اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-28

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1144)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہمارے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اور دوبارہ نکاح کرادیا۔ اور رات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔ اس کے بعد آپ ایک جگہ پیشاب کرنے لگے تو مہر علی ساکن کرالیاں کو کہا کہ مجھے کوئی ڈھیلا دو۔ تو اس نے کسی دیوار سے ایک روڑا توڑ کردے دیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ یہ ڈھیلا کہاں سے لیا۔ تو اس نے کہا کہ فلاں دیوار سے ۔ آپ نے فرمایا جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو۔ بغیر اجازت دوسرے کی چیز نہیں لینی چاہئے ۔

 

(1145)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا ایک دفعہ قحط پڑا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اُم المومنین سے روپیہ قرض لیا اور گندم خرید کی اور گھر کا خرچ پورا کیا اس کے بعد آپ نے چوہدری رستم علی صاحب سے حافظ حامد علی صاحب کے ذریعہ سے 500 روپیہ منگوایااور کچھ گھی کی چاٹیاں منگوائیں۔ روپیہ آنے پر آپ نے حضرت ام المومنین کا قرض ادا کر دیا اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حافظ صاحب تھیلیوں کے تھیلے روپوں کے لایا کرتے تھے ۔ جن کی حفاظت رات کو مجھے کرنی پڑتی تھی۔

 

(1146)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین بعض دفعہ حافظ صاحب کے متعلق حضرت جی سے شکایت کرتیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں سودے میں حافظ صاحب نے کچھ پیسے رکھ لئے ہیں ۔ جس پر ہمیشہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ حافظ صاحب ایسے نہیں ۔ ہاں سودا مہنگا لائے ہوں گے ۔

 

(1147)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے عید الاضحی کے روز مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں الہاماًچند الفاظ بطور خطبہ عربی میں سنانا چاہتا ہوں ۔ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب دونوں صاحب تمام و کمال لکھنے کی کوشش کریں ۔ یہ فرما کر آپ نے خطبہ الہامیہ عربی میں فرمانا شروع کردیا۔ پھر آپ اس قدر جلدی بیان فرمارہے تھے کہ زبان کے ساتھ قلم کا چلنا مشکل ہورہا تھا اور ہم نے اس خطبہ کا خاص اثر یہ دیکھا کہ سب سامعین محویت کے عالم میں تھے اور خطبہ سمجھ میں آرہا تھا۔ ہر ایک اس سے متاثر تھا ۔ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بعض دفعہ الفاظ کے متعلق پوچھ کر لکھتے تھے۔ ایک لفظ خناطیل مجھے یاد ہے کہ اس کے متعلق بھی پوچھا ۔ خطبہ ختم ہونے پر جب حضور مکان پرتشریف لائے تو مجھے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری اور میر حامد شاہ صاحب ہم تینوں کو بلایااور فرمایا کہ خطبہ کا جو اثر ہوا ہے اور جو کیفیت لوگوں کی ہوئی ہے ۔ اپنے اپنے رنگ میں آپ لکھ کر مجھے دیں۔ مولوی عبد اللہ صاحب اور میر صاحب نے تو مہلت چاہی لیکن خاکسار نے اپنے تاثرات جو کچھ میرے خیال میں تھے اسی وقت لکھ کر پیش کر دئیے۔ میں نے اس میں یہ بھی لکھا کہ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بعض الفاظ دوران خطبہ میں دریافت فرماتے رہے ۔ وغیرہ۔ حضور کو میرا یہ مضمون بہت پسند آیا اس میں لوگوں کی محویت کا عالم اور کیفیت کا ذکرتھاکہ باوجود بعض لوگوں کے عربی نہ جاننے کے وہ سمجھ میں آرہا تھا۔ حق بات یہ ہے کہ اس کا عجیب ہی اثر تھا جو ضبط تحریر میں نہیں آسکتا ۔ دوران خطبہ میں کوئی شخص کھانستا تک نہیں تھا۔ غرض حضرت صاحب کو وہ مضمون پسند آیا اور مولوی عبد الکریم صاحب کو بلا کر خود حضور نے وہ مضمون پڑھ کر سنایااور فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ خطبہ کے ساتھ اس مضمون کو شائع کردو۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ حضور اس نے تو ہمیں زندہ ہی دفن کردیا ہے ۔ (مولوی عبد الکریم صاحب کی خاکسار سے حد درجہ دوستی اور بے تکلفی تھی) حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایااچھا ہم شائع نہیں کریںگے۔ پھر میں کئی روز قادیان میں رہا اور خطبہ الہامیہ کا ذکر اذکار ہوتا رہا۔ مولوی عبد الکریم صاحب عربی زبان سے بہت مذاق رکھتے تھے۔ اس لئے خطبہ کی بعض عبارتوں پر جھومتے اور وجد میں آجاتے تھے اور سناتے رہتے تھے اور اس خطبے کے بعض حصے لکھ کر دوستوں کو بھی بھیجتے رہتے تھے۔

