اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-15

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(1047) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ غالباً پہلی یادوسری دفعہ میرے قادیان آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو آپ موم بتی لے کر اس کی روشنی میں آئے۔ میرے ملازم صفدر علی نے چاہا کہ بتی کو بجھا دیا جائے تاکہ بے فائدہ نہ جلتی رہی ۔ اس پر آپ نے فرمایا جلنے دو روشنی کی کمی ہے ۔ دنیا میں تاریکی تو بہت ہے (قریب قریب الفاظ یہ تھے)

(1048) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آتھم کے واقعہ کے چھ ماہ بعد میں قادیان گیا تو وہاں پر شمس الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام بھی ٹھہرے ہوئے تھے ۔وہ احمدی نہ تھے۔ قادیان سے میں اور شمس الدین صاحب امرتسر آئے۔ میاں قطب الدین صاحب امرتسری جو بہت مخلص آدمی تھے ۔ اُن سے ملنے گئے تو انہوںنے کہا کہ یہاں پر ایک عیسائی ہے اسکے پاس عبد اللہ آتھم کی تحریر موجود ہے جس میں آتھم نے اقرار کیا ہے کہ اس نے ضرور رجوع بحق کیا ہے اور وہ خائف رہااور وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہر گز نہیں جو مرزا صاحب کی ہتک کرتے ہیں۔ آپ کوبزرگ جانتا ہے ۔ یہ سن کر ہم تینوں اس عیسائی کے پاس گئے اور اُس سے وہ تحریر مانگی۔ اس نے دور سے دکھائی اور پڑھ کر سنائی ۔ اور یہ کہا کہ یہ خاص آتھم کے قلم کی تحریر ہے جو چھپوانے کی غرض سے اس نے بھیجی تھی مگر عیسائیوں نے اجازت نہیں دی کہ اس کو چھاپا جائے ۔ میرے پاس امانتاً رکھی ہوئی ہے۔ عیسائی مذکور نے چند شرائط پر وہ تحریر دینے کا اقرار کیا کہ اسکی نوکری جاتی رہے گی۔ اسکا انتظام اگر ہم کریں۔ پانچ سو روپیہ دیں اور اسکی دو لڑکیوں کی شادی کا بندوبست کریں۔ شمس الدین صاحب نے اسکا انتظام کیا اور پھر ہم تینوں اسکے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ یہ راز افشاء ہوگیا ہے اور اسے عیسائیوں نے کوہاٹ یا کسی اور جگہ تبدیل کردیا ہے ۔

(1049) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنے وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر جارہا تھا تو انبالہ سٹیشن پر ایک بڑا پادری فیروز پور سے آرہا تھا جبکہ آتھم فیروز پور میں تھا ۔ پادری مذکور کے استقبال کیلئے بہت سے پادری موجود تھے۔ وہ جب اُترا تو پادریوں نے انگریزی میں اس سے آتھم کا حال پوچھا۔ اس نے کہا وہ تو بے ایمان ہوگیا ۔ نمازیں بھی پڑھتا ہے ۔ بابو محمد بخش صاحب ہیڈ کلرک جو احمدی تھے اور میرے ملنے کیلئے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے کیونکہ میں نے اُن کو اطلاع دے دی تھی۔ انہوںنے مجھے بتایا کہ یہ انہوںنے پوچھا ہے اور یہ اس نے جواب دیا ہے میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں واقعہ تحریر آتھم والااور انبالہ سٹیشن والا عرض کیا۔ آپ نے ہنس کر فرمایا کہ گواہ تو سب احمدی ہیں۔ حضور کا مطلب یہ تھا کہ غیر کب اس شہادت کو مانیں گے۔
شیخ محمد احمد صاحب وکیل پسر منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ شمس الدین صاحب تو احمدی نہ تھے ۔ جس کا جواب والد صاحب نے یہ دیا کہ دراصل حضور نے اس امر کو قابل توجہ نہیں سمجھا اور درخور اعتنا خیال نہ فرمایا۔

(1051)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا ۔ اس وقت میں ایک کام کیلئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اس وقت صرف میں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہی تھے اور یہ اس مکان کا صحن تھا جو حضرت صاحبزادہ مرز ا شریف احمد صاحب کے رہائشی مکان کا صحن تھا۔ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے جنوبی جانب بڑے کمرے کی چھت پر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے۔ حضور نے اپنی دستار کے شملہ سے مجھے ناک کے نیچے کا حصہ اور منہ چھپا کر بتایا کہ ماتھے کو ڈھانک کر اس طرح ہونا چاہئے ۔ گویا آنکھیں کھلی رہیں اور باقی حصہ ڈھکا رہے۔ اس سے قبل حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا تو آپ نے گھونگھٹ نکال کر دکھلایا تھا۔

