اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-26

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(906) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ علاج کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ کبھی ایک قسم کا علاج نہ کرتے تھےبلکہ ایک ہی بیماری میں انگریزی دوا بھی دیتے رہتے تھے اور ساتھ ساتھ یونانی بھی دیتے جاتے تھے۔پھر جو کوئی شخص مفید بات کہہ دے اس پر بھی عمل کرتے تھےاور اگر کسی کو خواب میں کچھ معلوم ہوا تو اس پر بھی عمل فرماتے تھے۔پھر ساتھ ساتھ دُعا بھی کرتے تھے اور ایک ہی وقت میں ڈاکٹروں اور حکیموں سے مشورہ بھی لیتے تھے اور طب کی کتاب دیکھ کر بھی علاج میںمدد لیتے تھے۔غرض علاج کو ایک عجیب رنگ کا مرکب بنا دیتے تھے اور اصل بھروسہ آپ کا خدا پر ہوتا تھا۔
(908) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ حاجی محمد اسمٰعیل صاحب ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر حال محلہ دارالبرکات قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ15؍ ستمبر1938ء کو شام کے وقت مَیں حضرت میاں محمد یوسف صاحب مردان کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا۔چونکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے ہیں۔مَیں نے دریافت کیا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ کھانا کھانے کا کتنی دفعہ شرف حاصل ہوا۔فرمایا:دو دفعہ مختلف موقعوں پر موقعہ ملا۔پہلی دفعہ تو گول کمرہ میں اور دوسری بار بٹالہ کے باغ میں جو کچہریوں کے متصل ہے۔جہاں حضرت صاحب کسی گواہی کیلئے تشریف لے گئے تھے۔ اس موقعہ پر چالیس پچاس دوست حضور کے ہمرکاب تھے۔کھانا دارالامان سے پک کر آگیا تھا۔فرش بچھا کر دو قطاروں میں دوست بیٹھ گئے۔ مَیں دوسری قطارمیں بالکل حضرت صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔اتنے میں ایک ہندو وکیل صاحب آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کے الہامات میں جو ’’دافع البلاء‘‘ میں شائع ہوئے ہیں ایک الہام میں شرک کا رنگ ہے اور وہ الہام ’’ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ‘‘ ہے ۔ حضرت صاحب نے اسکے جواب میں ابھی کوئی کلمہ اپنی زبان مبارک سے نہ فرمایا تھا کہ مَیں نے فوراً کہا کہ وہاں ایک تشریحی نوٹ بھی تو ہے۔وکیل نے انکار کیا کہ وہاں کوئی نوٹ نہیں۔ مَیں نے کہا کہ کتاب لائو مَیں دکھا دیتا ہوں۔اس نے جواب دیا کہ میرے پاس کتاب کہاں ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس وقت میرے پاس حضرت صاحب کی سب کتب موجود تھیں۔ جن کی مَیں نے خوبصورت جلدیں بندھوائی ہوئی تھیں اور وہ کتب مَیں مشہورمباحثہ مُد کے سلسلہ میں اپنے ہمراہ لے گیا تھاکیونکہ مباحثہ ہماری تحریک پر ہی ہوا تھا۔مَیں نے فوراً ہاتھ صاف کرتے ہوئے کتاب دافع البلاء کی جلد نکالی۔ قدرت خداوندی تھی کہ جو نہی میں نے کتاب کھولی تو پہلے وہی صفحہ نکلا جس میں یہ الہام اور تشریحی نوٹ درج تھا۔ مَیں نے وہ کتاب وکیل صاحب کو پڑھنے کیلئے دی۔یہ نوٹ پڑھ کر وکیل صاحب کو تو بہت ندامت ہوئی لیکن مجھے اب تک اپنی اس جسارت پر تعجب آتا ہے کہ مَیںحضور کی موجودگی میں اس طرح بول پڑا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سارے عرصہ میں خاموش رہے۔یہ واقعہ کھانے کے درمیان میںہوا تھا۔اس وقت حضرت صاحب کے چہرہ پر خوشی نمایاں تھی۔ حضور نے اپنے سامنے والی قیمہ کی رکا بی مجھے عنایت کرکے فرمایا کہ آپ اس کو کھالیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام میں ’’ بمنزلۃ ولد‘‘کہا گیا ہے نہ کہ’’ ولد‘‘ جس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے اسی طرح محبت کرتا ہے اور اسی طرح آپ کی حفاظت فرماتا ہے جس طرح ایک باپ اپنے بچے کے ساتھ کرتا ہے۔
