اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-22

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1058)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران قیام جالندھر میں ایک شخص جو مولوی کہلاتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بحث کرنے کی غرض سے آیا۔ حضور نے فرمایا کہ آپ صبح کے وقت آجائیں ۔ اُس نے کہا کہ صبح کو مجھے فرصت نہیں ہوتی۔ میں بھی اُس شخص کو جانتا تھا۔ میںنے کہا ۔یہ شخص واقعی صبح کو مشغول ہوتا ہے کیونکہ شراب نوشی کا عادی ہے ۔ اس پر حاضرین تو مسکرا پڑے لیکن حضور نے صرف اس قدر فرمایا کہ آپ اپنے شکوک رفع کرنے کیلئے کوئی اور وقت مقرر کر لیں۔

 

(1059)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جالندھر میں زیادہ عرصہ قیام جب رکھا تو دوست احباب ٹھہر کر چلے جاتے تھے لیکن مولوی عبد اللہ صاحب سنوری اور خاکسار برابر ٹھہرے رہے ۔ ایک دن میں نے اور مولوی صاحب مرحوم نے ارادہ کیا کہ وہ میرے لئے اور میں اُن کے رخصت ہونے کی اجازت حاصل کریں۔ صبح کو حضور سیر کیلئے تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا۔ لوجی میاں عبد اللہ صاحب اور منشی صاحب! اب تو ہم اور آپ ہی رہیں گے اور دوست تو چلے گئے ۔ نئے نودن پرانے سو دن۔ بس پھر ہم خاموش ہوگئے اور ٹھہرے رہے ۔

 

(1060)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ابتداء میں جب میں قادیان مستقل طور پر رہنے لگا تو مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں باہرسے برات آئی تھی۔ اسکے ساتھ کنچنی بھی تھی اور ناچ وغیرہ ہوتا تھا ۔ میں ایسی شادی کی رسوم میں نہ خود شریک ہوتا ہوں اور نہ اپنی کوئی چیز دیتا ہوں ۔ مرزا نظام الدین نے مجھ سے غالباً کچھ دریاں اور چکیں مانگی تھیں ۔ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا: دے دو کیونکہ اس شادی سے اغلب ہے کہ دولہا کی اصلاح ہوگی۔

 

(1061)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزا خدابخش صاحب کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ انہوںنے لڈومیرے ہاں بھیجے ۔ میں نے واپس کر دئیے کہ عقیقہ کا کھانا تو میں لے لوں گا مگر یہ میں نہیں لیتا ۔ تھوڑے عرصہ بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام وہ رکابی خود لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ بات ٹھیک ہے جو تم نے کہی ۔ یہ بچہ کی پیدائش کے لڈو نہیں بلکہ اس شکریہ کے ہیں کہ ماں کی جان بچ گئی ۔ میں نے نہایت تکریم سے وہ رکابی لے لی ۔ اُس وقت میرے مکان زنانہ کے صحن میں ایک دروازہ تھا اس پر کھڑے کھڑے یہ باتیں ہوئیں ۔

 

(1062)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دفعہ خد اتعالیٰ کی وحدانیت پر تقریر فرمارہے تھے ۔ اس وقت ایک انگریز جو بعد میں معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا، آگیا اور ٹوپی اتار کر سلام کیااور حضور کی تقریر سننے کیلئے کھڑا رہا اور باوجود یکہ اسکے بیٹھنے کیلئے کرسی وغیرہ بھی منگوائی گئی مگر وہ نہ بیٹھا۔ عجیب بات تھی کہ وہ تقریر سنتا ہوا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ کہتا تھا ۔ تھوڑا عرصہ تقریر سن کر سلام کر کے وہ چلا گیا۔ اسکے بعد قریباً دوسرے تیسرے دن جب حضور سیر کو تشریف لے جاتے تو ایسا اتفاق ہوتا کہ وہ راستہ میں گھوڑے پر سوار مل جاتا اور گھوڑے کو ٹھہرا کر ٹوپی اتار کر سلام کرتا ۔یہ اس کا معمول تھا۔

 

(1063)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا: یا ظفر المظفر (وہ دوستانہ بے تکلفی میں مجھے اس نام سے مخاطب فرمایا کرتے تھے) ذرا جالندھر کی سیر تو کراؤ۔ چنانچہ ہم چل پڑے۔ راستہ میںدیکھا کہ گویا ایک برات آرہی ہے اور اسکے ساتھ دیسی اور انگریزی باجااور طوائف وغیرہ آرہے ہیں۔ اُن کے پیچھے ایک شخص گھوڑے پر سوار بٹیرے کا پنجرہ ہاتھ میں لئے آرہا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ تمام جلوس اسی بٹیرے کے لڑائی جیتنے کی خوشی میں ہے ۔ میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ یہ برات ورات نہیں ۔ یہ تو بٹیرے کی کشتی جیتنے کی خوشی ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب یہ دیکھ کر سڑک پر ہی سجدہ میں گر پڑے اور سخت مغموم ہوئے ۔ بوجہ مسلمانوں کی اس ابتر حالت کے اور یہی فرماتے رہے کہ اوہو! مسلمانوں کی حالت اس درجہ پر پہنچ گئی ہے۔ ہم واپس آگئے ۔

