اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1107)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ غالباً1888ء کے آخر یا1889ء کے شروع میں خاکسار ریاست پٹیالہ کی طرف سے ریلوے میل سروس میں ریکارڈ کلرک ملازم ہو کر راجپورہ میںمقیم تھا کہ ایک روز شام کی گاڑی سے حاجی عبد الرحیم صاحب انبالوی پنجاب کی طرف لے جانے والی گاڑی میں سوار ہوئے ۔خاکسار پلیٹ فارم پر پھرتا ہوا ان سے ملا تو انہوںنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آج کل لدھیانہ میںتشریف رکھتے ہیں۔ تُو بھی چل ، قریب ہیں، زیارت کا موقعہ ہے ۔ میں نے بلا اجازت ہیڈ کوارٹر چھوڑنے کی معذوری ظاہر کی اور وعدہ کیا کہ اگر اجازت مل گئی تو حاضر ہوجاؤں گا۔ اتفاق سے اُسی روز اجازت مل گئی اور خاکسار اگلے دن صبح ہی لدھیانہ پہنچ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب قبلہ میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ سے لدھیانہ تبدیل ہوچکے تھے۔ بمشکل پتہ لے کر قریب نما زعصر یا بعد نماز عصر جائے قیام حضرت صاحب پر پہنچا۔ جمعہ کا دن تھا۔ نماز جمعہ خاکسار نے جامع مسجد میں پڑھی۔ وہیں سے حضور کے جائے قیام کا پتہ بھی چلا تھا۔ مکان مذکور کا بیرونی دروازہ شرقی رویہ تھا۔ اندرصحن میں چبوترہ بنا ہوا تھا۔ اسی پر حضرت صاحب مع چند رفقاء کے تشریف فرما تھے اور تقریر فرما رہے تھے۔ جو حصہ میںنے تقریر کا سنا اس سے معلوم ہوا کہ موضوع تقریر یہ ہے کہ مسلمان حضور کے اعلان بیعت کے خلاف کیا کیا عذرات کر رہے ہیں ۔ حضور نے فرمایا کہ علماء کا گروہ اول تو یہ کہتا ہے کہ یہ کوئی جید عالم نہیں۔ نیز فرقہ اہل حدیث والے یہ کہتے ہیں کہ یہ آمین اور رفع یدین جیسی سنت کا تارک ہے اور حنفی کہتے ہیں یہ فاتحہ خلف الامام کا عامل ہے ۔ اس لئے مجدد کیسے ہوسکتا ہے ۔ صوفی کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کے 14خاندان اور 32 خانوادہ جو وہ بناتے ہیں، اُن میں سے یہ کسی میں داخل نہیں۔ پھر ہم اس کی بیعت کیسے کر سکتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ کوئی ان سے پوچھے کہ تم نے جو14اور32کی تعداد مقرر کی ہے ، کوئی وقت ایسا بھی تھا کہ وہ ایک نمبر سے شروع ہوئے تھے۔ خدا نے اب سب کو مٹا کر اب پھر از سر نو نمبر1 سے شروع کیا ہے۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک گروہ ایسا بھی ہے کہ باوجودہمارے ساتھ حسن ظن رکھنے کے بیعت سے رکا ہوا ہے۔ جس طرح چور کسی مکان میں نقب لگانے کیلئے مکان کے کسی کمزور حصہ کو منتخب کرتا ہے ۔ اسی طرح شیطان نے بھی جب دیکھا کہ ایسے لوگ کسر نفسی کے تحت ہی شکار ہوسکتے ہیں ان کے دل میں یہ وسوسہ پید اکیا کہ یہ بات تو بے شک درست ہے مگر شرائط بیعت ایسی نازک اور مشکل ہیں کہ دنیادارانہ زندگی میں اُن کی پابندی ناممکن ہے ۔ جب کلام اس مرحلہ پر پہنچا تو حاجی عبد الرحیم صاحب نے جو اس مجمع میں مجھ سے آگے بیٹھے ہوئے تھے اور جو اس سے قبل ہر ملاقات میں مجھے بیعت کیلئے کہتے تھے اور میں ایسا ہی عذر کر کے ٹلا دیتا تھا انہوں نے حضرت صاحب سے کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت صاحب کے سامنے کر دیا اور کہا حضور جس گروہ کا حضور نے آخر نمبر پر ذکر فرمایا ہے اُن میں سے ایک یہ شخص بھی ہے۔ حضور نے خاکسار کی طرف نظر کر کے فرمایاکہ ہمارے بہت دیرینہ ملنے والے ہیں ان کو توایسا خیال نہیں ہونا چاہئے ۔ پھر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کو اس میں کیا مشکل نظر آتی ہے ؟ میں نے عرض کیا ۔ حضور ایک ہی شرط جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ہے کیا کم ہے اور دوسری شرائط بھی ایسی ہی ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا!کہ اچھا اگر یہ شرائط سخت اور ناقابل عمل ہیں تو کیا آپ کا یہ منشا ہے کہ یہ شرط ہوتی کہ بیعت کر کے جو منہیات چاہو کروکوئی روک ٹوک نہیں ۔ تو کیا آپ لوگ نہ کہتے کہ یہ ایک جرائم پیشہ کا گروہ ہے اس میں کسی شریف آدمی کا شمول کیسے ہوسکتا ہے ۔ فرمایا! اس بارہ میں لوگوں کو دھوکا لگا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیعت وہی کرے جو پہلے سے ولی اللہ ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں بلکہ ایسے بننے کا ارادہ اور دلی خواہش ضرور ہونی چاہئے ۔ جس کا ارادہ ہی طلب حق نہ ہواس کو ہم کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ ہر گز ہماری بیعت میں شامل نہ ہو۔ فرمایا اس کی مثال یہ ہے کہ اس شہر میں کالج ہوگا۔ اگر کوئی طالب علم پرنسپل سے جاکر کہے کہ مجھ کو کالج میں تو داخل کر لو مگر میں نے پڑھنا وغیرہ نہیں تو پرنسپل اُس کو یہی جواب دے گا کہ مہربانی رکھو تم ہمارے دوسرے طلباء کو بھی کھلنڈرا بنا کر خراب کر دوگے۔ بات یہ ہے کہ ایک طالب نیک نیتی سے خدا کی رضا جوئی کیلئے بیعت کرتا ہے گویا وہ معاہدہ کرتا ہے ۔ خدانخواستہ اگر اس کو کسی منکر یا برائی کا موقعہ پیش آجائے تو اس کو اپنے عہد کا خیال آکر اس سے روک کا موجب ہوگا۔ علاوہ ازیں خود بیعت لینے والے کی ہمدردانہ دعاؤں کی برکت بھی شامل حال ہوتی ہے اور اگر نیت نیک اور عزم راسخ ہو توہر شخص اپنے عزم واستقلال اور استعداد کے مطابق فیض یاب ہوتا ہے ۔ خدا رحیم کسی کے نیک عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اگرایسا ہے تو مجھ کو بیعت کرنے میں کوئی عذر نہیں لیکن میں اس سے قبل طریقہ نقش بندیہ میں بیعت ہوں ۔ حضور نے فرمایا:کوئی مضائقہ نہیں ۔یہ بھی ایک وسوسہ ہے۔ کیا علم میں ایک سے زیادہ استاد نہیں ہوتے اور بیعت تو بعض اوقات ایک ایک امر کے متعلق بھی ہوسکتی ہے ۔

