اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-24

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1121) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ محکمہ ریلوے سروس میں ریکارڈ کلرک رہنے کے بعد چونکہ اس پوسٹ میں آئندہ ترقی کی کوئی امید نہ تھی اس لئے میرے والد صاحب نے میرا تبادلہ صیغہ پولیس میں کروادیا اور سب انسپکٹری بٹھنڈہ پر میری ماموری ہوگئی لیکن یہ تبادلہ میری خلاف مرضی ہوا تھا ورنہ میں صیغہ پولیس کو اپنی طبیعت کے خلاف محسوس کرتا تھا۔ ماموری کے بعد بڑے تأمل سے اپنے والد صاحب کے اس وعدہ کرنے پر کہ عنقریب تبادلہ ہو جائے گا بادِلِ ناخواستہ حاضر ہوا اور میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں پے درپے تبادلہ کیلئے لکھتا رہا۔ کافی عرصہ کے بعد جب تبادلہ سے ناامیدی سی ہوگئی تو میں نے ارادہ کیا کہ خواہ کچھ ہو اپنے والد صاحب سے اجازت لئے بغیر استعفیٰ پیش کردوں گا۔ خدا رازق ہے کوئی اور سبیل معاش پیدا کردے گا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طر ف سے مولوی عبد الکریم صاحب کے ہاتھ کاخط لکھا ہوا موصول ہوا ۔ اس میں تحریر تھا کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ خط میں جو تکالیف آپ نے اپنی ملازمت میں لکھی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق خدا آپ کے طرز عمل سے بہت آسائش اور اطمینان کی حالت میں ہے اور آپ کو خدا نے خدمت خلق کا بہترین موقعہ عطا فرمایا ہے جس کو باسلوب انجام دیتے ہوئے خدا کا شکر بجالاؤ۔ رہا تکالیف کا معاملہ سو کوئی نیکی نہیں جو بلا تکلیف حاصل ہوسکے۔ دعائیں کرتے رہو۔ خدا اس سے کوئی بہتر صورت پید اکر دے گا۔ اور جب تک کوئی دوسری صورت پیدا نہ ہو استعفیٰ کا خیال تک دل میں نہ لاؤ کیونکہ دنیا دارالابتلاء ہے اور انسان یہاں بطور امتحان بھیجا گیا ہے ۔ جو شخص ملازمت کو چھوڑتا اور اس کے بعد کسی دوسری سبیل کی تلاش میںہوتا ہے اکثر اوقات ابتلاء میں پڑجاتا ہے کیونکہ وہ اپنی آزمائش میں پورا اُترنے کی بجائے خدا کو آزمانا چاہتا ہے کہ ہم نے ملازمت چھوڑی ہے ، دیکھیں اسکے بعد اب خدا اس سے بہتر صورت ہمارے واسطے کیا کرتا ہے ۔ یہ طریق گستاخانہ ہے ۔ اس لئے بنے ہوئے روزگار کو اس سے قبل چھوڑنا کہ جب خدا اس کیلئے کوئی اُس سے بہتر سامان مہیا فرمائے ، ہمارے مسلک کے خلاف ہے ۔ اس جواب کے موصول ہونے پر خاکسار نے وہ ارادہ ترک کردیا اور صیغہ پولیس ہی سے پنشن یاب ہوا۔

