اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-02

سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(941) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں معراج الدین صاحب عمر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیاکہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک مقدمہ فوجداری کی جوابدہی کیلئے جہلم کو جارہے تھے۔یہ مقدمہ کرم دین نے حضور اور حکیم فضل الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب کے خلاف توہین کے متعلق کیا ہوا تھا۔اس سفر کی مکمل کیفیت تو بہت طول چاہتی ہے۔مَیں صرف ایک چھوٹی سی لطیف بات عرض کرتا ہوںجس کو بہت کم دوستوں نے دیکھا ہوگا۔
جب حضور لاہو ر ریلوے سٹیشن پر گاڑی میں پہنچے تو آپ کی زیارت کیلئے اس کثرت سے لوگ جمع تھے جس کا اندازہ محال ہے کیونکہ نہ صر ف پلیٹ فارم بلکہ باہر کامیدان بھی بھرا پڑا تھا اور لوگ نہایت منتوں سے دوسروں کی خدمت میں عرض کرتے تھے کہ ہمیں ذرا چہرہ کی زیارت اور درشن تو کر لینے دو۔اس اثناء میں ایک شخص جن کا نام منشی احمد الدین صاحب ہے(جو گورنمنٹ کے پنشنر ہیں اور اب تک بفضلہ زندہ موجود ہیں اور انکی عمر اس وقت دو تین سال کم ایک سو برس کی ہے لیکن قویٰ اب تک اچھے ہیں اور احمدی ہیں)آگے آئے جس کھڑکی میں حضور بیٹھے ہوئے تھے وہاں گورہ پولیس کا پہرہ تھا اور ایک سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت کا افسر اس کھڑکی کے عین سامنے کھڑا نگرانی کر رہا تھاکہ اتنے میں جرأت سے بڑھ کر منشی احمد الدین صاحب نے حضور سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا۔یہ دیکھ کر فوراً اس پولیس افسر نے اپنی تلوار کو الٹے رُخ پر اس کی کلائی پر رکھ کر کہا کہ پیچھے ہٹ جائو۔اس نے کہا کہ مَیں ان کا مرید ہوںاور مصافحہ کرنا چاہتا ہوں ۔اس افسر نے جواب دیا کہ اس وقت ہم ان کی حفاظت کے ذمہ وار ہیں۔ ہم اس لئے ساتھ ہیں کہ بٹالہ سے جہلم اور جہلم سے بٹالہ تک بحفاظت تمام ان کو واپس پہنچا دیں۔ ہمیں کیا معلوم ہے کہ تم دوست ہو یا دشمن۔ممکن ہے کہ تم اس بھیس میں کوئی حملہ کردواور نقصان پہنچائو۔ پس یہاں سے فوراً چلے جائو۔یہ واقعہ حضرت صاحب کی نظر سے ذرا ہٹ کر ہوا تھا کیونکہ آپ اور طرف مصروف تھے۔ اسکے بعد راستہ میں آپ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا گیا۔مَیں بھی سفر میں آنحضو رکے قدموں میں تھا۔حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتظام ہے جو اپنے وعدوں کوپورا کر رہا ہے۔
(942) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت لدھیانہ میں حضرت صاحب کا مباحثہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے ہوا۔تو یہ مباحثہ دیکھ کر میاں نظام الدین لدھیانہ والا احمدی ہوکر قادیان میں آیا۔وہ بیان کیا کرتا تھا کہ مَیں کس طرح احمدی ہوا۔کہتا تھا کہ مولوی محمد حسین نے مجھ کو کہا کہ مرزا صاحب سے دریافت کروکہ کیا حضرت مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر نہیں ہیں؟ میں نے جاکر حضرت صاحب سے دریافت کیا ۔تو آپؑنے فرمایا کہ اگر آپ کے پاس حیات مسیح کا کوئی ثبوت ہوتو ایک دو آیات قرآن شریف سے لاکر پیش کریں۔مَیں نے کہا:ایک دو کیا ہم تو ایک سوآیت قرآن شریف سے پیش کردینگے۔ آپ نے فرمایا: جائو جائو لائو۔جب میں مولوی محمد حسین صاحب کے پاس آیاتو میں نے کہا کہ مرزا صاحب سے مَیں یہ اقرار لے کر آیا ہوں کہ ایک دو آیت کیا ہم قرآن شریف سے ایک سو آیت پیش کردیں گے۔جس پر مرزا صاحب مان لیں گے ۔مولوی صاحب نے کہا’’جا۔ وے تیری بیڑی ڈُب جائے یہ اقرار تُوں کیوں کر آیا؟