اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-12

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1163)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لے آئے ۔ دیکھ کر فرمایا آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟اور اسی وقت منتظم کو بلوایااور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میںنہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کیلئے تیارکیاجائے۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھاناکھا چکا تھا اور اذان بھی ہوگئی تھی ۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے اس کا خیال نہ کرو۔

 

(1164)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب مرحوم سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ماموں قادر بخش صاحب مرحوم(والد مکرم مولوی عبد الرحیم صاحب درد) نے والد صاحب مرحوم سے بہت خواہش کی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ہمارے گھر لائیں۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ حضرت صاحب نے مکان پر جانے سے کئی ایک کو جواب دے دیا ہے۔ ماموں صاحب نے پھر کہا ۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ اچھا ہم لے آتے ہیں۔ مگر25 روپیہ لوں گا۔ ماموں صاحب نے خوشی سے25روپے دینے منظور کر لئے۔ والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اچھا۔ حضور کے بیٹھنے کی جگہ کا انتظام کرو میں جاتا ہوں۔ چنانچہ میں اور والد صاحب ماموں صاحب کے مکان سے اُٹھ کر شہر کی طرف آئے۔ والد صاحب راستے میں ہی بگھی کا انتظام کر کے اس کو ساتھ لے گئے۔ حضور اس وقت اندر تشریف فرما تھے۔ والد صاحب نے ڈیوڑھی کے دروازے پر دستک دی اور حضور باہر تشریف لے آئے اور مسکرا کر فرمانے لگے۔ میاں عبد اللہ کیا ہے ۔ والد صاحب نے عرض کی۔ حضور مکان تک تشریف لے چلیں۔ حضور نے فرمایا اچھا سواری کا انتظام کرو۔ والد صاحب نے عرض کی کہ سواری تیار ہے ۔ چنانچہ حضور بگھی میں بیٹھ گئے اور ہم سب ماموں صاحب کے مکان پر پہنچ گئے ۔ ماموں صاحب نے کچھ پھل پیش کئے ۔ والد صاحب نے ماموں صاحب سے وہ25روپیہ لے کر پھلوں میں رکھ دئیے۔ اس وقت کئی مستورات نے بیعت کی۔ دعا کے بعد حضور اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لے گئے۔ اس وقت لوگوں کو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب میاں عبد اللہ سنوری کے ساتھ مکان پر گئے تھے اور حضور کے تشریف لے جانے میں تعجب کرتے رہے کیونکہ تشریف لے جاتے وقت کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ زمانہ گذر گیا لیکن جس سادگی کے ساتھ حضور دستک دینے پر تشریف لائے تھے اس کا ایک گہرا اثر اس وقت میرے دل پر ہے ۔

 

(1165)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں رحمت اللہ صاحب ولدمیاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ میں ایک دفعہ بہت سخت بیمار ہوگیا۔ ڈاکٹروں اور حکیموں نے جواب دے دیا کہ اب یہ صرف چند دن کا مہمان ہے کسی دوائی کے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ والد صاحب مرحوم نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو مجھے نصیحت فرمائیں کہ میں اس وقت اپنی حالت کیسی رکھوں حضور کے دست مبارک سے لکھا ہوا جواب پہنچ گیا کہ اگر یہ موت نہ ہوئی تو میری دعا قبولیت کو پہنچ گئی کیونکہ دعا کرنے کے بعد یہ خط لکھا ہے ۔ حضور کا یہ خط ابھی سنور پہنچا نہ تھا کہ رات کو مجھے آرام سے نیند آگئی کہ گویامیں بیمار ہی نہ تھا۔ صبح کو والد صاحب نے میری حالت کی بابت دریافت کیا ۔ میں نے کہا کہ میری حالت بہت اچھی ہے۔ کوئی تکلیف نہیں ۔ والد صاحب مرحوم نے جوش کے ساتھ فرمایا کہ رحمت اللہ گواہ رہنا ۔ آج کا دن یاد رکھنا۔ حضرت صاحب نے تمہارے لئے دعا کر دی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے ۔ ڈاکٹر وحکیم نے قارورہ دیکھ کر کہا کہ یہ کسی مریض کا نہیں بلکہ یہ تو بالکل تندرست آدمی کا قارورہ ہے اور وہ بہت حیران تھے کہ ایک دن میں ایسی حالت کا تغیر کیسے ہوگیا۔ حضور کا جب خط آیا تو ہفتہ کے روز کی تاریخ کا تھا۔ اور مجھے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کو کلی طور پر صحت ہوگئی تھی۔ میں حضور کی دعا کی قبولیت کا زندہ نشان ہوں۔ افسوس حضرت اقدس کا یہ خط اور واسکٹ کا ٹکڑا جو میں نے تبرکًا رکھے ہوئے تھے ،گم ہوگئے ہیں ۔