(1052)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مباحثہ آتھم میں فریقین کی تقاریر جو قلمبند ہوتی تھیں دونوں فریق کے کاتبان تحریر آپس میں اُن کا مقابلہ کرلیتے تھے ۔ کبھی اُن کے کاتب آجاتے، کبھی میں جاتا۔ ایک دفعہ میں مضمون کا مقابلہ کرانے کیلئے آتھم کے مکان پر گیا۔ جاکر بیٹھا ہی تھا کہ آتھم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ۔ میں نے کہا قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر کا۔ اس نے کہا !وہاں کے منشی عبد الواحد صاحب منصف ایک میرے دوست تھے ۔ میں نے کہا کہ وہ میرے چچا تھے۔ پھر کسی جگہ کا آتھم نے ذکر کیا کہ میں وہاں کا ڈپٹی تھااور منشی عبد الواحد صاحب بھی وہاں منصف یا تحصیلدار تھے اور میرااُن کا بڑا تعلق تھا۔ اور وہ بھی اپنے آپ کو ملہم سمجھتے تھے۔ تم تو میرے بھتیجے ہوئے اور وہ اپنی مستورات کو لے آیا اور اُن سے ذکر کیا کہ یہ میرے بھتیجے ہیں ۔ ان کی خاطر کرنی چاہئے ۔ چنانچہ اُسی وقت مٹھائی وغیرہ لائی گئی۔ میںنے کہا کہ میں یہ نہیں کھاسکتا کیونکہ ہمارے حضرت صاحب نے بعض عیسائیوں کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم ہمارے آقا اور مولا کی ہتک کرتے ہو تو ہم تمہاری دعوت کیسے قبول کر سکتے ہیں ۔ اسی وجہ سے میںبھی چائے نہیں پی سکتا۔ وہ کہتا رہا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے نہیںبلکہ بھتیجا ہونے کی وجہ سے دعوت کرتے ہیں۔ اسکے بعد میں مضمون کا مقابلہ کرائے بغیر وہاں سے چلا آیا اور حضور کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا ۔ حضور نے فرمایا! کہ آپ نے بہت اچھاکیا۔ اب تمہیں وہاں جاکر مقابلہ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں خواہش ہوتو خود آجایا کریں ۔

(1053)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پہلے کا ذکر ہے کہ میں قادیان میں تھا۔ فیض اللہ چک میں کوئی تقریب شادی یا ختنہ تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مع چند خدام کے مدعو کیا گیا ۔ ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے دعوت قبول فرمائی۔ ہم دس بارہ آدمی حضور کے ہمراہ فیض اللہ چک گئے ۔ گاؤں کے قریب ہی پہنچے تھے کہ گانے بجانے کی آوازسنائی دی جواس تقریب پر ہورہا تھا۔ یہ آواز سنتے ہی حضور لوٹ پڑے ۔ فیض اللہ چک والوں کو معلوم ہوا تو انہوںنے آکر بہت التجا کی مگر حضور نے منظور نہ فرمایا اور واپس ہی چلے آئے ۔ راستہ میں ایک گاؤں تھا مجھے اسکا نام اس وقت یاد نہیں۔ وہاں ایک معزز سکھ سردارنی تھی ۔ اُس نے بمنت حضور کی دعوت کی ۔ حضور نے فرمایا:قادیان قریب ہی ہے ۔ مگر اس کے اصرار پر حضور نے اسکی دعوت قبول فرمالی اور اسکے ہاں جاکر سب نے کھانا کھایا اور تھوڑی دیر آرام کر کے حضور قادیان واپس تشریف لے آئے۔ہمراہیان کے نام جہاں تک یاد ہے یہ ہیں ۔ مرزااسماعیل صاحب شیر فروش، حافظ حامد علی ، علی بخش حجام جس نے عطاری کی دکان کی ہوئی تھی اور بھی چند آدمی تھے۔

(1054)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ پٹیالہ کے بعض عیسائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور یہ بات پیش کی کہ ہم ایک لفافے میں مضمون لکھ کر میز پر رکھ دیتے ہیں۔ آپ اسے دیکھے بغیر اس کا مضمون بتادیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا ! ہم بتادیں گے۔ آپ وہ مضمون لکھ کر رکھیں۔ اس پر انہوںنے جرأت نہ کی۔ اس قدر واقعہ میرا چشم دید نہیں ۔ البتہ اس واقعہ کے بعد حضرت صاحب نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جو حنائی کاغذ پر تھا ۔وہ اشتہار میں نے پڑھا تھا جس میں یہ واقعہ درج تھا اور حضور نے یہ شرط پیش کی تھی کہ اگر ہم لفافے کا مضمون بتادیں تو مسلمان ہونا ہوگا۔ یہ واقعہ ابتدائی ایام کا اور بیعت اولیٰ سے پہلے کا ہے ۔

