اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-27

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

( 994) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں ایک کشمیری مولوی جو حافظ قرآن بھی تھے تشریف لائے اور کئی رو ز تک وہ اپنے وعظ میں غیر مقلدین یعنی اہل حدیث کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔ ہم بھی غیر مقلد تھے ۔ مولوی صاحب اعلانیہ کہا کرتے کہ اپنے فوت شدہ بزرگوں سے مدد طلب کرنا جائز ہے اور جس قدر نمازیں تم نے غیر مقلدوں کے پیچھے پڑھی ہیں ۔ سب کی سب دوبارہ پڑھنی چاہئیں اور ثبوت میں قرآنی آیات یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُواللّٰہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (المائدۃ:32) پیش کرتے تھے ۔ میں نے اُن مولوی صاحب سے پوچھا کہ اس وسیلہ سے آپ کون سا وسیلہ مراد لیتے ہیں ؟ انہوںنے جواب دیا کہ نیک عملوں اور فوت شدہ بزرگوں کا وسیلہ ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو مشرکانہ تعلیم نہ دیں۔ اس بات پر اس نے میرے ساتھ سخت کلامی کی اور گاؤں کے لوگوں کو برانگیختہ کیا۔ جس پر گاؤں کے لوگ ہم سے الگ نماز پڑھنے لگے۔ صرف میں اور میرے والد ہی اکٹھی نماز پڑھتے تھے۔ میرے والد صاحب نے قادیان جا کرحضرت صاحب سے کہا کہ جناب میں نے تو اپنا لڑکا مسلمان بنانے کے لئے آپ کی خدمت میں چھوڑا تھا لیکن اب تو لوگ اس کو کافر کہتے ہیں ۔ آپ نے اس وقت ایک سرخ کاغذ پر فتوی لکھوا کر میرے والد صاحب کو دیا کہ جو لوگ آمین بالجہر، الحمد للہ ، رفع یَدَین اور فاتحہ خلف الامام کے پڑھنے پر کسی کو کافر کہے وہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک خود کافر ہے۔ مگر چند روز کے بعد عام لوگ خود بخود ہی میرے پیچھے نماز پڑھنے لگ گئے ۔ اس کے بعد جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میاں نور محمد! تم کو لوگ وہابی کہتے ہیں ۔ تم جواب دیا کروکہ میں حضرت پیرانِ پیر کا مرید ہوں اور ان کی کتاب غنیۃ الطالبین پڑھ کر اُن کو سنایا کرواور حضرت صاحب ہمیشہ جناب پیران پیر ؒاور امام غزالی کی تعریف فرمایا کرتے تھے ۔
( 995) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ خواب میں میری زبان پر لفظ ’’مجدّد‘‘ جاری ہوا۔ مگر اس وقت مجھے اس لفظ کی کوئی تشریح معلوم نہ ہوئی ۔ اور ایک لغت کی کتاب دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ’’نیا کام کرنے والا‘‘اس خواب کے چند روز بعد ایک بڑا لمبا چوڑا اشتہار دیکھا جو کہ میرعبا س علی صاحب لدھیانوی کی طرف سے شائع ہوا تھا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب چودھویں صدی کے مجدد ہیں۔ اور جن ایام میں مسجد مبارک تیار ہوتی تھی تو حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے اس مسجد میں ایک مولوی رکھنا ہے جو عورتوں میں وعظ کیا کرے گا۔ لیکن اب اللہ کے فضل وکرم سے بجائے ایک کے سینکڑوں مولوی مسجد مبارک میں موجو درہتے ہیں ۔ اُس زبان مبارک سے نکلی ہوئی باتیں اب ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں ۔
( 996) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ بعض دفعہ احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ مسئلہ پوچھتے تھے کہ جب آدمی ایک دفعہ بیعت کر لے تو کیا یہ جائز ہے کہ اگر پھر کبھی بیعت ہورہی ہو تو وہ اس میں بھی شریک ہوجائے۔ حضور فرماتے تھے کہ کیا حرج ہے؟خاکسار عرض کرتا ہے کہ اکثر دوست دوبارہ سہ بارہ بلکہ کئی بار بیعت میں شریک ہوتے رہتے اور بیعت چونکہ توبہ اور اعمال صالحہ کے عہد کا نام ہے اس لئے بہر حال اس کی تکرار میں فائدہ ہی فائدہ ہے ۔
( 997) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو ہر امر میں قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے تھے مگر بعض بعض آیات آپ خصوصیت کے ساتھ زیادہ پڑھا کرتے تھے ۔ علاوہ وفات مسیح کی آیات کے حسب ذیل آیات آپ کے منہ سے زیادہ سنی ہیں ۔
سورۃ فاتحہ ۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس:10)
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَ تْقٰـکُمْ(الحجر:14)
رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ (الاعراف:187)
ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبۃ:33)
مَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی
(الاسراء:73)
اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ (النساء:59)
یَااَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:29)
وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث (الضحیٰ:12)
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا (الزمر:54)
وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْااِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰۃٌ مِّن رَّبِھِمْ وَرَحْمَۃٌ
(البقرۃ:156)
مَایَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْ تُمْ وَاٰمَنْتُمْ
(النساء:148)
وَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنـًا(طٰہٰ:45)
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ
(الحجر:43)
وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدۃ:68)
وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)
لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا (البقرۃ:287)
لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ:196)
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:3)
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی
(النجم:4)
ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی
(النجم:9)
لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ (الاسراء:37)
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (اٰل عمران:32)
لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ(البقرۃ:257)
قُلْ مَایَعْبَأُ بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَاءُکُمْ
(الفرقان:78)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کیا خوب انتخاب ہے۔
( 1000) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ؓ میں یہ ایک خاص بات تھی کہ معترض اور مخالف کو ایک یا دو جملوں میں بالکل ساکت کر دیتے تھے اور اکثر اوقات الزامی جواب دیتے تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق تھا کہ جب کوئی اعتراض کرتاتو آپ ہمیشہ تفصیلی اور تحقیقی جواب دیا کرتے تھے اور کئی کئی پہلوؤں سے اس مسئلہ کو صاف کیا کرتے تھے ۔ یہ مطلب نہ ہوتا تھا کہ معترض ساکت ہوجائے بلکہ یہ کہ کسی طرح حق اس کے ذہن نشین ہوجائے ۔
( 1001) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب رام پوری حال قادیان نے مجھ سے بیان کیاکہ1884ء میں جب کہ میں سکول میں پڑھتا تھا ایک رات کو تاروں کے ٹوٹنے کا غیر معمولی نظارہ دیکھنے میں آیا، رات کے ایک لمبے حصہ میں تارے ٹوٹتے رہے اور اس کثرت سے ٹوٹے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ تیروں کی بارش ہورہی ہے ۔ ایک حصہ تاروں کا ٹوٹ کر ایک طرف جاتا اور دوسر ا دوسری طرف۔ اور ایسا نظر آتا کہ گویا فضا میں تاروں کی ایک جنگ جاری ہے ۔ یہ سلسلہ 10بجے شب سے لے کر4بجے شب تک جاری رہا۔ مَیں نے اس واقعہ کا ذکر ایک مجلس میں غالباً1910ء میں کیا تھا تو ایک بہت شریف اور عابد وزاہد معمر انسان نے کہا کہ مجھے بھی وہ رات یاد ہے ۔ میرے پیرو مرشد حضرت قبلہ علامہ مولوی ارشاد حسین صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے یہ عالَم دیکھ کرفرمایا تھا کہ ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام ہوگیا ہے یہ اسی کی علامت ہے ۔ مولوی ارشاد حسین صاحب زبرست علماء میں سے تھے۔ انصار الحق وغیرہ آپ کی مشہور تصانیف ہے اور یہ مولوی احمد رضا خاں بریلوی کے پیر تھے ۔ لیکن جب میں نے بعد میں اُن مولوی صاحب کے ایک دوست سے جس نے یہ روایت بیان کی تھی یہ کہا کہ شہادت لکھ دو تو اُس نے لکھنے سے انکار کردیا۔ مگر زبانی مانتا تھا کہ اُن مولوی صاحب نے ایسا کہا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ستاروں کا گرنا بہت سے نبیوں کے لئے بطور علامت واقع ہوچکا ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ یہ جو حضور کی بعثت کے وقت غیر معمولی طور پر ستارے گرتے نظر آئے۔ یہ حضور کے لئے بطور علامت تھا اور اس سے مراد یہ تھی کہ اب گویا کواکب یعنی علماء کے گرنے کا وقت آگیا ہے جس کے بعد سورج کا طلوع ہوگا۔ ٭٭