 

(1166)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے کئی خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام کے کئی اوراق پر اپنے قلم سے درج فرمائے تھے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے غالباً مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مریدوں میں سے کسی نے اشتہار دیا اور اس میں اپنے خواب اور کشوف درج کئے۔ اس پر حضرت صاحب نے مجھے رقم فرمایا کہ آپ نے جو خواب دیکھے ہیں وہ اس کے جواب میں آپ اشتہار کے طور پر شائع کریں۔ چنانچہ آپ کے فرمودہ کے مطابق میںنے اشتہار شائع کردیا جس کی سرخی یہ تھی ۔
الااے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا داغے کہ من درسینہ دارم تُو کجا داری
وہ خواب جہاں تک مجھے یاد ہیں حسب ذیل تھے ۔
(1)بیعت اولیٰ کے موقعہ پر جب میں لدھیانہ میں تھا تو ایک صوفی نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ اس کیلئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایایا جس پر خدا فضل کرے۔ مجھے اُسی رات خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔
(2)اسکے بعد یہ سلسلہ جاری ہوگیا ۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ حسّو خاں احمدی جو پہلے وہابی تھا اس کو دیکھا کہ وہ بھی کھڑا ہے اور اس نے شکایتاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یہ (یعنی خاکسار) یارسول اللہ !آپ کی حدیثوں کو نہیں مانتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرزا صاحب میرے فرزند ہیں اور جب وہ قرآن پڑھتے ہیں میری روح تازہ ہوجاتی ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایاکہ مرزا صاحب سے کہیں کہ وہ کچھ قرآن شریف سنائیں ۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
(3)ایک دفعہ میں مسجد احمدیہ کپور تھلہ میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا جس میں تشہّد میں بیٹھا تو میں نے محراب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سامنے دیکھا ۔
(4)ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب مجھے مدینہ منورہ لے گئے اور جالیوں میں سے مَیں زیارت قبر کرنا چاہتا ہوں مگر وہ جالی میرے قد سے اونچی ہے ۔ تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ دے کر اونچا کردیا۔ تو پھر میں نے دیکھا کہ سامنے کی عمارت کوئی نہیں رہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی ہوئی ہے اور آپ بیٹھے ہیں ۔
(5)ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار پر ساتھ لے گئے ۔ وہاں پر ایک چبوترہ سا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم رونق افروز تھے اور وہاں کسی قدر فاصلہ پر ایک شخص جرنیلی وردی پہنے ہوئے ایک چبوترے پربیٹھا تھا۔ مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ اسے بیعت فرمالیں۔ چنانچہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عربی میں ایک فقرہ فرمایا۔ جو مجھے اب یاد نہیں رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام نیکیوں کو اختیار کرنااور تمام بدیوں سے پرہیز کرنا۔ میں بیعت کرنے کے بعد مصافحہ کرنے کیلئے اس شخص کی طرف گیا جو جرنیلی وردی پہنے بیٹھا تھا۔ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاتے ہوئے روک دیا ۔
(6)ایک دفعہ تہجد پڑھ رہا تھا کہ ایک دم مجھے اس قدر خوشبو آئی کہ تمام مکان معطّر ہوگیا۔ میری بیوی سورہی تھی اسے چھینکیں آنے لگی اور انہوںنے کہا کہ تم نے بہت سا عطر ملا ہے ۔ جس کی وجہ سے مکان معطّر ہے۔ میں نے کہا میںنے کوئی خوشبو نہیں لگائی۔
(7)ایک دفعہ میںنے خواب میں حضرت عمر ؓ کو دیکھا کہ آپ کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں ۔ آپ کے پاس تلوار رکھی ہوئی ہے ۔ جس سے موتی اوپر نیچے جھڑ رہے ہیں۔ میں نے یہ خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں لکھ کر بھیجا ۔ تو آپ نے جواب میں فرمایاکہ فاروق ؓ کی زیارت سے دین میں استقامت اور شجاعت پید اہوتی ہے ۔

 