 

(1111)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میرے لئے ایک سبک اور عمدہ دیسی جوتا بنو ا کر لائیں۔ میں پیر کا ماپ بھی لایا۔ اور پھگواڑہ کے ایک معروف موچی سے جوتا بنوایا۔ بنو اکر لے گیا ۔ حضرت ام المومنین کے پیر میں وہ ڈھیلا آیا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اندر سے خود پہن کر باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اُن کے پیر میں تو ڈھیلا ہے مگر ہم پہنا کریں گے میں نے پھر دوبارہ اور جوتابنوا کر بھیجا۔

 

(1112)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ پیر میں جو جو تا تھا اُس کو پیوندلگے ہوئے تھے اور بدزیب معلوم ہوتا تھا۔میں آپ کی ہمراہی سے ہٹ کر ایک دوکان پر گیااور آپ کے پیر کا بہت ٹھیک جوتا خرید کر لایا۔ آپ مجھے سیر سے واپسی پر ملے ۔ میں جوتا لئے ساتھ چلا آیااور مکان پر آکر پیش کیا کہ حضور وہ جوتا تو بُرا لگتا ہے۔ آپ نے جزاکم اللہ فرما کر نیا جوتا رکھ لیا۔ اور پہن کر بھی دیکھا تو بہت ٹھیک تھا۔ اگلے دن جب حضور سیر کو تشریف لے گئے تو وہی پرانا جوتا پیوند کیا ہو اپہنے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور نے تو پھر وہی جوتا پہن لیا۔ آپ نے فرمایااس میں مجھے آرام معلوم ہوتا ہے اور اس کو پیر سے موافقت ہوگئی ہے ۔

 

