اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-09

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(916) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضر ت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھےاوردوسری دو چارپائیوں پر مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک بوری نیچے پڑی ہوئی تھی۔اس پر مَیں دو چار آدمیوں سمیت بیٹھا ہوا تھا۔ میرے پاس مولوی عبدالستارخان صاحب بزرگ بھی تھے۔حضرت صاحب کھڑے تقریر فرما رہے تھے کہ اچانک حضور کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایاکہ ڈاکٹر صاحب آپ میرے پاس چارپائی پر آکر بیٹھ جائیں۔مجھے شرم محسوس ہوئی کہ مَیں حضور کے ساتھ برابر ہوکر بیٹھوں۔ حضور نے دوبارہ فرمایا کہ شاہ صاحب آپ میرے پاس چارپائی پر آجائیں۔مَیں نے عرض کی کہ حضور مَیں یہیں اچھا ہوں۔تیسری بار حضورنے خاص طور پر فرمایا کہ آپ میری چارپارئی پر آکر بیٹھ جائیںکیونکہ آپ سیّد ہیںاور آپ کا احترام ہم کو منظور ہے۔حضور کے اس ارشاد سے مجھے بہت فرحت ہوئی اور میں اپنے سیّد ہونے کے متعلق حق ا لیقین تک پہنچنے کیلئے جو آسمانی شہادت چاہتا تھاوہ مجھے مل گئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو تو اپنے سیّد ہونے کا ثبوت ملنے پر فرحت ہوئی اور مجھے اس بات سے فرحت ہوئی ہے کہ چودہ سو سال گذر جانے پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کی اولاد کا کس قدر پاس تھااور یہ پاس عام توہمانہ رنگ میں نہیں تھابلکہ بصیرت اور محبت پر مبنی تھا۔
(917) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری لڑکی ز ینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضور علیہ السلام سیالکو ٹ تشریف لے گئے تھے تو مَیں رعیہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ان ایام میں مجھے مراق کا سخت دورہ تھا۔مَیں شرم کے مارے آپ سے عرض نہ کر سکتی تھی ۔مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میری بیماری سے کسی طرح حضور کو علم ہوجائے تاکہ میرے لئے حضور دُعا فرمائیں۔مَیں حضور کی خدمت کر رہی تھی کہ حضور نے اپنے انکشاف اور صفائی قلب سے خود معلوم کرکے فرمایازینب تم کو مراق کی بیماری ہے۔ہم دُعا کرینگے،تم کچھ ورزش کیا کرو اور پیدل چلا کرو۔مگر مَیں ایک قدم بھی پیدل نہ چل سکتی تھی ۔اگر دو چار قدم چلتی بھی تو دورہ مراق وخفقان بہت تیز ہوجاتا تھا۔مَیں نے اپنے مکان پر جانے کیلئے جو حضور کے مکان سے قریباً ایک میل دور تھاٹانگے کی تلاش کی مگر نہ ملا۔اس لئے مجبوراًمجھ کو پیدل جانا پڑا۔مجھ کو یہ پیدل چلنا سخت مصیبت اور ہلاکت معلوم ہوتی تھی مگر خدا کی قدرت، جوں جوں مَیں پیدل چلتی تھی آرام معلوم ہوتا تھا۔حتیّٰ کہ دوسرے روز پھر مَیں پیدل حضور کی زیارت کو آئی تو دورہ مراق جاتا رہا اور بالکل آرام آگیا۔
