اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-26

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1191)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولابخش صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم جب بیمارتھے تو ان کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تشویش اور فکر کاعلم ہوتا رہتا تھا۔ جب صاحبزادہ صاحب فوت ہوگئے تو سردار فضل حق صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب مرحوم اور بندہ بخیال تعزیت قادیان آئے لیکن جب حضور مسجد میں تشریف لائے تو حضور حسب سابق بلکہ زیادہ خوش تھے۔ صاحبزادہ مرحوم کی وفات کا ذکر آیا تو حضور نے فرمایا کہ مبارک احمد فوت ہوگیا۔ میرے مولا کی بات پوری ہوئی ۔ اس نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ لڑکا یا توجلدی فوت ہوجائے گا یا بہت باخد اہوگا۔ پس اللہ نے اُس کو بلا لیا۔ ایک مبارک احمد کیا اگر ہزار بیٹا ہو اور ہزار ہی فوت ہوجائے، مگر میرامولا خوش ہو، اسکی بات پوری ہو، میری خوشی اسی میں ہے ۔ یہ حالات دیکھ کر ہم میں سے کسی کو افسوس کے اظہار کی جرأت نہ ہوئی۔

 

(1192)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولابخش صاحب پنشنر کلر ک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ مسجد مبارک کی چھت پر شام کی مجلس میں ایک امرتسری دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مولوی ثناء اللہ بہت تنگ کرتا ہے اس کیلئے بددعا فرمائیں۔ اس پر حضور نے فرمایا نہیں ۔وہ ہماری بہت خدمت کرتے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے ہمارے دعویٰ کا ذکر اُن لوگوں میں بھی ہوجاتا ہے جو نہ ہماری بات سننے کو تیار ہیں اور نہ ہماری کتابیں پڑھتے ہیں۔ وہ تو ہمارے کھیت کیلئے کھاد کاکام دے رہے ہیں۔ بدبُو سے گھبرانا نہیں چاہئے ۔

 

