اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-27

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

 

(1099)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص یہودی تھا اور وہ مسلمان ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوگیا تھا۔ ایک دن مَیں حضور کی محفل میں بیٹھا تھا۔ کسی دوست نے حضور سے اسکے متعلق پوچھا ۔ آپ کی تعریف! تو حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ یہودی ہیں بلکہ یہ فرمایا ’’آپ بنی اسرائیل صاحبان میں سے ہیں ۔‘‘

 

(1100)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ اخیر سنین بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مَیں قادیان جانے کیلئے تیار ہوا۔ اُس وقت کے امیر جماعت مولوی عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے مجھ سے فرمایا کہ ہمارے ایک پیغام کا یاد سے جواب لانا۔ پیغام دریافت طلب یہ تھا کہ جس طرح حضرت صاحب کی نسبت نبی یارسول کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ کیا دیگر مجددین امت واولیاء کبار مثلاً حضرت مجددالف ثانی ؒکی نسبت ایسے الفاظ استعمال ہوسکتے ہیں؟ اور یہ تاکید فرمائی کہ اس کا جواب اگر ہوسکے تو خود حضرت صاحب سے حاصل کیا جائے ۔ اگر ایسا موقعہ نہ میسر ہو تو پھر حضرت مولوی نور الدین صاحب سے دریافت کیا جائے ۔ خاکسار کئی روز کوشش میں رہا مگر مناسب موقعہ نہ ملنے کے سبب حضور سے دریافت کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ آخر جب میں نے واپس جانے کاارادہ کیا تو میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا اور وہ شرط بھی ظاہر کردی جو سائل صاحب نے لگائی تھی۔ حضرت مولوی صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ ابھی رخصت کے دو تین دن ہوں گے۔ ہم موقع نکال دیں گے ۔ چنانچہ اُسی روز یا اگلے روز حضرت صاحب بعد نماز مغرب اوپر تشریف فرما تھے کہ حضرت مولوی صاحب نے میرے حوالہ سے یہ سوال حضور کے گوش گذار کیا۔ حضور نے سن کر جوش بھرے لہجہ میں فرمایا کہ مولوی صاحب! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سوال پیدا ہی کیسے ہوتا ہے ۔ جس شخص کو خدا نے اپنی وحی میں نبی کے لفظ سے نامزد نہ کیا ہو اور جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کے لفظ سے یاد نہ فرمایا ہو اور نہ اس شخص نے خود نبوت کا دعویٰ کیا ہو، پھر سر پھرا ہے کہ اس کو نبی کے لفظ سے پکارا جائے یا اس کو نبی کہا جائے ؟

 

