اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-05

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1154)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ ہم نے ایک باغیچہ لگا یا ہے آؤ آپ کو دکھاتے ہیں ۔ آپ مجھے اپنے زنانہ مکان میں لے گئے اور وہاں اپنے کتب خانہ میں بٹھا دیا کہ یہ باغیچہ ہے ۔ تمام عربی کتب تھیں ۔ ایک جگہ میں نے دیکھا کہ متکلمین کی کتابیں اوپر نیچے رکھی تھیں۔ سب سے اوپر براہین احمدیہ تھی۔ اس کے نیچے حجتہ اللہ البالغہ شاہ ولی اللہ صاحب اور اس کے نیچے اور کتابیں تھیں۔ میں نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا یہ ترتیب اتفاقی ہے یا آپ نے مدارج کے لحاظ سے لگائی ہے ۔ آپ نے فرمایا میں نے اپنے خیال میں درجہ وار لگائی ہے ۔ پھر مجھے الماری کے نیچے مولوی صاحب کے دستخطی کچھ عربی میں لکھے ہوئے کاغذ ملے جو پھٹے ہوئے تھے ، میں وہ نکال کر پڑھنے لگا۔ آپ نے منع فرمایا ۔ میںنے کہا کہ قرآن شریف کی تفسیر معلوم ہوتی ہے ۔ فرمانے لگے۔ کیا پوچھتے ہو۔ میں نے منطق الطیر کی تفسیر کی تھی۔ نہایت ذوق وشوق میں اور میں سمجھتا تھا کہ میں اس مسئلے کو خوب سمجھا ہوں لیکن کل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے منطق الطیر پر تقریر فرمائی ۔ تو میں بہت شرمندہ ہوا اور میں نے آکر یہ مضمون پھاڑ ڈالا اور اپنے آپ کو کہا کہ تُو کیا جانتا ہے ۔

 

(1155)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں قیام پذیر تھے۔ تو میں اوپر کوٹھے پر گیا ۔ حضور تنہائی میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے اور رکوع سجود لمبے کرتے تھے۔ ایک خادمہ غالباً مائی تابی اس کا نام تھا جو بہت بڑھیا تھی ۔ حضور کے برابر مصلیٰ پر کھڑے ہوکر نماز پڑھ کر چلی گئی۔ میں دیر تک بیٹھا رہا۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ مسئلہ پوچھا کہ عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے یا پیچھے۔ حضور نے فرمایا اُسے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے ۔ میں نے کہا حضور تابی تو ابھی حضور کے برابر نماز پڑھ کر چلی گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو خبر نہیں ۔وہ کب کھڑی ہوئی اور کب چلی گئی۔

 

(1156)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی اروڑا صاحب کے پاس کپور تھلہ میں خط آیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر مقدمہ قتل بن گیا ہے ۔ وہ فوراً روانہ بٹالہ ہوگئے اور ہمیں اطلاع تک نہ کی ۔ میں اور محمد خان صاحب تعجب کرتے رہے کہ منشی صاحب کہاں اور کیوں چلے گئے ہیں۔ ہمیں کچھ گھبراہٹ سی تھی ۔ خیر اگلے دن میں قادیان جانے کے ارادہ سے روانہ ہوگیا۔ بٹالہ جاکر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ اور مارٹن کلارک والا مقدمہ بن گیا ہے ۔ ابھی میں حضور کی قیام گاہ پر جاکر کھڑا ہی ہوا تھا کہ حضور نے مجھے دیکھا بھی نہ تھا اور نہ میں نے حضور کو دیکھا تھا کہ آپ نے فرمایا۔ منشی ظفر احمد صاحب کو بلا لو ۔میں حاضر ہوگیا ۔ منشی اروڑا صاحب کی عادت تھی کہ حضرت صاحب کے پاس ہمیشہ بیٹھے پیر دابتے رہتے تھے۔ اُس وقت منشی اروڑا صاحب کسی ضرورت کیلئے اُٹھ کر گئے ہوئے تھے۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ مقدمہ کے متعلق میں کچھ لکھانا چاہتا ہوں آپ لکھتے جائیں اور اس بات کا خیال رکھنا کہ کوئی لفظ خلاف قانون میری زبان سے نہ نکل جائے۔ گو میں نے سینکڑوں فیصلے ہائی کورٹوں کے پڑھے ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر تمہارے خیال میں کوئی ایسا لفظ ہو تو روک دینا۔ غرض آپ لکھاتے رہے اور میں لکھتا رہا اور میں نے عرض کی کہ منشی اروڑا صاحب کو قانون کی زیادہ واقفیت ہے ۔ انہیں بھی بلا لیا جائے ۔ حضور نے فرمایا کہ وہ مخلص آدمی ہیں اگر ان کو رخصت ملتی تو بھلا ممکن تھا کہ وہ نہ آتے۔ میںنے ذکر نہ کیا کہ وہ آئے ہوئے ہیں۔ منشی اروڑا صاحب کو جب علم ہوا تو وہ کہنے لگے کہ تم نے کیوں نہ بتایا کہ وہ تو کل کا آیا ہوا ہے ۔ میں نے کہا تم ہمیں اطلاع کر کے کیوں نہ آئے تھے۔ اب دیکھ لو۔ ہم حاضر ہیں اور آپ غائب ہیں۔ غرض ہم اس طرح ہنستے رہتے ۔