(918) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ عرصہ کی بات ہے کہ مَیں لاہور میں خوا جہ کمال الدین صاحب کے مکان میں صبح کے وقت بیٹھا قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا اور ایک چارپائی پر فخر الدین ملتانی بھی بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا۔اتنے میں مجھے فخر الدین ملتانی نے کہا کہ دیکھو میر صاحب!مولوی محمد حسین بٹالوی جا رہا ہے۔مَیں نے پوچھا کہاں ؟تب اس نے اشارہ کیا کہ وہ دیکھو۔مَیں ننگے پائوں اور ننگے سر جس طرح بیٹھا ہوا تھا اسی طرح اُن کے پیچھے بھاگا۔دیکھا تو ایک وزنی بیگ اُٹھائے مولوی صاحب اسٹیشن کی طرف جا رہے ہیں۔ مَیں نے جاکر السلام علیکم کہا اور ان کا بیگ لے لیاکہ مَیں آپ کے ساتھ لئے چلتا ہوں۔پہلے انہوں نے انکار کیا مگر میرے اس اصرار پر مجھے دیدیا کہ آپ ضعیف ہیں اور اتنا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔اس پر انہوں نے جزاک اللہ کہا اور مَیں ساتھ ہولیا۔راستہ میں کہا کہ مَیں نے ٹمٹم کا انتظار کیامگرنہ ملی۔اگر ٹمٹم کا انتظار کرتا تو شاید گاڑی نکل جاتی۔مجھے ضروری مقدمے میں جانا ہے۔آپ نے بڑی تکلیف کی۔مَیں نے کہا کہ نہیں مجھے بڑی راحت ہے کہ آپ ایک معمولی سے معمولی آدمی کی طرح اتنا بوجھ اٹھائے چلے جارہے ہیںاور اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کی ایک نئے رنگ میں تصدیق کر رہے ہیں۔ یہ فقرہ سُن کر مولوی صاحب بہت ناراض ہوئے اور مردود میر زائی کہہ کر وہ بیگ مجھ سے چھین لیا اور پھر چل پڑے مگر میں کچھ دُور اُن کے ساتھ گیا اور منت خوشامد سے بیگ پھر اٹھا لیا۔اس پر کہنے لگے کہ مرزا نے تم لوگوں پر جادو کر دیا ہےتم تو دیوانہ ہوگئے ہواس میں کیا دھرا ہوا ہے۔ہم تو انہیں بچپن سے جانتے ہیںان کے کچے چٹھے ہمیں معلوم ہیں۔مَیں نے کہا آج تک تو کسی نے ان کا کچا چٹھا شائع نہیں کیا۔کہنے لگے کوئی سُنتا بھی ہو۔بُری بات لوگ فوراً قبول کر لیتے ہیںاور نیک بات کی طرف کان بھی نہیں دھرتے۔ میں نے کہا آپ سچ فرما رہے ہیں۔ہرنبی کے ساتھ اس کی قوم نے ایسا ہی برتائو کیا۔کیونکہ بوجھ بہت تھااس لئے مولوی صاحب نے میرے لئے بھی پلیٹ فارم کا ٹکٹ خرید لیا اور چونکہ ریل بالکل تیار تھی سوارہوکر چلے گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع میں حضرت صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے سخت مخالفت کی اور کفر کا فتویٰ لگایا اور کہا کہ میں نے ہی اسے اٹھایا تھااور میں ہی اسے گراؤنگا۔اس وقت مولوی صاحب کی ملک میں بہت عزّت تھی اور وہ بازار میں سے گزرتے تھے تو لوگ دورسے دیکھ کر ادب کے طور پر کھڑے ہوجاتے تھےاور اہل حدیث فرقہ کے تو وہ گویا امام تھے۔اس وقت حضرت صاحب کو خدا تعالیٰ نے مولوی صاحب کے متعلق الہاماً بتایا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ یعنی جو شخص تجھے گرانے اور ذلیل کرنے کے درپے ہےہم خود اسے ذلیل ورسوا کردینگے۔ چنانچہ اسکے بعد آہستہ آہستہ مولوی محمد حسین صاحب پر وہ وقت آیاجس کا نقشہ اس روایت میں بیان ہوا ہے کہ کوئی پوچھتا نہیں تھااور بازاروں میں اپنا سامان اٹھائے پھرتے تھے اور اپنے ہم خیال لوگوں کی نظر سے بھی بالکل گر گئے تھے۔
(919) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرز تحریر میں ایک یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ حضور جب کسی لفظ یا سطر کو کاٹتے تو اس طرح کاٹتے تھے کہ پھر کوئی اسے پڑھ نہ سکےیہ نہیں کہ صرف ایک لکیر پھیر دی بلکہ اس قدر لہرداراور پاس پاس کرکے قلم سے لکیریں پھیرتے کہ کٹے ہوئے ایک حرف کا پڑھنا بھی ممکن نہ ہوتا تھا۔