(1193)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈونگے دالان میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کاپی پڑھ رہے تھے ۔ میں پاس بیٹھا تھا۔ اطلاع آئی کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر پولیس آئے ہیں۔ حضرت صاحب باہر تشریف لے گئے۔ چھوٹی مسجد کی سیڑھیوں کی آخری اوپر کی سیڑھی پر سپرنٹنڈنٹ پولیس اندر کی طرف کھڑ اتھا۔ حضرت صاحب کودیکھ کر اس نے ٹوپی اتاری اور کہا کہ مجھے لیکھرام کے قتل کے بارہ میں تلاشی کا حکم ہوا ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ بہت اچھا تلاشی میں میں آپ کو مدددوں گا۔ تب حضرت صاحب اور سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر اندر ڈونگے دالان میں گئے۔ میں بھی اندر گیا۔ دالان میں ہم صرف چاروں تھے۔ دالان کے شمال مغربی کونے میں ڈھائی تین گز مربع کے قریب لکڑی کا ایک تخت بچھا تھا ۔ اس پر کاغذات کے پندرہ بیس بستے بندھے پڑے تھے۔ انسپکٹر نے دونوں ہاتھ زور سے بستوں پر مارے، گرد اٹھی۔ انسپکٹر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مخاطب کر کے انگریزی میں کہا جس کا مطب یہی معلوم ہوتا تھا کہ کسی قدر گرد ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ بہت مدت سے ان کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ انسپکٹر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس دونوں مغرب کی طرف منہ کئے تخت کے پاس کھڑے تھے۔ دونوں کا منہ بستوں کی طرف تھا۔ میں مشرق کی طرف منہ کئے مغربی دیوار کے ساتھ کھڑا تھا۔ حضرت صاحب مشرقی دیوار کے ساتھ دالان کی لمبائی میں اس طرح ٹہل رہے تھے جیسے کوئی بادشاہ ٹہلتا ہے۔ لکڑی ہاتھ میں تھی اور درمیان سے پکڑی ہوئی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر کی پشت حضرت صاحب کی طرف تھی۔ انسپکٹر سپرنٹنڈنٹ سے باتیں تو کرتا تھا لیکن سپرنٹنڈنٹ جو انگریز تھا (شاید لیمار چنڈ اس کانام تھا) اسکا دھیان بالکل حضرت صاحب میں تھا۔ میں دیکھتا تھا جب حضرت صاحب اسکی پیٹھ کے پیچھے سے ہوکر جنوب کی طرف جاتے تو وہ کنکھیوں سے خفیف سا سر پھیر کر حضرت صاحب کو دیکھتا تھا اور جب حضرت صاحب اسکے پیچھے سے ہوکر شمال کی طرف جاتے تو سر پھیر کر پھر کنکھیوں سے حضرت صاحب کو دیکھتا تھا۔ وہ بار با ر یہی کچھ کرتا رہا۔ انسپکٹر کی طرف اس کا دھیان نہ تھا۔ پھر تجویز ہوئی کہ باقی مکان کی تلاشی لی جائے ۔
عصر کے بعد گول کمرہ کے باہر کھلے میدان میں کرسیاں بچھائی گئیں۔ ایک پر سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا۔ اسکی دائیں طرف انسپکٹر تھا۔ بائیں طرف حضرت صاحب کرسی پر تھے۔ سامنے اسکے اور سپرنٹنڈنٹ سے پرے محمد بخش تھانیدار بٹالہ تھا۔ حاکم علی سپاہی متعینہ قادیان سپرنٹنڈنٹ کو رومال ہلا رہا تھا۔ درمیان میں زمین پر وہی بستے جو ڈونگے دالان کے تخت پر رکھے ہوئے تھے۔ پڑے تھے ۔ محمد بخش نے ایک کاغذ ایک بستے میں سے نکالا اور مسکراتا ہوا کہنے لگا کہ یہ دیکھئے ثبوت۔ انسپکٹر نے اس کاغذ کو لے کر پڑھا اور کہا یہ تو ایک مرید کی طرف سے پیشگوئی کے پورا ہونے کی مبارکباد ہے اور کچھ نہیں۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بھی اس سے اتفاق کیا اور کاغذ واپس بستے میں ڈال دیا گیا۔ محمد بخش نے پھر ایک اور کاغذ نکالا وہ بھی اسی قسم کا تھا۔ جو واپس بستہ میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح کئی کاغذ دیکھے گئے اور واپس کئے گئے ۔ آخر کار دو کاغذ جن میں سے ایک ہندی میں لکھا ہو اتھا اور دوسرا مرزا مام الدین کا خط محمدی بیگم کے متعلق تھا، لے کر عملہ پولیس واپس چلا گیا۔ ایک دو ماہ بعد ایک سکھ انسپکٹر پولیس آیا اور وہی دونوں کاغذ واپس لایا۔ حضرت صاحب نے اس کو ڈونگے دالان میں بلا لیا۔ آداب عرض کرنے کے بعد اس نے ہندی کا خط حضرت کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو جناب کا آٹے وغیرہ کے متعلق دوکاندار کا ٹونبو ہے اور یہ دوسرا کاغذ کس کا ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا ۔مرزا امام الدین کا ہے ۔ انسپکٹر نے کہا کہ اسکے متعلق مرزا ا مام الدین سے پوچھنا ہے کہ کیا یہ تمہارا ہے ۔ اس لئے مرزا امام الدین کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ آدمی بھیج کر مرزا امام الدین کو بلوایا گیا ۔ انسپکٹر نے اس کو خط دکھا کر کہا کہ کیا یہ آپ کا خط ہے ؟ اُس نے صاف انکار کردیا کہ میرا نہیں ۔ تب انسپکٹر نے کاغذ اور قلم دوات منگوا کر مرزا ا مام الدین کو دیا کہ آپ لکھتے جائیں ،میں بولتا جاتا ہوں۔ انسپکٹر نے اس خط کی صرف دو سطریں لکھوائیں۔ پھر امام الدین کے ہاتھ سے لے کر اسکا لکھا ہوا کاغذ لے کر اصل خط کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھنے لگا۔ میں جھٹ انسپکٹر کی کرسی کے پیچھے جاکھڑا ہوا اور ان دونوں خطوں کو میںنے دیکھ کر انسپکٹر کو کہا کہ یہ دیکھئے قادیان کا نون یا کے اوپر ڈالا گیا ہے اور گول نہیں بلکہ لمبا ہے اور دوسری تحریر میں بھی بالکل ویسا ہی ہے اور یہ دیکھئے لفظ ’’باریمیں‘‘ کو ’’بارہ میں‘‘ لکھا ہوا ہے اور دوسری تحریر میں بھی ’’بارہ میں‘‘ ہے ۔ مجھے ساتھ لے جائیے۔ میں ثابت کردوں گا کہ یہ دونوں تحریریں ایک شخص کے ہاتھ کی ہی لکھی ہوئی ہیں۔ یہ سنکر انسپکٹر نے اس خط کو ہاتھ سے پکڑکراوندھا اپنی ران پر مارتے ہوئے کہا کہ ـ’’لجانا کتھے اے پتہ لگ گیا‘‘ جوں ہی انسپکٹر نے یہ کہا تو مرزا امام الدین خود ہی بول پڑا کہ یہ خط میرے ہاتھ کا ہی لکھا ہوا ہے ۔ سب لوگ جو کھڑے تھے اسکے جھوٹ پر سخت انگشت بدندان ہوئے کہ ابھی اس نے کہا تھا کہ یہ خط میرا نہیں۔ اب کہتا ہے کہ یہ خط میرا ہے ۔ تب انسپکٹر کھڑا ہوگیا اور حضرت صاحب کو وہ خط دے کر جانے کیلئے رخصت طلب کی لیکن ساتھ ہی کہا کہ میں بطور نج محمدی بیگم کی پیشگوئی کی نسبت جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت صاحب نواڑی پلنگ کے اوپر کھڑے تھے اور انسپکٹر نیچے زمین پر کھڑا تھا ۔ اسی حالت میں کھڑے کھڑے حضرت صاحب نے تمام قصہ سنایا۔ تب انسپکٹر سلام کر کے رخصت ہوکر واپس چلا گیا۔

