اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-11

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(1011)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حاجی ولی اللہ جوہمارے قریبی رشتہ دار تھے اور کپور تھلہ میں سیشن جج تھے اُن کے ایک ماموں منشی عبدالواحد صاحب ایک زمانہ میں بٹالہ میں تحصیلدار ہوتے تھے ۔ منشی عبد الواحد صاحب بٹالہ سے اکثر اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والدحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو ملنے کیلئے جایا کرتے تھے اور وہ بیان کرتے تھے کہ اس وقت حضرت صاحب کی عمر15؍14سال کی ہوگی۔ اور بیان کرتے تھے کہ اس عمر میں حضرت صاحب سارا دن قرآن شریف پڑھتے رہتے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے ۔ اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے متعلق اکثر فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا کسی سے غرض نہیں رکھتا۔ سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے ۔ منشی عبد الواحد صاحب قادیان بہت دفعہ آتے جاتے تھے ۔ اُن کا بیان تھا کہ میںنے حضرت صاحب کو ہمیشہ قرآن شریف پڑھتے دیکھا ہے ۔
(1012)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپو رتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے ایک دفعہ ایک مرض کے متعلق عبد الواحد صاحب کو اپنے صرف سے دوسو روپیہ کی معجون تیار کر کے دی جس سے مرض جاتا رہا ۔ عبد الواحد صاحب نے بعدش قیمت اد اکرنی چاہی جو مرزا صاحب نے قبول نہ فرمائی ۔
(1013)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ عبدالواحدصاحب احمدی نہیں ہوئے ۔ میں نے اپنی بیعت کے بعداُن سے پوچھا کہ آپ تو سب حالات جانتے ہیں بیعت کیوں نہیں کر لیتے۔ انہوںنے کہا مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس دو جن سکھ دیو اور ہر دیو ہیں اور اُن پر اُن کا دارومدار ہے ۔ اور گویامیں اس الہام کے ذریعہ سے بیعت سے روکا گیا ہوں ۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ ذکر کیا کہ یہ اُن کا الہام غالباً شیطانی ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں ۔یہ رحمانی الہام ہے ۔ جس زبان میں الہام ہو اس کے مطابق معنے کرنے چاہئیں۔ دیو سنسکرت میں فرشتے کو کہتے ہیں ۔ گویا راحت کے فرشتے اور ملائکۃ اللّٰہ ہمارے مددگار ہیں ۔ تم انہیں لکھو ۔ چنانچہ میں نے انہیں گڑگانواں میں جہاں وہ منصف تھے خط لکھا۔ جواب نہ آیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد عبد الواحد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ عبد الواحد صاحب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے۔
(1014)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب جالندھر میں صدر واصل باقی نویس تھے جو حاجی صاحب کے بہنوئی تھے۔ اُن سے ملنے میں جالندھرجا یا کرتا تھا۔ جالندھر میں اسی طرح ایک مرتبہ گیا ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ ایک بزرگ کہیں سے جالندھرآرہے ہیں ۔ یہ سرمہ چشمہ آریہ کی طباعت سے پیشتر کا واقعہ ہے ۔ جالندھر سٹیشن پر میں اور میرا ایک رشتہ دار گئے ۔ وہاں دو تین سو آدمی حضور کی پیشوائی کیلئے موجو دتھے اور کنور بکرماں سنگھ صاحب نے اپنا وزیر اور سواری حضور کو لانے کیلئے بھیجے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب ریل سے اُترے ۔ یہ صحیح یا د نہیں کہ حضور کہاں سے تشریف لارہے تھے۔ لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کیا اور وزیر مذکور نے حضور کو بکرماں سنگھ صاحب کے ہاں لے جانے کوکہا ۔ اس دوران میں میں نے بھی مصافحہ کیا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں رہتے ہیں ۔ میں نے کہا ’’کپور تھلہ‘‘ لیکن یہاں میرے ایک رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب بوچڑ خانہ کے قریب رہتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا ہم آپ کے ساتھ چلیں گے ۔ چنانچہ بکرماں سنگھ کی گاڑی میں حضور ، مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ، حافظ حامد علی صاحب اورخاکسار سوار ہو کر منشی عبد اللہ صاحب کے مکان پر آگئے ۔ جب حضور گاڑی سے اُترنے لگے تو بہت ہجوم لوگوں کا ہوگیا ۔ عورتیں اپنے بچے حضرت صاحب کی طرف کرتی تھیں کہ حضور کے کپڑوں کی ہوا لگ جائے ۔ اُس وقت اعتقاد کایہ عالم تھا ۔ غرض حضور منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فرو کش ہوئے ۔
