اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-20

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1094)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں ایک دفعہ دارالامان گیا ہوا تھا۔ گرمی کا موسم تھا۔ نماز ظہر سے فارغ ہوکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجدمبارک میں تشریف فرما تھے ۔ دس گیارہ اور احباب بھی حاضر تھے۔ اُس وقت ایک زمیندار نے جو کہ قریباًپچاس سالہ عمراور اَپر پنجاب کا رہنے والا معلوم ہوتا تھا ۔ بڑی عاجزی سے حضور کی طرف مخاطب ہو کر عرض کی کہ حضور میں کسی معاملہ میں ایک شخص کے یکصد روپیہ کا ضامن ہوگیا ۔ وہ بھاگ گیا ہے۔ ہر چند گردونواح میں تلاش کیا مگر ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ مجھ سے اس کی حاضری کا یا زرضمانت کامطالبہ ہے ۔ ہر روز چپراسی آکر تنگ کرتے ہیں ۔ میں تنگ آکر نکل آیا ہوں ۔ وہ میرے گھروالوں کو تنگ کرتے ہوں گے۔ مجھ کو معلوم ہو اتھا کہ حضور کی دعا خد اقبول فرماتا ہے ۔ اس لئے میں اتنی دور سے چل کر آیاہوں کہ حضور دعا فرمائیں کہ خدا جلد سے جلد مجھ کو اس مشکل سے نجات دلائے ۔ حضور نے اسکا یہ دردناک حال سن کر مع حاضرین دعا فرمائی۔ اسکے بعد حضور حسب معمول براستہ دریچہ اندرون خانہ تشریف لے گئے ۔ وہ شخص بھی نیچے اُتر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دریچہ کھلا۔ دیکھا تو حضرت صاحب کھڑے ہیں۔ خاکسار بھی قریب ہی کھڑا تھا۔ حضور کے دونوں ہاتھوں میں روپے تھے۔ حضور نے مجھے بلا کر میرے دونوں ہاتھوں میں وہ روپے ڈال دئیے اور فرمایا کہ یہ سب اُس شخص کو دے دو جس نے ابھی دعا کروائی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ وہ تو مسجد سے چلا گیا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ کسی آدمی کو بھیج کر اُسے بلوالو۔ وہ ابھی ایسی جلدی میں کہاںگیاہوگا۔ یہ کہہ کر کھڑکی بند کرلی۔ خاکسار نے وہ سارا روپیہ حکیم فضل الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے آگے ڈھیر ی کردیا۔ یہ دو اصحاب اور دو تین اور دوست بھی اس وقت مسجد میں موجو دتھے ۔ حکیم صاحب نے اُسی وقت چند آدمی اس شخص کی تلاش میں دوڑائے ۔ اور مولوی صاحب روپیہ گن کر بیس بیس کی بیڑیاں لگانے لگے ۔ غالباً اس لئے کہ اُس شخص کو دیتے وقت آسانی ہو۔ جب گن چکے تو ایک قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے فرمایاکہ لودیکھ لو کہ اس سائل نے تو سو روپیہ کا ذکر کیا تھا۔ لیکن حضرت صاحب جو روپیہ لائے ہیں وہ تو ایک سو بیس ہے اور مجھ کو فرمایا کہ کھڑکی کی کنڈی ہلا کر حضرت صاحب سے ذکر کردو کہ ان میں بیس روپیہ زائد آگئے ہیں ۔ لیکن خاکسار سے مولوی صاحب کے اس ارشاد کی تعمیل کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ پھر مولوی صاحب نے حکیم صاحب کو کہا مگر حکیم صاحب نے جواب دیا کہ مولوی صاحب یہ تجویز آپ کی ہے ۔ آپ ہی اب ہمت بھی کریں ۔ آخر مولوی صاحب نے خود اٹھ کر زنجیر ہلائی۔ اندر سے ایک خادمہ کے آنے پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو کہ عبد الکریم ایک ضروری بات عرض کرنا چاہتا ہے ۔ خادمہ کے جانے کے تھوڑی بعد حضور دریچہ پر آکر کھڑے ہوگئے ۔ مولوی صاحب نے سارا ماجرہ بیان کیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب خدا جانے وہ بیچارہ یہاں کیسے آیا ہے۔ اور اب اس کو جلد پہنچنے کیلئے کرایہ کی بھی ضرورت ہوگی ۔ مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور کرایہ کیلئے چار پانچ روپیہ کافی ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب جس مصیبت میں وہ ہے ایسی حالت میں اسکی مشکل معاش کا بھی کیا حال ہوگا۔ آخر پانچ سات روز کا خرچ تو اس کے پاس ہو۔ اور فرمایا یہ جو کچھ ہم لائے ہیں ٹھیک سوچ کر لائے ہیں۔ یہ سب اُس شخص کو دے دو۔ یہ فرما کر کھڑکی بند کر لی ۔ اتنے میں وہ شخص بھی آگیا ۔ اُس کو روپیہ دیتے ہوئے مولوی صاحب نے فرمایا کہ’’ایڈی چھیتی دعا قبول ہوندی کسے نے گھٹ ہی ڈٹھی ہوگی اور پھر وہ بھی سوائی‘‘یعنی اس قدر جلدی کسی کی دعا قبول ہوتی بہت کم دیکھی ہے اور پھر وہ بھی سوائی۔