 

(1064)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں مقیم تھے تو انہیں دنوں میر عباس علی صاحب بھی اپنے کسی مرید کے ہاں آکر جالندھر میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ حضرت صاحب نے مجھے فرمایاکہ وہ آپ کے پرانے ملنے والے ہیں اُن کو جاکر کچھ سمجھاؤ۔ پیراں دتا جو کہ فاتر العقل سا شخص تھا اور حضرت صاحب کے پاس رہتا تھا ۔ اس نے کہا ’’ حضور میں وی جا کے سمجھاواں ‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ۔ہاں منشی صاحب کے ساتھ چلے جاؤ۔ میں میر عباس علی کی قیام گاہ پر گیا۔آٹھ دس آدمی فرش پر بیٹھے تھے اور میر صاحب چارپائی پر ۔ ایک تخت بھی وہاں تھا ۔ دَوروں میں پوست بھیگے ہوئے تھے۔ پیراں دتا کو دیکھ کر میر عبا س علی نے اُسے بے تکلفانہ پکارا ۔ اوپیراں دتا ، او پیراں دتا ، اور مجھ سے السلام علیکم کر کے ہنستے ہوئے ،آئیے آئیے کہہ کر بیٹھنے کو کہا ۔ پیراں دتا مجھ سے کہنے لگا ۔ میں پہلے سمجھا لوں ۔ میں نے کہا سمجھا لے ۔ پیراں دتا کہنے لگا ۔میر صاحب! میں تمہیں دونوں وقت کھانا پہنچاتا تھا یا نہیں ؟ اور تمہیں کبھی کبھی میں پیسے بھی دیا کرتا تھا یا نہیں؟ میر صاحب اب بڑے آدمی دور دور سے روٹی کھانے والے آتے ہیں ۔اب جو تم روٹیوں کی خاطر ادھر ادھر پھرتے ہو یہ وقت اچھا ہے یا وہ جب گھر بیٹھے میں تمہیں روٹی دے جایا کرتا تھا ۔ اب تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں روٹی دونوں وقت دے جایا کروں گا۔ میر عباس علی ہنستے رہے ۔ پھر میں نے اُن سے کہا کہ آپ کیوں برگشتہ ہوگئے ۔ وہ کہنے لگا کہ مرزاصاحب کہتے ہیں کہ یہ جسم آسمان پر نہیں جاسکتا۔ میں نے اپنے پیر کو خودد یکھا ہے (مولوی غوث علی پانی پتی ان کے پیر تھے) کہ ایک دفعہ انہوں نے الااللہ کا جونعرہ مارا تو زمین شق ہوگئی اور وہ اس میں سما گئے ۔ میںنے کہا کہ اوپر تو پھر بھی نہ گئے اور وہاں قرآن شریف رکھا تھا ۔ میں نے اُٹھا کر میر صاحب کے سر پر رکھ دیا کہ آپ خدا کو حاضر وناظر جان کربتائیں کہ آ پ نے یہ واقعہ خود دیکھا ہے ۔ وہ کہنے لگا کہ ہمارے پیر نے جب یہ بیان کیا کہ انہوںنے ایک دفعہ ایسا کیا اور ہم انہیں سچا سمجھتے ہیں ۔ تو یہ چشم دید ماجرا ہی ہوا ۔ غرضیکہ جہاں تک ہوسکا میں نے اُن کو سمجھایا مگر اس وقت ان کی حالت بہت بگڑ چکی تھی۔ وہ اقراری نہ ہوئے ۔

 

(1065)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلے جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے تو میرا انتظار فرماتے۔ بعض دفعہ بہت دیر بھی ہوجاتی مگر جب سے مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح مجھ سے ہوا تو آ پ نے پھر میرا انتظار نہیں کیا۔ (یا توحیا فرماتے اور اس کی وجہ سے ایسا نہیں کیا یا مجھے فرزندی میں لینے کے بعد فرزند سمجھ کر انتظار نہیں کیا)

 

(1066)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مغرب کے بعد مسجد مبارک کی دوسری چھت پر مع چند احباب کھانا کھانے کیلئے تشریف فرماتھے۔ ایک احمدی میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے، حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ جو بعد میں لاہوری کہلائے ،آتے گئے اور حضور کے قریب بیٹھتے گئے جس کی وجہ سے میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑتا رہا ۔ حتّٰی کہ وہ جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گیا۔ اتنے میں کھاناآیا۔ تو حضور نے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھالیں اور میاں نظام الدین کو مخاطب کر کے فرمایا ۔ آؤ میاں نظام الدین !آپ اور ہم اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں ۔ اور یہ فرما کر مسجد کے صحن کے ساتھ جو کوٹھڑی ہے اس میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام الدین نے کوٹھڑی کے اندر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا۔ اور کوئی اندر نہ گیا۔ جو لوگ قریب آکر بیٹھتے گئے تھے ان کے چہروں پر شرمندگی ظاہر تھی۔