 

(1148)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیالکوٹ میں ایک ماہ تک ٹھہرے رہے ۔ حضور کا وہاں لیکچر تھا ۔ عبدالحمید خاں صاحب ، مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی اور خاکسار لیکچر والے دن پہنچے ۔ تقریر کے ختم ہونے پر میں نے جاکر مصافحہ کیا۔ گاڑی کا وقت قریب تھا اس لئے رخصت چاہی۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا اب آپ کو ایک ماہ کے قریب یہاں ٹھہرے ہوئے ہوگیا ہوگا۔ اچھا اب آپ گھر جائیں۔ جب میں اجازت لے کر نیچے اُترا تو سید حامد شاہ صاحب نے کہا کہ ایک مہینے کی خدمت کا ثواب آپ نے لے لیا۔ گویا حضور کے نزدیک آپ ایک مہینہ سے آئے ہوئے ہیں۔اور میر حامد شاہ صاحب نے یہ بھی ذکرکیا کہ ایک عورت خادمہ حضور کو کھاناکھلاتی رہتی اور اس کے اولاد نہ تھی۔ اس لئے دعاکیلئے عرض کرتی رہی ۔ ایک دفعہ پھر جو اس نے دعا کیلئے دس پندرہ دن بعد عرض کی تو حضور نے فرمایا تم کہاں رہی تھیں ۔ اس نے کہا میں تو حضور کو دونوں وقت کھانا کھلاتی ہوں۔ فرمانے لگے اچھاتم کھانا کھلانے آیا کرتی ہو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کو ایسا انہماک کبھی کبھی خاص استغراق کے زمانہ میں ہوتا تھا۔ ہمیشہ یہ کیفیت نہ ہوتی تھی۔ گو ویسے حضرت صاحب کی یہ عام عادت تھی کہ آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر ادھر ادھر زیادہ نہیں دیکھا کرتے تھے ۔

 

(1149)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے عہد مبارک میںایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہوگئے ہیں۔ لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اسکا کیاجواب دیں گے۔ حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اُسی سے پوچھو(یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے) مولوی انوار حسین صاحب شاہ آبادی اس خط وکتابت میں قاصد تھے۔ اُن سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا تو میںنے حضرت صاحب سے جاکر عرض کر دی ۔ اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصرجب حضور معمولاً مسجد کی چھت پر تشریف فرماتھے تو آپ نے ناراضگی کااظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں۔ کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ نماز جمع کرے گا۔ ویسے تو نماز جمع کا حکم عام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔ اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو رہے تھے اور توبہ کر رہے تھے۔

 

(1150)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ میں اکثر دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو کھانا پکا کر کھلاتی تھی ۔ جس دن کوئی اچھا کھانا ہوتا تو آپ اس پر بہت خوش ہوتے اور اُس دن مجھے اس میں سے ضرور کچھ نہ کچھ دے دیتے اور میں وہ کھانا بعض دفعہ خود کھا لیتی اور اکثر دفعہ حافظ حامد علی صاحب کو دے دیتی ۔

 