 

(1157)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جماعت علی شاہ صاحب نے منشی فاضل کا امتحان محمد خان صاحب مرحوم کے ساتھ دیا تھا۔ اس تعلق کی وجہ سے وہ کپور تھلہ آگئے ۔ محمد خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اُن سے ذکر کیا اور کچھ اشعار کا بھی ذکر ہوگیا۔ جماعت علی شاہ صاحب نے کہا کہ نظامی سے بڑھ کر فارسی میں کوئی اور لکھنے والا نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ کوئی شعر نظامی کا نعت میں سناؤ۔ انہوںنے یہ شعر پڑھا

فرستادہ خاص پروردگار
رسانندۂ حجتِ اُستوار
میں نے حضرت صاحب کا یہ شعر انہیں سنایا
صدر بزم آسمان وحجۃ اللہ بر زمیں
ذات خالق را نشان بس بزرگ اُستوار

وہ کہنے لگا کہ کوئی اردو کا شعر بھی آپ کو یاد ہے میںنے اس کو قرآن شریف کی تعریف میں حضور کے اشعار سنائے ۔

اس کے منکر جو بات کہتے ہیں
یونہی اک واہیات کہتے ہیں
بات جب ہو کہ میرے پاس آئیں
میرے منہ پر وہ بات کر جائیں
مجھ سے اس دلستاں کا حال سنیں
مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں
آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی
نہ سہی یونہی امتحان سہی

وہ کہنے لگا اہل زبان اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتے ہیں ۔ جماعت علی شاہ صاحب کے پاس ایک مسمریزم کی کتاب تھی اور وہ کہنے لگے کہ یہ ہمارے کھانے کمانے کا شغل ہے ۔

 