(1101)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار چند روز کیلئے قادیان میں مقیم تھا ۔ ایک دفعہ صبح آٹھ بجے کے قریب اطلاع ملی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے ہیں۔ خاکسار بھی ساتھ ہولیا۔ حضور ایسے تیز قدم جارہے تھے کہ کوشش کر کے شامل رہا جاتا تھا۔ پند رہ بیس کے قریب افراد حضور کے ساتھ ہوں گے۔ حضور بوہڑکے درخت کے قریب پہنچ کر واپس ہوئے۔ واپسی پر جو گفتگو ہورہی تھی اس کو ختم کرنے کیلئے چوک زیریں مسجد مبارک میں اُس مقام پر جہاں نواب صاحب کا مکان ہے ۔ کھڑے ہوکر سلسلہ کلام کو جاری رکھا۔ خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری مرحوم زیادہ بات چیت میں حصہ لیتے تھے اور وہی حضور کے قریب کھڑے تھے۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ کیا سلسلہ کلام تھا۔ کیونکہ پیچھے سے گفتگو ہوتی آرہی تھی اور بہت حصہ خاکسار سن بھی نہ سکا ۔ سلسلہ کلام جب ختم ہوا تو حضور کی نظر فیض اثر خاکسار پر پڑ گئی اور بڑی شفقت سے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کی رخصت کتنے دن کی تھی۔ خاکسار نے عرض کی کہ رخصت تو پندرہ روز کی تھی مگر اب صرف دو روز باقی رہ گئے ہیں ۔ کل واپسی کا ارادہ ہے ۔ حضور نے فرمایا دوروز پیشتر کیوں جاتے ہو۔ میںنے عرض کی کہ ایک روز تو راستہ میں صرف ہوجاتا ہے اور ایک دن میں امرتسر میں اس لئے ٹھہرا کرتا ہوں کہ گھر کی فرمائشات اور بچوں کیلئے پھل وغیرہ خرید سکوں ۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ وہ دو روز جو رخصت کے باقی ہیں وہ بھی یہیں ٹھہر کر ختم کرو۔ پٹیالہ تک راستہ کیلئے رات کافی ہے ۔ پٹیالہ بڑا شہر ہے وہاں سب اشیاء مل سکتی ہیں۔ وہیں سے خرید کر بچوں کو دے دینے میں کیا حرج ہے ۔ پھر خلیفہ رجب دین صاحب کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ میں اس نوجوان (یعنی خاکسار کرم الٰہی) کو دیکھ کر بہت تعجب کرتا ہوں۔ یہ عمر کھیل تماشہ کی ہوتی ہے۔ اس کو جب وقت ملتا ہے یہ لاہور اور امرتسر جیسے شہروں کی تفریحات اور تھیٹروں کو چھوڑتا ہوا یہاں آجاتا ہے ۔ آخر اس نے کچھ تو دیکھا ہے ۔ پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ کبھی تین ماہ کی رخصت لے کر آنا چاہئے ۔ خاکسار نے عرض کی کہ سال میں ایک ماہ کا حق رخصت ہے ۔ تین ماہ کی رخصت تب مل سکتی ہے کہ جب تین سال تک کوئی رخصت نہ لوں ۔ خاکسار اس ایک ماہ کی رخصت کو دو دفعہ کر کے پندرہ پندرہ روز کیلئے اور کرسمس کی تعطیلات میں تین دفعہ حاضر ہوجاتا ہے ۔ حضور نے فرمایا زیادہ دفعہ آؤ۔ اور زیادہ وقت کیلئے آؤ۔ آپ لوگ دفتروں کے ملازم ہیں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ احکام ہیڈ کوارٹرز میں آتے ہیں۔ بہت کم اُن میں سے مفصلات تک پہنچتے ہیں اور وہ بھی دیر کے بعد ۔ یہ خد اکی شان اور اس کی مرضی ہے کہ اس روڑیوں والے گاؤں کو خد انے اپنا ہیڈ کوارٹر چن لیا ہے ۔ (اس وقت وہاں تک روڑیوں یعنی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر تھے جہاں آج احمد یہ بازار ہے) پھر خلیفہ صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ بعض لوگوں کویہ بھی وسوسہ ہوتا ہے کہ مل لیا ہے۔ اب زیادہ دیر ٹھہر کر لنگر خانہ پر کیوں بار ہوں۔ یہ بھی صحیح نہیں بلکہ اسکے برعکس مہمانوں کے آنے اور قیام سے ہم کو راحت ہوتی ہے ۔ تکلیف کی نوبت تو تب آئے کہ جب لوگوں کے دلوں میں تحریک کرنے اور ان کی رہائش اور خورونوش کا انتظام دوجداگانہ ہاتھوں میںہو لیکن یہاں تو دونوں امور ایک ہی خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ خدا آدمیوں کو بھیجے اور اُن کیلئے سامان آسائش مہیا نہ کرے ۔ پس یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے ۔ چنانچہ اس دفعہ دو روز بقیہ رخصت کے دن بھی خاکسار نے دارالامان میں ہی گذارے ۔

 

