اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-14

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1137) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار نے پٹیالہ میں خواب دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں۔ دن کا وقت ہے۔ حضرت مولوی صاحب والے کمرے سے باہر نکلا ہوں کہ میرے دل میں آیا کہ اب کی دفعہ جو پٹیالہ جاؤں تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کیلئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کروں۔ جب چوک میں پہنچا تو کسی شخص نے کہاکہ حضرت صاحب مسجد اقصیٰ کی چھت پر تشریف فرماہیں۔ میری خواہش ہوئی کہ حضرت صاحب سے کیوں نہ دریافت کر لیا جائے کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں تاکہ ویسا ہی تیار کروا کر بھیج دیا جائے ۔ یہ بات دریافت کرنے کیلئے خاکسارمسجد کی چھت پر چڑھ گیا۔ دیکھا حضرت صاحب تشریف فرماہیں اور آپ کے ایک طرف خواجہ کمال الدین صاحب بیٹھے ہیں۔ اور دوسری طرف ایک اور شخص بیٹھا تھا جس کو میںنہیں جانتا تھا۔ خاکسار سامنے جاکر بیٹھ گیا۔ ابھی میں کچھ عرض کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اب کی دفعہ جو تم پٹیالہ جاؤتوہمارے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کرنااور جو چوغہ اس وقت حضور نے پہنا ہوا تھا۔ اس کے گریبان کے نیچے سے دونوں اطراف دونوں ہاتھوں سے پکڑے اور اُن کو ملا کر فرمایا کہ ایسا ہو کہ جو سردی سے محفوظ رکھے۔ خاکسار نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ حضورابھی تھوڑا عرصہ ہوا کہ نیچے چوک میں مجھ کو یہی خیال آیا تھا کہ اس دفعہ پٹیالہ جانے پرایک چوغہ حضورکیلئے بنو اکر روانہ کروں اور حضور کے تشریف فرما ہونے کی اطلاع پر اس ارادہ سے حاضر ہو اتھا کہ حضور سے دریافت کروں کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ابھی میں عرض بھی کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے خود ہی فرمادیا۔ یہ سن کر حضور نے فرمایاکہ یہ درست ہے ۔ خد اتعالیٰ اپنے فضل سے بعض اوقات اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے اشخاص کے قلوب پر القا کرتا ہے ۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں پٹیالہ میں ہی ہوں ۔ چونکہ سرما کا موسم تھا۔ خاکسار نے اسی خیال سے کہ اس خواب کی جوکوئی اور تعبیر خد اکے علم میں ہو وہ ہو لیکن ظاہری الفاظ کے مطابق مجھے ایک چوغہ تیار کروا کر روانہ کرنا چاہئے ۔ چنانچہ ہفتہ عشرہ کے اندر ایک گرم کشمیر کا چوغہ قطع کرا کر اور اس کے ہر چہار طرف اُسی رنگ کی ریشمی ڈوری کاکام نکلوا کر جسم مبارک کا اندازہ درزی کو بتا کر ایک چوغہ تیار کروا کر بذریعہ پارسل ڈاک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو روانہ کردیا۔ اور خط میں مفصل لکھ دیا کہ ایک خواب کی ظاہری تعبیر پورا کرنے کے خیال سے ایسا کیا گیاہے ۔ آپ پارسل پہنچنے پر یہ چوغہ میری طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں۔ اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے مجھے تحریر فرمایا کہ پارسل پہنچنے پر فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں وہ پارسل خود لے جاکر پیش کیا۔ حضور نے فرمایا اسے کھولو ۔ جب چوغہ نکالا گیا تو حضور نے فوراً کھڑے ہوکر اپنا پہلا چوغہ اُتار کر اس مرسلہ چوغہ کو زیب تن کیا۔ اورمولوی صاحب سے فرمایاکہ خد ا کی کیا شان ہے کہ اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے لوگوں کے قلوب پرالقا فرمادیتا ہے ۔ فی الواقعہ ہمارا یہ چوغہ اس قدر میلا ہوگیا تھا کہ جب کپڑے بدلتے تو چوغہ پہننے کو دل نہ چاہتا اور اردہ کرتے کہ جلدکوئی چوغہ نیا تیار کروائیں گے مگر پھر سلسلہ کی ضروریات اور مصروفیات کی وجہ سے سہو ہوجاتا۔ پھر بٹنوں کو دیکھ کرفرمایا کہ مولوی صاحب اس نے یہ کیسی عقل کی بات کی ہے کہ باوجود چوغہ کی طرح لمبا ہونے کے آگے بٹن لگوا دئیے ہیں تاسردی سے بچاؤ ہو۔پرانی قسم کے چوغوں میںمجھے یہ بات نا پسند ہے کہ سب سے اوپر کا کپڑاآگے سے کھلا ہوا ہوتاہے۔ جس سے سردی سے حفاظت نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا کہ مولوی صاحب تعجب تو یہ ہے کہ بدن پر ایسا درست آیا ہے کہ جیسے کسی نے ناپ لے کر بنوایا ہو۔ مولوی صاحب نے آخر میں خاکسار کو یہ بھی لکھا کہ آپ کاخواب صحیح اور تعبیر بھی ٹھیک ثابت ہوئی کیونکہ جو الفاظ اس بارہ میں حضور نے فرمائے تھے بالکل وہی الفاظ چوغہ پیش کرنے پر فرمائے ۔ خد اتعالیٰ نے آپ کی سعی کو مشکور فرمایا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ کرم الٰہی صاحب نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا کہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا جو فوٹو ولایت روانہ کرنے کیلئے حکیم محمدکاظم فوٹو گرافر انار کلی لاہور کا تیار کردہ ہے جس میں حضور نے بٹن والا چوغہ نما لمبا کوٹ پہنا ہوا ہے وہ وہی ہے ۔

