اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(971) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی شاذونادر ہی مجلس ایسی ہوتی ہوگی جس میں ہِر پھر کر وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا ذکر نہ آجاتا ہو۔آ پ کی مجلس کی گفتگو کا خلا صہ میرے نزدیک دو لفظوں میں آجاتا ہے ایک وفات مسیح اور دوسرے تقویٰ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ وفات مسیح عقائد کی اصلاح اور دوسرے مذاہب کو مغلوب کرنیکے کام کا خلاصہ تھااور تقویٰ اصلاح نفس کا خلاصہ ہے ۔مگر آج کل وفات مسیح سے بحث کا میدان بدل کر دوسری طرف منتقل ہوگیا ہے۔
(972) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف) جب چھوٹے تھے تو ان کو ایک زمانہ میں شکر کھانے کی بہت عادت ہوگئی تھی۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچتے اور ہاتھ پھیلا کر کہتے’’ابا چٹی‘‘ حضرت صاحب تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اٹھتے۔ کوٹھڑی میں جاتے۔شکر نکال کر ان کو دیتےاور پھر تصنیف میں مصروف ہوجاتے۔ تھوڑی دیر میں میاں صاحب موصوف پھر دستِ سوال دراز کرتے ہوئے پہنچ جاتےاور کہتے’’ابّا چٹی‘‘(چٹی شکر کو کہتے تھے کیونکہ بولنا پورا نہ آتا تھااور مراد یہ تھی کہ چٹّے رنگ کی شکر لینی ہے)حضرت صاحب پھر اُٹھ کر ان کا سوال پورا کر دیتے۔غرض اس طرح ان دنوں میں روازانہ کئی کئی دفعہ یہ ہیرا پھیری ہوتی رہتی تھی۔مگر حضرت صاحب باوجود تصنیف میں سخت مصروف ہونے کے کچھ نہ فرماتےبلکہ ہر دفعہ ان کے کام کیلئے اٹھتے تھے۔ یہ 1895ء یا اس کے قریب کا ذکر ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری پیدائش اپریل 1893ء کی ہے۔
(973) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اصل میں عربی زبان کی ستائیس لاکھ لُغت ہے جس میں سے قرآن مجید میں صرف چار ہزارکے قریب استعمال ہوئی ہے۔ عربی میں ہزار نام تو صرف اُونٹ کا ہے اور چار سو نام شہد کا۔
(974) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے مرزا کا کلمہ یہ ہے کہ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔‘‘
(975) بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھےیعنی:
آپ نہایت رئوف رحیم تھے۔سخی تھے۔ مہمان نواز تھے۔ اشجع الناس تھے۔ ابتلائوں کے وقت جب لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے تھے۔عفو، چشم پوشی، فیاضی، دیانت، خاکساری، صبر، شکر، استغناء، حیا، غض بصر، عفّت، محنت، قناعت، وفاداری، بے تکلفی، سادگی، شفقت، ادب الٰہی،ادب رسول وبزرگانِ دین، حلم،میانہ روی، ادائیگی حقوق،ایفائے وعدہ۔ چُستی، ہمدردی، اشاعت دین،تربیت ،حسن معاشرت،مال کی نگہداشت، وقار، طہارت،زندہ دلی اور مزاح، رازداری، غیرت، احسان، حفظ مراتب ،حسن ظنّی،ہمت اور اولوالعزمی، خودداری، خوش روئی اور کشادہ پیشانی کظم غیظ، کف یدوکف لسان،ایثار،معمورالاوقات ہونا،انتظام،اشاعت علم ومعرفت،خدا اور اس کے رسول کا عشق،کامل اتباع رسول،یہ مختصراً آپ کے اخلاق وعادات تھے۔
