اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-08

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1043) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ امرتسر میں جب آتھم کے ساتھ مباحثہ قرار پایا تو بیس بیس یا پچیس پچیس آدمی فریقین کے شامل ہوتے تھے۔ ہماری طرف سے علاوہ غیر احمدیوں کے مولوی عبد الکریم صاحب ، سید محمد احسن صاحب بھی شامل ہوتے تھے۔ اور ایک شخص اللہ دیا لدھیانوی جلد ساز تھاجس کو توریت وانجیل خوب یا دتھی اور کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپور تھلہ عیسائیوں کی طرف بیٹھا کرتے تھے ۔ ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ایک طرف عبد اللہ آتھم بیٹھتے تھے ۔ دونوں فریق کے درمیان خلیفہ نور الدین صاحب جمونی اور خاکسار مباحثہ لکھنے والے بیٹھا کرتے تھے اور دو کس عیسائیوں میں سے اسی طرح لکھنے کیلئے بیٹھا کرتے تھے۔ بحث تقریری ہوتی تھی اور ہم لکھتے جاتے تھے اور عیسائیوں کے آدمی بھی لکھتے تھے۔ اور بعد میں تحریروں کا مقابلہ کر لیتے تھے۔ حضرت صاحب اختصار کے طور پر غ سے مراد غلام احمد اور ع سے مراد عبداللہ لکھاتے تھے۔ آتھم بہت ادب سے پیش آتا تھا۔ جب عیسائیوں کے لکھنے والے زیادہ نہ لکھ سکتے، آتھم خاکسار کو مخاطب کر کے کہا کرتا کہ عیسائی ہمارے لکھنے والے ٹٹو ہیں۔ ان کی کمریں لگی ہوئی ہیں۔ انہیں بھی ساتھ لینا کیونکہ میں اور خلیفہ نور الدین صاحب بہت زُود نویس تھے۔ آتھم کی طبیعت میں تمسخر تھا۔
ایک دن آتھم مقابلہ پر نہ آیا۔ اس کی جگہ مارٹن کلارک بیٹھا ۔ یہ بہت بے ادب اور گستاخ آدمی تھا ۔ اُس نے ایک دن چند لولے لنگڑے اندھے اکٹھے کر لئے اور لاکر بٹھا دئیے اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے۔ ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کردیں اور اگر ایسا ہوگیا تو ہم اپنی کچھ اصلاح کرلیں گے۔ اس وقت جماعت میں ایک سناٹا پیدا ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ہمارے ایمان کی علامت جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہے یعنی استجابت دعا اور تین اور علامتیں حضور نے بیان فرمائیں، یعنی فصاحت وبلاغت اور فہم قرآن اور امور غیبیہ کی پیشگوئیاں ۔ اس میں ہماری تم آزمائش کر سکتے ہو اور اس جلسہ میں کر سکتے ہو۔ لیکن مسیح نے تمہارے ایمان کی علامت یہ قراردی ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گاتو لنگڑوں لُولوں کو چنگا کر دو گے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا سکو گے۔ لیکن میںتم سے اتنے بڑے نشان تو نہیں مانگتا۔ میں ایک جوتی الٹی ڈالتا ہوں اگر وہ تمہارے اشارے سے سیدھی ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ تم میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے۔ اس وقت جس قدر مسلمان تھے خوش ہو گئے اور فریق ثانی مارٹن کلارک کے ہوش گم ہو گئے۔

 

