اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-02

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1199)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیاکہ دوران قیام مقدمہ کرم دین حضور علیہ السلام کچہری گورداسپور کی عمارت کے متصل پختہ سڑک کے کنارے ٹالیوں کے نیچے دری کے فرش پر تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ جس روز کا یہ واقعہ ہے، حضور لیٹے ہوئے تھے اور سڑک کی طرف پشت تھی۔ ڈپٹی کمشنر انگریز تھا اور وہ اپنی کوٹھی کو اسی طرف سے جاتاتھا۔ میںنے دیکھا کہ وہ اس گروہ کی طرف دیکھتا ہوا جاتا تھا اور ہماری جماعت سے کوئی تعظیماً کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ میںنے یہ دیکھ کر حضرت سے عرض کی کہ حضور! ڈپٹی کمشنر ادھر سے ہمارے قریب سے گزرتا ہے اور کل بھی اس نے غور سے ہم لوگوں کی طرف دیکھا ۔ آج بھی ہم میں سے کوئی تعظیم کیلئے نہیں اُٹھا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ وہ حاکم وقت ہے ۔ ہمارے دوستوں کو تعظیم کیلئے کھڑا ہونا چاہئے ۔ پھر اسکے بعد ہم برابرتعظیماً کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور اسکے چہرہ پر اسکے احساس کا اثر معلوم ہوتا تھا۔ اسی مقدمہ کے دوران ایک مرتبہ حضور گورداسپور کی کچہری کے سامنے ٹالیوںکے سایہ کے نیچے تشریف فرما تھے۔ عدالت کا اوّل وقت تھا۔ اکثر حکام ابھی نہیں آئے تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا چلئے۔ جج خدا بخش صاحب سے مل آئیں۔ میں ان کے ہمراہ جج صاحب کے اجلاس میں چلا گیا۔ وہ خود اوران کے پیشکار (ریڈر) محمد حسین جن کولوگ محمد حسین خشکی کے نام سے ذکر کیا کرتے تھے، اجلاس میں تھے۔ غالباً اور کوئی نہ تھا۔ محمد حسین نے خواجہ صاحب سے مقدمہ کرم دین کا ذکر چھیڑا۔ غالباً وہ اہلحدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور کہا کہ مرزا صاحب نے یہ کیا کیا کہ مقدمہ کا سلسلہ شروع کر لیا ہے ۔ صلح ہوجانی چاہئے۔ جج صاحب نے بھی خواجہ صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب کی شان کے خلاف ہے ۔ مقدمہ بازی بند ہونا چاہئے اور باہمی صلح آپ کرانے کی کوشش کریں۔ حضرت سے اس بارہ میں ضرور کہیں اور میری جانب سے کہیں۔ خواجہ صاحب نے کہاکہ خواہش تو میری بھی یہی ہے اور یہ اچھا ہے ۔میں آپ کی طرف سے حضرت کی خدمت میں عرض کروں گا۔ یہ کہہ کر خواجہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سامنے مجھ سے کہا کہ آپ بھی میری تائید کیجئے گا۔ میں خاموش رہا۔ جب اجلا س سے ہم باہر آگئے۔ تو میںنے کہا کہ اس بارہ میں میں آپ کی تائید نہیں کرسکتا۔ مجھ سے یہ توقع نہ رکھئے۔ خواجہ صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ جج صاحب نے کہاہے کہ مقدمہ کرنا حضرت کی شان کے خلاف ہے اور صلح ہوجاناہی اچھا ہے اور مجھے تاکید کی ہے کہ حضور سے عرض کروں ۔ حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور چہرہ سرخ ہوگیا۔ اورفرمایا آپ نے کیوں نہ کہہ دیا کہ صلح اس معاملہ میں ناممکن ہے ۔ کرم دین کاالزام ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہوں۔ پس یہ توخدا کے ساتھ جنگ ہے اور خدا پر الزام ہے ۔ نبی صلح کرنے والا کون ہوتا ہے اور اگر میں صلح کرلوں تو گویا دعویٰ نبوت کوخود جھوٹا ثابت کردوں۔ دیر تک حضرت اس معاملہ میں کلام فرماتے رہے اور چہرہ پر آثار ناراضگی تھے یہاں تک کہ کھڑے ہوگئے اور ٹہلنے لگے۔

 

