اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-23

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(960) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مَیں حسب معمول قادیان گیا۔ وہاں دیکھا تو ہمارے ایک دوست برکت علی گول کمرہ میں بیمار پڑے ہیں اور تپ محرقہ سے زبان بند ہو چکی تھی۔حضرت علیہ السلام نے فرمایا کر عرق گائو زبان اورشربت بنفشہ اسکے مُنہ میں ڈالو۔مَیں شام تک اسی طرح کرتا رہا۔اسی روز امرتسر سے ایک کاتب آیاجس کو حضور علیہ السلام نے بلایا تھاچونکہ ازالہ اوہام کی کاپی شروع ہونی تھی۔آپ نے فرمایا کہ آج تو ہمارے ایک دوست بیمار ہیںکل کام شروع کرایا جائیگا۔میاں برکت علی صاحب حافظ حامد علی صاحب کے بہنوئی اور مولوی عبدالرحمٰن صاحب جٹ کے والد ماجد تھے۔صبح ہوتے ہی حضور نے فرمایا کہ میاں حامد علی ان کو گھر لے جائو۔اس پر اُن کو فیض اللہ چک لایا گیااور فیض اللہ چک آتے ہی فوت ہوگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
(961) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جس وقت آتھم کے متعلق یہ مشہور ہوا کہ وہ میعاد کے اندر فوت نہیں ہوا تو حضور علیہ السلام نے حکم دیا کہ دیہات میں روٹیاں پکوا کر تقسیم کرواور کہو کہ یہ روٹیاںفتح اسلام کی روٹیاں ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے حضرت صاحب کی مراد یہ تھی کہ پیشگوئی اپنی شرائط کے مطابق پوری ہوگئی ہے اور آتھم کا میعاد کے اندر نہ مرنا بھی پیشگوئی کی صداقت کی علامت تھا کیونکہ اس نے خائف ہو کر رجوع کیا تھا۔پس آپ چاہتے تھے کہ اس خوشی کا دیہات میں چرچا کیا جاوے۔
(962) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہمارے والد صاحب مرحوم مرض الموت سے بیمار تھے توہم کو بوقت دوپہر الہام ہوا۔وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ ہم نے خیال کیا کہ شاید والد صاحب کا آج ہی شام کے بعد انتقال ہوگااور ہمارے دل میں فکر پیدا ہوا کہ ہمارے لئے کوئی اور کام یا روزگار کی صورت نہیں۔ صرف آپ کی پنشن اور تعلقہ داری پر ہی گذارہ ہوتا تھا اوراس پر معاً الہام ہوا ’’الیس اللہ بکافٍ عبدہٗ‘‘ یعنی کیا خدا اپنے بندے کیلئے کافی نہیں۔ سبحان اللہ! خدا نے اپنی کفالت کا کیا ثبوت دیاکہ ہزارہا مہمان اور ہزاروں کام سلسلہ کے کس طرح اس الہام الٰہی کے تحت انجام پذیر ہو رہے ہیںاور آپ نے اس الہام کو اپنی مُہر میں کھدوالیا تھا۔
(963) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان بٹالہ کے سفر میں یکّہ، پالکی اور بہلی میں سوار ہوتے دیکھا ہے مگر گھوڑے پر نہیں دیکھالیکن سُنا ہے کہ جوانی میں گھوڑے کی سواری بہت فرمائی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پالکی سے مراد وہ سواری ہے جسے کہار لوگ کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور وہ کندھوں کے برابر ہی اونچی رہتی ہے۔
(964) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کیلئے زیادہ تر بسراواں یا بُٹّر کی طرف تشریف لے جاتے تھے۔ کبھی کبھی ننگل یا بٹالہ کی سڑک پر بھی جاتے تھےاور شاذونادر کسی اور طرف بھی اور عام طور پر ڈیڑھ سے دو میل تک باہر نکل جاتے تھے اور جب حضرت صاحب سیر کو جاتے یا گھر میں ٹہلتے تو تیز قدم چلا کرتے تھے۔آپ کی چال مستعدجوانوں کی سی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بسراواں قادیان سے مشرق کی طرف ہے اور بُٹّر شمال کی طرف ہے اور ننگل جنوب کی طرف ہے اور بٹالہ مغرب کی طرف ہے۔