(1122) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے گھر میں بوجہ کمزوری قویٰ وغیرہ دیرینہ مرض اٹھرا تھا۔ تقریباً دس بچے صغیر سنی ، شیر خوارگی میں ضائع ہوگئے ہوں گے۔ ہمیشہ حضرت مولوی (نورالدین) صاحب کا معالجہ جاری رہتا مگر کامیابی کی صورت نہ پیدا ہوئی۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حالات سن کر مولوی صاحب نے ازراہ شفقت نکاح ثانی کا اشارہ بھی کیالیکن میں اپنی مالی حالت اور دیگر مصالح کی بناء پر اسکی جرأ ت نہ کرسکا۔ آخر مولوی صاحب نے معالجہ تجویز کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ ان ادویات کا استعمال صورت حمل کے شروع دو ماہ سے کر کے ساری مدت حمل میںکراتے رہو۔ چنانچہ اس کے مطابق عمل شروع کردیا گیا۔ جب چھ سات ماہ کا عرصہ گزر گیا اور میری اہلیہ کو مرض بخار اور اسہال وغیرہ نے آگھیرا جو خرابی جگر وغیرہ کا نتیجہ تھا، خاکسار نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں مفصل حال عرض کیا۔ مولوی صاحب نے حالات سن کر بڑی تشویش کا اظہار کیا اور فرمایا ایسی صورت میں نہ صرف بچہ کی طرف سے اندیشہ ہے بلکہ ایسی کمزوری اور دیرینہ مرض میں مولود کی ماں کیلئے بھی سخت خطرہ ہے اور خاکسار سے فرمایا کہ نسخہ تو ہم تجویز کریںگے لیکن میری رائے میں ایسے موقعہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے خاص موقعہ لے کر دعا بھی کرائی جائے۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ خاص وقت ملنا بھی تو مشکل ہے ۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ اس کے حصول کی تجویز یہ ہے کہ آپ ایک رقعہ اس مضمون کا لکھ کر دیں کہ میں ایک بات عرض کرنے لئے چند منٹ خلوت چاہتا ہوں ۔ حضرت صاحب کے پاس اندر بھیجو۔ حضرت صاحب اندر بلالیں گے۔ اُس وقت یہ استدعا اور ضرورت خاص عرض کردینا تو حضرت فوراً دعا فرمائیںگے۔ چنانچہ خاکسار نے اس مضمون کا رقعہ لکھ کر پیراں دتا جو کہ حضرت صاحب کا خادم تھا، کے ہاتھ بھجوا دیا کہ وہ حضور کے پیش کردے۔ اُس نے تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر بتلایا کہ حضرت اقدس نے رقعہ پڑھ کر فرمایا کہ ہم کوئی ضروری مضمون تحریر کر رہے ہیں۔ درمیان میں مضمون کا چھوڑنامناسب نہیں ۔ اس لئے فرصت نہیں پھر فرصت کے وقت دیکھا جائے گا۔ خاکسار نے مولوی صاحب سے اس کا ذکر کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ اب تو وقت نہیں ملے گا۔ کیونکہ کل پٹیالہ کو واپس جانا چاہتے ہو۔ پٹیالہ جاکر مفصل خط حضرت صاحب کے نام لکھ دینا۔ حضرت صاحب خطوط پر دعا فرمادیتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ اس لئے ایک ہی بات ہے ۔ اگلے دن صبح خاکسار کا روانگی کا ارادہ تھا۔ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحب مسجد مبار ک کی چھت پر تشریف فرماتھے اور خاکسار اس انتظار میں تھا کہ موقعہ ملے تو حضرت صاحب سے رخصتی مصافحہ کیا جائے کہ حضرت صاحب کی نظر مبارک مجھ پر پڑی تو میرے کچھ عرض کرنے کے بغیر حضور نے فرمایا! کل آپ کا رقعہ پیراں دتا لایا تھا ہم اس وقت ایک خاص مضمون کی تحریر میں مصروف تھے اس لئے وقت نہیں مل سکا وہ کیا کام تھا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ کچھ ایسی ضروری بات نہ تھی اگر ضرورت ہوئی تو میں پٹیالہ سے بذریعہ خط عرض کردوں گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا اگر کوئی خاص بات ہے تو اب بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس وقت اپنے ہی احبا ب بیٹھے ہیں میں بوجہ حجاب سا محسوس ہونے کے خاموش رہا کہ حضرت مولوی صاحب نے بوجہ اس حال کے واقفیت کے فرمایا وہ رقعہ میرے مشورہ سے ہی تحریر میں آیا تھا۔ مرض کے مفصل حالات بیان کر کے فرمایا کہ چونکہ خطرہ ڈبل ہے اس لئے میں نے ہی ان کو یہ دعا کرانے کا مشورہ دیا تھا۔حضور نے یہ سن کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ اگر یہی کام ہے تو دعا کیلئے ایسا اچھا وقت اور کون سا ہوگا اور اسی وقت مجمع سمیت دعا فرمائی۔ دعا سے فارغ ہوکر میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ بس اتنی ہی بات تھی یا کچھ اور بھی۔ میںنے عرض کیا کہ بس حضور دعا ہی کیلئے عرض کرناتھا۔اُسی حالت مرض وکمزوری میں بچہ پید اہوا۔ جس کا کمزور ہونا ضرور ی تھا۔ بذریعہ خطوط حضرت مولوی صاحب کے مشورہ سے معالجہ وغیرہ ہوتا رہا۔ رفتہ رفتہ ہر دو (یعنی زچہ وبچہ)کو افاقہ اور صحت حاصل ہوئی۔ میری اولاد میں صرف وہی بچہ زندہ سلامت ہے ۔ بشیر احمد نام ہے اور ایم اے علیگ ایل ایل بی ہے ۔ دوبچوں کا باپ ہے (جن کے نام سلیم احمد اور جمیل احمد ہیں) دفتر ریونیومنسٹر صاحب پٹیالہ میں آفس سپرنٹنڈنٹ ہے ۔ اسکی تعلیم بھی بالکل مخالف حالات ماحول میں محض خدا کے فضل سے ہوتی رہی۔ میرا ایمان ہے کہ یہ سب حضرت اقدس کی اس خاص دعااور اسکی استجابت کا ظہور ہے اورظہور بھی ایک خاص معجزانہ رنگ میں ۔

