اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-06

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1081)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جب ستمبر1907ء میں مَیں والدصاحب کے ساتھ قادیان آیاتو حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے ارشا دکی تعمیل میں مَیں نے خود ہی ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور یہ16؍ستمبر1907ء کا دن تھا۔ اسی سال میں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا تھااور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوچکا تھا۔ چنانچہ مئی1908ء میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو میں اُن دنوں لاہور میں ہی تھا۔ اُن ایام میں بھی مجھے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوتا تھا۔26؍مئی1908ء کو دوپہر کے وقت میں اپنے کمرہ ہوسٹل میں سویا ہو ا تھا کہ شیخ تیمور صاحب بڑی جلدی اور گھبراہٹ کے ساتھ تشریف لائے اور میرے پاؤں کو ہلا کر کہا کہ جلدی اٹھو اور میرے کمرہ میں آؤ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں ۔ چنانچہ میں فوراً اُٹھ کر اُن کے کمرہ میں گیا اور ہم نے کالج اور ہوسٹل سے چھٹی وغیرہ لینے کا انتظام کیا تاکہ حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان جاسکیں ۔ یہ انتظام کر کے ہم احمدیہ بلڈنگس پہنچ گئے اور پھر حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان آئے ۔ اس موقعہ پر مَیں غالباً دو دن قادیان ٹھہرا اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی بیعت کرنے کے بعد واپس لاہور چلا گیا۔ ان ایام کے احساسات اور قلبی کیفیات کا سپرد قلم کرنا میرے جیسے انسان کیلئے مشکل ہے ۔

(1082)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ ستمبر1905ء میں میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ پہلی دفعہ قادیان آیااور ہم اس کوٹھڑی میں ٹھہرے جو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب(یعنی خاکسارمؤلف) کے مکان کے جنوب مشرقی کو نہ میں بیت المال کے دفاتر کے بالمقابل ہے ۔ ان ایام میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ظہراور عصر کی نمازوں کے بعد کچھ وقت کیلئے مسجد مبارک کی چھوٹی کوٹھڑی میں جس میں حضور علیہ السلام خود نما زادا فرمایا کرتے تھے تشریف رکھا کرتے تھے اور کچھ عرصہ سلسلہ کلام جاری رہا کرتا تھا۔ میں ان مواقع پر ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ صبح آٹھ نو بجے کے قریب حضور باہر سیر کیلئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اکثر اوقات میںبھی دیگر احباب کے ساتھ حضور کے پیچھے پیچھے چلا جایا کرتا تھا۔

(1083)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ چھاؤنی میں دفتر سپرنٹنڈنگ انجینئر انہار میں ڈرافٹسمین تھے ، ہم کو مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آج کل انبالہ چھاؤنی میں اسٹیشن کے قریب والے بنگلہ میں تشریف فرماہیں۔ ہم دس اشخاص کی تعداد میں پٹیالہ سے روانہ ہوئے ۔ چھاؤنی پہنچ کر سرائے متصل اسٹیشن کی مسجد میں شب باش ہوئے ۔ صبح آٹھ بجے کے قریب قیام گاہ حضور پر پہنچے ۔ اطلا ع ہونے پر حضور نے شرف باریابی بخشا۔ ہمارے ہمراہیوں میں سے ایک شخص نے حضور سے دریافت کیا کہ مجھ کو ایک درویش نے ایک درود شریف بتایا ہو اہے۔ اس کی تاثیر یہ بتائی تھی کہ کیسی ہی کوئی مشکل درپیش ہویا کوئی بیماری ہو یا کوئی ملازمت وغیرہ کی خواہش ہو ۔ عشاء کی نماز کے بعد اس درودشریف کا ورد کرنے سے یہ مشکل اور تکلیف دور اور مقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔ اس شخص نے یہ بھی بیان کیا کہ چنانچہ اس وقت سے میرا تجربہ ہے کہ جب کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں اس درود شریف کا ورد شروع کرتا ہوں ۔ چندروز میں ہی وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔ حضور نے سن کر یہ نہیں دریافت فرمایا کہ وہ کون سا درود شریف ہے بلکہ فرمایا کہ ہروہ کلام جس میں سرورکائنات پر صلوٰۃ وسلام بھیجنا مقصود ہو، خواہ کسی زبان میں ہو ، درود شریف ہے ۔ لیکن جو درود شریف نما زکے آخر میں متداول ہے وہ زیادہ صحیح روایات سے ثابت ہے ،اور درود شریف کے فضائل اور تاثیرات اس قدر ہیں کہ بیان سے باہر ہیں ۔ اس کاعامل نہ صرف ثواب عظیم کا مستحق ہوتا ہے بلکہ دنیا میںبھی معزز اور مؤقر ہوتا ہے ۔ میں خود اس کاصاحب تجربہ ہوں ۔ آپ اس دورد کو پڑھتے جائیں جو درویش صاحب نے بتایا ہے لیکن میں یہ بتا دینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ میں کسی ایسے درود شریف کا قائل نہیں ہوں کہ جس پر یہ بھروسہ کیا جائے کہ گویا قضا وقدر کی کلید اب ذات باری تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس درود خواں کے قبضہ میں آگئی ہے ۔ ذات باری کی صفت غنااور قدیر کو سامنے رکھ کر جس قدر درود شریف پڑھو گے بابرکت ہوگا۔ لیکن اس قادر مطلق کی بعض قضایا تو ایسی بھی ہونی تھیں جن کے سامنے ،جس پر تم درود بھیجتے ہو، اس کو تسلیم اور رضا کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس کے بعد حضور نے یہ معلوم کر کے کہ ہم لوگ رات سے آئے ہوئے ہیں اور بخیال تکلیف و بے وقت ہونے کے حاضر خدمت نہ ہوسکے ۔ حضور نے افسوس کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے کہ جب آپ صرف میری ملاقات کے ارادہ سے آئے تھے تو چھاؤنی پہنچ کر آپ ہمارے مہمان تھے۔ آپ کے رات کو مسجد میں سونے سے اور خوردونوش میں بھی جو تکلیف ہوئی ہوگی اس کے خیال سے مجھے تکلیف ہوئی ۔ یہاں چار پائیاں وغیرہ سب سامان موجود رہتا ہے ۔ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ اس کے بعد حضور نے کھانا منگوا کر ہم لوگوں کے ساتھ شامل ہو کر تناول فرمایا۔ بعد فراغت طعام سب اصحاب باہر کوٹھی کے احاطہ میں درختوں کے نیچے آرام کرنے کیلئے آگئے جہاں کہ ضرورت کے موافق چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں ۔