‘‘ مولوی نظام الدین کہتے تھے کہ مَیں نے جب یہ الفاظ مولوی صاحب کے مُنہ سے سنے تو مَیں سمجھا کہ مولوی صاحب کے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔اس پر مَیں نے آکر بیعت کر لی۔حضرت صاحب اس وقت عموماًمسجد مبارک میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جب کبھی میاں نظام الدین صاحب یہ واقعہ سنایا کرتے تھے تو حضرت صاحب سن کر بہت ہنسا کرتے تھے۔ میاں نظام الدین صاحب اس واقعہ کو اکثر دوستوں کے پاس بیان کیا کرتے تھے کیونکہ وہ پھر قادیان میں ہی رہے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے یہ واقعہ یوں سُنا ہوا ہے کہ جب مولوی نظام الدین صاحب نے یہ اقرار لے لیا کہ اگر حیات مسیح کے متعلق آپ کو ایک آیت بھی دکھادی جائے تو آپ فوراً مان لیں گے تو وہ بہت خوشی خوشی مولوی محمد حسین صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ مَیں مرزا صاحب سے یہ اقرا ر لے آیا ہوں اب جلدی سے مجھے چند آیات نکال دیں۔ مولوی محمد حسین نے ناراض ہو کر کہا۔اوبے وقوف ! ہم مرزا صاحب کو حدیث کی طرف کھینچ رہے تھے تو انہیں پھر قرآن کی طرف لے گیا۔مولوی نظام الدین نے کہا ۔مولوی صاحب! اگر قرآن آپ کے ساتھ نہیں تو پھر مَیں تو اسکے ساتھ ہوںجس کے ساتھ قرآن ہے ۔مولوی صاحب نے کہا تو بیو قو ف اور جاہل ہے۔ تجھے کچھ پتہ نہیںاور لوگوں سے کہا کہ اس کی روٹی بند کر دو۔
(943) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میا ں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بھائی جمال الدین مرحوم نے ایک دن بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں لاہور اس ارادہ سے گیا کہ کچھ حدیث پڑھ آئوں۔ ان دنوں میں مولوی محمد حسین صاحب چینیانوالی مسجد میں رہتے تھے۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ صبح تہجد کے وقت اپنے شاگردوں کو حدیث پڑھایا کرتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاحدیث کے حافظ ہیں اورمجھے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب بڑے عالم ہیں۔جب میں واپس آیا اور حضر ت صاحب کے پاس ایک روز ذکر کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب اپنے شاگردوں کو زبانی حدیث پڑھاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا کہ وہ زبر دست عالم ہیں۔اس پر حضرت صاحب نے فرمایاوہ ہمارے مقابل پر جواب لکھے،خدا اس کا سارا علم سلب کر لے گا۔سو ایسا ہی ظہور میں آیا کہ وہ کوئی جواب نہیں لکھ سکا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس میں شُبہ نہیں کہ ظاہری علم کے لحاظ سے مولوی محمدحسین بٹالوی بہت بڑے عالم تھے اور کسی زمانہ میں ہندوستان کے علم دوست طبقہ میں ان کی بڑی قدر تھی۔مگر خدا کے مسیح کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر انہوں نے سب کچھ کھو دیا۔
(944) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ مصنّف ’’عصائے موسیٰ ‘‘ کو جب لاہور میں طاعون ہواتو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ بات پیش ہوئی کہ حضور نے ’’اعجاز احمدی‘‘ میں لکھا ہے کہ مولوی محمد حسین اور مصنف ’’ عصائے موسیٰ ‘‘رجوع کرلیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ان کو مرنے دو۔خدائی کلام کی تاویل بھی ہوسکتی ہے۔آخر وہ طاعون سے ہی مرگیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مصنّف عصائے موسیٰ سے بابو الٰہی بخش اکا ئونٹنٹ مراد ہے جو شروع میں معتقد ہوتا تھا،مگر آخر سخت مخالف ہوگیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نعوذباللہ فرعون قرار دیکران کے مقابل پر اپنے آپ کو موسیٰ کے طورپر پیش کیا مگر بالآخر حضرت صاحب کے سامنے طاعون سے ہلاک ہوکر خاک میں مل گیا۔
