اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-31

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1126)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک انسپکٹر جنرل پولیس کا ایک باورچی قادیان میں آیا۔ بوڑھا آدمی تھا اور بیعت میں داخل تھا۔ اس سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ آپ ایک بڑے آدمی کا کھانا پکاتے رہے ہیں کوئی بہت عمدہ چیز دوستوں کیلئے پکائیں۔ انہوںنے کہا پہلے حضور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ پھر اس نے بکرے کی ران اور گھی منگا کر روسٹ کیا مگر وہ گوشت بالکل نہ گلا ۔ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ میں اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیٹھے ہوئے تھے ۔ گوشت چاقو سے بمشکل کٹتا تھا۔ بڑی مشکل سے تھوڑا سا ٹکڑا کاٹ کر اس نے حضرت صاحب کو دیا۔ آپ نے منہ میں ڈال لیا۔ اور چبانے کی کوشش فرماتے رہے ۔ وہ چبایا نہ جاسکا۔ مگر اس باورچی کی تعریف فرمائی کہ آپ نے بہت عمدہ پکایا ۔ میں نے کہا کہ یہ نہ تو کاٹا جاتا ہے اور نہ ہی چبایا جاتا ہے ۔ گھی بھی ضائع کردیا۔ فرمانے لگے منشی صاحب! آپ کو علم نہیں۔ انگریز ایسا ہی کھاتے ہیں اور ان کے نقطہ خیال سے بہت اعلیٰ درجہ کا پکاہوا ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ہنسنے لگے۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹھیک نہیں پکایا ۔ فرمانے لگے کہ نہیں نہیں آپ نہیں جانتے۔ فرمایا کہ آپ کوئی اور چیز مہمانوں کیلئے تیار کریں۔ باورچی موجود ہیں۔ ان کو آپ بتلاتے جائیں۔ اس نے توشرم کے مارے کوئی چیز تیار کروائی نہیں ۔کوئی اور صاحب تھے جن کانام مجھے یاد نہیں رہا۔ انہوںنے بریانی مہمانوں کیلئے پکوائی اور میں نے بہت محظوظ ہو کر کھائی ۔ حضرت صاحب کی خدمت میں بھی پہنچائی گئی۔ آپ نے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کو اور مجھے بلوایا۔ اور فرمایا کہ دیکھو کیسی عمدہ پکوائی ہے ۔ وہ انگریزی قسم کا کھانا تھا۔ جس سے آپ واقف نہ تھے۔ یہ دیسی قسم کا کھانا کیسا عمدہ ہے ۔ حضرت صاحب نے یہی سمجھا کہ اُسی باورچی نے پکوائی ہے ۔پھر ہم دونوںنے ظاہر نہیں کیا کہ اس نے نہیں پکوائی۔ غرض کوئی ناقص شے بھی آپ کی خدمت میں کوئی پیش کرتا تو آپ اس کی تعریف فرماتے۔

 

(1127)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد اقصیٰ سے ظہر کی نماز پڑھ کرآرہے تھے تو آپ نے میراں بخش سودائی کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا کہ وہ گول کمرے کے آگے زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ ایک ہندو مست بڑا موٹا ڈنڈا لئے آیا۔ میراں بخش اس سے کہنے لگا کہ پڑھ کلمہ اور اس کے ہاتھ سے ڈنڈا لے کر مارا کہ پڑھ کلمہ لاالہ الااللہ ۔ اس نے جس طرح میراں بخش نے کہلوایا تھا کلمہ پڑھ دیا تو اس کو میراں بخش نے ایک دونی دے دی۔ فرمایا کہ میں بہت خوش ہوا کہ ایک مسلمان پاگل نے ایک ہند وپاگل کو مسلمان کر لیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں تبلیغی مادہ ضرور ہے ۔

 