 

(1068)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک صاحب مولوی عبد الرحیم ساکن میرٹھ قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعوعلیہ السلام سے تین دن تک اُن کی ملاقات نہ ہوسکی۔ وجہ یہ تھی کہ جب حضور مسجد مبارک میں بیٹھتے تو عبد الرحیم صاحب تکلف اور آداب کے خیال سے لوگوں کو ہٹا کر اور گزر کر قریب جانا ناپسند کرتے تھے۔ میری یہ عادت تھی کہ بہرحال وبہرکیف قریب پہنچ کر حضور کے پاس جابیٹھتا تھا۔ عبد الرحیم صاحب نے مجھ سے ظاہر کیاکہ تین دن سے ملاقات نہیں ہوسکی ۔ چنانچہ میں نے حضرت صاحب سے یہ بات عرض کی ۔ حضور ہنس کرفرمانے لگے کہ کیا یہ آپ سے سبق نہیں سیکھتے اور پھر انہیں فرمایا کہ آجائیے۔ چنانچہ ان کی ملاقات ہوگئی۔

 

(1069)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اُتارے جائیں اور سامان لایا جائے۔چارپائی بچھائی جائے۔ خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا اسباب اتروائیں۔ چارپائیاں بھی مل جائیں گی۔ دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہوگئے اور فوراً یکّہ میں سوار ہوکر واپس روانہ ہوگئے۔ میں نے مولوی عبد الکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے جانے بھی دو ایسے جلد بازوں کو۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا مشکل ہوگیا ، حضور ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے ۔ چند خدام بھی ہمراہ تھے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ نہر کے قریب پہنچ کر اُن کا یکّہ مل گیا اور حضور کو آتا دیکھ کر وہ یکّہ سے اُتر پڑے اور حضور نے انہیں واپس چلنے کیلئے فرمایاکہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا۔ چنانچہ وہ واپس آئے۔ حضور نے یکہ میں سوار ہونے کیلئے انہیں فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے ۔ اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے ۔ حضور نے خود اُن کے بستر اُتارنے کیلئے ہاتھ بڑھایامگر خدام نے اُتار لیا۔ حضور نے اُسی وقت دو نواڑی پلنگ منگوائے اور اُن پر ان کے بستر کروائے اوراُن سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں اور رات کو دودھ کیلئے پوچھا۔ غرضیکہ اُن کی تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے ۔ اسکے بعد حضور نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے ، راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا ۔ اگر یہاں آکر بھی اس کو وہی تکلیف ہو تو یقینا اس کی دل شکنی ہوگی۔ ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے ۔ اسکے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے ، حضور کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب اُن کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریر وغیرہ فرماتے۔ جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا ۔ حضور نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایایہ پی لیجئے ۔ اور نہر تک انہیں چھوڑنے کیلئے ساتھ گئے ۔ راستہ میں گھڑی گھڑی اُن سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں۔ آپ یکے میں سوار ہولیں۔ مگر وہ سوار نہ ہوئے ۔ نہر پر پہنچ کر انہیں سوار کرا کے حضور واپس تشریف لائے ۔

 

(1070)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ منشی اروڑاصاحب، محمد خاں صاحب اور خاکسار قادیان سے رخصت ہونے لگے۔ گرمیوں کا موسم تھا اور گرمی بہت سخت تھی ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے اجازت اور مصافحہ کے بعد منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ حضور گرمی بہت ہے ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ پانی ہمارے اوپر اور نیچے ہو۔ حضور نے فرمایا خداقادر ہے ۔ میں نے عرض کی کہ حضور یہ دعا انہیں کیلئے فرمانا کہ ان کے اوپر نیچے پانی ہو۔ قادیان سے یکہ میں سوار ہوکر ہم تینوں چلے توخاکروبوں کے مکانات سے ذرا آگے نکلے تھے کہ یکدم بادل آکر سخت بارش شروع ہوگئی۔ اس وقت سڑک کے گرد کھائیاں بہت گہری تھیں ۔تھوڑی دور آگے جاکر یکہ الٹ گیا ۔ منشی اروڑا صاحب بدن کے بھاری تھے وہ نالی میں گر گئے اور محمد خاں صاحب اور میں کودپڑے۔ منشی اروڑا صاحب کے اوپر نیچے پانی ہوگیااور وہ ہنستے جاتے تھے۔

 

(1071)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن دوپہر کے وقت ہم مسجد مبارک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ کسی نے اُس کھڑکی کو کھٹکھٹایا جو کوٹھڑی سے مسجد مبارک میں کھلتی تھی ۔ میںنے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خود تشریف لائے ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک طشتری ہے جس میں ایک ران بھنے ہوئے گوشت کی ہے ۔ وہ حضور نے مجھے دے دی اور حضور خود واپس اندر تشریف لے گئے ۔ اور ہم سب نے بہت خوشی سے اُسے کھایا۔ اس شفقت اور محبت کااثر اب تک میرے دل میں ہے اور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتاہوں تو میرا دل خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے ۔

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)