(1123) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی علی گوہر صاحب کپور تھلہ میں ڈاک خانہ میں ملاز م تھے۔ اڑھائی روپیہ ان کی پنشن ہوئی ۔ گزارہ اُن کا بہت تنگ تھا۔ وہ جالندھر اپنے مسکن پر چلے گئے ۔انہوںنے مجھے خط لکھا کہ جب تم قادیان جاؤ تو مجھے ساتھ لے جانا۔ وہ بڑے مخلص احمدی تھے۔ چنانچہ میں جب قادیان جانے لگاتو اُن کو ساتھ لینے کیلئے جالندھر چلا گیا۔ وہ بہت متواضع آدمی تھی۔ میرے لئے انہوں نے پُر تکلف کھانا پکوایا اور مجھے یہ پتہ لگا کہ انہوںنے کوئی برتن وغیرہ بیچ کر دعوت کا سامان کیا ہے ۔ میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ ہم حج کو جاتے ہیں اور جہاز راستے سے اُتر گیا ۔ اگلے دن گاڑی میں سوار ہوکر جب ہم دونوں چلے ہیں تو مانانوالہ سٹیشن پر گاڑی کاپہیہ پٹڑی سے اُتر گیا۔ گاڑی اسی وقت کھڑی ہوگئی۔ دیر بعد پہیہ سڑک پر چڑھایاگیا۔ کئی گھنٹے لگے۔ پھر ہم قادیان پہنچ گئے۔ میں نے منشی علی گوہر صاحب کاٹکٹ خود ہی خریدلیا تھا۔ وہ اپنا کرایہ دینے پر اصرار کرنے لگے۔ میںنے کہایہ آپ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں ۔ چنانچہ دو روپے انہوںنے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ آٹھ دس دن رہ کرجب ہم واپسی کیلئے اجازت لینے گئے تو حضور نے اجازت فرمائی اورمنشی صاحب کو کہا ذرا آپ ٹھہرئیے۔ پھر آپ نے دس یاپندرہ روپیہ منشی صاحب کو لاکر دئیے۔ منشی صاحب رونے لگے اورعرض کی کہ حضور مجھے خدمت کرنی چاہئے یا میں حضور سے لوں ۔ حضرت صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ یہ آپ کے دوست ہیں ۔ آپ انہیں سمجھائیں۔ پھر میرے سمجھانے پر کہ ان میں برکت ہے ۔ انہوںنے لے لئے اور ہم چلے آئے حالانکہ حضرت صاحب کو منشی صاحب کی حالت کا بالکل علم نہ تھا۔

(1124) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچ نہ رہا۔ ان دنوں جلسہ سالانہ کیلئے چندہ ہوکر نہیں جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے۔ میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کومہمانوںکیلئے کوئی سامان نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کرسکے فروخت کر کے سامان کر لیں۔ چنانچہ زیور فروخت یارہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کیلئے سامان بہم پہنچا دیا۔ دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کیلئے پھر کچھ نہیں ۔ فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کردیا تھا۔ اب ہمیں ضرورت نہیں۔ جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا۔ اگلے دن آٹھ یا نو بجے صبح جب چٹھی رسان آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا۔ چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوںگے۔ جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے۔ سو سو پچا س پچاس روپیہ کے۔ اور اُن پر لکھا تھا کہ ہم حاضر ی سے معذور ہیں ۔ مہمانوں کے صرف کیلئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں ۔وہ آپ نے وصول فرما کر توکل پرتقریر فرمائی۔ اور بھی چند آدمی تھے۔ جہاں آپ کی نشست تھی۔ وہاں کا یہ ذکر ہے ۔ فرمایا کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوںپر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہو ں گا نکال لوں گا۔ اس سے زیادہ اُن لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے ، فوراً خد اتعالیٰ بھیج دیتا ہے ۔

(1125) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عادت تھی کہ مہمانوں کیلئے دوستوں سے پوچھ پوچھ کرعمدہ عمدہ کھانے پکواتے تھے کہ کوئی عمدہ کھانا بتاؤ جو دوستوں کیلئے پکوایا جائے ۔ حکیم حسام الدین صاحب سیالکوٹی ، میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے والد تھے۔ ضعیف العمر آدمی تھے ۔اُن کو بلالیا اور فرمایا کہ میر صاحب کوئی عمدہ کھانا بتلائیے جو مہمانوں کیلئے پکوایا جائے ۔ انہوںنے کہا کہ میں شب دیگ بہت عمدہ پکوانی جانتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا۔ اور ایک مٹھی روپوں کی نکال کر ان کے آگے رکھ دی ۔ انہوں نے بقدر ضرورت روپے اُٹھا لئے اور آخر انہوںنے بہت سے شلجم منگوائے ۔ اور چالیس پچاس کے قریب کھونٹیاں لکڑی کی بنوائیں۔ شلجم چھلو اکر کھونٹیوں سے کوچے لگوانے شروع کئے ۔ اور ان میں مصالحہ اور زعفران وغیرہ ایسی چیزیں بھروائیں۔ پھر وہ دیگ پکوائی جو واقعہ میں بہت لذیذ تھی اور حضرت صاحب نے بھی بہت تعریف فرمائی اور مہمانوں کو کھلائی گئی۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)