(909) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار لدھیانہ محلہ اقبال گنج میں حضرت اقدس علیہ السلام کے پاس بیٹھ کر اپنے محلہ صوفیاں میں واپس گھر آیا۔ اور پھر کسی کام کیلئے جو بازار گیاتو حضور علیہ السلام چوڑا بازار میں صرف اکیلے ہی بڑی سادگی سے پھر رہے تھےاور اس وقت صرف واسکٹ پہنی ہوئی تھی کوٹ نہ تھا۔ واللہ اعلم کس خیا ل میںپھر رہے تھے۔ورنہ حضور کو اکیلے پھرتے لدھیانہ میں نہ دیکھا تھااور خاکسار بھی اسی خیال سے سامنے نہ ہوا کہ شاید کوئی بھید ہوگا۔پھر اسی لدھیانہ میں خاکسار نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام دہلی سے واپس لدھیانہ تشریف لائے تو حضور کی زیارت کیلئے اس قدر اسٹیشن پر ہجوم ہوگیا تھا کہ بڑے بڑے معزز لوگ آدمیوں کی کثرت اور دھکا پیل سے زمین پر گر گئے تھے اور پولیس والے بھی عاجز آگئے تھے ۔گردوغبار آسمان کو جارہا تھااور حضور اقدس علیہ السلام نے بھی بڑی محبت سے لوگوں کو فرمایا کہ ہم تو یہاں چوبیس گھنٹے ٹھہریں گے، ملنے والے وہاں قیامگاہ پر آجائیں۔ایک وقت اکیلے یہاں پھرتے دیکھا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ اس قدر ہجوم آپ کی زیارت کے لئے جمع ہوگیا تھا۔
اس مؤخر الذکر سفر میں حضور علیہ السلام نے لدھیانہ میں ایک لیکچر دیا۔جس میں ہندو، عیسائی، مسلمان اور بڑے بڑے معزز لوگ موجود تھے۔تین گھنٹے حضور اقدس نے تقریر فرمائی۔حالانکہ بوجہ سفر دہلی کچھ طبیعت بھی درست نہ تھی۔رمضان کا مہینہ تھا۔اس لئے حضور اقدس نے بوجہ سفر روزہ نہ رکھا تھا۔اب حضور اقدس نے تین گھنٹہ تقریر جو فرمائی تو طبیعت پر ضعف سا طاری ہوا۔ مولوی محمد احسن صاحب نے اپنے ہاتھ سے دودھ پلایا۔جس پر ناواقف مسلمانوں نے اعتراضاً کہا کہ مرزا رمضان میں دودھ پیتا ہے اور شور کرنا چاہا۔لیکن چونکہ پولیس کا انتظام اچھا تھا۔فوراً یہ شور کرنے والے مسلمان وہاں سے نکال دئیے گئے۔ اس موقعہ پر یہاں پر تین تقاریر ہوئیں۔اوّل مولوی سیّدمحمد احسن صاحب کی ۔ دوسرے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی۔تیسرے حضور اقدس علیہ السلام کی۔ پھر یہاں سے حضور امرتسر تشریف لے گئے۔وہاں سُنا ہے کہ مخالفوں کی طرف سے سنگباری بھی ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بازار میں اکیلے پھرنے کی بات تو خیر ہوئی مگر مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ حضور بازار کے اند رصرف صدری میں پھر رہے تھے اور جسم پر کوٹ نہیں تھا کیونکہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ گھر سے باہر ہمیشہ کوٹ پہن کر نکلتے تھے ۔ پس اگر میر صاحب کو کوئی غلطی نہیں لگی تو اس وقت کوئی خاص بات ہوگی یا جلدی میں کسی کام کی وجہ سے نکل آئے ہوں گے یا کوٹ کا خیال نہیں آیا ہوگا۔
(910) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سید عبد الستا ر شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھ سے میری لڑکی ز ینب بیگم نے بیان کیاکہ مَیں تین ماہ کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میںرہی ہوں۔ گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی۔ بسااوقات ایسا ہوتاکہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھ کو پنکھا ہلاتے گذر جاتی تھی۔مجھ کواس اثنا میں کسی قسم کی تھکان و تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا۔دو دفعہ ایسا موقعہ آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقع ملا۔پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند، نہ غنودگی اور نہ تھکان معلوم ہوئی بلکہ خوشی اور سرورپیدا ہوتا تھا۔اسی طرح جب مبارک احمد صاحب بیمار ہوئے تو مجھ کو ان کی خدمت کیلئے بھی اسی طرح کئی راتیں گذارنی پڑیں۔تو حضور نے فرمایا کہ ز ینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہےاور آپ کئی دفعہ اپنا تبرک مجھے دیا کرتے تھے۔