 

(1095)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان جاتے ہوئے اخبار چودھویں صدی راولپنڈی کا ایک پرچہ ساتھ لے گیا جو سراج الدین صاحب بیرسٹر کی ایڈیٹری میں شائع ہوتا تھا اور اس وقت کے اردو اخبارات میں مشہور تھا۔ اسکے ساتھ لے جانے کی غرض یہ تھی کہ ایک شخص جو سید محمود صاحب خلف سرسید مرحوم کا دوست تھا، اس نے ان سے علی گڑھ میں ملاقات کی اور ایک دو روز ان کے ہاں ٹھہرا۔ اور واپسی پر اس نے سید محمود کی قابل عبرت حالت کا نقشہ ایک مضمون میں کھینچ کر اس اخبار میں درج کروایا تھا۔ راقم مضمون نے لکھا تھا کہ مجھے اس دفعہ مسٹر محمود کو دیکھ کر سخت رنج وافسوس ہوا کہ وہ عالی دماغ شخص جس کی قابلیت قابل رشک اور قانون دانی انگریز ججوں تک مسلّمہ تھی، اس کو میںنے ایسی حالت میں پایا کہ ان کی جسمانی صحت ناقابل تلافی درجہ تک پہنچ چکی ہے۔ مگر باوجود اس کے وہ شراب کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتے تھے۔ گویا شراب ہی اُن کی روح رواں تھی اور دن بھر جُگت ، پھبتی بازی ، تمسخر اور استہزاء کے سوا ان کا کوئی علمی مشغلہ نہیں رہا۔ اور وہ بھی صحت کے لحاظ سے چراغ سحری ہے۔ مضمون مذکور میں اس لئے ساتھ لے گیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب کو ایسے حالات سے دلچسپی ہے ۔ چنانچہ میں نے وہ مضمون حضرت مولوی صاحب کے پیش کیا۔ مولوی صاحب نے مضمون پڑھ کر اخبار خاکسار کو واپس دیتے ہوئے فرمایا کہ اس پرچہ کو بحفاظت جیب میں رکھنا ، اگر موقعہ میسر آیاتو حضرت صاحب کے پیش کریں گے۔ حضرت صاحب ایسے حالات بڑی توجہ سے سنتے ہیں ۔ خاکسار نے وہ اخبار کوٹ کی جیب میںرکھ لیا۔ ظہر کی نماز کے بعد حضرت صاحب مسجد اقصیٰ میں تشریف فرما تھے کہ مولوی صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ یہ ایک اخبار لائے ہیں جس کا ایک مضمون حضور کے سننے کے قابل ہے ۔ حضرت صاحب کے اشارہ پر میں نے وہ مضمون سنانا شروع کردیا ۔ حضور بڑی توجہ سے سنتے رہے ۔ غالباً دو تین صفحات کا وہ مضمون تھا۔جب مضمون ختم ہوچکا تو حضور نے مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ مولوی صاحب! اگر آج سید صاحب زندہ ہوتے تو میں اُن سے پوچھتا کہ جن دنوں مسٹر محمود ولایت میں تعلیم بیرسٹری پارہے تھے آپ کے دل سے بارہا یہ دعا نکلی ہوگی کہ وہ ایسی قابلیت کا اہل ہو کہ انگریز بھی اسکی قابلیت کا سکہ مانیں۔ اور ایسے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو جسکے ماتحت انگریز ہوں لیکن یہ کبھی آپ کی آرزو دعاؤں کے وقت نہیں ہوگی کہ وہ خد ااور اسکے رسول کا فرمانبردار اور احکام شریعت کا دل سے پابند اور اسلام کا سچا خادم اور نمونہ ہو۔ پس جو کچھ آپ نے مانگا وہ مل گیا۔ اور خدا سے جس چیز کے مانگنے میں بے پرواہی کی جائے وہ نہیں ملتی۔

 