(965) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں معراج الدین صاحب عمر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق الفضل مورخہ 3؍اگست 1937ء میں ایک مضمون شائع کرایا تھا۔اس میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’جن لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کا شرف حاصل ہےان میں سے ایسے بہت اصحاب موجود ہیںجنہوں نے آپ کی زبان مبارک سے بار ہا سُنا کہ آپ اپنی عمر کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم پیدا ہوئے تو پھاگن کا مہینہ تھا (یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں ہندی بکرمی سنہ مروج ہے اور اس پھاگن سے مراد وہی مر وجہ بکرمی سن ہے) اور جمعہ کا روز تھا۔پچھلی رات کا وقت تھا اورقمری حساب سے چاند کی چودھویں رات تھی۔یہی بات اخی مکرمی حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی کتاب ’’ذکرحبیب‘‘ کے صفحہ نمبر239پر لکھی تھی جس کو ناظرین دیکھ سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات مجھے یاد بھی تھی لیکن حال میں ’’ذکرحبیب‘‘ کے مطالعہ سے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ بیان مستحضر ہوگیا ہےاور مَیں نے تحقیق کرنا شروع کردی کیونکہ میرے دل میں تحقیق کرنے کی زور سے تحریک پیدا ہوئی۔خوش قسمتی سے میری مرتبہ کتاب تقویم عمری جو ایک سو پچیس برس کی جنتری کے نام سے بھی موسوم ہے۔میرے سامنے آگئی اور مَیں نے غور سے اس کا مطالعہ کیا یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ولادت کے سال اور وقت کے متعلق فرمایا ہے،اس کی تلاش سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ آپ کی ولادت جس جمعہ کو ہوئی تھی وہ 14؍ماہ رمضان المبارک1247 ہجری کا دن تھااور بحساب سمت بکرمی یکم پھاگن سمہ1888 کے مطابق تاریخ تھی جو عیسوی سن کے حساب سے 17 ؍فروری 1832ء کے مطابق ہوتی ہے۔پس اس طریق سے حضور موصوف کی عمر ہر حساب سے حسب ذیل ثابت ہوتی ہے۔
(الف)بحساب سمت ہندی بکرمی آپ یکم پھاگن سمہ 1888 بکرمی کو پیدا ہوئے اور جیٹھ سمہ 1965 بکرمی کو آپ کا رفع ہوا۔گویا ہندی بکرمی سالوں کی رو سے آپ کی عمر76 سال چار ماہ ہوئی ۔
(ب)عیسوی سال 17؍ فروری1832ء کو آپ کی ولادت ہوئی اور26؍ مئی 1908ء کو آپ اپنے خالق حقیقی رفیق اعلیٰ سے جاملے۔پس اس حساب سے آپ نے76 سال دو ماہ اور9 دن عمر پائی۔
(ج) سن ہجری مقدس کے مطابق آپ 14؍ رمضان المبارک1247ھ کو پیدا ہوئےاور9؍ربیع الاول1326ھ کو خدا سے جاملے۔اس حساب سے آپ کی عمر78 سال 5 ماہ اور25 دن ہوئی۔یعنی ساڑھے اٹھہتر سال ہوئی۔
اس سے اب صاف طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ آنحضرت کی عمر الٰہی الہام کے مطابق 80 سال کے قریب ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں اپنی تحقیق روایت نمبر 613میں درج کر چکا ہوں۔میاں معراج الدین صاحب عمر کی تحقیق اس سے مختلف ہے لیکن چونکہ دوستوں کے سامنے ہر قسم کی رائے آجانی چاہئے اس لئے مَیں نے اسے درج کردینا ضروری سمجھا ہے۔ ویسے میری رائے میں جس نتیجہ پر مَیں پہنچاہوں وہ زیادہ صحیح اور درست ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
