اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-17

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1115)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جب دہلی پہنچ کر مولوی نذیر حسین صاحب اور مولوی بشیر احمد بھوپالوی سے مباحثہ فرمایا تھا۔ اُس سفر سے واپسی پر جماعت پٹیالہ کی درخواست پر ایک دو روز کیلئے حضور نے پٹیالہ میں قیام فرمایا۔ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ہمراہ تھے۔ ان دنوں میری شادی ونکاح کا مرحلہ درپیش تھا اور میرے والد مرحوم اپنی دنیادارانہ وضع کے پابند اور نام ونمود کے خوگر تھے اور اپنے احباب اور مشیروں کے زیر اثرشادی کے اہتمام میں باوجود مالی حالت اچھی نہ ہونے کے قرض لے کر بھی جلوس اور خلاف شرع رسوم کی تیاروں میں مصروف تھے۔ خاکسار نے اُن سے ان رسوم کی مخالفت اور اپنی بیزاری کا اظہار کیا مگر اُن پر کچھ اثر نہ ہوا۔ میں نے اپنی جائے ملازمت راجپورہ سے ان رسومات کے خلاف شرع اور خلاف اخلاق وتمدن ہونے کے متعلق تین چار صفحات کا ایک مضمون لکھ کر دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں شائع کرایا اور چند کاپیاں منگوا کر اپنے والد صاحب کی خدمت میں اور دیگر بزرگان کے نام بھجوادیں۔ اس کے بعد میں پٹیالہ آکر اپنے والد صاحب سے ملا۔ والد صاحب نے مضمون کی تعریف کی اوراُن خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مضمون کے مطابق تم اپنے وقت پر عمل کر لینا۔ میں نے تو صرف یہی ایک شادی کرنی ہے ۔ میں تو اسی طرح کروںگا جیسا میرا دل چاہتا ہے۔ تم کو وہ باتیں پسند ہوں یا نہ ہوں۔ اس کا جواب خاموش رہنے کے سوااور میرے پاس کیا تھا۔ آخر میں نے ایک اہل حدیث مولوی سے جن کے ہمارے خاندان سے بہت تعلقات تھے اور خاکسار پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے اپنی یہ مشکل پیش کی۔ انہوںنے سن کر میرے والد صاحب کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے اُن کو تو کچھ کہنے کی جرأت نہ کی بلکہ مجھے بڑی سختی سے تلقین کی کہ اگر تمہارے والد صاحب ان خلاف شرع رسومات کے اد اکرنے سے نہ رکیں تو تم شادی کرانے سے انکار کردو۔ چونکہ میں اپنے والد صاحب کی طبیعت سے واقف تھا اور میرا کوئی دوسرا بہن بھائی بھی نہ تھا اس لئے میں نے خیال کیا کہ ایسا جواب اُن کو سخت ناگوار معلوم ہوگا اور میرے اُن کے تعلقات ہمیشہ کیلئے خراب ہوکر خانگی زندگی کیلئے تباہ کن ہوں گے۔ اس لئے ان حالات میں میں سخت پریشانی اور تردّد میں تھا کہ انہی دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پٹیالہ تشریف لے آئے۔ ایام قیام پٹیالہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نماز عشاء کے بعد شب باش ہونے کیلئے ہمارے مکان پر تشریف لاتے اور صبح کی نماز کے بعد پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوجاتے ۔ ایک دن موقعہ پاکر میں نے اپنی مشکل کو حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ حضرت مولوی صاحب نے اس داستان کو بڑے غور سے سنااور فرمایاکہ چونکہ حضرت صاحب تشریف فرما ہیںاس لئے اس معاملہ کو حضور کے پیش کردو۔ میںنے عرض کیا کہ لوگو ں کی ہر وقت آمدورفت اور حضرت صاحب کی مصروفیت کے سبب شاید حضرت صاحب سے عرض کرنے کا موقعہ نہ ملے ۔ مولوی صاحب نے فرمایا موقعہ نکالنے کی ہم کوشش کریں گے۔ خاکسار تو رخصت نہ ہونے کے سبب ایک روز قبل ہی راجپورہ اپنی جائے ملازمت پر چلا گیا۔ حضرت صاحب اُس سے ایک روز بعد یا دوسرے روز بغرض واپسی راجپورہ صبح آٹھ بجے والی گاڑی سے پہنچے اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر جب ٹرین پر سوار ہونے کیلئے پلیٹ فارم راجپورہ پر تشریف لائے تو مولوی صاحب نے خاکسار کو قریب طلب فرماکر یہ سارا واقعہ حضور کے گوش گزار کردیا ۔ حضور نے تمام حالات سن کر خاکسار سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے والد صاحب کو یہ علم ہے کہ آپ کو ایسی رسوم جو کہ خلاف شرع ہیں دل سے پسند نہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے اُن سے زبانی عرض کرنے کے علاوہ ایک مدلل مضمون ان رسومات کے خلاف لکھ کر ایک اخبار میں اپنے نام سے شائع کرا کر اسکی کاپیاں اپنے والد صاحب کے پاس پہنچائیں۔ مگر وہ مضمون کو پسند کرنے اور اس سے متفق ہونے کے باوجود عملاًاس کے خلاف او ر اپنی مرضی کے موافق کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اگرتم اُن اہل حدیث مولوی صاحب کے کہنے کے موافق شادی سے انکار کردو تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا ۔ میں نے عرض کیا کہ ہمیشہ کیلئے میر ااُن سے انقطاع انجام ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا آخر نکاح وغیرہ کی رسم تو اسلامی شریعت کے مطابق ہی ہوگی ۔ خاکسار کے اثبات پر جواب عرض کرتے ہوئے فرمایاکہ جو رسوم شرع اور سنت کے موافق ہیں اُن کو تم اپنی طرف سے سمجھو اور جوخلاف شرع امور ہیں اُن کو اُن کی مرضی پر چھوڑ دو۔ دل سے ناپسند کرنے کے باوجو دکچھ تعرض نہ کرو۔ اس طرح یہ مرحلہ بغیر فساد اور نزاع کے گزر جائے گا ۔ پھر مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا۔میرے نزدیک کسی لڑکے کو کسی خلاف شرع امر میں باپ کو منع کرنے کا اس سے زیادہ حق نہیں کہ وہ اس امر کا خلاف شرع ہونا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دے ۔ سختی سے روکنے یا جبر کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ خد اتعالیٰ نے والدین کے سامنے ادب کے ساتھ اپنا شانہ جھکانے کااور اُن کے آگے اُف تک نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔ اتنے میں گاڑی آگئی ۔ خاکسار نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور نیچے اُتر کر حضرت مولوی صاحب سے جب مصافحہ کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا! کہ حضرت صاحب کے فتویٰ نے آپکی مشکل کا حل کردیا۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ حضرت صاحب سے عرض کرنا چاہئے۔ دراصل ہم مولوی صاحبان کی نظریں اُن گہرائیوں تک نہیں جاتیں جہاں حضرت صاحب کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ معاملہ بلامخالفت گزر گیا۔