(1128)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میںخاکسار کا تبادلہ صیغہ پولیس میں ہوا اور ماموری تھانہ بٹھنڈہ میں ہوئی ۔ علاقہ بٹھنڈہ ریاست پٹیالہ میں جنگل کاعلاقہ ہے اور ضلع فیروز پور اور ریاست فرید کوٹ سے سرحدات ملتی ہیں۔ ان دنوں ان علاقوں میں ڈکیتیوں کا بڑا زور تھا اور اسی قسم کی وارداتوں کی کثرت تھی۔ دن رات اونٹوں پر سفر کرنا پڑتا تھا۔ چونکہ وہ علاقہ تو سخت گرم اور ریگستان ہے اس لئے سفر میں پانی بھی زیادہ پیا جاتا تھا اور بعض اوقات اونٹ کے سفر میں یہ بے احتیاطی بھی ہوجاتی کہ تعجیل کی وجہ سے اگر اونٹ کو بٹھانے میں دیر لگی تو جھٹ اوپر سے ہی چھلانگ دی ۔ اس وقت کی عمر کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ہمچوں قسم کی بے احتیاطی سے خاکسار کو مرض ہر نیا لاحق ہوگیا تھا۔ اور شروع میں تو اسے ریحی تکلیف خیال کیا گیا کیونکہ جب سواری سے اُترتے اور لیٹتے تو افاقہ معلوم ہوتا تھا۔ مگر ایک ڈاکٹر صاحب کو دکھانے کا موقعہ ملا تو انہوں نے کمپلیٹ ہرنیا تجویز اور تشخیص کیا اور جلد سے جلدآپریشن بطور علاج تجویز کیا ۔ خاکسار نے حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ بھیج کر استصواب کیا۔مولوی صاحب موصوف نے ایک کارڈ پر یہ جواب تحریر فرمایا کہ اگر مرض ہرنیا تحقیق ہوا ہے تو پھر آپریشن کے سوا اس کا کوئی علاج نہیں لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ آپریشن سے پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے معائنہ کروالیا جائے ۔ ڈاکٹر صاحب اول تو تم سے واقف ہوں گے اگر تعارفی تحریر کی ضرورت ہو تو یہی ہمارا کارڈ ان کودکھا دیں ۔ چنانچہ حسب رائے حضرت مولوی صاحب مَیں لاہور میں ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس حاضر ہوا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بڑے اخلاق اور توجہ سے معائنہ فرمایااور مکمل مرض ہرنیا تشخیص کر کے آپریشن کے سوا کوئی اور علاج نہ تجویز فرمایا۔ چونکہ خاکسار اس دوران میں ٹرس پیٹی اس مرض میں احتیاط کیلئے استعمال کرنے لگ گیا تھا ڈاکٹر صاحب نے تاکید فرمائی کہ رات کے سونے کے وقت کے علاوہ ٹرس کا استعمال ہر وقت چلتے پھرتے ضروری ہے اور آپریشن جلد کرایا جائے ورنہ بعض الجھنیں پڑ جانے پر آپریشن ناکامیاب ہوگا اور یہ چنداں خطر ناک بھی نہیں ہے ۔ گھوڑے کی سواری ، چھلانگ مارنے اور دوڑکر چلنے ، بلندی سے کودنے کی ممانعت فرمائی ۔ اس سے قبل خاکسار کا تبادلہ سب انسپکٹری بٹھنڈہ سے کورٹ انسپکٹری بسی پر ہوچکا تھا۔ اس لئے کوئی فوری اندیشہ نہ تھا۔ خاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے فیس وغیرہ مصارف آپریشن دریافت کر کے بعد انتظام آپریشن کا ارادہ کر کے لاہور سے واپس ہوا۔ واپسی کے موقعہ پر قادیان آیا اور حضرت مولوی صاحب سے کل کیفیت اور ڈاکٹر صاحب کے مشورہ کا ذکر کیا۔ جس کو سن کر مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے تو پہلے ہی یہ مشورہ دیا تھا کہ آپریشن کرایاجائے۔پھر خاکسار سے دریافت کیا کہ آپریشن کاارادہ ہے ؟ میںنے عرض کی کہ ایک دو ماہ میں موسم بھی آپریشن کے قابل ہوجائے گا اور سامان سفر بھی ہوسکے گا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے ذکر کر کے ضرور دُعا کروائی جائے ۔ اب چونکہ آئے ہوئے ہو کیوں نہ حضرت صاحب سے ذکر کر لیا جائے ۔ میں نے عرض کیا کہ اگر موقعہ میسر آیا تو عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اُسی روز شام کے وقت بعد نماز مغرب حضرت صاحب بالائی حصہ مسجد پر تشریف فرما تھے۔ پانچ دیگر اصحاب بھی حاضرتھے۔ حضرت مولوی صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کو مرض ہر نیا ہوگیاہے ۔ اطمینان کیلئے میں نے اس کو ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس بھیجا تھا ۔ انہوںنے جلد سے جلد آپریشن کیا جانا ضروری تجویز فرمایا ہے ۔ یہ سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! وہ ہرنیا مرض کیا ہوتا ہے ۔ مولوی صاحب کے اس توضیح فرمانے پر کہ یونانی والے اس مرض کو فتق کہتے ہیں۔ حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ہم نے کبھی آپ کو اس مرض کی وجہ سے تکلیف کی حالت میںنہیں دیکھا۔ آپ ہمیشہ تندرست آدمی کی طرح چلتے پھرتے ہیں ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل ایک قسم کی پیٹی اس مرض کیلئے خاص طور پر بنی ہوئی ہوتی ہے ۔ اس کو یہ ہر وقت لگائے رہتے ہیں۔ اس سے مرض کو تو کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔ البتہ چلنے پھرنے میں سہولت اور ایک طرح کا سہارا رہتا ہے ۔ حضور نے یہ سن کر فرمایا! کہ جب کام چل رہا ہے اور کوئی تکلیف نہیں پھر آپریشن کی کیا حاجت ہے ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ پیٹی کوئی علاج تو نہیں ایک سہارا ہے اور بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اس پیٹی کے استعمال سے الٹا مرض کو ترقی ہوتی ہے اور پھر کسی خرابی کے رونما ہونے پر آپریشن بھی کامیاب نہیں ہوتا ۔ اور اخیر عمر میں آپریشن کو بغیر اشد ضرورت کے ممنوع بھی قرار دیتے ہیں۔ اس موقعہ پر مرز ایعقوب بیگ صاحب بھی وہاں موجو دہیں اور عمر کے لحاظ سے بھی مناسب وقت ہے ۔ اور ویسے بھی یہ آپریشن زیادہ خطرے والا نہیں ہوتا۔ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو اندرونی آپریشنوں کے بارہ میں جو خطرے کاپہلو رکھتے ہوں یہی رائے رکھتا ہوں کہ وہ اشد ضرورت کے وقت کرانے چاہئیں۔ یعنی جب تک بغیر آپریشن کے بھی جان کا خطرہ ہو۔ پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ جن امور سے ڈاکٹر لوگ منع کرتے ہیں ان کی پابندی کرو اور خد اپر بھروسہ رکھتے ہوئے جب تک بغیر آپریشن کے کام چلتا ہے چلاتے جاؤ۔ بات یہیں ختم ہوگئی۔ حضرت مولوی صاحب نے مسجد سے آنے پر خاکسار سے فرمایا کہ جب حضرت صاحب نے آپریشن کی مخالفت فرمائی ہے اس لئے اب آپریشن کاارادہ ترک کردو۔ اور جیسا حضرت صاحب نے فرمایاہے اس پر عمل پیرا ہوجاؤ۔ اس بات کو45سال سے متجاوز عرصہ ہوتا ہے ۔خاکسار کو خطرہ کی کوئی حالت لاحق نہیں ہوئی اور اب تو عمر کی آخری سٹیج ہے۔ اس وقت بھی جب تک کسی شخص کو خاص طور پر علم نہ ہو کوئی جانتا بھی نہیں کہ مجھے ایسا دیرینہ مرض لاحق ہے ۔ میرا ایمان ہے کہ بعض اوقات ان مقدس اور مبارک زبانوں سے جو الفاظ شفقت اور ہمدردی کا رنگ لئے ہوئے ہوتے ہیں تو وہ بھی ایک دُعائی کیفیت اختیار کر کے مقرون اجابت ہوجاتے ہیں ۔