(920) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میںبہت چھوٹا تھا یعنی چار پانچ سال کا ہونگا۔تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبالہ چھائونی میں مجھے انگریزی مٹھائی کی گولیاں دیا کرتے تھے اور مَیں ان کو چڑیا کے انڈے کہا کرتا تھا۔یہ حضرت صاحب کی بڑی لڑکی عصمت کی پیدائش سے پہلے کی بات ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصمت 1886ء میں پیدا ہوئی تھی اور خود میر صاحب کی پیدائش غالباً 1881ء کی ہے۔
(921) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوئوں کے ہاں کا کھانا کھا پی لیتے تھے اور اہلِ ہنود کا تحفہ از قسم شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے تھے اور کھاتے بھی تھے۔ اسی طرح بازار سے ہندو حلوائی کی دُکان سے بھی اشیاء خوردنی منگواتے تھے۔ایسی اشیاء اکثر نقد کی بجائے ٹونبو کے ذریعہ سے آتی تھیںیعنی ایسے رقعہ کے ذریعہ جس پر چیزکا نام اور وزن اور تاریخ اور دستخط ہوتے تھے۔مہینہ بعد دُکاندا ر وہ ٹونبو بھیج دیتا اور حساب کا پرچہ ساتھ بھیجتا۔اسکو چیک کرکے آپ حساب ادا کر دیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ ہندوئوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی چیز جائز سمجھتے تھے اور اس کے کھانے میں پر ہیز نہیں تھا۔آجکل جو عموماً پرہیز کیا جاتا ہےاس کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ اقتصادی ہے۔
(922) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ 1893ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلا م چند روز کیلئے ہمارے ہاں بمعہ اہل وعیال فیروز پور چھائونی تشریف لائے۔ایک دن وہاں ایک شیخ صاحب کی کوٹھی پر گئے جو انگریزی اشیاء کے تاجر تھے۔شیخ محمد جان صاحب وزیر آبادی چونکہ ان کے واقف تھے اس لئے وہ حضور کو یہ دُکان دکھانے لے گئے۔ وہاں مالک دُکان نے ایک کھلونا دکھایا جس میں ایک بلی اور ایک چوہا تھا۔اس کو کنجی دی جاتی تو چوہا آگے بھاگتا تھا اور بلی اسکے پیچھے دوڑتی تھی۔ اسے دیکھ کر کچھ دیر تو مسیح ناصری کے پرندوں کا ذکر ہوتا رہاپھر آپ چلے آئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز بھی جن کی عمر اس وقت چار سال کے قریب تھی ہمراہ تھےاور کسی دوست یا ملازم کی گود میں تھے۔جب کچھ راستہ چلے آئے تو میاں صاحب نے اس شخص کی گود میں اینٹھنا شروع کیا۔ پھر کچھ بگڑ کر لاتیں مارنے لگے اور آخر رونا شروع کر دیابہت پوچھا مگر کچھ نہ بتایا۔آخر باربار پوچھنے پر ہاتھ سے واپس چلنے کا اشارہ کیا۔اس پر کسی نے کہا شاید اس دوکان پر بلی اور چوہا پھر دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ کہنا تھا کہ میاں صاحب روتے روتے چیخ کر کہنے لگے کہ مَیں نے بلی چوہا لینا ہے۔اس پر حضرت صاحب نے کہا کہ میاں گھرچل کر منگا دیں گے مگر وہ نہ مانے۔آخر حضرت صاحب سب جماعت کے ہمراہ واپس آئے اور تاجر کی کوٹھی پر پہنچ کر دروازہ پر ٹھہر گئے۔شیخ محمد جان صاحب اندر جاکر وہ کھلونا لے آئے۔حضرت صاحب نے کہا اس کی قیمت کیا ہے ؟مَیں دیتا ہوں مگر شیخ محمد جان صاحب نے کہا کہ اس کوٹھی کے مالک ہمارے دوست اور ملنے والے ہیں اور یہ ایک حقیر چیز ہےوہ حضور سے ہر گز قیمت نہیںلیں گے۔اس پر آپ نے وہ کھلونا میاں صاحب کو دیدیا اور سب لوگ گھر واپس آئے۔