(1151)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم مختارعام سنور ریاست پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت میری عمر قریباً54سال کی ہے ۔ میں گو بہت چھوٹی عمر کا بچہ تھا اور ابھی بولنے نہیں لگاتھا جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہمارے گھر سنور تشریف لائے تھے۔ مجھے اس وقت کا نظارہ صرف اتنا یاد ہے کہ ہمارے گھر میں کوئی شخص آیا تھا۔ لوگوں کا بہت ہجوم تھا اور مجھے گودمیں لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا میں ہزار ہزار شکر اد اکرتاہوں کہ یہ نعمت مجھے ملی۔ شاذ کے طور پر جماعت میں کوئی اور بھی ہوگا جس کو حضور علیہ السلام کی گود میں کھیلنے کا فخر حاصل ہو۔
والد صاحب مرحوم نے کئی بار مجھ سے ذکر کیا کہ اپنے مکان میں جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے اس جگہ پر بیٹھ کر دعا کرنے کیلئے احمدیوں کے خطوط آتے رہتے تھے ۔ مگر میںنے کسی کو اجازت نہیں دی کہ کہیں رفتہ رفتہ رسم نہ ہوجائے۔ یا شاید کچھ اور فرمایا تھا مجھے یاد نہیں ۔
پھر جب میں کچھ بڑا ہوگیا اور سکول میں جانا شروع کردیا تو میرے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پھر پٹیالہ تشریف لائے ۔ لوگ زیارت کیلئے جانے شروع ہوئے اور آپس میں باتیں کرتے تھے کہ چلو پٹیالہ میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں اُن کو دیکھنا ہے۔ میں نے بڑے تعجب کے ساتھ اُن کو کہا کہ وہ مرز اکیسا ہے جن کو دیکھنے پٹیالہ جانا ہے ۔ ہمارے محلہ میں بھی تومرزے رہتے ہیں اُن کو تو دیکھنے کوئی نہیں جاتا (ہمارے محلہ میں چند مغل رہتے ہیں جن کو مرز اکہتے ہیں) لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے بھی شوق پید اہوا۔ میں بھی پٹیالہ پہنچ گیا جہاں حضور ٹھہرے ہوئے تھے اور آپ کی زیارت کی ۔
پھر جب میں کچھ اور بڑا ہوگیا اور پانچویں چھٹی جماعت میں تعلیم حاصل کرنے لگا تو لوگوں میں عام چرچا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا ہونے لگا۔ کوئی اعتراض کرتا ہے،کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ سب کو اپنی اپنی بولیاں بولتے سنا کرتا تھا۔ مجھے اس وقت اتنی بھی خبر نہ تھی کہ حضور کا دعویٰ کیا ہے ۔ اور نہ ہی میں اُن دنوں احمدی ہی ہوا تھا(اُس زمانہ میں ہم حضرت صاحب کے ماننے والوں کو مرزائی کہا کرتے تھے) میری طبیعت بہت ڈگمگاتی رہتی تھی۔ کبھی مخالفین کی باتوں کا دل پر اثر اور کبھی موافقین کی باتوں کا اثر ہوتا تھا۔ غرضیکہ دل ایک طرف قائم نہ رہتا تھا۔ ایک رات کو سوتے سوتے بڑے زور کے ساتھ متواتر دو تین دفعہ یہ آوازآئی۔’’کیا کوئی مرکر بھی زندہ ہوا ہے۔ لامہدی الا عیسٰی یہی ہے۔‘‘ اس آواز کے بند ہونے کے معاً بعد دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آمنے سامنے دوزانو بیٹھے ہیں اور میرے والد صاحب مرحوم قریب کھڑے ہیں۔تھوڑی دیر کے بعد تینوں آسمان کی طرف پرواز کرنے لگ گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اوپر ہیں اور نیچے نیچے والد صاحب ہیں۔ جب آسمان کے قریب پہنچے تو آسمان پھٹ گیا اورتینوں داخل ہوگئے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ یہ آواز اور نظارہ بچپن سے ہی میرے دل میں میخ کی طرح گڑا ہوا ہے میں اُسی وقت سے آپ پر ایمان لے آیا کہ یہ نبی ہیں۔ اور اس کا اتنا گہرا اثر خد اکے فضل سے آج تک ہے کہ کبھی ظلی بروزی کی بحث میں نہیں پڑا۔

 

(1152)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر میں نقرس کا درد تھا۔ میں بھی وہیں بیٹھا تھا ۔ فرمانے لگے کہ ایک بزرگ کے پیر میں نقرس کا درد تھا۔ انہیں الہام ہوا کہ کدو کھاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور اس سے معلوم ہوا کہ خد اتعالیٰ سبب کے ذریعہ ہی کام کرتا ہے۔ فرمایا نہیں۔ بے سبب بھی کرتا ہے ۔

 

(1153)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ بمقام سرہند مجدد الف ثانی کے عرس میں ایک مولوی وعظ کررہا تھا کہ ایک عیسائی نے کہا کہ دیکھو ہمارا یسوع آسمان پر ہے اور تمہارا پیغمبر زمین میں ۔ تو اس عیسائی کو جواب دیا گیا کہ
حُباب برسر آب و گہر تہ دریا است
حضور نے مجھ سے یہ قصہ سن کر فرمایا ’’ طفل تسلیاں ہیں ‘‘

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…