(966) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں شکایت کی کہ مجھے آجکل غم وہم نے بہت تنگ کر رکھا ہے۔تو حضور نے فرمایا کہ ہم نے ایک عرق تیار کیا ہے۔وہ روز پی لیا کرو۔شراب تو حرام ہے لیکن ہم نے یہ عرق خود حلال تیار کیا ہے۔سو حضور متواتر ایک ماہ تک مجھے یہ عرق روزانہ ایک چھٹانک صبح ایک چھٹانک شام کو عنایت فرماتے رہے۔پھر مَیں نے نسخہ دریافت کیا تو فرمایاکہ اس میں جدوار۔عرق کیوڑا۔بیدمشک اور مشک یعنی کستوری پڑتی ہے۔مگر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ تم سے تیار نہیںہو سکے گا۔یہاں سے ہی لے جائو۔جب ختم ہوجائے تو لکھ دینا۔ہم اور بھیج دینگے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے سمجھ لیا ہوگا کہ سیٹھی صاحب کا غم وہم کسی جسمانی عارضہ کی وجہ سے ہے۔اس لئے آپ نے طبّی نسخہ تجویز فرمایا۔ویسے بھی بعض ظاہری علاج دل میں فرحت اور امنگ پیدا کر دیتے ہیں۔
(967) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت لے کر واپس چلا تو حضور علیہ السلام و داع کرنے کیلئے باہر باغ کی طرف تشریف لے آئے۔ جب رخصت ہو کر مَیں یکّہ میں بیٹھنے لگاتو حضور فرمانے لگے کہ واپس چلو۔مَیں نے عرض کی کہ حضور یکّہ والا ناراض ہوگا۔فرمایا کہ چار آنے کے پیسے ہم اس کو دیدینگے۔چنانچہ حضور مجھے واپس لے آئے۔ افسوس میری بدبختی تھی کہ مَیں حضور کی منشاء کو نہ سمجھا اور پھر تیسرے چوتھے دن رخصت لے کر واپس چلا گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً اس وقت حضرت صاحب کو کوئی اشارہ ہوا ہوگا یا کسی وجہ سے حضور نے یہ سمجھا ہوگا کہ اس وقت سیٹھی صاحب کا سفر کرنا مناسب نہیں اس لئے روک لیا ہوگا۔
(968) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ایک رجسٹری خط بھیجا۔میں نے کھول کر دیکھا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ مقدمہ سخت ہے اور حاکم اعلیٰ نے بھی ایماء کر دیا ہے کہ سزا ضرور دو۔اس صورت میں مبشر الہامات شاید محکمہ اپیل میں پورے ہوں ۔سو ایسا ہی ہوا کہ حاکم نے پانچ صد روپیہ جرمانہ کیا۔جو اپیل میںواپس آگیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مولوی کرم دین والے مقدمہ کا واقعہ ہے۔
(969) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایاکہ حضور غلام نبی کو مراق ہےتو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہےاور مجھ کو بھی ہے۔یہ طبیعتوں کی مناسبت ہے ۔جس قدر ایسے آدمی ہیں کھچے چلے آوینگے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جیسا کہ روایت نمبر 19،360،369/1میں تشریح کی جاچکی ہے اس سے طبّی اصطلاح والا مراق مراد نہیںبلکہ حس کی غیر معمولی تیزی اور طبیعت کی ذکاوت مراد ہے۔جس کے اندر یہ احساس بھی شامل ہے کہ جب ایک کام کا خیال پیدا ہو تو جب تک وہ کام ہو نہ جاوےچین نہ لیا جاوے اور اسکی وجہ سے طبیعت میں گھبراہٹ رہے۔
(970) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن بڑی مسجد میں بیٹھے تھے۔مسجد کے ساتھ جو گھر ہندوئوں کے ہیںحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ جگہ اگر مسجد میں شامل ہوجائے تو مسجد فراخ ہوجاوے۔ حضور کے چلے جانے کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ آج مرزا نے یہ سارے مکان لے لئے ۔سو اب آکر حضور علیہ السلام کا وہ ارشاد پورا ہوا کہ یہ مکانات مسجد میں مل گئے۔ہمارا تو اس وقت بھی ایمان تھا کہ حضرت صاحب کی سرسری باتیں بھی پوری ہوکر رہیں گی کیونکہ حضور بِن بلائے بولتے نہ تھے۔
(سیرۃ المہدی ، جلداوّل،حصہ سوم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…