آپ میں ایک مقناطیسی جذب تھا۔ایک عجیب کشش تھی،رُعب تھا، برکت تھی، موانست تھی،بات میں اثر تھا،دُعامیں قبولیت تھی،خدام پروانہ وار حلقہ باندھ کر آپ کے پاس بیٹھتے تھےاور دلوں سے زنگ خود بخود دُھلتا جاتا تھا۔
بے صبری، کینہ،حسد، ظلم، عداوت، گندگی، حرص دنیا، بدخواہی، پردہ دری، غیبت، کذب، بے حیائی، ناشکری، تکبّر، کم ہمتی، بخل، تُرش رُوئی و کج خُلقی، بُزدلی، چالاکی، فحشاء، بغاوت، عجز، کسل، ناامیدی، ریا، تفاخر ناجائز، دل دکھانا، استہزاء، تمسخر، بدظنی، بے غیرتی، تہمت لگانا، دھوکا، اسراف و تبذیر، بے احتیاطی، چُغلی، لگائی بجھائی، بے استقلالی، لجاجت، بے وفائی، لغو حرکات یا فضولیات میں انہماک، نا جائز بحث و مباحثہ، پُرخوری، کن رسی، افشائے عیب، گالی، ایذاء رسانی، سفلہ پن، ناجائز طرفداری، خودبینی، کسی کے دُکھ میں خوشی محسوس کرنا، وقت کو ضائع کرنا، ان باتوں سے آپ کوسوں دُور تھے۔
آپ فصیح وبلیغ تھے۔ نہایت عقلمندتھے۔ دوراندیش تھے۔سچے تارک الدنیا تھے۔ سلطان القلم تھے اورحسب ذیل باتوں میں آپ کو خاص خصوصیت تھی۔خدا اور اسکے رسول کا عشق،شجاعت ، محنت،توحید و توکل علی اللہ،مہمان نوازی ،خاکساری اور نمایاں پہلو آپ کے اخلاق کا یہ تھا کہ کسی کی دل آزاری کو نہایت ہی ناپسند فرماتے تھے۔ اگر کسی کو بھی ایسا کرتے دیکھ پاتے تو منع کرتے۔
آپ نمازباجماعت کی پابندی کرنے والے، تہجد گزار،دُعاپر بے حد یقین رکھنے والے،سوائے مرض یا سفر کے ہمیشہ روزہ رکھنے والے،سادہ عادات والے،سخت مشقّت برداشت کرنے والے اور ساری عمر جہاد میں گذارنے والے تھے۔
آپ نے انتقام بھی لیا ہے۔آپ نے سزا بھی دی ہے۔آپ نے جائز سختی بھی کی ہے۔ تادیب بھی فرمائی ہے یہاں تک کہ تادیباً بعض دفعہ بچہ کو مارا بھی ہے۔ملازموں کو یا بعض غلط کار لوگوں کو نکال بھی دیا ہے۔ تقریروتحریر میں سختی بھی کی ہے۔عزیزوں سے قطع تعلق بھی کیاہے۔ بعض خاص صورتوں میں توریہ کی اجازت بھی دی ہے۔بعض وقت سلسلہ کے دشمن کی پردہ دری بھی کی ہے(مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی کے مہدی کے انکار کا خفیہ پمفلٹ) بددعا بھی کی ہے۔مگر اس قسم کی ہر ایک بات ضرورتاً اور صرف رضائے الٰہی اور دین کے مفاد کیلئے کی ہے نہ کہ ذاتی غرض سے۔ آپ نے جھوٹے کو جھوٹا کہا۔جنہیں لئیم یا زنیم لکھاوہ واقعی لئیم اور زنیم تھے۔جن مسلمانوں کو غیر مسلم لکھا وہ واقعی غیر مسلم بلکہ اسلام کے حق میں غیر مسلموں سے بڑھ کر تھے۔
مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کے رحم اور عفو اور نرمی اور حلم والی صفات کا پہلو بہت غالب تھا۔ یہاں تک کہ اس کے غلبہ کی وجہ سے دوسرا پہلو عام حالات میں نظر بھی نہیں آتا تھا۔آپ کو کسی نشہ کی عادت نہ تھی۔کوئی لغو حرکت نہ کرتے تھے،کوئی لغو بات نہ کیا کرتے تھے،خدا کی عزّت اور دین کی غیرت کے آگے کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔آپ نے ایک دفعہ علانیہ ذبّ تہمت بھی کیا۔ایک مرتبہ دشمن پر مقدمہ میں خرچہ پڑاتوآپ نے اس کی درخواست پر اُسے معاف کر دیا۔ایک فریق نے آپ کو قتل کا الزام لگا کر پھانسی دلانا چاہامگر حاکم پر حق ظاہر ہوگیااور اس نے آپ کو کہا کہ آپ ان پر قانوناً دعویٰ کرکے سزا دلاسکتے ہیںمگر آپ نے درگذر کیا۔آپ کے وکیل نے عدالت میں آپ کے دشمن پر اس کے نسب کے متعلق جرح کرنی چاہیمگر آپ نے اُسے روک دیا۔
