اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-07

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1132) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی دہلی آگئے جن کو علی جان والوں نے مباحثہ کیلئے بلایا تھا۔ علی جان والے ٹوپیوں کے بڑے سوداگر اور وہابی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آکرانہوںنے عرض کی کہ مولوی صاحب کو بھوپال سے آپ کے ساتھ مباحثہ کرنے کیلئے بلایا ہے ۔ شرائط مناظرہ طے کر لیجئے۔ حضور نے فرمایا کہ کسی شرط کی ضرورت نہیں۔ احقاقِ حق کیلئے یہ بحث ہے ۔ وہ آجائیں اور جو دریافت فرمانا چاہیں دریافت فرمالیں ۔ پھر ایک تاریخ مقرر ہوگئی۔ مجھ کو اور پیر سراج الحق صاحب مرحوم کو حضور نے حکم دیا کہ آپ کچھ کتابیں اپنے واقفوں سے لے آئیں ۔ ہمیں تو ضرورت نہیں مگر انہی کے مسلمات سے ان کو ساکت کیا جاسکتا ہے ۔ ہم دونوں بہت جگہ پھرے لیکن کسی نے کتابیں دینے کا اقرار نہ کیا۔ امام کی گلی میں مولوی محمد حسین صاحب فقیر رہتے تھے ۔ انہوںنے وعدہ کیا کہ جس قدر کتابوں کی ضرورت ہو کل لے جانا ۔ اگلے روز جب ہم گئے تو وہ نہ ملے اور ان کے بیٹوں نے ہمیں گالیاں دینی شروع کر دیں کہ جو ملحدوں کی مدد کرے وہ بھی ملحد ہے ۔ ہم دونوں ان کے پاس سے اُٹھ کر چلے آئے ۔ پیر سراج الحق تو مجھ سے علیحدہ ہوکر کہیں چلے گئے ۔ میں تھوڑی دور کھڑا ہو کر اُن سے سخت کلامی کرنے لگ گیا ۔وہاں آدمی جمع ہوگئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ امام اعظم کو یہ بُرا کہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے ہمیں معلوم ہے کہ یہ بڑے بے ایمان ہیں ۔یہ چھپے ہوئے وہابی ہیں۔ وہابیوں کی مسجد میںنماز پڑھنے جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ میرے ساتھ ہو کر ان کے خلاف ہوگئے۔ پھر میں وہاں سے چلا آیا۔ جب امام صاحب کے مکان کے آگے سے گزرا تو انہوںنے مجھے اشارہ کر کے اپنی بیٹھک میں بلا لیا اور کہنے لگے کہ آپ کسی سے ذکر نہ کریں تو جس قدر کتابیں مطلوب ہیں میں دے سکتا ہوں ۔ میںنے کہا آپ اتنا بڑا احسان فرمائیں تو میں کیوں ذکر کرنے لگا۔ کہنے لگا کہ جب مرزا صاحب مولوی نذیر حسین سے قسم لینے کیلئے جامع مسجد میں بیچ کے دروازے میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت میں دیکھتا تھا کہ انوار الٰہی آپ پر نازل ہوتے ہیں اور آپ کی پیشانی سے شان نبوت عیاں تھی مگر میں اپنی عقیدت کو ظاہر نہیں کر سکا۔ خیرمیں یہ کتابیں لے کر چلاآیا اور حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں آپ بہت خوش ہوئے ۔ اس پر دہلی والوںنے کہا تھا (ہولی ہے بھئی ہولی ہے پاس کتابوںکی جھولی ہے) تفسیر مظہری اور صحیح بخاری دستیاب نہ ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں مولوی رحیم بخش صاحب فتح پور ی مسجد کے متولی تھے۔ وہ سیدامام علی شاہ رتڑ چھتڑ والوں کے خلیفہ تھے اور ان سے میرے والد صاحب مرحوم کے ،جبکہ والد صاحب گجرات میں بندوبست میں ملازم تھے ، سید امام علی شاہ صاحب سے بہت عمدہ تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ رحیم بخش صاحب سے جب میں نے اس تعلق کا اظہار کیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ میں نے اُن سے کتابیں طلب کیں۔ انہوںنے مجھ سے پوچھا کہ آپ ہمارے ہوکر مرزا صاحب کے ساتھ کس طرح ہیں۔ میںنے کہا کہ ان وہابیوں کی شکست ہماری فتح ہے ۔ کہنے لگے یہ بات تو ٹھیک ہے ۔ چنانچہ انہوںنے کتابیں دے دیں۔ وہ بھی لاکر میںنے حضور کو دے دیں۔ صحیح بخاری ابھی تک نہ ملی تھی۔ پھر حبیب الرحمن صاحب مرحوم جو اسی اثناء میں حاجی پور سے دہلی آگئے تھےتو وہ اور میں مدرسہ شاہ عبد العزیز میں گئے۔ اور اس مدرسہ کے پاس میرے ماموں حافظ محمد صالح صاحب صدر قانون گودہلی کامکان تھا۔ وہاں جاکر ہم نے بخاری شریف کا آخری حصہ دیکھنے کیلئے مانگا۔ انہوںنے دے دیااور ہم لے آئے ۔مولوی بشیر احمد صاحب مباحثہ کیلئے آگئے۔ ایک بڑا لمبا دالان تھا جس میں ایک کوٹھڑی تھی۔ اس کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب اورعبد القدوس غیر احمدی ایڈیٹر صحیفہ قدسی اور ہم لوگ بیٹھے تھے۔ مولوی بشیر احمد آگئے ۔ ظاہراً بڑے خضرصورت تھے اور حضرت صاحب سے بڑے ادب اور تعظیم سے ملے اور معانقہ کیااور بیٹھ گئے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوئی ہار جیت کا معاملہ نہیں ۔ یہیں بیٹھے ہوئے آپ سوال کریں۔ میں جواب دوں ۔ بات طے ہوجائے۔ مگر اس کو یہ حوصلہ نہ ہوا کہ حضور کے سامنے بیٹھ کر سوال وجواب کرسکتا۔ اُس نے اجازت چاہی کہ دالان میں ایک گوشہ میں بیٹھ کر لکھ لے ۔ دالا ن میں بہت سے آدمی مع علی جان والوں کے بیٹھے تھے ۔ حضور نے فرمایا ۔ بہت اچھا۔ سو وہ سوالات جو اپنے گھر سے لکھ کر لایا تھا ایک شخص سے نقل کرانے لگا۔ وہ بھی میرا واقف تھا ۔ مجدد علی خان اس کا نام تھا۔ میںنے ان سے کہا کہ حضرت صاحب خالی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جب آپ سوال لکھ کر لائے ہیں تو دے دیں تاکہ حضور جواب لکھیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تونوٹ ہیں۔ حالانکہ وہ حرف بحرف نقل کر ا رہے تھے۔ دہلی والوںنے میرے خلاف شور کیا کہ آپ کیوں اس بارہ میں دخل دیتے ہیں ۔ مجھے مولوی عبد الکریم صاحب نے آواز دی کہ آپ یہاں آجائیں ۔ میں چلا گیا۔ لیکن تھوڑی دیر میں اٹھ کر میں مولوی بشیر احمد صاحب کے پاس چلا گیا کہ دیکھوں انہوںنے ختم کیا ہے یا نہیں ۔ میںنے کہا مولوی صاحب پسے ہوئے کو پیسنایہ کوئی دانائی ہے؟ پھر مجھے مولوی عبد الکریم صاحب نے آوازیں دیں کہ تم یہاں آجاؤ۔ میں پھرچلا گیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا آپ کیوں جاتے ہیں۔ تیسری دفعہ میں پھر اُٹھ کر چلا گیا۔ پھر حضرت صاحب اوپراُٹھ کر چلے گئے ۔ اور میرے متعلق کہا کہ یہ بہت جوش میںہیں۔ جب وہ لکھ چکیں تو مجھے بھیج دینا۔ پھر جب وہ اپنا مضمون تیار کر چکے تو ہم نے حضرت صاحب کے پاس پہنچادیا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ تم یہیں کھڑے رہو ۔ دو ورقہ جب تیار ہوجائے ۔تو نقل کرنے کیلئے دوستوں کو دے دینا ۔
میں نے دیکھا کہ حضور نے اس مضمون پر صفحہ وار ایک اُچٹتی نظر ڈالی ۔ انگلی پھیرتے رہے اور پھرورق الٹ کر اُس پر بھی انگلی پھیرتے ہوئے نظر ڈال لی ۔ اسے علیحدہ رکھ دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پڑھا نہیں ۔ محض ایک سرسری نگاہ سے دیکھا ہے اور جواب لکھنا شروع کیا۔ جب دو ورقہ تیار ہوگیا تو میں نیچے نقل کرنے کیلئے دے آیا۔ دو ورقہ کو ایک ایک ورق کر کے ایک مولوی عبد الکریم صاحب نے نقل کرنا شروع کیااور ایک عبد القدوس نے ۔ اس طرح میں اوپر سے جب دو ورقہ تیار ہوتا لے آتا اور یہ نقل کرتے رہتے۔ حضرت صاحب اس قدر جلدی لکھ رہے تھے کہ ایک دو ورقہ نقل کرنے والوں کے ذمہ فاضل رہتا تھا۔ عبد القدوس جو خود بہت زود نویس تھا حیران ہوگیا۔ اور ہاتھ لگا کر سیاہی کو دیکھنے لگا کہ پہلے کا تو لکھا ہوا نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ جواب پہلے سے لکھا ہو۔
غرض اس طرح جھٹ پٹ آپ نے جواب لکھ دیا اور ساتھ ہی اسکی نقل بھی ہوتی گئی۔ میںنے مولوی بشیر احمد کو وہ جواب دے دیا کہ آپ اس کا جواب لکھیں۔ اس نے کہا کہ میں حضرت صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ۔ ہم نے تو نہیں مگر کسی نے حضرت صاحب کو اطلاع کر دی کہ مولوی بشیر احمد صاحب ملنا چاہتے ہیں۔ حضور فوراً تشریف لے آئے اور مولوی بشیر احمد صاحب نے کہا کہ اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں کل کو جواب لکھ لاؤ ں گا۔ آپ نے خوشی سے اجازت دے دی ۔ حضرت صاحب تو اوپر تشریف لے گئے ۔ مگر ہم ان کے پیچھے پڑ گئے کہ یہ کوئی بحث ہے ۔ اس طرح تو آپ بھوپال میں بھی کر سکتے تھے۔ جب بہت کش مکش اس بارہ میں ہوئی تو دہلی والوں نے کہا کہ جب مرز اصاحب اجازت دے گئے ہیں تو آپ کو روکنے کاکیا حق ہے ۔ ہم تو خود سمجھ گئے ہیں کہ یہ بالمقابل بیٹھ کر بحث نہیں کر سکتے۔ پھر ہم نے مولوی صاحب کوچھوڑ دیا۔ آخری مباحثہ تک مولوی بشیر احمد صاحب کا یہی رویہ رہا۔کبھی انہوں نے سامنے بیٹھ کر نہیں لکھا۔ اجازت لے کر چلے جاتے۔ ایک مولوی نے مولوی بشیر احمد صاحب کو کہا کہ بڑی بات آپ کی بحث میں نونِ ثقیلہ کی تھی مگر مرز اصاحب نے تو نون ثقیلہ کے پل باندھ دئیے۔
بحث ختم ہونے پر چلتے چلتے مولوی بشیر احمد ملنے آئے اور حضرت صاحب سے کہا میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے ۔ آپ کو جو اس بحث کیلئے تکلیف دی ہے میں معافی چاہتا ہوں ۔ غرض کہ وہ حضرت صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے۔

