اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1088)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان جوکہ سخت سردیوں کے ایام میں آیا ، اس کے گذارنے کیلئے دارالامان آیا۔ حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کتب خانہ کے انچارج اور مہتمم تھے اور کمرہ متصل مسجد مبارک میں کتب خانہ تھااور وہیں حکیم صاحب کا قیام تھا۔ خاکسار کے پہنچنے پر حکیم صاحب نے مجھے بھی اُسی کمرہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی ۔ خاکسار نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک گوشہ میں بستر لگا لیا اور بہت آرام ولطف سے وقت گزرنے لگا ۔ حضرت صاحب ہر نماز کیلئے اسی کمرہ سے گزر کر مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ سحری کے وقت دروازہ کھلا ۔ خاکسار سامنے بیٹھا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت صاحب دروازہ میں کھڑے ہیں تعظیماً کھڑا ہوگیا ۔ حضور نے اشارہ سے اپنی طرف بلایا۔ میں جب آگے بڑھا (تو دیکھا) کہ حضور کے دونوں ہاتھوں میں دو چینی کے پیالے ہیں جن میں کھیر تھی۔ حضور نے وہ دونوں پیالے خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احباب کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں دیکھ کر اُن کو پہنچادو، میں نے وہ حکیم صاحب کے پیش کئے ۔ انہوںنے مسجد میں سے کسی کو طلب کر کے وہ پیالے اُن احباب کو پہنچا دئیے جن کے نام سیاہی سے لکھے ہوئے تھے۔ اسکے بعد پھر دروازہ کھلا۔ پھر حضرت صاحب دو پیالے پکڑا گئے ۔ وہ بھی جن کے نام کے تھے ان کو پہنچا دئیے گئے ۔ اس طرح حضرت صاحب خود دس گیارہ دفعہ پیالے لاتے رہے اور ہم اُن اشخاص کو مہمان خانہ میں پہنچاتے رہے ۔ اخیر دفعہ میں جو دو پیالے حضور نے دئیے اُن میں سے ایک پر حکیم صاحب کانام اور دوسرے پر میرا نام تحریر تھا۔ حکیم صاحب نے کھیر کھا کر کہا کہ آج تو مسیح کا من وسلویٰ اُتر آیا۔

(1089)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار کے قیام قادیان کے دنوں میں عشاء کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مسجد بھری ہوئی تھی ۔ ایک پنجابی مولوی صاحب نے کھڑے ہوکر حضور سے عرض کیا کہ صوفیوں کے فرقہ نقش بندیہ وغیرہ میں جو کلمہ نفی اثبات کو پیشانی تک لے جاکر اور اطراف پر گذارتے ہوئے قلب پر الَّااللہ کی ضرب مارنے کا طریق مروج ہے،۔ اس کے متعلق حضور کا کیا حکم ہے ؟ حضور نے فرمایا کہ چونکہ شریعت سے اس کی کوئی سند نہیں اور نہ اسوۂ حسنہ سے اس کا کچھ پتہ چلتا ہے اس لئے ہم ایسے طریقوں کی ضرورت نہیں خیال کرتے۔ اس مولوی نے پھر کہا کہ اگر یہ امور خلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلمہ اور مشاہیر جن میں حضرت احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوںنے مجددالف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ، یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اور لوگوں کو اس کی ترغیب وتعلیم دینے والے ہوئے۔ حضور نے فرمایا اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اور سامان تعیش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خد اکے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ ان کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالہ کردینا مناسب ہے ۔ حضور نے فرمایا اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی قافلہ راستہ بھول کر ایسے جنگل میں جانکلے جہاں پانی کا نشان نہ ہو اور ان میں سے بعض پیاس کی شدت سے زبان خشک ہوکر جان بلب ہوں اور ان کے ہمراہی درختوں کے پتے پتھروں سے کوٹ کر ان کا پانی نکالیں اور تشنہ دہانوں کے حلق میں ڈالیں تاکسی طرح پانی ملنے تک ان کا حلق بالکل خشک ہو کر ہلاکت کا موجب نہ ہوجائے ۔ یا دامن کوہ میں پتھروں کو توڑ کر اور بڑی مشکلوں سے کاٹ کاٹ کر کنواں کھودا جاتا ہے یا ریگستان میں بڑی مصیبت سے اگر سو سو ہاتھ کھودا جائے تو کنواں برآمد ہوتا ہے لیکن جہاں دریا جاری ہو کیا وہاں بھی ان تکالیف کو اٹھانے کی ضرورت ہے ؟ فرمایا ۔ پس شکرکرنا چاہئے کہ اس وقت خد انے پہاڑ کی چوٹی پر سے مصفّٰی اور شیریں پانی کا چشمہ جاری فرمایا ہے جس کے ہوتے ہوئے ان تکالیف میں پڑنا خد اکی ناشکری اور جہالت ہے ۔
حضور کے اس ارشاد کے بعد جو ایک پرسرور کیفیت خاکسار نے محسوس کی وہ یہ تھی اُن امور سے جن کا اسوہ حسنہ سے ثبوت نہ تھا حضور نے اتفاق نہ فرمانے کے باوجود اُن متوفّٰی بزرگوں کے متعلق کوئی کلمہ رکیک نہ فرمایا بلکہ ایک وقتی ضرورت کے ماتحت اُن کی نیک نیتی پر محمول فرما کر اُن کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔

(1090)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بیٹھنے کی جگہ کھلے کواڑ کبھی نہ بیٹھتے تھے۔ حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب (حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آکر کہتے’’ابا کنڈا کھول‘‘ اور حضور اٹھ کر کھول دیتے۔ میں ایک دفعہ حاضر خدمت ہوا۔ حضور بوریے پر بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر حضور نے پلنگ اٹھایااور اندر لے گئے۔ میں نے کہاحضور میں اٹھا لیتا ہوں ۔ آپ فرمانے لگے بھاری زیادہ ہے آپ سے نہیں اٹھے گا اور فرمایا آپ پلنگ پر بیٹھ جائیں مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے ۔ پہلے میں نے انکار کیا لیکن آپ نے فرمایا نہیں آپ بلاتکلف بیٹھ جائیں۔ پھر میں بیٹھ گیا۔ مجھے پیاس لگی تھی ۔ میں نے گھڑوں کی طرف نظر اُٹھائی۔ وہاں کوئی پانی پینے کا برتن نہ تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کیا آپ کو پیاس لگ رہی ہے ۔ میں لاتاہوں۔نیچے زنانے سے جاکر آپ گلاس لے آئے ۔ پھر فرمایا ذرا ٹھہریے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بوتلیں شربت کی لے آئے جو منی پور سے کسی نے بھیجی تھیں۔ بہت لذیذ شربت تھا۔ فرمایا ان بوتلوں کو رکھے ہوئے کئی دن ہوگئے کہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلا کر پھر خود پئیں گے ۔ آج مجھے یاد آگیا۔ چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا ۔ میں نے کہا پہلے حضور اس میں سے تھوڑا سا پی لیں تو پھر میں پیوں گا ۔ آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا۔ اور میں نے پی لیا۔ میں نے شربت کی تعریف کی ۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلادیں ۔ آپ نے اُن دوبوتلوں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہوگا۔ میں آپ کے حکم کے مطابق بوتلیں لے کر چلا آیا۔

(1091)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لیٹے ہوئے تھے اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم حضور کے پاؤں دبا رہے تھے اور حضرت صاحب کسی قدر سو گئے ۔ فضل شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے ۔ میں نے ہاتھ ڈال کر نکال لی تو حضور کی آنکھ کھل گئی۔ آدھی ٹوٹی ہوئی گھڑے کی چپنی اور ایک دو ٹھیکرے تھے۔ میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دئیے۔ آپ پھینکیں نہیں ۔ میری جیب میں ہی ڈال دیں ۔ کیونکہ انہوںنے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے ۔ وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے۔ پھروہ جیب میں ہی ڈال لئے ۔ یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے بھی اس کو حضور کی سوانح میں لکھا ہے ۔