 

(1194)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب بیمار تھے۔ ان کیلئے ڈاکٹروں نے تجویز کی کہ پورٹ وائن ایک چمچہ دی جائے۔ چنانچہ ایک بوتل امرتسر یا لاہور سے منگوائی گئی۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان کے اس حصہ میں رہتا تھا جہاں حضور کی دواؤں کی الماری تھی۔ میںنے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی تشریف لائے۔ اُن کے ہاتھ میں بوتل تھی۔ انہوںنے بوتل الماری میں رکھ دی اور مجھ سے فرمایا کہ پیر جی پانی چاہئے۔ میںنے کہا کیا کروگے؟ کہا کہ ابا نے فرمایا ہے کہ ہاتھ دھو لینا کیونکہ شراب کی بوتل پکڑی ہے۔ پھر ہاتھ دھو لئے ۔

 

(1195)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں سر کی لیکھ (جو جُوں سے چھوٹی ہوتی ہے) بڑے پاور کی خوردبین میں رکھ کر حضور علیہ السلام کو دکھانے کیلئے لے گیا۔ حضور نے دیکھنے کے بعد فرمایا:آؤ میاں بارک اللہ! (مرزا صاحبزاہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم) تمہیںعجائبات قدرت دکھلائیں۔ اس وقت حضور ڈونگے دالان میں پلنگ پر بیٹھے تھے۔

 