(1015)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فروکش تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ سرسیّد کو کیا سمجھتے ہیں؟ فرمایا!میں تو ایک طرح دیا نند کی بھی اس لحاظ سے قدر کرتا ہوں کہ بت پرستی کے خلاف ہے اور سرسیّد تو مسلمان ہے اور انہوںنے تعلیمی کام مسلمانوں کیلئے کیا ہے ۔ اُن کا ممنون ہونا چاہئے۔سرسیّد کو مسلمان کہنا بہت سے لوگوں کو ناگوار معلوم ہوا ۔
(1016)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اُس زمانہ کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتا دیا کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دور ہوسکتے ہیں ۔ تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا !’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تکرار سے ‘‘ اور پھر تقریر جاری رکھی ۔میرا اس وقت آپ پر ایمان ہوگیا ۔
منشی عبد اللہ صاحب کچھ انڈوں کا حلوا بنوا کر لائے۔ حضور نے فرمایا ! مجھے بھوک نہیں ہے لیکن منشی صاحب کے اصرار پر تھوڑا سا کھا لیا۔ ظہر کی نماز حضور نے قریب کی مسجد میں پڑھی ۔ آٹھ نو بجے صبح آپ سٹیشن پر اُترے تھے اور بعد نما زظہر آپ واپس سٹیشن پر تشریف لے گئے ۔ آپ گاڑی میں بیٹھ گئے اور میرے مصافحہ کرنے پر فرمایا۔ ہم سے خط وکتابت رکھا کرو۔ یہ غالباً1942 بکرمی کا واقعہ ہے ۔
(1017)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کپور تھلہ آکر اپنے دوستوں منشی اروڑاصاحب اور محمد خاں سے اِیَّاکَ نَعْبُدُ والی بات سنائی اور حضور کی تعریف کی ۔ اس ملاقات سے دو ڈیڑھ ماہ بعد مَیں قادیان گیا۔ حضور بہت محبت سے پیش آئے۔ خود اندر سے کھانا لا کر کھلاتے ۔ میں دس بارہ دن قادیان میں رہا ۔ اُس وقت حافظ حامد علی خادم ہوتا تھا اور کوئی نہ تھا ۔ جہاں اب مہمان خانہ اور مفتی محمد صادق صاحب کا مکان ہے ۔ اس کے پاس بڑی چوڑی کچی فصیل ہوتی تھی ۔
(1018)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کی جالندھر کی ملاقات اول کے بعد دو ماہ کے قریب گزرنے پر مَیں قادیان گیا۔ اس کے بعد مہینے ڈیڑھ مہینے بعد اکثر جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ چار ماہ بعد گیا تو حضور نے فرمایا ’’ کیا کوئی معصیت ہوگئی ہے جو اتنی دیر لگائی‘‘ میں رونے لگا ۔ اسکے بعد میں جلدی جلدی قادیان جایا کرتا تھا۔
(1019)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتااور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے ۔ میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا۔ حضور نے فرمایا ۔ کوئی رکوع پڑھ کر اور بیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔ انہی دنوں الٰہی بخش اکونٹنٹ، عبدالحق اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف سب اورسیر تینوں مولوی عبد الحق صاحب غزنوی کے مرید تھے ۔ یہ بہت آیا کرتے تھے ۔ اکثر ایسا موقعہ ہواہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے۔
(1020)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ محمد یوسف اور محمد یعقوب برادرش نے عبد اللہ صاحب غزنوی کا ایک کشف بیان کیا تھا کہ ’’قادیان سے ایک روشنی نمودار ہوگی۔ وہ ساری جہاں میں پھیلے گی مگر میری اولاد اُس سے محروم رہے گی‘‘ اور اُن تینوں میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب سے ممکن ہے یہ مراد ہو۔