(1158)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک دفعہ لاہور میں لیکچر تھا تو اس موقعہ پر مولوی عبدالکریم صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت کی تھی۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس مکان کے بالا خانہ میں تشریف فرما تھے جو مسجد احمدیہ کے سامنے ہے ۔ میں بھی سکول سے رخصت لے کر لاہور پہنچ گیا ۔ لیکچر کے موقعہ پر ایک عجیب نظارہ تھا۔ جگہ بجگہ ملاں لوگ لڑکوں کو ہمراہ لئے شور مچاتے پھرتے تھے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے تھے کہ لیکچر میں کوئی نہ جائے مگر وہاں یہ حالت تھی کہ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ ہی نہ ملتی تھی۔ حضور کے نورانی چہرہ میں ایک عجیب کشش تھی۔ جب حضور تقریر کیلئے کھڑے ہوئے تو بہت شور مچ گیا۔ ہر ایک دوسرے کو منع کرتا ۔ اس پر مولوی عبد الکریم صاحب نے تلاوت شروع کی ۔ جھٹ خاموشی ہوگئی پھر حضور نے تقریر فرمائی جو آخر تک توجہ سے سنی گئی۔ لیکچر سننے کے بعد میں بھی اُس بالا خانہ میں چلا گیا جہاں حضور فرش پر ہی بیٹھے ہوئے تھے یا لیٹے ہوئے تھے ۔ (یہ مجھے یاد نہیں) میں پاؤں دبانے لگ گیا۔ اس وقت ایک شخص نے سوال کیاکہ حضور میں گنڈے تعویذ کرتا ہوں۔ میرے لئے کیا حکم ہے ۔ میرا گذارہ اسی پر ہے مجھے اب یاد نہیں رہا کہ حضور نے اس کو کیا جواب دیا۔ البتہ ایک مثال حضور علیہ السلام نے جو اس وقت دی تھی وہ مجھے اب تک یاد ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ دیکھو ایک زمیندار اپنی زمین میں خوب ہل چلاتا ہے اور کھاد بھی خوب ڈالتا ہے اور پانی بھی خوب دیتا ہے اور بیج بھی عمدہ ہوتا ہے ۔ یہ سب اس کے اپنے اختیار کی باتیں ہیں۔ بیج کا اگنا، بڑھنا یہ اس کے اپنے اختیار میں نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے خواہ وہ اُگنے ہی نہ دے ۔

 

(1159)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دفعہ لدھیانہ میں تشریف لائے ۔ رمضان شریف کامہینہ تھا ۔ یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب حضور دہلی سے تشریف لائے تھے۔ شاید1905ء کا ذکر ہے یاا س سے پہلے کا۔ میں بھی والد صاحب مرحوم کے ساتھ لدھیانہ پہنچ گیا۔ گاڑی کے آنے پر وہ نظارہ بھی عجیب تھا۔ باوجود مولوی ملانوں کے شور مچانے کے کہ کوئی نہ جائے ۔ وہ خود ہی زیارت کیلئے دوڑے بھاگے پھرتے تھے ۔ اسٹیشن کے باہر بڑی مشکل سے حضور علیہ السلام کو بگھی میں سوار کرایا گیا کیونکہ آدمیوں کا ہجوم بہت زیادہ تھا۔ جائے قیام پر حضور علیہ السلام مع خدام ایک کمرہ میں فرش پر ہی تشریف فرما تھے۔ ایک مولوی صاحب نے عرض کی کہ لوگ زیارت کیلئے بہت کثرت سے آرہے ہیں۔ حضور کرسی پر بیٹھ جائیں تو اچھا ہے ۔ حضور نے منظور فرمالیا۔ کرسی لائی گئی اور اس پر آپ بیٹھ گئے ۔ دہلی کے علماء کا ذکر فرماتے رہے جو مجھے یاد نہیں۔ چونکہ رمضان کا مہینہ تھا ۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) غرض خود کو معلوم ہوگیا کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں۔ حضور نے فرمایا میاں عبداللہ! خداکا حکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے ۔ آپ سب روزے افطار کر دیں ۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے ۔ اگلے روز حضور کا لیکچر ہوا۔ دوران تقریر حضورباربار عصا پر ہاتھ مارتے تھے۔ تقریر کے بعد ایک فقیر نے حضور علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ایک خواب بیان کی۔ حضور نے قادیان سے حضرت خلیفۃ المسیح اول کو بلانے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ بھی جلدی ہی لدھیانہ پہنچ گئے۔ حکیم صاحب نے فرمایا۔ ہم تو حکم ملتے ہی چلے آئے ،گھر تک بھی نہیں گئے ۔

 

(1160)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے نکاح کا خطبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پڑھا تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خود میری اہلیہ کی طرف سے اپنی زبان مبارک سے ایجاب قبول کیا تھا کیونکہ حضور ولی تھے۔ میں اس کو اپنی نہایت ہی خوش قسمتی سمجھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر یہ اد اکرتا ہوں ۔ نکاح تو حضور نے کئی ایک کے پڑھائے ہوں گے لیکن ا س طرح کا معاملہ شاید ہی کسی اور سے ہوا ہو۔ سب کچھ والد صاحب مرحوم ومغفور پر حضرت اقدس کی خاص شفقت کا نتیجہ تھا۔ اس کا مفصل ذکر حضرت خلیفہ اولؓ کے خطبہ نکاح میں درج ہے جو اخبار بدر میں شائع ہوچکا ہے ۔