غرض یہ کہ آپ نے اخلاق کا وہ پہلو دُنیا کے سامنے پیش کیاجو معجزانہ تھا۔سراپا حسن تھے۔سراسر احسان تھےاور اگر کسی شخص کا مثیل آپ کو کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف محمد رسُول اللہ ہے،ﷺاور بس۔
آپ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق مَیں نے دیکھا کہ مَیں اسکی مثال بیان کر سکتا ہوں۔یہ نہیں کہ مَیں نے یونہی کہہ دیا ہے۔ مَیں نے آپ کو اس وقت دیکھاجب مَیںدو برس کا بچہ تھا۔پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھامگر مَیں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوںکہ مَیں نے آپ سے بہتر، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک ،آپ سے زیادہ بزرگ ،آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔آپ ایک نور تھے جو انسانوں کیلئے دُنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کرگئی ۔اگر حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی کہ ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن‘‘ تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ’’ کَانَ خُلُقُہُ حُبَّ مُحَمَّدٍ وَاَتْبَاعِہٖ‘‘ عَلَیْہٖ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے اپنی اس روایت میں ایک وسیع دریاکو کوزے میں بند کرنا چاہا ہے۔ان کا نوٹ بہت خوب ہے اور ایک لمبے اور ذاتی تجربہ پر مبنی ہے اور ہر لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا ہے۔مگر ایک دریا کو کوزے میں بند کرناانسانی طاقت کا کام نہیں ۔ہاں خدا کو یہ طاقت ضرور حاصل ہے اور مَیں اس جگہ اس کوزے کا خاکہ درج کرتا ہوں جس میں خدا نے دریا کو بند کیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ‘‘یعنی خدا کا رسُول جو تمام نبیوں کے لباس میں ظاہر ہوا ہے۔
اس فقرہ سے بڑھ کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کوئی جامع تعریف نہیں ہوسکتی۔آپ ہر نبی کے ظل اور بروز تھے اور ہر نبی کی اعلیٰ صفات اور اعلیٰ اخلاقی طاقتیں آپ میں جلوہ فگن تھیں۔کسی نے آنحضرت ﷺ کے متعلق کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے:
حسنِ یوسف ،دمِ عیسیٰ ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
یہی ورثہ آپ کے ظل کامل نے بھی پایا مگر لوگ صرف تین نبیوں کو گِنکر رہ گئے۔خدا نے اپنے کوزے میں سب کچھ بھر دیا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَعَلٰی مُطَاعِہٖ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ وَاحْشُرْنِی رَبِّ تَحْتَ قَدَ مَیْھِمَا ذٰلِکَ ظَنِّی بِکَ اَرْجُو مِنْکَ خَیْرًاآمِیْن ثُمَّ آمِیْن۔
(سیرۃ المہدی ، جلداوّل،حصہ سوم ،مطبوعہ قادیان 2008)