(1200)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک صاحب عبد المحی عرب قادیان میں آئے تھے۔ انہوںنے سنایا کہ میں نے حضرت اقدس کی بعض عربی تصانیف دیکھ کر یقین کر لیا تھا کہ ایسی عربی بجز خداوندی تائید کے کوئی نہیں لکھ سکتا۔ چنانچہ میں قادیان آیا۔ اور حضور سے دریافت کیا کہ کیا یہ عربی حضور کی خود لکھی ہوئی ہے ۔ حضور نے فرمایا: ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل وتائید سے ۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر آپ میرے سامنے ایسی عربی لکھ دیں تو میں آپ کے دعاوی کو تسلیم کرلوں گا۔ حضور نے فرمایا یہ تو اقتراحی معجزہ کا مطالبہ ہے ۔ ایسا معجزہ دکھانا انبیاء کی سنت کے خلاف ہے۔ میںتو تب ہی لکھ سکتا ہوں جب میرا خد ا مجھ سے لکھوائے ۔ اس پر میںمہمان خانہ میں چلا گیا اور بعد میں ایک چٹھی عربی میں حضور کو لکھی۔ جس کا حضور نے عربی میں جواب دیا۔ جوویسا ہی تھا ۔ چنانچہ میں داخل بیعت ہوگیا۔

 

(1201) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک مولابخش صاحب پنشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بمعہ اہل بیت وخدام امرتسر تشریف لائے۔ امرتسر کی جماعت نے ایک بڑے مکان کا انتظام کیا مگر اس خیال سے کے مرد زیادہ ہوں گے ، مکان کا بڑا حصہ مردانہ کیلئے اور چھوٹا حصہ زنانہ کیلئے تجویز کیا۔ حضور نے آتے ہی پہلے مکان کودیکھا اور اس تقسیم کو ناپسند فرمایا اور بڑے حصے کو زنانہ کے لئے مخصوص فرما لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور کو صنف نازک کے آرام کا بہت خیال رہتا تھا۔

 

(1202) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر تشریف لائے اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل( جس کانام اب بندے ماترم ہال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا۔ لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی۔ پھر وہ اورآگے ہوئے۔ پھر بھی حضور مصروف لیکچر رہے ۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کر دی تو حضور نے لے کر چائے پی لی۔ اس پرلوگوںنے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام۔ روزے نہیں رکھتے۔ اور بہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضور اس میں داخل ہوگئے ۔ لوگوںنے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اور بہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا مگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اور بعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ ’’اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادتا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سنا۔ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اور ان کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کومارتے تھے، مجھے کون مارتا ہے ۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑ بڑ ہوئی تھی اس لئے سب آدمی ان کوکہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا ۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبد الخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا تو حضور نے فرمایا! کہ مفتی صاحب نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقعہ پید اکردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے ۔

 

(1203) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مجلس میں دیکھا کہ حضور بمثل دیگر اصحاب کے بے تکلف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے اور اس میں ایک اجنبی کے واسطے کوئی امتیاز ی رنگ نہ ہوتا تھا۔ ایک دن بعد فراغت نماز ظہر یا عصر حضور مسجد سے نکل کر گھر کے متصلہ کمرہ میں داخل ہوئے جہاں حضور نے جوتا اتارا ہوا تھا۔ میںنے دیکھا کہ حضور کا دھیان جوتا پہنتے ہوئے جوتے کی طرف نہ تھا بلکہ پاؤں سے ٹٹول کر ہی اپنا جوتا پہن رہے تھے۔ اور اس وقت حضرت مولوی نورا لدین صاحب سے مخاطب تھے۔ مولوی صاحب حضور کے سامنے قدرے خمیدہ ہوکر نہایت مؤدّب کھڑے تھے اور کوئی اپنا خواب حضور کو سنا رہے تھے ۔ وہ خواب نہایت اطمینان سے سن کر حضور نے فرمایا کوئی فکر نہیں مبشر ہے ۔ اسکے بعد حضور اندر تشریف لے گئے ۔میںنے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سامنے حضرت مولوی صاحب نہایت ادب ونیاز سے کھڑے ہوئے تھے اور نگاہیں ان کی زمین کی طرف تھیں۔ بات کرتے ہوئے کسی کسی وقت نظر سامنے اٹھاکر حضور کو دیکھ لیتے اور پھر آنکھیں نیچی کر کے سلسلہ کلام چلاتے جاتے تھے۔

 