 

(1161)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری اہلیہ تو میرٹھ گئی ہوئی تھی۔ گھر خالی تھا۔ تین دن کی تعطیل ہوگئی۔ دیوانی مقدمات کی مسلیں صندوق میں بند کر کے قادیان چلا گیا۔ وہاں پر جب تیسرا دن ہوا تو میںنے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور تعطیلیں ختم ہوگئی ہیں۔ اجازت فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا: ابھی ٹھہرو۔ تھوڑے دنوں کے بعد منشی اروڑے صاحب کا خط آیا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے۔ مسلیں ندارد ہیں تم فوراً چلے آؤ۔ مجھے بہت کچھ تاکید کی تھی۔ میںنے وہ خط حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیا ۔ آپ نے فرمایا: لکھ دو۔ ابھی ہمارا آنا نہیں ہوتا۔ میں نے یہی الفاظ لکھ دئیے کہ انہی میں برکت ہے۔ پھر میں ایک مہینہ قادیان رہا اور کپورتھلہ سے جو خط آتا میں بغیر پڑھے پھاڑ دیتا۔ ایک مہینہ کے بعد جب آپ سیر کو تشریف لے جانے لگے تو مجھے فرمانے لگے کہ آپ کو کتنے دن ہوگئے ۔ میںنے کہا حضور ایک ماہ کے قریب ہوگیا ہے ۔ تو آپ اس طرح گننے لگے۔ ہفتہ ہفتہ آٹھ اور فرمانے لگے ۔ہاں ٹھیک ہے ۔ پھر فرمایا: اچھا اب آپ جائیں ۔ میں کپورتھلہ آیااور عملہ والوں نے بتایا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے ۔ میں شام کو مجسٹریٹ کے مکان پر گیا کہ وہاں جو کچھ اس نے کہنا ہوگا وہ کہہ لے گا۔ اس نے کہا آپ نے بڑے دن لگائے اور اسکے سوا کوئی بات نہ کہی ۔ میںنے کہا کہ حضرت صاحب نے آنے نہیں دیا۔ وہ کہنے لگا ان کا حکم تو مقدم ہے ۔ تاریخیں ڈالتا رہاہوں ۔ مسلوں کو اچھی طرح دیکھ لینا اور بس ۔ میں ان دنوں ایک سر رشتہ دار کے عوض کام کرتا تھا۔

 

(1162)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اور منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان گئے ۔ منشی اروڑا صاحب اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سررشتہ دار تھے اور میں اپیل نویس تھا۔ باتوں باتوں میں مَیں نے عرض کی کہ حضور مجھے اپیل نویس ہی رہنے دینا ہے؟ فرمایا کہ اس میں آزادی ہے۔ آپ ایک ایک دو ماہ ٹھہر جاتے ہیں۔ پھر خود بخود ہی فرمایا کہ ایسا ہو کہ منشی اروڑا صاحب کہیں اور چلے جائیں (مطلب یہ کہ کسی اور آسامی پر) اور آپ اُن کی جگہ سر رشتہ دار ہوجائیں ۔ اس سے کچھ مدت بعد جبکہ حضور علیہ السلام کا وصال ہوچکا تھا منشی اروڑا صاحب تو نائب تحصیلدار ہو کر تحصیل بھونگہ میں تعینات ہوگئے اور میں ان کی جگہ سررشتہ دار ہوگیا۔ پھر منشی صاحب مرحوم نائب تحصیلداری سے پنشن پاکر قادیان جا رہے ۔ اور میں سر رشتہ داری سے رجسٹراری ہائی کورٹ تک پہنچا اور اب پنشن پاتاہوں ۔ بہت دفعہ ہم نے دیکھا کہ حضور نے بغیر دعا کے کوئی بات فرمادی ہے اور پھر وہ اُسی طرح وقوع میں آگئی ہے ۔

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)