اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-19

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(890) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں الٰہ دین عرف فلاسفرکو بعض لوگوں نے کسی بات پر مارا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علم ہواتو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اگر وہ عدالت میں جائے اور تم وہاں اپنے قصور کا اقرار کرلو تو عدالت تم کو سزا دیگی اور اگر جھوٹ بولو اور انکار کردوتو پھر تمہارا میرے پاس ٹھکانا نہیں۔غرض آپ کی ناراضگی سے ڈر کر اُن لوگوں نے اسی وقت فلاسفر سے معافی مانگی اور اس کو دودھ پلایا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر434 میں بھی ہو چکا ہے اور مارنے کی وجہ یہ تھی کہ فلاسفر صاحب منہ پھٹ تھے۔اور جو دل میں آتا تھا وہ کہہ دیتے تھے اور مذہبی بزرگوں کے احترام کا خیال نہیں رکھتے تھے۔چنانچہ کسی ایسی ہی حرکت پر بعض لوگ انہیں ماربیٹھے تھے مگر حضرت مسیح موعود نے اسے پسند نہیں فرمایا۔آجکل فلاسفر صاحب اسی قسم کی حرکات کی وجہ سے جماعت سے خارج ہوچکے ہیں۔
(891) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے پہلی مرتبہ دسمبر1902ء میں بموقعہ جلسہ سالانہ حضرت احمد علیہ السلام کو دیکھا۔حضرت سیّد عبداللطیف صاحب شہید کابل بھی ان ایام میں قادیان میں مقیم تھے۔حضرت اقدس ان سے فارسی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔
(892) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں پہلی مرتبہ قادیان آیاتوحضرت اقدس ان ایام میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کی اقتدا میں نماز پڑھا کرتے تھے اورمسجد مبارک میں جو گھر کی طرف کو ایک کھڑکی کی طرز کا دروازہ ہے اس کے قریب دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔ بحالت نماز ہاتھ سینہ پر باندھتے تھے اور اکثر اوقات نماز مغرب سے عشاء تک مسجد کے اندر احباب میں جلوہ افروز ہو کر مختلف مسائل پر گفتگو فرماتے تھے۔
(893) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت اقدس ؑ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ اس کوٹھڑی میں نماز کیلئے کھڑے ہوا کرتے تھے جو مسجد مبارک میں بجانب مغرب تھی۔مگر 1907ء میں جب مسجد مبارک وسیع کی گئی تو وہ کوٹھڑی منہدم کردی گئی۔اس کوٹھری کے اندر حضرت صاحب کے کھڑے ہونے کی وجہ اغلباً یہ تھی کہ قاضی یار محمد صاحب حضرت اقدس کو نماز میں تکلیف دیتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی یار محمد صاحب بہت مخلص آدمی تھے۔مگر ان کے دماغ میں کچھ خلل تھا۔جس کی وجہ سے ایک زمانہ میں ان کا یہ طریق ہوگیا تھا کہ حضرت صاحب کے جسم کو ٹٹولنے لگ جاتے تھے اور تکلیف اور پریشانی کا باعث ہوتے تھے۔
(894) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام نکاح کے معاملہ میں قوم اور کفو کو ترجیح دیتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہےکہ لوگوں نے بات کو بڑھالیا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ عام حالات میں اپنی قوم کے اندر اپنے کفو میں شادی کرنا کئی لحاظ سے اچھا ہوتا ہے۔مگر یہ خیال کرنا کہ کسی حالت میں بھی قوم سے باہر رشتہ نہیں ہونا چاہئے غلطی ہے۔اور کفو سے مراد اپنے تمدّن اور حیثیت کے مناسب حال لوگ ہیں۔خواہ وہ اپنی قوم میں سے ہوں یا غیر قوم سے۔