(1096)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قادیان میں آریوں نے ایک اخبار نکالا تھا اور اس میں سلسلہ کے خلاف سخت کلامی اختیار کی ۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ایک کتاب لکھی۔ اور حضور نے فرمایا تھا کہ خدا ایسا نہیں کرسکتا کہ یہ ہمارے ہمسائے میں رہ کربدزبانی کریں اور بچ جائیں۔ پھر آریوں میں طاعون ہوئی ۔ جس کو طاعون ہوتی، میں اور شیخ یعقوب علی صاحب اُسے دیکھنے جاتے اور سب آریہ کارکن اخبار مذکور کے جوتھے مر گئے ۔ صرف مالک اخبار بچ رہا۔ پھر اُسے بھی طاعون ہوئی۔ میں اور شیخ صاحب اسے دیکھنے جاتے۔ پھر اسے پلنگ سے نیچے اتار لیا گیا جیسا کہ ہندو مرتے وقت کرتے ہیں مگر وہ پھر ذرا اچھا ہوگیا اور اسے دوبارہ پلنگ پر لٹادیا گیا اور وہ باتیں کرنے لگ گیا۔ بعض آریہ جو ہمیں جانتے تھے ہم سے کہنے لگے کہ تمہاری یہ مراد پوری نہیں ہوگی کہ یہ مرے۔ جب میں اور شیخ صاحب اسکے گھر سے واپس آئے تو ہمارے آنے سے پہلے کسی نے حضرت صاحب کی خدمت میں شکایت کردی کہ یہ دونوں اس طرح آریوں کو مرنے دیکھنے جاتے ہیں ۔ حضور بالائی نشست گاہ میں تشریف فرما تھے اور ہمیں وہیں بلوایا۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ کسی نے ہماری شکایت کردی ہے ۔ شیخ صاحب نے مجھے بھیجا ۔ جب میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کیوں وہاں جاتے ہیں ؟ اور اسی وقت حضور نے فرمایا کہ مجھے ابھی الہام ہوا ہے جس کے معنے یہ تھے کہ مر اے خائن! اس الہام پر حضور نے فرمایا کہ اب جاکر دیکھو۔ میں اور شیخ صاحب اسی وقت گئے تو چیخ وپکار ہورہی تھی اور وہ مرچکا تھا۔ ہم وہاں بیٹھے اور پھر چلے آئے ۔ رات کو مفتی فضل الرحمن صاحب کی بیٹھک میں اسکے مرنے پر ہم نے ایک قسم کی خوشی کی۔ حضرت صاحب پر یہ بھی کسی نے ظاہر کردیا۔ صبح کو جب آپ سیر کیلئے تشریف لے گئے تو ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ میرا ایک آدمی مر گیا ہے اور تم خوشی کرتے ہو(مطلب یہ تھا کہ میں تو اسکے اسلام لانے کا خواہاں تھا) اور فرمایا مجھے خوف ہے کہ ہم میں ایسا واقعہ نہ ہوجائے ۔ ہمیں اس پر بہت شرمندگی ہوئی۔ راستہ میں لاہور سے تار آیا کہ الٰہی بخش اکونٹنٹ پلیگ سے مرگیا جس نے حضور کے خلاف ایک کتاب میں اپنے آپ کو موسیٰ اور حضرت صاحب کو فرعون اپنے الہام کی روسے لکھا تھا۔ میں اس تار کو سن کر بے اختیار ہنس پڑا۔ حضرت صاحب میری طرف ذرا دیکھنے لگے تو میں نے عرض کی کہ حضور مجھے ہنسی اس لئے آگئی کہ یہ اپنے آپ کو موسیٰ کہتا تھا اور موسیٰ صاحب پہلے ہی پلیگ سے چل دیئے ۔ آپ نے فرمایا ! اس کی کتاب میں سے تمام وہ الہامات جو اسکو ہمارے خلاف ہوئے ہیں مجھے نکال کردو۔ چنانچہ میں نے وہ نوٹ کر کے دے دئیے۔

 