(1044) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آتھم کے مناظرہ میں آخری دن جب آتھم کو پیشگوئی سنائی گئی تو اس کا رنگ بالکل زرد ہو گیا اور دانتوں میں زبان دے کر گردن ہلا کر کہنے لگا کہ میں نے حضرت محمد صاحب کو دجّال نہیں کہا حالانکہ اپنی کتاب ’’اندرونہ بائیبل‘‘ میں اس نے یہ لفظ لکھا تھا۔ پھر آتھم اٹھا اور گر پڑا۔ حالانکہ وہ بہت قوی آدمی تھا۔ پھر دو عیسائیوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے اٹھایا۔ ایک شخص جگن ناتھ عیسائی تھا۔ وہ مجھ سے اکثر باتیں کیا کرتا تھا۔میں نے اسے کہا کہ یہ کیا ہو گیا؟ وہ کہنے لگا کہ آتھم بے ایمان ہو گیا ہے اور ڈر گیا ہے۔ پھر جب ہم اپنی جگہ واپس آئے ۔ غالباً کریم بخش ایک رئیس کی کوٹھی پر ہم ٹھہرے ہوئے تھے تو کرنیل الطاف علی خاں ہمارے ساتھ ہو لئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ کرنیل صاحب کوٹ پتلون پہنے اور ڈاڑھی مونچھ منڈائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ اندر چلے جائیں۔ باہر سے ہم کسی کو آنے نہ دیں گے۔ چنانچہ کرنیل صاحب اندر چلے گئے اور آدھ گھنٹہ کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے۔ کرنیل صاحب جب باہر آئے تو چشم پُر آب تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہے۔ وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بوریے پر بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ بوریہ پر صرف آپ کا گھٹنا ہی تھا اور باقی حصہ زمین پر تھا۔ میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں! اور حضور نے یہ سمجھا کہ غالباً میں (کرنیل صاحب) بوریے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا اس لئے حضور نے اپنا صافہ بوریے پر بچھا دیا کہ آپ یہاں بیٹھیں۔ یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے اور میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں Baptize ہو چکا ہوں (یعنی عیسائیت قبول کر چکا ہوں) مگر اتنا بے ایمان نہیں ہوں کہ حضور کے صافے پر بیٹھ جائوں ۔ حضور فرمانے لگے کہ کچھ مضائقہ نہیں ۔ آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں ۔ میں نے صافے کو ہاتھ سے ہٹا کر بوریہ پر بیٹھ گیا۔ اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا۔ کہ میں شراب بہت پیتا ہوں اور دیگرگناہ بھی کرتا ہوں ، خدا ،رسول کا نام نہیں جانتا ۔ لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کر کے مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ہیں ان کو چھوڑنا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔استغفار پڑھا کرو۔ اور پنجگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔ جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہا۔میری حالت دگرگوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا اور اسی حالت میں اقرار کر کے کہ میں استغفار اور نماز ضرور پڑھا کروں گا،آپ کی اجازت لے کر آگیا۔ وہ اثر میرے دل پر اب تک ہے ۔
چونکہ کرنیل صاحب بہت آزاد طبع آدمی تھے ۔ اس واقعہ سے دو تین سال بعد ایک دفعہ مجھ سے ملے اور انہوںنے کہا کہ استغفار اور نماز میں نے اب تک نہیں چھوڑی ۔یہ ضرور ہے کہ باہر اگر میں سیر کو چلا گیا اور نماز کا وقت آگیا تو میں چلتے چلتے نماز پڑھ لیتا ہوں۔ ورنہ مقام پر نما زاور قرآن شریف پڑھتا ہوں ۔ ہاں دو وقت کی نمازیں ملا لیتا ہوں اور کرنیل صاحب نے یہ بھی کہا کہ میں نے ایک دفعہ پچاس روپے حضور کو بھیجے اور مجھے اس کی خوشی ہوئی کہ حضور نے قبول فرمالئے ۔

 

