اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-23

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(931) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز پیر سراج الحق صاحب سر ساوی اپنے علاقہ کے آموں کی تعریف کر رہے تھے کہ ہمارے علاقہ میں آم بہت میٹھے ہوتے ہیں۔جو لوگ ان کو کھاتے ہیں تو گٹھلیوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔گویا لوگ کثرت سے آم چوستے ہیں۔اس وقت حضرت اقدس بھی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔فرمایا۔پیر صاحب جو آم میٹھے ہوتے ہیں وہ عموماً ثقیل ہوتے ہیں اور جو آم کسی قدرترش ہوتے ہیں وہ سریع الہضم ہوتے ہیں۔پس میٹھے اور ترش دونوں چوسنے چاہئیں کیونکہ قدرت نے ان کو ایسا ہی بنایا ہے۔
(932) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھااور مسیح موعود کا زمانہ تکمیل اشاعت کا زمانہ ہے۔
(933) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں حافظ معین الدین عرف مانا مؤذن مقرر تھااور کچھ وقت احمد نو ر کابلی بھی مؤذن رہے ہیں اور مَیں بھی کچھ عرصہ اذان دیتا رہا ہوںاور دوسرے دوست بھی بعض وقت اذان دیدیتے تھے۔گویا اس وقت مؤذن کافی تھے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ دو مؤذن ایک ہی وقت اذان دینے کیلئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ایک روز ایک شخص نے اذان دینی شروع کی تو حافظ معین الدین نے بھی شروع کردی۔پھر حافظ صاحب ہی اذان دیتے رہے اور دوسرا شخص خاموش ہوگیا۔مَیں نے ایک روز صبح کے وقت اذان دی تو حضرت اقدس اندر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ مَیں نے کھانانہیں کھایا کیونکہ رمضان شریف کامہینہ تھا۔اس وقت شوق کی وجہ سے مؤذنوںمیں بھی جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ایک کہتا تھا کہ میں نے اذان دینی ہے اور دوسرا کہتا تھا مَیں نے دینی ہے۔بعض وقت مولوی عبدالکریم صاحب بھی اذان دیدیا کرتے تھے۔
(934) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بہت ابتدائی زمانہ کا ذکر ہے کہ مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست ضلع گورداسپور مرزا نظام الدین صاحب کے مکان میں آکر ٹھہرے ہوئے تھے۔ان کو شکار دیکھنے کا شوق تھا۔وہ مرزا نظام الدین صاحب کے مکان سے باہر نکلے اور ان کے ساتھ چند کس سانسی بھی جنہوں نے کتّے پکڑ ے ہوئے تھے نکلے۔ مولوی غلام علی صاحب نے شاید حضرت صاحب کو پہلے سے اطلاع دی ہوئی تھی یا حضرت صاحب خودان کی دلداری کیلئے باہر آگئے۔بہر حال اس وقت حضرت صاحب بھی باہر تشریف لے آئےاور آپ آگے آگے چل پڑے اور ہم پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔اس وقت حضرت صاحب کے پائوں میں جو جوتا تھاوہ شاید ڈھیلا ہونے کی وجہ سے ٹھپک ٹھپک کرتا جاتا تھا۔مگر وہ بھی حضرت صاحب کو اچھا معلوم ہوتا۔چلتے چلتے پہاڑی دروازہ پر چلے گئے۔وہاں ایک مکان سے سانسیوں نے ایک بلّے کو چھیڑکر نکالا۔یہ بلّا شاید جنگلی تھا جووہاں چھپا ہوا تھا۔جب وہ بلّا مکان سے باہر بھاگا تو تمام کتّے اس کو پکڑنے کیلئے دوڑے۔یہاں تک کہ اس بلّے کو انہوں نے چیر پھاڑ کر رکھدیا۔یہ حالت دیکھ کر حضرت صاحب چپ چاپ واپس اپنے مکان کو چلے آئے اور کسی کو خبر نہ کی ۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ صدمہ دیکھ کر آپ نے برداشت نہ کیا اور واپس آگئے۔
(935) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ 1897-98ء کا واقعہ ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر قادیان کے نزدیک ایک گائوں کے احمدی جلسہ پر آئے۔یہ گائوں فیض اللہ چک یا تھہ غلام نبی یا سیکھواں تھاجو قادیان سے قریب ہی واقع تھا۔وہاں کے لوگوں نے برسبیل تذکرہ ذکر کیا کہ ہمارے گائوں کے اکثر لوگ بہت مخالف ہیں اور حضرت صاحب اور آپ کے مریدوں کوبرا بھلا کہتے ہیں اور اگر ان کو دلائل سنائیں تو سنتے نہیں۔اس پر ایک مرحوم دوست حافظ محمد حسین صاحب نابینا جو ڈنگہ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے کہنے لگے کہ مَیں تمہارے گائوں میں آئونگا اورغیر احمدیوں کی مسجد میں ٹھہرونگا اور غیر احمدی بن کر تم سے مباحثہ کرونگا۔پھر جب شکست کھاجائونگا تو مخالفین پر اچھا اثر پڑے گا۔نیز وہ اس بہانے سے تمہارے دلائل سُن لیں گے۔غرض یہ سمجھوتہ ہوگیا۔جلسہ کے بعد وہ لوگ اپنے گائوں چلے گئے اور حافظ صاحب مر حوم ایک دو روز بعد اس گائوں میں پہنچے اور غیر احمدیوں کی مسجد میں ٹھہرے۔اور وہاں للکار کر کہا کہ یہاں کوئی میرزائی ہے؟ میرے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔لائو مَیں ان کو توبہ کرائوں۔غیر احمدیوں نے کہا ہاں یہاں فلاںشخص ہے۔حافظ صاحب نے کہا کہ ان کو بلائو تو مَیں ان کو قائل کروں اور بحث میں شکست دوں ۔وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور مجمع ہوگیا۔احمدی بلائے گئے۔ سوال وجواب شروع ہوئے اور حیات وفات مسیح پر بحث ہونے لگی۔پہلے تو حافظ صاحب نے مشہور مشہور دلیلیں غیر احمدیوں والی پیش کیں۔پھر ہوتے ہوتے احمدیوں نے ان کو دبانا شروع کیا۔آخر وہ بالکل خاموش ہوگئے اور یہ کہہ دیا کہ مَیں آگے نہیں چل سکتا۔واقعی ان دلائل کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔غیر احمدیوں کو شُبہ پڑگیا کہ یہ شخص سکھایا ہوا آیا ہےورنہ اگر یہ شخص غیر احمدی ہوتاتو فوراً اس طرح قائل نہ ہوتا۔اس پر انہوں نے حافظ صاحب کو بُرا بھلا کہا بلکہ غالباً جسمانی تکلیف بھی دی اور آخر حافظ صاحب نے احمدیوں کے گھر میں آکر پناہ لی۔ حضرت صاحب کو جب یہ قصّہ معلوم ہوا تو آپ کو بہت ناگوار گزرااور آپ نے فرمایا کہ یہ بہت نامناسب حرکت کی گئی ہے۔ہمارے دوستوں کو ایسا طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
(936) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م فرمایا کرتے تھے کہ شرعی طور پر زنا کے الزام کا گواہ جب تک سلائی اور سرمہ دانی والی حالت کی چشم دید گواہی نہ دے تب تک اسکی گواہی قبول نہیں ہوتی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے یہ الفاظ ایک حدیث کا ترجمہ ہیںجس کے یہ الفاظ ہیںکہ کَالْمِیْلِ فِی الْمِکْحَلَۃِ
(937) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی پہلی سنتوں کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تَحِیَّۃُ الْمَسْجِد ہیںاس لئے آپ دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔
(938) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ سرکے دَورہ میں پیر بہت جھسواتے تھے اور بدن زور سے دبواتے تھے۔اس سے آپکو آرام محسوس ہوتا تھا۔
(939) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جب تک مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے تھےاور صبح اور مغرب اور عشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا۔ قنوت میں پہلے قرآنی دُعائیں پھر بعض حدیث کی دُعائیںمعمول ہوا کرتی تھیں۔آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے۔جودُعائیں اکثر پڑھی جاتیں تھیںان کو بیان کر دیتا ہوں۔
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار
(البقرۃ:202)
رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْ تَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ
(آل عمران :195)
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ
(الاعراف:24)
رَبَّنَا ھَبْ لَنَامِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
(الفرقان:75)
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَأْ نَا
(البقرۃ:287)
رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا(الفرقان:66)
رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ (الاعراف:90)
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ (یونس:86)
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا
(آل عمران:9)
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا
(آل عمران:194)
اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ بِالْاِمَامِ الْحَکَمِ الْعَادِلِ ۔
اَللّٰھُمَّ انْصُرْمَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری سے پہلی دعا میں دراصل مسیح موعود کی بعثت کی دعا ہے مگر بعثت کے بعد اس کے یہ معنے سمجھے جائیں گے ،کہ اب مسلمانوں کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا کر۔
(940) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں معراج الدین صاحب عمر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب کبھی کوئی ایسا اعتراض یا مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتا یا کسی کی تحریر کے ذریعہ حضور کو پہنچتاکہ جس کا جواب دینا ضروری ہوتا ۔تو عام طور پر حضرت صاحب اس اعتراض یا مسئلہ کے متعلق مجلس میں اپنے دوستوں کے سامنے پیش کر کے فرماتے کہ اس معترض کے اعتراض میں فلاں فلاں پہلوں فروگذاشت کئے گئے ہیں۔ یا اس کی طبیعت کو وہاں تک رسائی نہیں ہوئی ، یا یہ اعتراض کسی سے سُن کر اپنی عادت یا فطرت کے خبث کا ثبوت دیا ہے۔ پھر حضور اس اعتراض کو مکمل کرتے اور فرمایا کرتے کہ اگر اعتراض ناقص ہے تو اسکا جواب بھی ناقص رہتا ہے۔اس لئے ہماری یہی عادت ہے کہ جب کبھی کسی مخالف کی طرف سے کوئی اعتراض اسلام کے کسی مسئلہ پرپیش آتا ہےتو ہم پہلے اس اعتراض پر غور کرکے اسکی خامی اور کمی کو خود پورا کر کے اس کو مضبوط کرتے ہیں اور پھر جواب کی طرف توجہ کرتے ہیںاور یہی طریق حق کو غالب کرنے کا ہے۔
(سیرۃ المہدی ، جلداوّل،حصہ سوم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…