(1196)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم حجرے میں بیماری کی حالت میں پڑے تھے۔ حجرے کے باہر برآمدہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے اور حضور کے سامنے نصف دائرہ میں چند ڈاکٹر صاحبان اور غالباً حضرت خلیفہ اول بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں پورٹ وائن کی وہی بوتل جو صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم کیلئے منگائی گئی تھی پڑی ہوئی تھی۔ میاں مبارک احمد صاحب کے علاج کیلئے دواؤں کی تجویز ہورہی تھی میں بھی ایک طرف کو بیٹھا تھا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ جو حافظ کہتا ہے۔

آں تلخ وش کہ صوفی ام الخبائث خواند
اشھی لنا واحلی من قبلۃ العذارٰی

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شعر میں حافظ نے ام الخبائث ترک دنیا کو کہا ہے اور تلخ اس لئے کہا کہ ترک دنیا سے ایسی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی کے جوڑ اور بند اکھاڑ ے جائیں اور ام الخبائث اس لئے کہا کہ جس طرح ماں جننے کے بعد تمام آلائشوں کو باہرنکال دیتی ہے اسی طرح ترک دنیا بھی انسان کی تمام روحانی آلائشوں کو باہر نکال دیتی ہے ۔ قبلۃ العذارٰی سے مراد ہے دنیا کی عیش و عشرت ۔ پس حافظ صاحب کامطلب یہ ہے کہ دنیا کو حاصل کرنے کی نسبت ہمیں ترک دنیا زیادہ پسندیدہ ہے ۔

 

(1197)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کانگڑہ والے زلزلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں چلے گئے تھے۔ انہی دنوں باغ میں حضرت صاحب کو الہام ہوا۔ ’’تین بڑے آدمیوں میں سے ایک کی موت ‘‘عصر کی نماز جب ہوچکی ۔ دوست چلے گئے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب مصلّٰی پر بیٹھے رہے۔ میں ان کے پاس مصلے کے کنارہ پرجابیٹھا، اور کہا کہ سنا ہے کہ آج یہ الہام ہوا ہے ۔ مولوی صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا لیکن کسی قسم کی بات نہ کی۔ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا۔ میرے خیال میں تین بڑے آدمی یہ تھے۔ حضرت خلیفہ اول ، مولوی عبد الکریم صاحب ، مولوی محمد احسن صاحب ، چند روز بعد مولوی عبد الکریم صاحب کی پشت پر ایک پھنسی نکلی جو بڑھتے بڑھتے کاربنکل بن گئی۔ غرض اس الہام کے بعد قریباً ڈیڑھ ماہ میں مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہوگئے اور پیشگوئی نہایت صاف طور پر پوری ہوئی۔

 

(1198)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی.اے نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک مرتبہ مدرسہ احمدیہ کے مکان میں جہاں پہلے ہائی سکول ہوا کرتا تھا ایک گھنٹہ کے قریب لیکچر دیا ۔ بعد میں آپ کی تحریک سے حضرت مولوی عبدالکریم اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ہفتہ وار ایک ایک گھنٹہ لیکچر طلباء کے سامنے دیا کرتے تھے۔ اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا: ہم جو تصانیف کرتے ہیں یہ علماء زمانہ کے مقابلہ اور مخاطبت میں لکھی گئی ہیں۔ ان کتابوں کو طلباء نہیںسمجھ سکتے۔ ان دنوں ان کے کورس بھی اتنے لمبے ہیں کہ طلباء کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ تالیفات کو پڑھنے کی فرصت پاسکیں۔ اس لئے میں یہی کہتا ہوں اور پھر پھر کہتا ہوں کہ سکولوں کے ماسٹر صاحبان میری کتابوں کے چند صفحات مطالعہ کر لیا کریں اور انکا خلاصہ سہل اور آسان الفاظ میں طلباء کے روبرو بیان کردیا کریں تاکہ ہماری باتیں طلباء کے دل و دماغ میں نقش ہوجائیں۔ ورنہ جو کتب مولویوں کے مقابلہ میں لکھی گئی ہیں وہ بچوں کے فہم سے بالا تر ہوتی ہیں۔

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…