(1097)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو الٰہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب سے الہامات نکال کر دئیے تو اس دوران میں ایک طالب علم محمد حیات کو پلیگ ہوگیا ۔ اس کو فوراً باغ میں بھیج کر علیحدہ کر دیا گیا۔ اور حضور نے مولوی نور الدین صاحب کو بھیجا کہ اس کو جاکر دیکھو۔ اس کے چھ گلٹیاں نکلی ہوئی تھیں اور بخار بہت سخت تھا۔ اور پیشاب کے راستہ خون آتا تھا۔ حضرت مولوی صاحب نے ظاہر کیا کہ رات رات میں اسکا مرجانا اغلب ہے۔ اسکے بعد ہم چند احباب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ محمد حیات کی تکلیف اور مولوی صاحب کی رائے کا اظہار کر کے دعا کیلئے عرض کی۔ حضرت صاحب نے فرمایا میں دعا کرتاہوں اور ہم سب روتے تھے۔ میں نے روتے روتے عرض کی کہ حضور دعا کا وقت نہیں رہا سفارش فرمائیں۔ میری طرف مڑ کر دیکھ کر فرمایا بہت اچھا۔ مسجد کی چھت پر میں ، منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب سوتے تھے۔ دو بجے رات کے حضرت صاحب اوپر تشریف لائے اور فرمایا کہ حیات خاں کا کیا حال ہے ؟ ہم میں سے کسی نے کہا کہ شاید مرگیا ہو۔ فرمایا کہ جاکر دیکھو ۔ اسی وقت ہم تینوں یااور کوئی بھی ساتھ تھا باغ میں گئے توحیات خاں قرآن شریف پڑھتا اور ٹہلتا پھرتا تھا ۔ اور اُس نے کہا میرے پاس آجاؤ۔ میرے گلٹی اور بخار نہیں رہا۔ میں اچھا ہوں ۔ چنانچہ ہم اسکے پاس گئے توکوئی شکایت اسکو باقی نہ تھی۔ ہم نے عرض کی کہ حضور اسکو تو بالکل آرام ہے ۔ غالباً صبح کو آگیا۔ چونکہ اسکے باپ کو بھی تاردیا گیاتھا۔ اور ہم تینوں یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر اجازت لے کر قادیان سے روانہ ہوگئے۔ نہر پر اس کا باپ ملا جو یکہ دوڑائے آرہا تھا۔ اس نے ہمیں دیکھ کر پوچھا کہ حیات کاکیا حال ہے؟ ہم نے یہ سارا واقعہ سنایا ۔ وہ یہ سن کر گر پڑا ۔ دیر میں اُسے ہوش آیا۔ اور پھر وہ وضو کر کے نوافل پڑھنے لگ گیااورہم چلے آئے ۔

 

(1098)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کلکتہ کا ایک برہمن مجسٹریٹ خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہ تھا۔ وہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں خدا کا قائل نہیں ہوں اور سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ کیا آپ خدا مجھے دکھا دیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر کچھ عرصہ آپ ہمارے پاس ٹھہریں گے تو ہم آپ کو دکھا دیں گے اور یہ دریافت فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ٹھہر سکتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں چھ ماہ کی رخصت پر ہوں۔ اور میں یہ سارا عرصہ ٹھہر سکتا ہوں بشرطیکہ آپ خدا مجھے دکھا دیں۔ حضور نے فرمایا کہ آپ لندن گئے ہیں۔ اس نے کہا نہیں ۔ فرمایا لندن کوئی شہر ہے ۔ اس نے کہا ہاں ہے ۔ سب جانتے ہیں ۔ فرمایاآپ لاہور تشریف لے گئے ہیں اس نے کہا کہ میں لاہور بھی نہیں گیا۔فرمایا قادیان آپ کبھی پہلے بھی تشریف لائے تھے۔ اس نے کہا نہیں ۔ فرمایا! آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ قادیان کوئی جگہ ہے اور وہاں پر کوئی ایسا شخص ہے جو تسلی کرسکتا ہے ۔ اس نے کہا سنا تھا ۔ آپ نے ہنس کر فرمایا۔ آپ کا تو سارا دارومدار سماعت پر ہی ہے اور اُس پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ پھر آپ نے ہستی باری تعالیٰ پر تقریر فرمائی اور سامعین پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ ایک کیفیت طاری ہوگئی۔ اور اس شخص کی دماغی حالت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ اقلیدس کی شکلوں کا ذکر کرنے لگا۔ اور حضرت مولوی صاحب نے اسے دوا منگوا کر دی ۔ جب اسکی حالت درست ہوئی تو وہ حضرت صاحب کے پیروں کو ہاتھ لگا کرمسجد سے نیچے اُتر آیا اور حضرت مولوی صاحب اسکے ساتھ ہی اتر آئے۔ اس نے یکہ منگوایا اور سوار ہوگیا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپ ایسی جلدی کیوں کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں مسلمان ہونے کی تیاری نہیں کر کے آیا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ اگر رات کو میں یہاں رہا تو صبح ہی مجھے مسلمان ہونا پڑے گا۔ مجھے خدا پر ایسا یقین آگیا ہے کہ گویا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے میرے بیوی اور بچے ہیں اُن سے مشورہ کر لوں ۔ اگر وہ متفق ہوئے تو پھر آؤں گا۔ اسکے بعد وہ چلا گیا۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)