(895) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اول اول جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو ہمارے پاس بار بار آنا چاہئے تاکہ ہمارا فیضان قلبی اور صحبت کے اثر کا پَر تَو آپ پر پڑ کر آپ کی روحانی ترقیات ہوں ۔مَیں نے عرض کی کہ حضور ملازمت میں رخصت بار بار نہیں ملتی۔ فرمایا:ایسے حالات میں آپ بذریعہ خطوط بار بار یاددہانی کراتے رہا کریں تاکہ دُعائوں کے ذریعہ توجہ جاری رہےکیونکہ فیضانِ الٰہی کا اجرا قلب پر صحبت صالحین کے تکرار یا بذریعہ خطوط دُعا کی یاد دہانی پر منحصر ہے۔
(896) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیاکہ میری بڑی لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قہوہ پی رہے تھے کہ حضور نے مجھ کو اپنا بچا ہوا قہوہ دیااور فرمایازینب یہ پی لو۔مَیں نے عرض کی حضور یہ گرم ہے باور مجھ کو ہمیشہ اس سے تکلیف ہوجاتی ہے۔آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارا بچا ہوا قہوہ ہے ،تم پی لو۔کچھ نقصان نہیں ہوگا۔مَیں نے پی لیااور اسکے بعد پھر کبھی مجھے قہوہ سے تکلیف نہیں ہوئی۔
(897) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عربی کی دو لغت کی کتابیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش نظر سب سے زیادہ رہتی تھیں۔ چھوٹی لغتوں میں سے صراح تھی اور بڑی لغات میں سے لسان العرب۔ آپ یہی دو لغتیں زیادہ دیکھتے تھے۔گوکبھی کبھی قاموس بھی دیکھ لیا کرتے تھے۔اور آپ لسان العرب کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے۔
(898) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کی مہترانی ایک حصّہ مکان میں صفائی کرکے آئی۔حضرت صاحب اس وقت دوسرے حصّہ میں تھے۔آپ نے اس سے فرمایا کہ تو نے صفائی تو کی مگر اس صحن میں جو نجاست پڑی تھی وہ نہیں اُٹھائی۔ اس مہترانی نے کہا کہ جی مَیں تو سب کچھ صاف کر آئی ہوں۔وہاں کوئی نجاست نہیں ہے۔آپ اُٹھکر اسکے ساتھ اس حصّہ مکان میں آئےاور دکھا کر کہا کہ یہ کیا پڑا ہے؟اورحضرت صاحب نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا تھا کہ اس عورت نے اس مکان میں جھاڑو تو دیامگر نجاست نہیں اُٹھائی اور یونہی چلی آئی ہے۔ورنہ مجھے بھی خبر نہ تھی کہ وہاں نجاست پڑی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں ظاہر فرمادیتا ہے۔ جس سے تعلقات کی بے تکلفی اور اپنا ہٹ کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
(899) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نمار ظہر یا عصر شروع ہوچکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام درمیان میں سے نمازتوڑ کر کھڑکی کے راستہ گھر میں تشریف لے گئے اور پھر وضو کرکے نماز میں آملےاورجو حصہ نماز کا رہ گیا تھاوہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کیا۔یہ معلوم نہیں کہ حضور بھول کر بے وضوآگئے تھے یا رفع حاجت کیلئے گئے تھے۔
(900) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے سُنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کی ترقی تدریجی رنگ میں آہستہ آہستہ مقدر ہے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی آتا ہے کہ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ (الفتح :30) مگرفرماتے تھے کہ ہماری جماعت کی ترقی دائمی ہوگی ۔اور اس کے بعد قیامت سے قبل والے فساد کے سوا کوئی عالمگیر فساد نہیں ہوگا۔یہ بھی فرماتے تھے کہ خدا ہماری جماعت کو اتنی ترقی دے گاکہ دوسرے لوگ ذلیل اچھوت لوگوں کی طرح رہ جائینگے۔