(1055)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری دوسری بیوی کے انتقال پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتوسل حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب راولپنڈی کے ایک تاجر صاحب کی سالی سے میرا رشتہ کرنا چاہا۔ مجھے یہ رشتہ پسند نہ تھا کیونکہ مجھے اُن کے اقرباء اچھے معلوم نہ ہوتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ رشتہ بہت پسند تھا بلکہ یہاں تک زور دیا ، خو دتو نہیں فرمایا مگر پیغامبر کی معرفت فرمایا کہ اگریہ رشتہ میں منظور نہ کروں گا تو آپ میرے رشتہ کے متعلق کبھی دخل نہ دیں گے۔ مگر اُن تاجر صاحب نے خو دیہ بات اُٹھائی کہ ان کی سالی بہنوئیوں سے پردہ نہ کرے گی اور سخت پردہ کی پابندنہ ہوگی (میرے متعلق یہ کہا کہ )سنا جاتا ہے کہ نواب صاحب پردہ میں سختی کرتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میرے پاس میرے مکان پر خود تشریف لائے اور فرمایاکہ وہ یہ کہتے ہیں ۔ میں نے عرض کی کہ قرآن شریف میں جو فہرست دی گئی ہے میں اس سے تجاوز نہیں چاہتا۔ فرمانے لگے کہ کیا بہنوئی سے بھی پردہ ہے ۔ میںنے عرض کی کہ حضور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے قرآن شریف کی فہرست میں بہنوئی داخل نہیں ۔ آپ خاموش ہوگئے اور پھر اس رشتہ کے متعلق کچھ نہیں فرمایا اور وہ تاجر صاحب بھی چلے گئے ۔

(1056)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تقریباً ایک ماہ قیام پذیر رہے ۔ بیعت اولیٰ سے تھوڑے عرصہ بعد کا یہ ذکر ہے ایک شخص جو ہندو تھا اور بڑا ساہوکار تھا وہ جالندھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں حضور کی مع تمام رفقاء کے دعوت کرنا چاہتاہوں ۔ آپ نے فوراً دعوت قبول فرمالی۔ اُس نے کھانے کا انتظام بستی بابا خیل میں کیا اور بہت پرتکلف کھانے پکوائے ۔ جالندھر سے پیدل چل کر حضور مع رفقاء گئے۔ اُس ساہوکار نے اپنے ہاتھ سے سب کے آگے دستر خوان بچھایا اور لوٹااور سلاپچی لے کر خود ہاتھ دُھلانے لگا ۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں تو اُس نے کہا کہ میں نے اپنی نجات کا ذریعہ محض یہ سمجھا ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت خد اقبول کر لے ۔ غرض بڑے اخلاص اور محبت سے وہ کھانا کھلاتا رہا۔ کھانا کھانے کے بعد اُس نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ کیا خدا میرے اس عمل کوقبول کرے گا، مجھے نجات دے گا؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے ۔ تم خدا کو وحدہ لاشریک یقین کرو اور بتوں کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور اپنی ہدایت کیلئے خدا سے اپنی زبان میں ہی دعا مانگتے رہا کرو۔ اُس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا۔ حضور بھی میرے لئے دعا مانگتے رہیں۔ پھر ہم واپس جالندھر آگئے اور وہ ساہوکار دوسرے تیسرے دن آتا اور بڑے ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ جاتا۔

(1057)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سیب ذریعہ تحریر بیان کیا کہ جالندھر میں قیام کے ایام میں ایک دن ایک ضعیف العمر مسلمان غالباً وہ بیعت میں داخل تھا اور اس کا بیٹا نائب تحصیلدار تھا ،اس بیٹے کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُس نے شکایت کی کہ یہ میرا بیٹا میری یا اپنی ماں کی خبر گیری نہیں کرتا اور ہم تکلیف سے گزارا کرتے ہیں ۔ حضور نے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ویُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِینًا وَّیَتِـیْـمًا وَّاَسِیْرًا(الدھر:9) اور اس میں کیا شک ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ماں باپ ، اولاد اور بیوی کی خبر نہ لے تو وہ بھی اس حکم کے نیچے مساکین(ماں باپ) یتامیٰ (بچے) اسیر (بیوی) میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ تم خدا تعالیٰ کا یہ حکم مان کر ہی آئندہ خدمت کرو۔ تمہیں ثواب بھی ہوگا اور ان کی خبرگیری بھی ہوجائے گی ۔ اُس نے عہد کیا کہ آج سے میں اپنی کل تنخواہ ان کو بھیج دیا کروں گا۔ یہ خود مجھے میرا خرچ جو چاہیں بھیج دیا کریں پھر معلوم ہوا کہ وہ ایسا ہی کرتا رہا۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)