(923) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مختلف زمانوں میں حضور علیہ السلام کے زیر نظر مختلف مضامین رہا کرتے تھے۔میں نے دیکھا کہ آپ بعض دنوں میں کسی خاص مضمون پر ہر مجلس میں ذکر کرتے۔تقریریں کرتے اور مختلف پہلوئوں سے اس پر روشنی ڈالتے یہاں تک کہ کچھ دنوں میں اس مضمون کے سب پہلو واضح اور مدلّل ہو جاتے ۔اسکے بعد مَیں دیکھتا کہ پھر وہی مضمون آپ کی کسی کتاب میں آجاتا اور شائع ہوجاتا۔
(924) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصنیف کے بارے میں یہ طریق نہیں تھا کہ جو عبارت ایک دفعہ لکھی گئی اسی کو قائم رکھتے تھے بلکہ بار بار کی نظر ثانی سے اس میں اصلاح فرماتے رہتے تھے اور بسا اوقات پہلی عبارت کو کاٹ کر اسکی جگہ نئی عبارت لکھ دیتے تھے۔اصلاح کا یہ سلسلہ کتابت اور طباعت کے مراحل میں بھی جاری رہتا تھا۔مَیں نے حضرت صاحب کے مسودات اور پروفوں میں کثرت کے ساتھ ایسی اصلاح دیکھی ہے۔
(925) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اوائل زمانہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک رئویا میر عباس علی صاحب سے بیان کیا تھاجو یہ تھا کہ ہم کسی شہر میں گئے ہیںاور وہاں کے لوگ ہم سے برگشتہ ہیںاور انہوں نے کچھ اپنے شکوک دریافت کئے۔جن کا جواب دیا گیالیکن وہ ہمارے خلاف ہی رہے۔نماز کیلئے کہاکہ آئو تم کو نماز پڑھائیں تو جواب دیا کہ ہم نے پڑھی ہوئی ہے اور خواب میں یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا تھا جہاں ہماری دعوت تھی۔اس وقت ہم کو ایک کھلے کمرہ میں بٹھا یا گیا۔لیکن اس میں کھانا نہ کھلایاگیا۔پھر بعد میں ایک تنگ کمرہ میں بٹھلایا گیااور اس میں بڑی دقت سے کھانا کھایا گیا۔ آپ نے یہ رئویا بیان کرکے فرمایا کہ شاید وہ تمہارا لدھیانہ ہی نہ ہو۔پھر یہ رؤیا لدھیانہ میں ہی منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر پورا ہوا۔حضرت صاحب لدھیانہ تشریف لے گئے اور منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر دعوت ہوئی۔ جہاں پہلے ایک کھلے کمرہ میں بٹھا کر پھر ایک تنگ کمرہ میں کھانا کھلایا گیا۔پھروہاں ایک شخص مولوی عبدالعزیز صاحب کی طرف سے منشی احمد جان صاحب کے پاس آیا اور آکر کہا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ قادیان والے مرزا صاحب ہمارے ساتھ آکر بحث کر لیںیا کوتوالی چلیں۔ اس پر منشی صاحب نے کہا کہ ہم نے کونسا قصور کیا ہے کہ کوتوالی چلیں۔اگر کسی نے اپنے شکوک رفع کروانے ہیں تو محلہ صوفیاں میں آجائےجہاں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں۔اس رئویا کے پورا ہونے پر لالہ ملاوامل نے شہادت دی کہ واقعی وہ رویا پورا ہوگیا اور خاکسار بھی حضرت صاحب کے ساتھ اس دعوت میں شریک تھا جہاں رئویا پورا ہوا۔
(سیرۃ المہدی ، جلداوّل،حصہ سوم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…