(901) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ مَیں اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ایک یکّہ میں بٹالہ سے دارالامان آئے۔راستہ میں مَیں نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر صاحب! عام طور پر مشہور ہے کہ جس کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی رؤیت نصیب ہوجاوےاس پر دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے ۔مَیں نہیں جانتا کہ یہ بات کہاںتک درست ہے۔لیکن ہم لوگ جو خدا کے رسول کوہاتھ لگاتے اور بوسہ دیتے اور مٹھیاں بھرتے ہیں حتیّٰ کہ مَیں تو اس قدر بے ادب ہوں کہ جب نماز میں حضرت صاحب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں تو اس کی پروا نہیں کرتا کہ نماز ٹوٹتی ہے یا نہیں۔مونڈھا کُہنی جو بھی آپ کے ساتھ لگ سکے لگاتاہوں۔کیا دوزخ کی آگ ہم کو بھی چھوئے گی۔ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ بھائی صاحب بات تو ٹھیک ہے لیکن تابعداری شرط ہے۔اللہ! اللہ۔ یہ اس وقت کی حالت ہے۔اور اب ڈاکٹر صاحب کی یہ حالت ہے کہ حضرت صاحب کے جگر گوشہ اور خلیفہ ٔ وقت سے منحرف ہورہے ہیں۔
(902) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جولائی 1904ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور کی کچہری سے باہر تشریف لائے اور خاکسار سے کہا کہ انتظام کرو کہ نماز پڑھ لیں ۔خاکسار نے ایک دری نہایت شوق سے اپنی چادر پر بغرض جانماز ڈال دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اقتداء میں نماز ظہر و عصر ادا کی۔اس وقت غالباً ہم بیس احمدی مقتدی تھے۔نماز سے فارغ ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ دری حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تھی اور انہوں نے وہ لے لی۔
(903) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قدیم مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام نماز جماعت میں ہمیشہ پہلی صف کے دائیں طرف دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آجکل موجودہ مسجد مبارک کی دوسری صف شروع ہوتی ہے۔یعنی بیت الفکر کی کوٹھری کے ساتھ ہی مغربی طرف۔امام اگلے حجرہ میں کھڑا ہوتاتھا۔پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص پر جنون کا غلبہ ہوا۔اور وہ حضرت صاحب کے پاس کھڑا ہونے لگااور نماز میں آپ کو تکلیف دینے لگا۔اور اگر کبھی اس کو پچھلی صف میں جگہ ملتی تو ہر سجدہ میں وہ صفیں پھلانگ کر حضور کے پاس آتا اور تکلیف دیتا اور قبل اسکے کہ امام سجدہ سے سر اٹھائے وہ اپنی جگہ پر واپس چلا جاتا۔اس تکلیف سے تنگ آکر حضور نے امام کے پاس حجرہ میں کھڑا ہونا شروع کر دیامگر وہ بھلا مانس حتی المقدور وہاں بھی پہنچ جایا کرتا اور ستایا کرتا تھا۔مگر پھر بھی وہاں نسبتاً امن تھا۔اسکے بعد آپ وہیں نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ مسجد کی توسیع ہوگئی۔یہاں بھی آپ دوسرے مقتدیوں سے آگے امام کے پاس ہی کھڑے ہوتے رہے۔مسجد اقصیٰ میںجمعہ اور عیدین کے موقعہ پر آپ صف اول میں عین امام کے پیچھے کھڑے ہوا کرتے تھے۔وہ معذور شخص جو ویسے مخلص تھا، اپنے خیال میں اظہار محبت کرتا اور جسم پر نامناسب طور پر ہاتھ پھیرکر تبرک حاصل کرتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسکا ذکر روایت 893 میں بھی ہوچکا ہے۔
(905) بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ قلمی تحریر دیکھی ہےجس میں حضور نے اس زمانہ کی جماعت کپورتھلہ کی بابت لکھا تھا کہ وہ انشاء اللہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے۔اس زمانہ کی جماعت کپورتھلہ میں منشی محمد خاں صاحب مرحوم۔منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب نمایاں خصوصیت رکھتے تھے۔باقیوں کا علم اللہ تعالیٰ کوہے۔
(سیرۃ المہدی ، جلداوّل،حصہ سوم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…