(1204) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے ایک دفعہ غالباً1907ء میں امۃ الرحمن صاحبہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم ہمشیرہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی سیکنڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان نے جو میری ننھیال کی طرف سے رشتہ دار بھی ہے، ایک کاغذ کا پُرزہ دیا تھا جو ردی کے طور پر تھا، لیکن چونکہ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت اُم المومنین ایدھااللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی عبارتیں تھیں ، اس لئے میں نے اس کو تبرکاً نہایت شوق سے حاصل کیااور محفوظ رکھا۔ پھر کسی وقت وہ کاغذ مجھ سے پس وپیش ہو گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ کسی کتاب میں پڑا ہوا ہے یا گم ہوگیا ہے جس کا مجھے بہت افسوس ہے لیکن چونکہ اسکے ساتھ ایک واقعہ کا تعلق ہے جو مجھے ا مۃ الرحمن صاحبہ مرحومہ نے خود سنایا تھا اس بے تکلفانہ لکھی ہوئی عبارت میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے تعلق باللہ اور تقویٰ وطہارت وعبادات میں شغف پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس لئے میں اسکا ذکر کرنا اور تحریر میں لانا ضروری سمجھتا ہوں ۔ امۃ الرحمن صاحبہ جن دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر میں رہا کرتی تھیں انہوں نے دیکھا اور خاکسار سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت اُم المومنین صاحبہ نے یہ تجربہ کرنا چاہا کہ دیکھیں آنکھیں بند کر کے کاغذ پر لکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ پرزہ کاغذ پکڑ کر اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حسب ذیل عبارت لکھی ہوئی تھی اور جو مجھے حرف بحرف بخوبی یاد ہے اور مجھے اسکے متعلق ایسا وثوق ہے کہ اگر وہ پرزہ کاغذ کبھی دستیاب ہوجاوے تو یقینا یہی الفاظ اس پر لکھے ہوئے ہوںگے۔ حضور نے آنکھیں بند کرنے کی حالت میں لکھا تو یہ لکھا کہ ’’انسان کو چاہئے کہ ہر وقت خد اتعالیٰ سے ڈرتا رہے اور پنج وقت اس کے حضور دعا کرتا رہے۔‘‘
دوسری جگہ اسی حالت میں حضرت اماں جان کی تحریر کردہ عبارت حسب ذیل تھی۔ ’’محمود میرا پیارا بیٹا ہے کوئی اس کو کچھ نہ کہے۔‘‘ ’’مبارک احمد بسکٹ مانگتا ہے ۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت ان سے شکستہ اور پختہ خط میں صاف طور پر پڑھی جاتی تھی اور باوجود آنکھیں بند کر کے لکھنے کے اس میں سطر بندی مثل دوسری تحریرات کے قائم تھی۔ لیکن حضرت اُم المومنین کے حروف اپنی جگہ سے کچھ اوپر نیچے بھی تھے اور سطر بندی ان کی قائم نہ رہی تھی۔ لیکن خاص بات جس کا مجھے ہمیشہ لطف آتا ہے وہ یہ تھی کہ اپنے گھر میں بے تکلفانہ بیٹھے ہوئے بھی اگر اچانک بے سوچے کوئی بات حضور کو لکھنی پڑتی ہے تو وہ نصیحتانہ پاک کلمات کے سوا اور کوئی نہیں سوجھی۔ اور ادھر حضرت اُم المومنین کی عبارت ایسی ہے جوکہ ماحول کے حالات کے مطابق ان کے ذہن میں موجود ہوسکتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ماموروں اور دوسروں میں ہوا کرتا ہے ۔

 

(1205) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مجلس میں مولوی محمد علی صاحب بھی موجو دتھے۔ اس وقت مولوی صاحب مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں زر جرمانہ وصول کر کے آرہے تھے اور مہتمم خزانہ کے ساتھ ان کی جو گفتگو مقدمہ اور واپسی جرمانہ کے متعلق ہوئی تھی وہ حضور کو سنا رہے تھے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ جس مجسٹریٹ نے اس مقدمہ میں جرمانہ کیا تھا اپیل منظور ہونے پر وہی افسر مہتمم خزانہ ہوگیا تھا جس سے زر جرمانہ ہم نے واپس لینا تھا۔ چنانچہ ہم پہلے اس کے مکان پر (کچہری کے وقت سے پہلے)گئے اور اس سے ذکر کیا کہ ہم توجرمانہ واپس لینے کے واسطے آئے ہیں۔ اس پر وہ مجسٹریٹ بہت نادم سا ہوگیا اور اس نے فوراً کہا کہ آپ کو وہ رقم نہیں مل سکتی کیونکہ اس کیلئے خود مرزا صاحب کی دستخطی رسید لانا ضروری ہے ۔ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ وہ رسید تو میں مرزا صاحب سے لکھوا لایا ہوں ۔ پھر اس مجسٹریٹ نے کہا کہ پھر بھی یہ رقم آپ کو نہیں دی جاسکتی جب تک آپ کے پاس مرزاصاحب کی طرف سے اس امر کا مختار نامہ موجود نہ ہو۔ مولوی صاحب نے کہا کہ وہ بھی میں لے آیاہوں۔ اسے لاجواب ہوکر کہنا پڑا کہ اچھا کچہری آنا۔ اس موقعہ پر مولوی محمد علی صاحب نے مسیح موعودعلیہ السلام کے حضور ایک یہ فقرہ بھی سیشن جج صاحب منظور کنندہ اپیل کی باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ حضور اس سیشن جج نے تو اس قدر زور کے ساتھ حضور کی بریت اور تائید میں لکھا ہے کہ اگر ہم میں سے بھی کوئی اس کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا تو شاید اتنی جرأت نہ کرسکتا۔ یہ جملہ حالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت خوشی کی حالت میں سنتے رہے تھے ۔

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)