(1092)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور محمد خان صاحب مرحوم قادیان گئے اور حضرت اُم المومنین بہت سخت بیمار تھیں ۔ مسجد مبارک کے زینے کے قریب والی کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس ہم تین چار آدمی بیٹھے تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا ’’تار برقی کی طرح‘‘ ’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ۔ اِنَّ کَیْدَ کُنَّ عَظِیْمٌ‘‘ گھڑی گھڑی الہام ہوتا ہے اور میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ جب کوئی بات جلد وقوع میں آنے والی ہوتی ہے تو اس کا بار بار تکرار ہوتا ہے ۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر جب آپ تشریف لے گئے تو پھر واپس آئے اور فرمایا کہ وہی سلسلہ پھر جاری ہوگیا۔ ’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ۔ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ‘‘ ان دنوں میرناصر نواب صاحب کا کنبہ پٹیالہ میں تھا۔ اگلے دن پٹیالہ سے خط آیا کہ اسحاق کا انتقال ہوگیااور دوسرے بیمار پڑے ہیں اور والدہ صاحبہ بھی قریب الموت ہیں ۔ یہ خط حضرت ام المومنین کی خدمت میں لکھا کہ صورت دیکھنی ہو تو جلد آجاؤ۔ حضور وہ خط لے کر ہمارے پاس آئے۔ مولوی عبد الکریم صاحب ، محمد خان صاحب اور خاکسار ہم تینوں بیٹھے تھے ۔ جب حضور تشریف لائے ۔ فرمانے لگے کہ یہ خط ایسا آیا ہے اور حضرت اُم المومنین کے متعلق فرمایا کہ وہ سخت بیمار ہیں ۔ اگر ان کو دکھایاجائے تو ان کو سخت صدمہ ہوگا اور نہ دکھائیں تو یہ بھی ٹھیک نہیں۔ ہم نے مشورہ دیا کہ حضور انہیں خط نہ دکھائیں۔ نہ کوئی ذکر اُن سے کریں ۔ کسی کو وہاں بھیجیں ۔ چنانچہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو اُسی وقت روانہ کردیا گیا۔ اور انہوںنے جاکرخط لکھا کہ سب سے پہلے مجھے اسحاق ملا اور گھر جاکر معلوم ہوا کہ سب خیریت ہے ۔ حافظ حامد علی صاحب پھر واپس آگئے ۔ اور سارا حال بیان کیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ کا یہ مطلب تھا ۔ یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے ۔

(1093)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص شملے میں رہتا تھا اور اس کی بہن احمدی تھی۔ وہ شخص بڑ اعیاش تھا۔ اسکی بہن حاملہ تھی اور حالات سے وہ سمجھتی تھی کہ اس دفعہ میں ایام حمل میں بچنے کی نہیں کیونکہ اسے تکلیف زیادہ تھی۔ اس نے اپنے بھائی کو مجبور کیا کہ اسے قادیان پہنچادے۔ چنانچہ وہ اسے قادیان لے آیا ،اور کچھ دنوں کے بعد جب بچہ پیدا ہونے لگا تو پیروں کی طرف سے تھوڑا نکل کر اندر ہی مرگیا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت ام المومنین روتی ہوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس آئیں اور فرمایا عورت مرنے والی ہے اور یہ حالت ہے ۔ آپ نے فرمایا ہم ابھی دعا کرتے ہیں اور آپ بیت الدعا میں تشریف لے گئے۔ دو چار ہی منٹ کے بعد وہ بچہ خود بخود اندر کو جاناشروع ہوگیا۔ اور پھر پلٹا کھا کرسر کی طرف سے باہر نکل آیااور مرا ہوا تھا۔ وہ عورت بچ گئی اور اس کا بھائی توبہ کر کے اسی وقت احمدی ہوگیا اور بعد میں صوفی کے نام سے مشہور ہوا۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)