(945) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں ایک روز بٹالہ میں جمعہ پڑھنے کیلئے گیا۔اس وقت مَیں جب بٹالہ جاتا تھا تو مولوی محمد حسین صاحب کے پیچھے جمعہ پڑھا کر تا تھا۔انہوں نے بٹالہ میں خلیفیاں والی مسجد میں جمعہ پڑھانا تھا۔ جب انہوں نے خطبہ شروع کیا تو کہنے لگے کہ دیکھو مرزا حضرت مسیح ناصری کو ساہنسیوں اور گنڈیلوں سے تشبیہ دیتا ہے اور کیسی ہتک کرتا ہے۔ مجھے یہ الفاظ سُن کر نہایت جوش پیدا ہوا۔اور مَیں نے اسی وقت اُٹھ کر مولوی صاحب کو ٹوکا کہ جو نقشہ مسیح کا آپ پیش کرتے ہیں اس کے ہوتے ہوئے اور کس سے تشبیہ دی جائے؟مگر مولوی صاحب نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیااور نہ ہی یہ کہا کہ خطبہ میں بولنا منع ہےبلکہ خاموشی سے بات کو پی گئے۔اس وقت ابھی مخالف کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت نہ ہوئی تھی۔
(946) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے کہ بقول ہمارے مخالفین کے جب مسیح آئے گا اور لوگ اس کو ملنے کیلئے اس کے گھر پر جائیں گے تو گھر والے کہیں گے کہ مسیح صاحب باہر جنگل میں سؤر مارنے کیلئے گئے ہوئے ہیں۔پھر وہ لوگ حیران ہوکر کہیں گے کہ یہ کیسا مسیح ہے کہ لوگوں کی ہدایت کیلئے آیا ہے اور باہر سؤروں کا شکا ر کھیلتا پھرتا ہے۔پھر فرماتے تھے کہ ایسے شخص کی آمد سے تو ساہنسیوں اور گنڈیلوں کو خوشی ہوسکتی ہے جو اس قسم کا کام کرتے ہیںمسلمانوں کو کیسے خوشی ہوسکتی ہے۔یہ الفاظ بیان کر کے آپ ہنستے تھے۔ یہاں تک کہ اکثر اوقات آپ کی آنکھوں میں پانی آجا تا تھا۔
(948) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جہاں تک مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل سے نتیجہ نکا لا ہے وہ یہی ہے کہ حضور لڑکیوں کے پیدا ہونے کی نسبت لڑکوں کی پیدائش کو زیادہ پسند کرتے تھے اور زیادہ خوش ہوتے تھے اور اس معاملہ میں ان لوگوں کی رائے نہ رکھتے تھے جو کہا کرتے ہیں کہ لڑکی لڑکا چونکہ خدا کی دین ہیںاس لئے ہماری نظر میں دونوں برابر ہیں۔
خاکسار عر ض کرتا ہے کہ اس میں کیا شُبہ ہے کہ اگر اور حالات برابر ہوں تو کئی لحاظ سے لڑکا ،لڑکی سے افضل ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور فرق تو ظاہر ہی ہے کہ عام حالات میں لڑکا دین کی زیادہ خدمت کرسکتا ہے۔
(949) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک قصّہ بیان فرمایا کہ ایک بادشاہ تھا اس کی لڑکی پر کوئی فقیر عاشق ہوگیا اور کوئی صورت وصل کی نہ تھی۔کہاں وہ فقیر اور کہاں وہ بادشاہ زادی ! آخر وہ فقیر اس غم میں مرگیا۔جب غسل دیکر اور کفن پہنا کر اسے دفن کرنے کیلئے تیار کیا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ہونٹ ابھی ہل رہے ہیں۔کان لگا کر غور سے سُنا۔تو یہ شعر سُنائی دئیے۔
جانانِ مرا بمن بیارید
وِیں مردہ تنم بدو سپارید
گر بوسہ دہد بریں لبانم
ور زندہ شوم عجب مدارید
بادشاہ نے سُن کر کہا اچھا اس کی آزمائش کر لو۔چنانچہ شہزادی کو کہا کہ اس مُردہ کو بوسہ دو۔اسکے بوسہ دینے کی دیر تھی کہ وہ شخص اُٹھ بیٹھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہے تو یہ ایک قصّہ مگر اس سے حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا کہ گوہر مقصود کا مل جانا ایک ایسی چیز ہے کہ گویا مُردہ کوبھی زندہ کر دیتی ہے۔
(سیرۃ المہدی ، جلداوّل،حصہ سوم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…