(1045) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ عبداللہ آتھم کی پیشگوئی کی میعاد کے جب دو تین دن رہ گئے تو محمد خان صاحب مرحوم اور منشی اروڑاصاحب مرحوم اور میں قادیان چلے گئے اور بہت سے دوست بھی آئے ہوئے تھے۔ سب کو حکم تھا کہ پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے دعائیں مانگیں۔ مرزا ایوب بیگ مرحوم برادر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اس قدر گریہ وزاری سے دعا مانگتا تھا کہ بعض دفعہ گر پڑتا تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ محمد خان اور منشی اروڑا صاحب اور میں مسجد مبارک کی چھت پر سویا کرتے تھے ۔ آخری دن میعاد کا تھا کہ رات کے ایک بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس تشریف لائے کہ ابھی الہام ہوا ہے کہ اس نے رجوع الی الحق کر کے اپنے آپ کو بچا لیا ہے ۔ منشی اروڑا صاحب مرحوم نے مجھ سے ، محمد خان صاحب سے اور اپنے پاس سے کچھ روپے لے کر جو تیس پنتیس کے قریب تھے، حضور کی خدمت میں پیش کئے کہ حضور اس کے متعلق جو اشتہار چھپے وہ اس سے صرف ہوں ۔حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ہم تمہارے روپے سے ہی اشتہارات چھپوائیں گے ۔ ہم نے عرض کی کہ ہم اور بھی روپے بھیجیں گے ۔ ہم نے اسی وقت رات کو اُتر کر بہت سے آدمیوں سے ذکر کیا کہ وہ رجوع بحق ہو کر بچ گیا۔ اور صبح کو پھر یہ بات عام ہوگئی ۔ صبح کو ہندو مسلمانوں کا ایک بہت بڑ امجمع ہوگیا کہ معلوم کریں کہ آتھم مر گیا یا نہیں ۔ پھراُن لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا۔ اس کے بعد ہم اجازت لے کر قادیان سے امرتسر آئے اور امرتسر میں آکر دیکھا کہ عیسائیوںنے آتھم کا جلوس نکالا ہوا ہے ۔ ایک ڈولا سا تھا جس میں آتھم بیٹھا ہوا تھا اور اس ڈولہ کو اُٹھایا ہوا تھا اور وہ چپ چاپ ایک طرف گردن ڈالے بیٹھا تھا۔ پھر ہم کپور تھلہ چلے آئے ۔ بہت سے آدمیوں نے مجھ سے چھیڑچھاڑ بھی کی۔ ہم جب امرتسر قادیان سے گئے تھے تو شائع شدہ اشتہار لوگوں کو دئیے کیونکہ ہم تین دن قادیان ٹھہرے تھے اور یہ اشتہار چھپ گئے تھے۔

 

(1046) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں پہلی دفعہ1891ء میں قادیان گیا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فینس میرے لئے اور ایک بہلی بھیجی تھی۔ سابقہ اڈا خانہ سے نکل کرجو راستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کو جاتا تھا جو اب بھی ہے جہاں محمد اسماعیل صاحب جلد ساز کا مکان ہے اور پھر مفتی محمد صادق صاحب کے مکان کے پاس احمدیہ چوک کی طرف مڑتا ہے ۔ جس کے شرقی طرف مدرسہ احمدیہ ہے اور غربی طرف دکانیں ہیں اس تمام راستہ میں ایک پہیہ خشکی میں اور دوسرا پانی میں یعنی جوہڑ میں سے گزرتا تھااور یہ حد آبادی تھی اور میرے مکان کے آگے ایک ویرانہ تھا اور گلی چھت کر بنا ہوا کمرہ میری فرودگاہ تھی اور یہ ادھر حد آبادی تھی۔ دسمبر1892ء میں میں قادیان گیا تو مدرسہ احمدیہ۔ مہمان خانہ اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے مکان کی بنیادیں رکھی ہوئی تھیں اور یہ ایک لمبا سا چبوترا بنا ہو اتھا۔ اسی پر جلسہ ہوا تھا۔ اور کسی وقت گول کمرہ کے سامنے جلسہ ہوتا تھا۔ (یہ چبوترہ ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنایا گیا تھا) اور اس کے بعد جتنے مکان بنے ہیں ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنائے گئے ہیں ۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…