 

(1129)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا نظام دین کے متعلق یہ پیشگوئی کی کہ اُن کے گھرفلاں تاریخ کو کوئی ماتم ہوگا۔ لیکن جب تاریخ آئی اور شام کا وقت قریب ہوگیا او ر کچھ بات ظہور میں نہ آئی تو تمام مخالفین حضرت صاحب کے گھر کے ارد گرد ٹھٹھا اور مخول کیلئے جمع ہوگئے۔ سورج غروب ہونے لگا یا ہوگیا تھا کہ اچانک مرز انظام الدین کے گھر سے چیخوں کی آواز شروع ہوگئی۔ معلوم کرنے پر پتہ لگا کہ الفت بیگم والدہ مرزا ارشد بیگ فوت ہوگئی ہیں۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر اس وقت سے ہوں جب کہ ابھی بشیر اول پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔

 

(1130)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کردیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو گالیاں دے ۔ چنانچہ بعض دفعہ ایسا آدمی ساری رات گالیاں نکالتا رہتا تھا۔ آخرجب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت جی دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو۔ یہ تھک گیا ہوگا۔ اس کا گلا خشک ہوگیا ہوگا۔ میں حضرت جی کو کہتی کہ ایسے کم بخت کو کچھ نہیں دینا چاہئے ۔ تو آپ فرماتے ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے ۔

 

(1131)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک خط بھیجا ۔ لفافہ پر محمدخان صاحب ،منشی اروڑا صاحب اور خاکسار تینوں کا نام تھا۔ خط میں یہ لکھا ہوا تھا کہ یہاں کے لوگ اینٹ پتھر بہت پھینکتے ہیں اور علانیہ گالیاں دیتے ہیں۔ میں بعض دوستوں کو اس ثواب میں شامل کرنا چاہتا ہوں اس لئے تینوں صاحب فوراً آجائیں۔ ہم تینوں کچہری سے اُٹھ کر چلے گئے۔ گھر بھی نہیں آئے۔ کرتار پور جب پہنچے تو محمد خان اور منشی اروڑا صاحب نے مجھے ٹکٹ لانے کیلئے کہا۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ اپنے کرایہ کیلئے بھی اُن سے لے لوں انہوںنے اپنے ٹکٹوں کاکرایہ مجھے دے دیا تھا۔ میں نے اُن دونوں کے ٹکٹ لے لئے اور گاڑی آگئی۔ چوہدری رستم علی خان صاحب مرحوم گاڑی میں کھڑے آوازدے رہے تھے کہ ایک ٹکٹ نہ لینا میرے ساتھ سوار ہوجانا۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے ساتھ بیٹھ گیا اور ہم دہلی پہنچ گئے۔ دہلی میں حضرت صاحب نے ایک بڑا دو منزلہ مکان کرایہ پر لیا ہو اتھا۔ اوپر زنانہ تھا اور نیچے مردانہ رہائش تھی۔ واقعہ میں روز صبح وشام لوگ گالی گلوچ کرتے تھے اور ہجوم اینٹ پتھر پھینکتا تھا۔ انسپکٹر پولیس جو احمدی تو نہ تھا لیکن احمدیوں کی امداد کرتا تھا اورہجوم کو ہٹا دیتا تھا ۔ ایک دن مرزا حیرت آیا میں اس وقت کہیں گیا ہو اتھا۔ اس نے آکر حضرت صاحب کو بلوایا اور کہا کہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوں اور مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ میں آپ سے دریافت کروں کہ آپ کس غرض کیلئے آئے ہیں اور کس قدر عرصہ ٹھہریں گے اور اگر کوئی فساد ہوا تو اس کاذمہ وار کون ہوگا۔ آپ مجھے اپنا بیان لکھا دیں۔ اسی اثناء میں میں آگیا۔ میں ا س کو جانتا تھا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیان لکھا رہے تھے اور میں یہ دیکھ کر زینے سے نیچے اُتر آیا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا اور اُتر کر بھاگ گیا۔ میں دراصل پولیس میں اطلاع دینے کیلئے اُتر ا تھا اس کو اُترتے ہوئے دیکھ کر ایک عورت نے جو اوپر تھی اسے برا بھلا کہا۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)