اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-21

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(1142) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دہلی میں قیام فرماتھے اور وہاں کے لوگوں نے تجویزکی کہ مولوی نذیر حسین صاحب حضرت صاحب سے بحث کریں تو مولوی نذیر حسین نے بحث کرنے سے انکار کردیا۔حضور نے مولوی نذیر حسین صاحب کو خط لکھا تھا کہ میں جامع مسجد میں عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر دلائل بیان کروںگا۔ آپ اگر قسم کھا کرکہہ دیں کہ یہ صحیح نہیں ہیں تو پھر ایک سال کے اندر اگر آپ پر عذاب نہ آئے تو میں خد اکی طرف سے نہیں۔ اس کا جواب مولوی نذیر حسین نے کوئی نہ دیا ۔ جواب نہ آنے پر حضور نے ایک دوسرا خط لکھا جو محمد خان صاحب اور خاکسار لے کر مولوی نذیر حسین کے پاس گئے ۔ اس میں حضور نے لکھا تھا کہ کل ہم جامع مسجد میں پہنچ جائیں گے۔ اگر تم نہ آئے تو خدا کی لعنت ہوگی۔ یہ خط جب ہم لے کر گئے تو مولوی نذیر حسین نے ہمیں کہا کہ تم باہر مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس چل کر بیٹھو۔ خط انہیں دے دو۔ میں آتاہوں۔ مولوی محمد حسین نے وہ خط کھول لیا۔ پھر مولوی نذیر حسین صاحب آگئے اور انہوںنے مولوی محمد حسین سے پوچھا کہ خط میں کیا لکھا ہے۔ مولوی محمد حسین نے کہا میں سنا نہیں سکتا۔ آپ کو بہت گالیاں دی ہیں۔ اس وقت ایک دہلی کا رئیس وہاں بیٹھا تھا اور اس نے بھی مولوی محمد حسین کے پاس بیٹھے وہ خط پڑھ لیا تھا۔ اس نے کہا خط میں تو کوئی گالی نہیں ۔ مولوی نذیر حسین نے اسے کہا تُوبھی مرزائی ہوگیا ہے ۔ وہ پھرچپ ہوگیا۔ پھر ہم نے مولوی نذیر حسین سے کہا آپ نے جو کچھ جواب دینا ہو دے دیں۔ مولوی محمد حسین نے کہا ہم کوئی جواب نہیں دیتے۔ تم چلے جائو۔ تم ایلچی ہو۔ خط تم نے پہنچادیا ہے ۔ ہم نے کہا ہم جواب لے کر جائیں گے۔ پھر لوگوں نے کہا جانے دو۔ غرض انہوںنے جواب نہیں دیا۔ اور ہم نے سارا واقعہ حضرت صاحب کے پاس آکر عرض کردیا۔ اگلے دن ہم سب جامع مسجد میں چلے گئے۔ ہم بارہ آدمی حضرت صاحب کے ساتھ تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ محمد خان صاحب ، شیخ رحمت اللہ صاحب ، منشی اروڑا صاحب ، حافظ حامد علی صاحب ، مولوی عبد الکریم صاحب ۔ محمد سعید صاحب جو میر ناصر نواب صاحب کے بھانجے تھے اور خاکسار ۔ باقیوں کے نام یاد نہیں رہے ۔ جامع مسجد کے بیچ کے دروازہ میں ہم جاکر بیٹھ گئے۔ حضرت صاحب بھی بیٹھ گئے۔ یہ یاد پڑتا ہے کہ سید امیرعلی اور سید فضیلت علی سیالکوٹی بھی تھے۔ دروازے کے دائیں طرف یعنی دریچے کی طرف ہم تھے اور فرش کے ایک طرف مولوی نذیر حسین اور مولوی محمد حسین آٹھ سات آدمی تھے۔ تمام صحن مسجد کا لوگوں سے پُر تھا۔ ہزاروں آدمی تھے۔ انگریز کپتان پولیس آیا۔ کثرت ہجوم کی وجہ سے وہ گھبرایا ہو اتھا۔ اس نے حضرت صاحب سے آکر پوچھا کہ آپ کا یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ شیخ رحمت اللہ صاحب نے انگریزی میں اس سے ذکر کیا کہ یہ غرض ہے کہ حضرت صاحب دلائل وفات عیسیٰ بیان کریں گے اور نذیر حسین قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ صحیح نہیں ۔ وہ پھر نذیر حسین کے پاس گیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ تمہیں ایسی قسم منظور ہے۔ اس نے کہا کہ میں قسم نہیں کھاتا۔ اس نے آکر حضرت صاحب سے بیان کیاکہ وہ آپ کے دلائل سن کر قسم کھانے پر آمادہ نہیںاس لئے آ پ چلے جائیں۔ حضرت صاحب چلنے کیلئے کھڑے ہوگئے۔ میں نے حضور کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی کہ حضور ذرا ابھی ٹھہر جائیںاور میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے کہا کہ آپ کپتان پولیس سے کہیں کہ پہلے فریق ثانی جائے پھر ہم جائیں گے۔ پھر اس نے انہیں کہا۔اس پر وہ مصر ہوئے کہ پہلے ہم جائیں۔ غرض اس بارہ میں کچھ قیل قال ہوتی رہی۔ پھر کپتان پولیس نے قرار دیا کہ دونوں ایک ساتھ اُٹھ جائیں اور ایک دروازے سے وہ اور دوسرے سے ہم چلے جائیں۔ غرض اس طرح ہم اُٹھے۔ ہم بارہ آدمیوں نے حضرت صاحب کے گردحلقہ باندھ لیا اور ہمارے گرد پولیس نے۔ اس وقت دہلی والوںنے اینٹ پتھر بہت پھینکے ۔ نذیر حسین پر بھی اور ہم پر بھی۔ ہم دریچے کی جانب والے دروازے سے باہر نکلے تو ہماری گاڑی جس میں ہم آئے تھے دہلی والوں نے کہیں ہٹا دی تھی۔ کپتان پولیس نے ایک شکرم میں ہمیں سوار کرادیا۔ کوچ یکس پر انسپکٹر پولیس ، دونوں پائیدانوں پر دو سب انسپکٹر اور پیچھے سپاہی گاڑی پر تھے۔ گاڑی میں حضرت صاحب ، محمد خان صاحب ، منشی اروڑا صاحب ،خاکسار اور حافظ حامدعلی صاحب تھے۔ پھر بھی گاڑی پراینٹ پتھر برستے رہے ۔ جب ہم چلے تو مولوی عبد الکریم صاحب پیچھے رہ گئے۔ محمد خان صاحب گاڑی سے کود پڑے اور مولوی صاحب کے گرد لوگ جمع ہوگئے تھے جو محمد خان صاحب کو دیکھ کر ہٹ گئے اور محمد خان صاحب مولوی صاحب کو لے آئے ۔

 

(1143) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار دارالامان میں چند روز سے وارد تھا کہ ایک شام کو نماز مغرب کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف فرماتھے۔ پانچ سات خدام سامنے حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اس چھت کی شرقی سمت ذرا فاصلہ پر کھڑے ٹہل رہے تھے۔ وہاںسے وہ حضرت صاحب کی طرف آئے ۔ ابھی بیٹھے نہ تھے کہ حضرت صاحب سے مخاطب ہوکر اور خاکسار کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ یہ پٹیالہ والاشیخ جو حضور کے سامنے بیٹھا ہے ۔ ’’ایہہ ساتھوں گھٹ نیچری نہیں رہیاجے‘‘ یعنی یہ ہم سے کم نیچری نہیں رہااور اس نے سرسید کی بہت سی کتابیں دیکھی ہیں۔ یہ حضور کی کشش ہے جو اس کو یہاں کھینچ لائی ورنہ یہ لوگ کسی کے قابو نہیں آنے والے تھے۔ یہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ مولوی صاحب کو اس وقت حضور سے ایسا کہنے کی کیا سوجھی۔ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کا یہ کلام سن کر معاًخاکسارکی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اگر آپ نے سید صاحب کی کتابیں دیکھی ہیں تو بتاؤ آپ کو تصانیف میں سے کون سی کتابیں زیادہ پسند اور مرغوب خاطر ہوئیں۔ خاکسار نے تھوڑے تأمل کے بعد عرض کیا کہ اپنی کم علمی اور استطاعت کے باعث خاکسار سید صاحب کی کل تصانیف تو نہیں دیکھ سکا البتہ کوئی کتاب کسی صاحب سے مل گئی تو دیکھ لی یا ان کے چھوٹے چھوٹے رسالے منگا کر بھی دیکھے ہیں۔ اخبار تہذیب الاخلاق جو ایک ماہواری رسالہ کی صورت میں علی گڑھ سے شائع ہوتا تھا جس میں سید صاحب مرحوم اور مولوی چراغ علی حیدر آباد ی مرحوم اور نواب مہدی علی خان صاحب مرحوم کے مضامین ہوتے تھے۔ اس کا کئی سال خاکسار خریدار بھی رہا ہے اور اسکی پچھلی جلدوں کے فائل منگوا کر بھی دیکھے ہیں۔ سید صاحب کی تصانیف میں خطبات احمدیہ اور تبیین الکلام مجھے زیادہ پسند آئیں ۔ پہلی کتاب میں سید صاحب نے اپنے قیام لندن کے وقت قرآن مجید کی بعض آیات پر جو عیسائیوں نے اعتراض کئے تھے وہاں میوزیم کے پرانے کتبے اور قدیم اسناد سے ان کے جوابات دئیے ہیںجو ایک اہم اسلامی خدمت ہے ۔ ایسا ہی دوسری کتاب میں صفحات کے تین کالم بنا کر ایک میں توریت ۔ دوسرے میں انجیل اور تیسرے میں قرآن مجید کی متحد المضامین آیات درج کی ہیں جس سے اُن کی غرض یہ ثابت کرنا ہے کہ جب وہی مضامین ان کی مسلمہ الہامی کتب میں ہیں تو قرآن مجید کے الہامی ہونے سے اُن کو انکار کا کیا حق حاصل ہے؟ خاکسار کی یہ گفتگو سن کر حضرت صاحب نے فرمایا۔ سید صاحب کی مصنفہ کتب آپ نے کیوں دیکھیں۔ خاکسار نے ذرا تأمل کے بعد عرض کیاکہ ایک پڑھا لکھا گھرانہ ہونے اور اکثر ذی علم اشخاص کی آمد ورفت اور علمی اور اخبار ی تذکروں کے ہمیشہ سنتے رہنے کی وجہ سے طبیعت کی افتاد ہی کچھ ایسی پڑ گئی تھی کہ سکول میں سیروغیرہ میں جو ہم جماعت ، ہم عمر لڑکے ملتے ، بعض اوقات ان کے کسی مذہبی عقیدہ پر اعتراض کیا جاتا اور وہ اگر کسی اسلامی عقیدہ پر اعتراض کر دیتے تو ان کو جواب دینے کی کوشش کرتے۔ وہ لوگ چونکہ اپنے بڑوں سے سنے ہوئے فلسفہ یا سائنس کے تحت میں اعتراض کرتے تو بعض اوقات اپنا جواب خود بہت پست اور عقل کے خلاف معلوم ہوتا۔ اگر پرانی قسم کے مولویوں سے اسکے متعلق استفسار کرتے تو وہ جواب دینے کی بجائے ایسے بحث ومباحثہ سے منع کر دیتے۔ یہ بات بس کی نہ تھی ۔ آخر جب سید صاحب کے اشخاص سے اس کا ذکر آتا تو وہ بحوالہ تصانیف سر سید ایسا جواب دیتے جو بظاہر معقول دکھائی دیتا۔ اس وجہ سے سید صاحب کی کتب کو دیکھنے کا شوق پیدا ہونا لازمی امر تھا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تصانیف بھی کبھی آپ نے دیکھی ہیں ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ حضور عربی کتب تو خاکسار نہیں دیکھ سکا البتہ جو کتابیں اردو میں شائع ہوتی ہیں ان کو میں اکثر منگا کر دیکھتا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تعلیم اور سید صاحب کی تعلیم میں آپ نے کیا فرق اور امتیاز محسوس کیا ۔ حضور کے اس سوال پر ایک تردد سا پیدا ہوا اور دل میں خیال آیا کہ مولوی صاحب نے آج امتحان کا پرچہ ہی دلا دیا۔ اور بعد تأمل کے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ جیسا محدود العلم اس فرق کو کیا بیان کرسکتا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ ہماری غرض کوئی علمی فرق یا عالمانہ رائے دریافت کرنے کی نہیں بلکہ صرف یہ بات معلوم کرنی چاہتے ہیں کہ ہر دو تصانیف کے مطالعہ سے جو کیفیت آپ کے دل نے محسوس کی اس میں آپ کیا تمیز کرتے ہیں۔ کچھ دیر تأمل کرنے کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ فلسفیانہ اعتراضات کے جوابات جو سید صاحب نے دئیے ہیں ان کا نتیجہ بطور مثال ایسا ہے جیسے ایک پیاسے کو پانی کی تلاش میں جنگل میں کہیں تھوڑا ساپانی مل جائے جس کے دو چار گھونٹ پی کر صرف اسکی جان کنی کی مصیبت سے بچ جائے اور بس لیکن حضور کے کلام کا یہ عالم ہے کہ جیسے پیاسے کیلئے دودھ کا گلاس جس میں برف اور کیوڑہ پڑا ہوا ہو وہ مل جائےاور وہ سیر ہو کر مسرور اور شادماں ہوجائے ۔ یہ سن کر حضور نے فرمایا کہ اچھا کوئی مسئلہ بطور مثال بیان کرو۔ اسکے جواب میں خاکسار کو زیادہ متردد اور پریشان دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ جلدی نہیںآپ سوچ کر جواب دیں۔ تھوڑی دیر سکوت کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ مثلاً معراج کا واقعہ ہے جب کوئی اس پر معترض ہوتا اور اس کے خلاف عقل ہونے کا ادعا کرتا تو جواب میں بڑی مشکل پیش آتی تھی کہ اس کو کیا سمجھائیں کہ براق کس اصطبل سے آیا تھا اور پھر وہ اب کہاں ہے اور وہ پرند چرند اور ساتواں آسمان اور عرش معلیٰ کی سیر اور انبیاء سے مکالمات اور عرصہ واپسی اتنا کہ ابھی دروازہ کی زنجیر متحرک تھی۔ اور بستر جسم کی حرارت سے ابھی گرم تھا۔ لیکن سید صاحب کی تصانیف سے معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک خواب تھا ۔ خواب میں خواہ کچھ سے کچھ عجائبات بلکہ ناممکنات بھی دیکھ لے تو ازروئے فلسفہ کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس لئے معترض سے جان تو چھوٹ جاتی مگر اپنے دل میں معراج کی جو وقعت اور منزلت ہوتی وہ بھی ساتھ ساتھ اُٹھ جاتی بلکہ سائل اور مجیب ایک ہی رنگ میں ہوجاتے تھے۔ لیکن حضور کی تفہیم کے مطابق معراج ایک عالم کشف تھا جس کے مظاہر تعبیر طلب اور اعلیٰ پیشگوئیوںاور اخبار غیب کے حامل ہوتے ہیں جس سے معراج کی توقیر اور قدرومنزلت میں بھی فرق نہیں آنے پاتا اور معترض کوعالم کشف اور روحانی تأثرات سے اپنی لاعلمی کا احساس کرنا پڑتا ہے ۔ ایسا جواب وہی دے سکتا ہے جو خود صاحب حال اور اس سے بہروَر ہو۔ اس پر حضور نے ایک بشاش انداز میں حضرت مولوی صاحب کو مخاطب فرمایا کہ مولوی صاحب یہ سب سوالات میں نے آپ کی خاطر کئے ہیں تاآپ کو معلوم ہوجائے کہ چونکہ ان کو ایک بات کی تلاش اور دل میں اس کیلئے تڑپ تھی اس لئے خدا نے آیت وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) ‘‘کے مطابق ان کو اپنے مطلوب تک پہنچادیا۔ بڑی مشکل یہی ہے کہ لوگوں میں حق کی تلاش ہی نہیں رہی ۔ اور جب خواہش اور تلاش ہی کسی شخص کے دل میں نہ ہوتو اچھے اور برے کی تمیز کیسے ہو۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)

…٭…٭…٭…