 

(1138) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ایک دفعہ الہام ہوا کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی کا کچھ نقصان ہوگا تو حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا کہ مجھے اس طرح الہام ہوا ہے دعا کرنا۔ چند دن بعد آپ حافظ حامد علی صاحب کو ہمراہ لے کر پیدل ہی گاؤں کے راستہ سے گورداسپور تشریف لے گئے تو راستہ میں کسی بیری کے نیچے سے حافظ صاحب نے کچھ بیر اُٹھا کر کھانے شروع کر دئیے۔ تو حضرت جی نے فرمایا کہ یہ کس کی بیری ہے ۔ حافظ صاحب نے کہا کہ پتہ نہیں۔ جس پر حضرت جی نے فرمایا کہ پھر بغیر اجازت کے کس طرح کھانا شروع کردیا جس پر حافظ صاحب نے وہ سب بیر پھینک دئیے اور آگے چل دئیے ۔ اس سفر میں حضرت صاحب کا روپوں والا رومال اور حافظ صاحب کی چادر گم ہوگئی۔

 

(1139) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر تشریف لے جارہے تھے ۔ کرنا کھلا ہوا تھا اور بہت مہک رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا ! کہ دیکھو کرنا اور کہنا اس میں بڑا فرق ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔پنجاب میں کہنا مکڑی کو کہتے ہیں (یعنی کرنا خوشبودار چیز ہے اور کہنا ایک مکروہ چیز ہے )

 

(1140) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ بارش ہوکر تھمی تھی ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر سیر کو جارہے تھے ۔ میاں چراغ جو اس وقت لڑکا تھا اور بہت شوخ تھا، چلتے چلتے گر پڑا ۔ میں نے کہا اچھا ہوا۔ یہ بڑا شریر ہے ۔ حضرت صاحب نے چپکے سے فرمایا کہ بڑے بھی گر جاتے ہیں ۔یہ سن کر میرے تو ہوش گم ہوگئے اور بمشکل وہ سیر طے کر کے واپسی پر اُسی وقت اندر گیا جبکہ حضورواپس آکر بیٹھے ہی تھے ۔ میں نے کہاحضور میرا قصور معاف فرمائیں ۔ میرے آنسو جاری تھے ۔ حضور فرمانے لگے کہ آپ کو تو ہم نے نہیں کہا ۔ آپ تو ہمارے ساتھ ہیں ۔