(1116)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لدھیانہ میں تھے تو وہاں ہیضہ بہت پھیلا ہوا تھا اور منادی ہورہی تھی تو چراغ خادم نے آکر کہا کہ پوریاں اور حلوا خوب کھایا جائے اس سے ہیضہ نہیں ہوگا۔ اُس نے زنانہ میں آکر یہ ذکر کیا تھا۔ دراصل اُس نے مذاق کیا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پانچ چھ روپے لے کر باہر تشریف لائے اور مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ دوستوں کو کھلایا جائے کیونکہ چراغ کہتا تھا کہ ایسی منادی ہورہی ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ چراغ توشریر ہے ۔ یہ چیز تو ہیضہ کیلئے مضر ہے ۔ چراغ نے تو ویسے ہی کہہ دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو یہ سمجھا تھا کہ اسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے ۔ شاید کوئی نئی تحقیق ہوئی ہو۔ آپ پھر گھر میں تشریف لے گئے ۔ آپ کے جانے کے بعد میں نے چراغ کو ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا بات کی تھی۔ اُس نے کہا کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ حضرت جی اندر بیٹھے ہیں ۔

(1117)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو خارش ہوگئی اور انگلیوں کی گھائیوں میں پھنسیاں تھیں اور تر تھیں۔ دس بجے دن کے میں نے دیکھا تو آپ کو بہت تکلیف تھی ۔ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا۔ عصر کے بعد جب میں پھر گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ خلاف معمول آج حضور کیوں چشم پُر نم ہیں ؟آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک خیال آیا کہ اے اللہ! اس قدر عظیم الشان کام میرے سپرد ہے اور صحت کا میری یہ حال ہے کہ اس پر مجھے پُر ہیبت الہام ہوا کہ تیری صحت کاہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ؟ فرمایا کہ اس الہام نے میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہلادیا اور میں نہایت گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ میں گر گیا۔ خدا جانے کس قدر عرصہ مجھے سجدہ میں لگا۔ جب میں نے سر اُٹھایا تو خارش بالکل نہ تھی اور مجھے اپنے دونوں ہاتھ حضور نے دکھائے کہ دیکھو کہیں پھنسی ہے ؟ میں نے دیکھا تو ہاتھ بالکل صاف تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پھنسی بالکل نکلی ہی نہیں ۔