(1102)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دن سیر کو تشریف لے جارہے تھے اور میرے پاس ڈبیا میں پان تھے۔ چلتے چلتے میںنے ایک پان نکال کر کھایا۔ آپ نے فرمایا ہمیں بھی دو۔ میں نے ایک پان پیش کردیا ۔ بغیر اس خیال کے کہ پان میں زردہ ہے۔ میںنے وہ دے دیا اور آ پ نے کھا لیا۔ کھاتے ہی چکر آیا ہوگا۔ کیونکہ حافظ حامد علی صاحب سے حضور نے فرمایا کہ ذرا پانی کا لوٹا لے کر ہمارے ساتھ چلو۔ وہاں قریب کے کنوئیں سے پانی لیا گیا۔ اور آپ دور تشریف لے گئے ۔ حافظ صاحب بھی ساتھ تھے ۔آپ کی عادت شریفہ تھی کہ راستہ میں اگر پیشاب کرنے کی حاجت ہوتی تو اتنی دور چلے جاتے تھے جتنا کہ قضائے حاجت کیلئے جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے سمجھا کہ پیشاب کرنے تشریف لے گئے ہیں ۔وہاں جاکر آپ کو استفراغ ہوا۔ اور پانی سے منہ صاف کر کے تشریف لے آئے ۔ مجھے جب خیال آیا کہ پان میں زردہ تھا تو میں سخت نادم تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمایا منشی صاحب آپ کے پان نے تو دوا کاکام کیا ۔ مجھے کچھ گرانی سی تھی بالکل رفع ہوگئی۔

 

(1103)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی ، مولوی عبد الرحیم صاحب میرٹھی ، چند اور احباب اور خا کسار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھے تھے۔ حضور نے ایک اردو عبارت سنا کر فرمایا کہ اس مضمون کی مجھے یاد ہے کہ ترمذی شریف میں ایک حدیث ہے اور ترمذی شریف جو عربی میں تھی منگوا کر مولوی محمد احسن صاحب کودی کہ اس میں سے نکالیں۔ مولوی صاحب موصوف علم حدیث میں بہت کامل سمجھے جاتے تھے۔ انہوںنے بہت دیر تک دیکھ کرفرمایا کہ حضور اس میں تو یہ حدیث نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا مولوی عبدالرحیم صاحب کو کتاب دے دو۔ ان کو بھی وہ حدیث نہ ملی۔ پھر آپ نے فرمایا منشی صاحب یعنی خاکسار کو دے دو۔ میںنے کتاب کھول کر دو تین ورق ہی الٹے تھے کہ وہ حدیث نکل آئی اور میںنے حضور کی خدمت میں پیش کردی کہ حدیث تو یہ موجو دہے آپ اسے پڑھتے رہے اور مولوی محمد احسن صاحب بہت حیران ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ آپ بڑے فقیہ ہیں ۔ میں نے کہا کہ میری فقاہت اس میں کیا ہے ۔ یہ حضور کا تصرّف ہے ۔ مجھے تو اچھی طرح عربی بھی نہیں آتی۔

 

(1104)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے تو کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول کو منہ لگا کر ہی پانی پی لیتے اور لوگ منتظر رہتے کہ آپ کا چھوڑا ہوا پانی پئیں۔ مگر حضور عموماً وہ ڈول مجھے عطا فرماتے ۔ بعض دفعہ کسی اور کو بھی دے دیتے۔

 

(1105)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص محمد سعید صاحب عرب تھے اور وہ ڈاڑھی منڈوایا کرتے تھے۔ جب وہ قادیان میں زیادہ عرصہ رہے تو لوگوںنے انہیں داڑھی رکھنے کیلئے مجبور کیا۔ آخر انہوںنے داڑھی رکھ لی۔ ایک دفعہ میرے سامنے عرب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میری داڑھی دیکھیں ٹھیک ہے ۔ آپ نے فرمایااچھی ہے اور پہلے کیسی تھی ۔ گویا آپ کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ پہلے یہ داڑھی منڈایا کرتے تھے۔

 

(1106)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن محمد سعید صاحب عرب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی داڑھی کے متعلق پوچھا ۔ اُس وقت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور داڑھی کتنی لمبی رکھنی چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں داڑھیوں کی اصلاح کیلئے نہیں آیا۔ اس پر سب چپ ہوگئے۔

 