(911) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفہ اولؓ کے درس میں جب آیت وَمَااُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ۔اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (یوسف:54) آیا کرتی تو آپ کہا کرتے تھے کہ یہ عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے ۔ایک دفعہ حضرت صاحب کے سامنے بھی یہ بات کسی دوست نے پیش کر دی کہ مولوی صاحب اسے اِمْرَأَۃُ الْعَزِیْز کا قول کہتے ہیں۔حضرت صاحب فرمانے لگےکیا کسی کا فریا بد کار عورت کے منہ سے بھی ایسی معرفت کی بات نکل سکتی ہے۔اس فقرہ کا تو لفظ لفظ کمال معرفت پر دلالت کرتا ہے۔یہ توسوائے نبی کے کسی کا کلام نہیں ہوسکتا۔یہ عجز اور اعتراف کمزوری کا اور اللہ تعا لیٰ پر توکل اور اس کی صفات کا ذکریہ انبیاء ہی کی شان ہے۔آیت کا مضمون ہی بتا رہا ہےکہ یوسف کے سوا اور کوئی اسے نہیں کہہ سکتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر204 میں بھی آچکا ہے۔
(912) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ کسی تکلیف کے علاج کیلئے اس عاجز کو یہ حکم دیا کہ ڈاکٹر محمد حسین صاحب لاہوری ساکن بھاٹی دروازہ سے (جومدّت ہوئے فوت ہوچکے ہیں) نسخہ لکھوا کر لاؤاور اپنا حال بھی لکھدیااور بتابھی دیا۔چنانچہ مَیں ڈاکٹر صاحب موصوف کی خدمت میں حاضر ہوااوران سے نسخہ لاکر حضرت صاحب کو دیا۔ڈاکٹر صاحب سے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب ان سے پہلے بھی علاج کرایا کرتے تھے اور مشورہ بھی لیا کرتے تھے۔
(913) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹرمیر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب پنجاب میں طاعون کا دور دورہ ہوا اور معلوم ہوا کہ چوہوں سے یہ بیماری انسانوں میں پہنچتی ہے ۔تو حضرت صاحب نے بلیوں کا خیال رکھنا شروع کر دیا بلکہ بعض اوقات اپنے ہاتھ سے دودھ کا پیالہ بلیوں کے سامنے رکھدیا کرتے تھےتاکہ وہ گھر میں ہل جائیں۔ چنانچہ اس زمانہ سے اب تک دارمسیح موعود میں بہت سی بلیاںرہتی ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک زمانہ میں تو ہمارے گھر میں بلیوں کی اس قدر کثرت ہوگئی تھی کہ وہ تکلیف کا باعث ہونے لگی تھیں۔جس پربعض بلوں کو پنجروں میں بند کروا کے دوسری جگہ بھجوانا پڑا تھا۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ باوجود خدائی وعدہ کے کہ آپکی چاردیواری میں کوئی شخص طاعون سے نہیں مرے گا۔ آپکو خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کا کتنا خیال رہتا تھا۔
(914) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دفعہ حضور سے عرض کیا کہ مجھے کھانا کھاتے ہی بیت الخلاء جانے کی حاجت ہونے لگتی ہے۔حضورفرمانے لگے ایسے معدہ کو حکیموں نے بخیل معدہ کہا ہے۔یعنی جب تک اس کے اندر کچھ نہ پڑے تب تک وہ پہلی غذا نکالنے کو تیار نہیں ہوتا۔
(915) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایک اہم امر کیلئے دیوان حافظ سے بھی فال لی تھی لیکن اب یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ کس امر کیلئے فال لی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ فال بھی ایک قسم کی قرعہ اندازی ہے اور اگر اسکے ساتھ دعا شامل ہو تو وہ ایک رنگ کا استخارہ بھی ہو جاتی ہے۔مگر مَیں نے سنا ہے کہ حضرت صاحب قرآن شریف سے فال لینے کو ناپسند فرماتے تھے۔
(سیرۃ المہدی ، جلداوّل،حصہ سوم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…