مہدویت کے دعویٰ کے بعد اس واقعہ سے محمد یوسف صاحب انکاری ہوگئے تو حضرت صاحب نے مجھے حلفیہ شہادت کیلئے خط لکھا کہ تمہارے سامنے محمد یوسف نے یہ واقعہ بیان کیا تھا ۔ میں نے محمدیوسف اور محمد یعقوب کو خط لکھا کہ یہاںمیرا اور محمد خاں صاحب کا جھگڑا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا اور میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔محمد یعقوب کا جواب امرتسر سے آیا جس میں میرے بیان کردہ الفاظ کی اُس نے تائید کی ۔ میں محمدیعقوب کا خط لے کر قادیان پہنچا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور وہ خط شائع کردیا جس سے یہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے ۔
محمد یوسف صاحب میرے ہم وطن تھے ۔ میرا اصل وطن قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے اور محمدیوسف صاحب بڈھانہ سے اڑھائی میل پر حسین پور کے رہنے والے تھے ۔
(1021)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب سرمہ چشم آریہ طبع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چار نسخے مجھے اور چار منشی چراغ محمد صاحب کو کپور تھلہ بھیجے ۔ چراغ محمد صاحب دینا نگر گورداسپور کے رہنے والے تھے ۔ محمد خاں صاحب ، منشی اروڑا صاحب ، منشی عبد الرحمن صاحب اور خاکسار سرمہ چشمہ آریہ مسجد میں پڑھا کرتے تھے ۔ پھر محمد خاں صاحب ، منشی اروڑاصاحب بعد میں قادیان گئے ۔ منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہیں جایا کرتے ۔ چنانچہ تین چار روپیہ کی مٹھائی ہم نے پیش کی ۔ حضور نے فرمایا۔یہ تکلفّات ہیں ۔ آپ ہمارے مہمان ہیں ۔ ہمیں آپ کی تواضع کرنی چاہئے ۔ ہم تینوں نے بیعت کیلئے کہا کیونکہ سرمہ چشم آریہ پڑھ کر ہم تینوں بیعت کا ارادہ کر کے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا:مجھے بیعت کا حکم نہیں ۔ لیکن ہم سے ملتے رہا کرو۔ پھر ہم تینوں بہت دفعہ قادیان گئے اور لدھیانہ میں بھی کئی دفعہ حضور کے پاس گئے ۔
(1023)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کہ کہ جب میں لاہور میڈیکل کالج میں ففتھ ایئر کا سٹوڈنٹ تھاتوحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی
عزیزی اخویم میر محمد اسماعیل صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔چونکہ بار بار خوف ناک الہام ہوتا ہے اور کسی دوسرے سخت زلزلہ ہونے کی اور آفت کیلئے خبر دی گئی ہے اس لئے مناسب ہے کہ فی الفور بلا توقف وہ مکان چھوڑ دو اور کسی باغ میں جا رہو اور بہتر ہے کہ تین دن کیلئے قادیان میں آکر مل جاؤ۔
والسلام خاکسار
مرزا غلام احمد
11؍اپریل1905ء
(1024)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پیشتر میں نے سر سید احمد صاحب کی کتابیں پڑھی تھیں اور میں اور محمد خاں صاحب وفات عیسیٰ کے قائل تھے۔ چنانچہ میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو خط لکھا کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کہاں سے ثابت ہے ؟ انہوںنے جواب دیا کہ جس طرح خضر علیہ السلام کی حیات ضعیف احادیث سے ثابت ہے اور ضعیف احادیث کا مجموعہ اقسام حدیث میں سے حدیث حسن کو پہنچتا ہے ۔ میںنے جواب دیاکہ موضوع احادیث کا مجموعہ ضعیف ہوا اور ضعیف احادیث کا مجموعہ حسن ۔ پس کوئی حدیث موضوع نہ رہے گی ۔ انہوںنے جواب دیا کہ ہم اہل ھویٰ کاجواب نہیں دیا کرتے ۔ لیکن چونکہ تمہارا تعلق مرزا صاحب سے ہے اس لئے جواب لکھتا ہوں اور مرزا صاحب وہ ہیں کہ معقولی باتیں پیش کرتے ہیں اور پھر قرآن سے دکھا دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ مجددیت ’’قریب بہ اذعان‘‘ ہے (یہ مولوی رشید احمد صاحب کے الفاظ ہیں) قرآن پر جو کوئی اعتراض کرتا ہے مرزا صاحب معقولی جواب اس کا دیتے ہیں اور قرآن سے نکال کر وہی دکھا دیتے ہیں ۔
مراد اس ذکر سے یہ ہے کہ رشید احمد صاحب گنگوہی حضرت صاحب کو مجدد ہونے والا اپنے اندازے میں سمجھتے تھے ۔ وہ خطوط رشید احمد صاحب کے مجھ سے مولوی اشرف علی نے، جو رشید احمد صاحب کا مرید تھا اور سلطان پور ریاست کپور تھلہ میں رہتا تھا ،لے کر دبا لئے اور پھر باوجود مطالبہ کے نہ دئیے۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)