(1108)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اپنی بیعت سے قبل میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تقریرلدھیانہ میں سنی ۔ جب وہ تقریر ختم ہوئی تو نماز مغرب اد اکی گئی ۔ امامت حضرت صاحب نے خود فرمائی۔ اور پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور فلق تلاوت فرمائی۔ اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھی ۔ اس کے بعد حضور نے بیعت لی۔ اس روز ہم دو آدمیوںنے بیعت کی تھی۔ پہلے جب وہ صاحب بیعت کر کے کمرے سے باہر آگئے تو حضور کے طلب فرمانے پر عاجز داخل ہوا۔ حضور نے دروازہ بند کر کے کنڈی لگادی اور بیعت لی ۔ بیعت سے قبل خاکسار نے عرض کیا کہ جب میں نے اس سے قبل نقشبندی میں بیعت کی تھی تو کچھ شیرینی تقسیم کی تھی۔ اگر اجازت ہوتو اب بھی منگو الی جائے ۔ فرمایالازمی تو نہیں اگر آپ کا دل چاہئے تو ہم منع نہیں کرتے۔ اور فرمایاایسی باتیں جو آج کل لوگ بطور رسم اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ان کے ماخذ بھی سنت نبوی سے تلاش اور غور کرنے سے مل سکتے ہیں۔ مثلاً یہی شیرینی وغیرہ تقسیم کرنے کا معاملہ ہے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ ایک موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر پر کچھ آدمیوں کا مجمع ہو اور وہ تمام کی دعوت کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر حاضرین کو ایک ایک کھجور بھی تقسیم کردے تو خد اتعالیٰ اس کو دعوت کا ثواب عطا فرمائے گا۔ یہاں سے مجالس میں تبرک وغیرہ کی بنیاد پڑی ہے ۔ اگر کوئی اس نیت سے ایسا کرے تو وہ علاوہ ثواب دعوت کے عامل سنت ہونے کا اجر بھی پائے گا۔ لیکن اب اس کے برعکس تبرک تقسیم کرنے والوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ صرف نام نمود کیلئے ایسا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی مجلس میں دال داکھ وغیرہ تقسیم کی ہے ہم جلیبی یا قلاقند تقسیم کریں گے اور دوسری طرف تبرک لینے والوں کا یہ حال ہے کہ اُن کو اس وعظ وپند سے فائدہ اُٹھانے کا مطلب ہی نہیں ہوتا۔ جس کیلئے مجلس کا انعقاد ہوا ہو۔ بلکہ ان کی ٹولیوں میں دن سے ہی مشورہ ہوتے ہیں کہ فلاں مجلس میں زردہ پلاؤ یا کوئی عمدہ مٹھائی تقسیم ہوگی اس لئے وہاں چلیں گے اور مجلس میں جاکر باہر بیٹھے اونگھتے یا سوتے رہیں گے۔ جب تقسیم کا وقت آتا ہے تو سب سے پیش اور سب سے بیش لینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اگر موقعہ ملے تو ایک سے زیادہ دفعہ بدل کر یادوسری طرف کی صفوں میں بیٹھ کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

(1109)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دن مسجد مبارک میں ریاپر تقریر فرما رہے تھے کہ ریا شرک ہے ۔ تھوڑی سی دیر میں ایک دوست نے پوچھا کہ حضور کو بھی کبھی ریا کا خیال آیا ہے۔ فرمایاکہ ریا ہم جنس سے ہوا کرتی ہے ۔

 

(1110)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قادیان میں ہوتا تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ڈاک میرے سپرد ہوتی۔ میں ڈاک سنایا کرتا تھا۔ ایک خط پر لکھا ہو اتھا کہ کوئی دوسرا نہ کھولے۔ باقی خطوط تو میں نے سنائے لیکن وہ خط حضور کے پیش کردیا۔ آپ نے فرمایا کھول کر سنائیں ۔ دوسرے کیلئے ممانعت ہے ۔ ہم اور آپ تو ایک وجود کا حکم رکھتے ہیں۔ میں نے وہ خط پڑھ کر سنا دیا۔ نویسندہ نے اپنے گناہوںکا ذکر کرکے دعا کی درخواست کی تھی اور بڑی عاجزی اور انکساری سے خط لکھا تھا۔ اس کی تحریر سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ ایک آگ میں پڑا ہوا ہے اور حضور اُسے جلدی کھینچ کر نکالیں۔ آپ نے فرمایایہ خط مجھے دے دیں۔ میں خود اس کا جواب لکھوں گا۔ جس طرح واشگاف حال اس نے لکھا ہے مجھے اسکی خوشی ہوئی۔ ایسے لوگ کم دیکھے گئے ہیں ۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)