(1118)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا ۔ میں عشاء کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دئیے ہوئے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھے پاس لیٹے تھے اور ایک شتری چوغہ انہیں اُڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف اور بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کیلئے بھیج دیا ۔ میںنے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہااور سردی بہت ہے ۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے، رات گزر ہی جائے گی۔ نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت بر ابھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے۔ وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں ۔ پھر میں مفتی فضل الرحمن صاحب یاکسی اور سے ٹھیک یا دنہیں رہا لحاف بچھونا مانگ کراوپر لے گیا۔ آپ نے فرمایاکسی اور مہمان کو دے دو۔ مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو ۔ پھر میں لے آیا۔

(1119)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چوہدری رستم علی خاں صاحب مرحوم انسپکٹر ریلوے تھے۔ ایک سو پچاس روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے۔ بڑے مخلص اور ہماری جماعت میں قابل ذکر آدمی تھے۔ وہ بیس روپیہ ماہوار اپنے پاس رکھ کر باقی کل تنخواہ حضرت صاحب کو بھیج دیتے تھے۔ ہمیشہ اُن کا یہ قاعدہ تھا ۔ ان کے محض ایک لڑکا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو وہ اُسے قادیان لے آئے مع اپنی اہلیہ کے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان میں قیام پذیر ہوئے۔ حضرت اقدس نے ایک دن فرمایا کہ رات میں نے رویاء دیکھا کہ میرے خدا کو کوئی گالیاں دیتا ہے ۔ مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ جب آپ نے رؤیاء کا ذکر فرمایا تو اُس سے اگلے روز چوہدری صاحب کا لڑکا فوت ہوگیا کیونکہ ایک ہی لڑکا تھا ۔ اس کی والدہ نے بہت جزع فزع کی اور اس حالت میں اسکے منہ سے نکلا ارے ظالم! تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا۔ ایسے الفاظ وہ کہتی رہی جو حضرت صاحب نے سن لئے۔ اُسی وقت آپ باہر تشریف لائے اور آپ کو بڑا رنج معلوم ہوتا تھا۔ اور بڑے جوش سے آپ نے فرمایا کہ اسی وقت وہ مردود عورت میرے گھر سے نکل جائے۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی والدہ جو بڑی دانشمند اور فہمیدہ تھیں انہوںنے چوہدری صاحب کی بیوی کو سمجھایا اور کہا کہ حضرت صاحب سخت ناراض ہیں ۔ اُس نے توبہ کی اور معافی مانگی اور کہا کہ اب میں رونے کی بھی نہیں۔ میر صاحب کی والدہ نے حضرت صاحب سے آکر ذکر کیا کہ اب معافی دیں وہ توبہ کرتی ہے اور اُس نے رونا بھی بند کردیا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا اُسے رہنے دو اور تجہیز وتکفین کا انتظام کرو۔

(1120)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا جب انتقال ہوا ہے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر تشریف لائے ۔ میںموجود تھا۔ فرمایا کہ لڑکے کی حالت نازک تھی۔ اس کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ذرا اسکے پاس بیٹھ جائیں۔ میں نے نماز نہیں پڑھی۔ میں نما زپڑھ لوں ۔ فرمایا کہ وہ نماز میں مشغول تھیں کہ لڑکے کا انتقال ہوگیا۔ میں ان خیالات میں پڑ گیا کہ جب اس کی والدہ لڑکے کے فوت ہونے کی خبر سنے گی تو بڑا صدمہ ہوگا۔ چنانچہ انہوںنے سلام پھیرتے ہی مجھ سے پوچھا کہ لڑکے کاکیاحال ہے ؟ میں نے کہا کہ لڑکا تو فوت ہوگیا۔ انہوںنے بڑے انشراح صدر سے کہا کہ الحمدللہ! میں تیری رضا پر راضی ہوں۔ ان کے ایسا کہنے پر میرا غم خوشی سے بدل گیا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ تیری اولاد پر بڑے بڑے فضل کرے گا۔ باہر جب آپ تشریف لائے ہیں تو اس وقت آپ کا چہرہ بشاش تھا۔ کئی دفعہ میں نے حضرت صاحب کودیکھا ہے کہ کسی کی بیماری کی حالت میں بہت گھبراتے تھے اور مریض کوگھڑی گھڑی دیکھتے اور دوائیں بدلتے رہتے تھے۔ مگر جب مریض فوت ہوجاتا تو پھر گویاحضور کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ میاں مبارک احمد صاحب کی بیماری میں بھی بہت گھبراہٹ حضور کو تھی اور گھڑی گھڑی باہر آتے تھے۔ پھر دوا دیتے لیکن اسکی وفات پر حضرت ام المومنین کے حد درجہ صبر کا ذکر کر کے حضور بڑی دیر تک تقریر فرماتے رہے۔ فرمایا کہ جب قرآن شریف میں اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْن کہ جب صابر وں کے ساتھ اللہ کی معیت ہے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے ۔ لڑکے کا فوت ہونا اور حضور کا تقریر کرنا ایک عجیب رنگ تھا۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)