(1167)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حافظ معین الدین عرف مانا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر دباتا تھااور ساتھ ساتھ اپنے پیش آمدہ واقعات سناتا رہتا تھا۔ مثلاً حضور میں فلاں جگہ گیا۔ مجھے روٹی نہیںملی ۔ کتے لپٹ گئے ۔ مجھے سالن کم ملتا ہے ۔ وغیرہ ۔ اس قسم کی باتیں وہ کرتا اور حضور اس کی باتیں سنتے اور وہ روز اس قسم کی باتیں کرتا اور حضور سن لیتے۔ ایک دن میں نے دستک دی کہ حضور میں اندر آنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے کواڑ کھول دیئے ۔ میں اندر جاکر بیٹھ گیا۔ میںنے حافظ معین الدین کو بہت ڈانٹا اور سخت سست کہا کہ تم یہ کیا واہیات باتیں کیا کرتے ہو کہ فلاں جگہ روٹی نہیں ملی اور فلاں جگہ سالن کم ملتا ہے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ توجہ الی اللہ میں مجھے اس قدر استغراق ہے کہ اگر میں دنیوی باتیں نہ سنوں تو میرا دماغ پھٹ جائے۔ ایسی باتیں ایک طرح سے مجھے طاقت دیتی ہیں۔ تھوڑی دیر آپ نے ایسی باتیں کیں اور پھر میں چلا آیا کہ رات زیادہ ہوگئی تھی۔

 

(1168)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردارسفید پوش چک نمبر9شمالی ضلع شاہ پور نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ 1900ء کے قریب یااس سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسجد مبارک میں صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت جو لوگ یہاں تیرے پا س موجود ہیں اور تیرے پاس رہتے ہیں ان سب کے گناہ میں نے بخش دئیے ہیں۔

 

(1169)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے مثلاً کوئی دشمن کبھی مقدمہ کھڑا کردیتا ہے یاکوئی اور ایسی ہی بات پیش آجاتی ہے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خد اتعالیٰ ہمارے گھر میں آگیا ہے ۔

 

(1170)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار سفید پوش نے بواسطہ مولوی محمداسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ 1898-99ء کے قریب ایک دفعہ میں قادیان میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیمار ہوگیااور روزے نہ رکھ سکا۔ میرامکان اس وقت ڈھاب کے کنارے پر تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کے طور پر وہاں ڈھاب کے کنارہ پر تشریف فرماہیں ۔ مجھے کمزوری تو بہت تھی مگر میں افتاں وخیزاں حضور تک پہنچا اور افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ میں بیماری کی وجہ سے اس دفعہ روزے نہیں رکھ سکا۔ حضور نے فرمایا آپ کو دوگنا ثواب ملے گا ۔میں نے عرض کیا کہ وہ کیسے ۔حضور نے فرمایا کہ ایک تو اس بات کا ثواب کہ آپ بیماری کی حالت میں دعائیں کرتے رہتے ہیں اور دوسرے جب دوسرے دنوں میں آپ روزے رکھیں گے تو اس کا ثواب ہوگا۔

 

(1172)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن عصر کے وقت میں پروف یاکاپی لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس اندر گیا۔ اتنے میں کسی نے کہا کہ چند آدمی حضور سے ملنے کیلئے آئے ہیں۔ تب صحن سے حضور ڈونگے دالان میں آگئے ۔ ایک بڑی چادر سفید لٹھے کی لائے اور مجھے فرمایا کہ میاں منظور محمد ایک طرف سے پکڑو۔ میںنے ایک طرف سے چادر کو پکڑا اور دوسری طرف سے حضور نے خود پکڑا اور ہم دونوں نے مل کر چادر بچھائی ۔ تب حضور اس چادر پر بیٹھ گئے اور فرمایا جاؤ ۔ ملنے والوں کو بلا لاؤ ۔میںنے باہر جاکر ان کو اطلاع دی کہ اندر آجاؤ۔

 

(1173)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ ڈونگے دالان کے صحن میں چارپائی پر لیٹے تھے اور لحاف اوپر لیا ہوا تھا۔ کسی نے کہا کہ ایک ہندو ڈاکٹر حضور سے ملنے آیا ہے ۔ حضور نے اندر بلوالیا۔ وہ آکر چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا رنگ نہایت سفید اور سرخ تھا۔ جنٹلمینی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ طبیعت پوچھنے کے بعد شاید اس خیال سے کہ حضور بیمار ہیں، جواب نہیں دے سکیں گے ۔ مذہب کے بارہ میں اس وقت جو چاہوں کہہ لوں اس نے مذہبی ذکر چھیڑدیا۔ حضور فوراً لحاف اُتار کر اُٹھ بیٹھے اور جواب دینا شروع کیا ۔یہ دیکھ کر اس نے کہا کہ میں پھرکبھی حاضر ہوں گا اور چلا گیا۔

 

(1174)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جب ایف اے کے طالب علم یاشاید ڈاکٹری کے طالب علم تھے تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے ایک دن کہا کہ خداتعالیٰ کا ایک نام مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب بھی ہے۔ یہ نام لے کر بھی دعا مانگا کرو۔

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)