 

(1133) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام واپس تشریف لے گئے ۔ میں کتابیں واپس کرنے کیلئے ایک روز ٹھہر گیا۔ جسے کتابیں دینے جاتا وہ گالیاں نکالتا۔ مگر میں ہنس پڑتا۔ اس پر وہ اور کوستے۔ چونکہ ہمیں کامیابی ہوئی تھی اس لئے ان کی گالیوں پر بجائے غصے کے ہنسی آتی تھی اور وہ بھی بے اختیار ۔

 

(1134) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف فرما تھے۔تو ایک دن حضور شاہ ولی اللہ صاحب کے مزار پر تشریف لے گئے ۔ فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ یہ اپنے زمانے کے مجدد تھے۔

 

(1135) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان سے رخصت ہونے لگا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اجازت بھی دے دی ۔ پھر فرمایا کہ ٹھہر جائیں ۔ آپ دودھ کا گلاس لے آئے اور فرمایا یہ پی لیں ۔ شیخ رحمت اللہ صاحب بھی آگئے۔ پھر اُن کیلئے حضور دودھ کا گلاس لائے اور پھر نہر تک ہمیں چھوڑنے کیلئے تشریف لائے اور بہت دفعہ حضور نہر تک ہمیں چھوڑنے کیلئے تشریف لاتے تھے۔

 

(1136) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی آدمی آپ سے ملنے آتا اور آواز دیتا تو میں یا کوئی اور دوسرا آپ کو اطلاع دیتا کہ کوئی آپ کو ملنا چاہتا ہے تو آپ کی یہ حالت ہوتی کہ آپ فوراً باہر تشریف لے آتے۔

 

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…