوتو حنفی مذہب میں بڑے بڑے صالح لو گ گزرے ہیں وہ کس طرح صالح ہوجاتے۔ نماز دونوں طرح سے ہوجاتی ہے ۔ فرق صرف افضلیت کا ہے ۔ ‘‘ ایسا ہی آمین بالسرّ پر آمین بالجہر کو ترجیح دی جاتی تھی ۔

 

(1211)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ خان صاحب ،ساکن چک ایمرچھ کشمیر نے کہ ’’میں نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنا یہ رؤیاء بیان کیا : کئی درختوں کی قطار ہے جن پر گھونسلے ہیں اور ان میں خوبصورت پرندے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یہ مسیح موعودکی جماعت ہے۔‘‘

 

(1212)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام نے رسالہ فتح اسلام اور توضیح المرام شائع فرمائے تو ان کے سرورق پر مرسل یزدانی کا فقرہ حضور کی طرف منسوب کر کے لکھا ہوا تھا۔ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مرزاصاحب خود کو مرسل یزدانی تحریر کرتے ہیں ۔ میںنے معترض کو کہا کہ ممکن ہے کہ مطبع والوں نے لکھ دیاہو(کیونکہ شیخ نور احمد صاحب کے مطبع ریاض ہندامرتسر میں رسائل موصوفہ طبع ہوئے تھے) جب میں قادیان آیا تویہ ذکر میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں کیا۔ حضور ؑ نے بلا تأمل جواباً فرمایا:’’میری اجازت کے بغیر مطبع والے کس طرح لکھ سکتے تھے۔‘‘

 

(1213)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم ساکن ایمرچھ نے کہ ایک دن سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام جو صبح کے وقت سیر کونکلے تو مولوی عبد اللہ صاحب حال وکیل کشمیر نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنی رویاء بیان کی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک دریا ہے اور میں اس کے کنارے کھڑاہوں ۔ اس پر حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ ’’اس کا پانی کیسا تھا؟‘‘ مولوی صاحب نے جواب دیا ’’میلا پانی تھا‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ دریاسے مراد دل ہے۔‘‘ راقم ھٰذا کو یہ یاد نہیں رہا کہ میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے یہ کہا تھا یا نہیں ؟ کہ حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب کو اصلاح نفس کی تلقین فرمائی تھی یا نہ ؟
مولوی عبداللہ صاحب وکیل آخر عمر میں بہائی ہو گئے تھے۔ (ناشر)

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)