 

(1141) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرعباس علی صاحب لدھیانوی بہت پرانے معتقد تھے ۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اصطلاح صوفیاء میں معنے دریافت کرتے رہتے تھے۔ اور تصوف کے مسائل پوچھتے تھے۔ اس بارہ میں حضرت صاحب نے کئی مبسوط خطوط انہیں لکھے تھے جو ایک کتاب میں انہوںنے نقل کر رکھے تھے۔ اور بہت سی معلومات ان خطوط میں تھی گویا تصوف کا نچوڑ تھا۔ میر عباس علی صاحب کا قول تھا کہ انہوںنے بے وضو کوئی خط نقل نہیں کیا۔ حضرت صاحب نے براہین احمدیہ کے بہت سے نسخے میر صاحب کو بھیجے تھے اور لکھا تھا کہ یہ کوئی خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ۔ آپ اپنے دوستوں کو دے سکتے ہیں ۔ چونکہ میرا اُن سے پرا نا تعلق تھا۔ میں اُن سے وہ خطوط والی کتاب دیکھنے کو لے آیا۔ ابھی وہ کتاب میرے پاس ہی تھی کہ میر صاحب مرتد ہوگئے۔ اس کے بعد کتاب مذکور کا انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا۔ میں نے نہ بھیجی ۔ پھر انہوںنے حضرت صاحب سے میری شکایت کی کہ کتاب نہیں دیتا۔ حضرت صاحب نے مجھے لکھا کہ آپ ان کی کتاب ان کو واپس کر دیں ۔ میں خاموش ہوگیا۔ پھر دوبارہ میر صاحب نے شکایت کی اور مجھے دوبارہ حضور نے لکھا۔ اُن دنوں ان کے ارتداد کی وجہ سے الہام ’’ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ ‘‘ پر مخالفین بہت اعتراض کرتے تھے۔ میں قادیان گیا ۔ مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کی موجودگی میں حضور نے مجھے فرمایا کہ آپ اُن کی کتاب کیوں نہیں دیتے۔ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے عرض کی کہ حضور کی ضمانت پر تو اُس نے کتاب نہیں دی تھی(بعض دفعہ عبد اللہ سنوری صاحب اور میں حضرت صاحب سے اس طرح بے تکلف باتیں کر لیا کرتے تھے جس طرح دوست دوست سے کر لیتا ہے اور حضور ہنستے رہتے) اور میں نے عرض کی کہ اتنا ذخیرہ عرفان ومعرفت کا اس کتاب کے اندر ہے، میں کس طرح اسے واپس کردوں ۔ حضور نے فرمایا واپس کرنی چاہئے ۔ آپ جانیں وہ جانیں۔ اس کے بعد میں کپور تھلہ آیا ۔ ایک دن وہ کتاب میں دیکھ رہا تھاتو اس میں ایک خط عبا س علی کے نام حضرت صاحب کا ،عباس علی کے قلم سے نقل کردہ موجود تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کسی وقت مرتد ہوجائیں گے ۔ آپ کثرت سے توبہ واستغفار کریں اور مجھ سے ملاقات کریں۔ جب یہ خط میں نے پڑھاتو میں فوراً قادیان چلاگیا۔ اور حضور کے سامنے وہ عبارت نقل کردہ عباس علی پیش کی ۔ فرمایا !یہی سِرّتھا جو آپ کتاب واپس نہیں کرتے تھے۔ پھر وہ کتاب شیخ یعقوب علی صاحب نے مجھ سے لے لی ۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…