(1113)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ بوٹ پہنے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سا تھ تھا۔ میرا بوٹ ذرا تنگ تھا۔ اس لئے میں تکلیف سے چلتا تھا کیونکہ حضور بہت تیز چلتے تھے۔ آپ نے مجھے دیکھ کر اپنے پرانے جوتے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ہم تو ایسا جوتا پہنتے ہیں یعنی آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں ۔

 

(1114)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے جب لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کی تو میں نے اُس خلوت کو غنیمت جان کر حضور سے دو تین امور کے متعلق استفسار کیا۔ وہ سوالات اور جوابات جو حضور نے ازرہ شفقت فرمائے، یہ ہیں ۔
سوال نمبر1: خاکسار نقش بندیہ طریق میں بیعت ہونے سے قبل فرقہ اہل حدیث جس کو عام لوگ وہابی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں، میں بھی شامل رہا ہے۔ اُس وقت سے نمازوں کو جمع کرنے کی عادت پڑ گئی ہے ۔ اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے ۔
جواب:حضور نے فرمایا کہ جمع صلاتین کے بارہ میں میرے نزدیک مخالف وموافق ہر دو فریق نے افراط وتفریط سے کام لیا ہے ۔ ایک طرف اس پر عاملین کا تو یہ حال ہے کہ بلا عذر شرعی یا جائز ضرورت کے نمازیں جمع کر لیتے ہیں ۔ یہاں تک کے حقہ ذرا اچھا چل رہا ہے یا تاش وغیرہ کھیل رہے ہیں،اذان ہوئی تو ان کو چھوڑ کر کون جائے۔ جھٹ نماز جمع کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، چاہے دوسری نماز بھی ادا ہوجائے یا دونوں ضائع ہوجائیں ۔ فرمایا:یہ بہت بُری بات ہے ۔ نما زجیسے ضروری فرض میں کوتاہی اور غفلت ایمان کی کمزوری پر دال ہے اور دوسری طرف حنفی صاحبان کا یہ حال ہے کہ کیسی ہی ضرورت اور عذر جائز ہو نماز قضاء تو کردیں گے مگر اہل حدیث کی ضد اور مخالفت میں جمع نہ کریں گے ۔ فرمایاکہ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ حج کے موقعہ پر ایک نماز ہر حاجی کو ٹھیک ادائے رسوم حج کے وقت لازمی طور پر جمع کرنی پڑتی ہے ۔ اگر یہ فعل ایسا ہی ممنوع ہوتا جیسا آپ لوگوں کے عمل سے ہویدا ہے تو ایسے مقدس مقام پر ا س کی اجازت کیسے ہوتی۔ دراصل ضرورت اور عدم ضرورت کا سوال ہے اور یہی اس بارہ میں معیار ہے ۔
سوال نمبر2: خاکسار نے عرض کیا کہ میں نے بار ہا صوفیاء کی مجلس حال وقال میں اور شیعہ وغیرہ کی مجالس محرم وغیرہ میں قصداً اس غرض سے شامل ہو کر دیکھا ہے کہ یہ اس قدر گریہ وبکا اور چیخ وپکار جو کرتے ہیں مجھ پربھی کوئی حالت کم ازکم رقت وغیرہ ہی طاری ہو مگر مجھے کبھی رقت نہیں ہوئی۔
جواب:حضور نے فرمایا کہ ان مجالس میں جوشور وشغب ہوتا ہے اس کا بہت حصہ تو محض دکھاوے یا بانی مجلس کے خوش کرنے کیلئے ہوتا ہے اور باقی رسم اور عادت کے طور پر بھی وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر ایسا کرنا موجب ثواب ہے۔ لیکن مومن کیلئے رقیق القلب ہونا ضروری ہے ۔ اس کیلئے نمازیں وقت پر اور خشوع خضوع سے ادا کرنااور کثرت استغفار ودرود شریف اور نمازوں میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے وقت اھدنا الصراط المستقیم کا تکرار بطور علاج فرمایا۔
سوال نمبر3: خاکسار نے بطور ورد ووظائف کچھ پڑھنے کے واسطے دریافت کیا ۔
توحضور نے فرمایا کہ آپ کی ملازمت بھی نازک اور ذمہ واری کی ہے۔ بس نمازوں کو سنوار کر وقت پر ادا کرنااور اتباع سنت اور چلتے پھرتے درود شریف ،استغفار پڑھئے اور وقت فرصت قرآن مجید کی سمجھ کر تلاوت کو کافی فرمایا۔ خاکسار کے مکرر اصرار پر نماز فرض کے بعد اُسی نشست میں گیارہ دفعہ لاحول ولاقوۃ پڑھنے کیلئے ارشاد فرمایا۔

 (سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…