(1084)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جاڑے کا موسم تھا اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاؤں داب رہے تھے ۔ حضور کو غنودگی کا عالم طاری ہوگیا اور میں نے دیکھا کہ حضور کو پیشانی پر پسینہ آیا ۔ میں اس وقت آپ سے لپٹ گیا۔ آپ کی آنکھ کھل گئی تو مسکرانے لگے۔ میںنے کہا حضور اس موسم میں پیشانی پر پسینہ دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ اس وقت آپ خد اتعالیٰ سے ہم کلام ہورہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ! مجھے اس وقت ایک ہیبت ناک الہام ہوا اور یہ عادت ہے کہ جب ایسا الہام ہو تو پسینہ آجاتا ہے ۔ وہ الہام بھی حضور نے مجھے بتایا تھا مگر اب مجھے وہ یاد نہیں رہا۔

(1085)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص جو بظاہر فاتر العقل معلوم ہوتا تھا ،حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس خاکی وردی اور بوٹ پہنے ہوئے آیااور سر پر کلاہ اور پگڑی تھی۔ وہ آکر حضرت صاحب کے سامنے جھک گیا ۔ سر زمین سے لگا دیا ۔ حضور نے اس کی کمر پر تین تھاپیاں ماریں اور وہ اٹھ کر ہنستا ہوا چلا گیا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے دریافت بھی کیا مگر حضور مسکراتے رہے اور کچھ نہ بتایا۔

(1086)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریربیان کیا کہ ایک دن مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تقریر فرما رہے تھے کہ میرے درد گردہ شروع ہوگیا اور باوجود بہت برداشت کرنے کی کوشش کے میںبرداشت نہ کرسکا اور چلاآیا۔ میں اس کوٹھے پر جس میں پیر سراج الحق صاحب مرحوم رہتے تھے ، ٹھہرا ہوا تھا ۔ حضرت صاحب نے تقریر میں سے ہی حضرت مولوی نور الدین صاحب کو بھیجا ۔ انہوںنے درد گردہ معلوم کر کے دوا بھیجی مگر ا س کا کچھ اثر نہ ہوا۔ تکلیف بڑھتی گئی ۔ پھر حضور جلدی تقریر ختم کر کے میرے پاس آگئے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری سے جو آپ کے ساتھ تھے فرمایا کہ آپ پرانے دوست ہیں، منشی صاحب کے پاس ہرو قت رہیں اور حضور پھر گھر سے دوا لے کر آئے اور اس طرح تین دفعہ یکے بعد دیگرے دوا بدل کر خود لائے ۔ تیسری دفعہ جب تشریف لائے تو فرمایا زینے پر چڑھنے اُترنے میں دقت ہے ۔ آپ میرے پاس آجائیں ۔ آپ تشریف لے گئے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری مجھے سہارا دے کر حضرت صاحب کے پاس لے گئے۔ راستہ میں دو دفعہ میں نے دعا مانگی۔ مولوی صاحب پہچان گئے اور کہنے لگے کہ تم یہ دعا مانگتے ہوگے کہ مجھے جلدی آرام نہ ہو تاکہ دیر تک حضرت صاحب کے پا س ٹھہرا رہوں ۔ میںنے کہا ہاں یہی بات ہے ۔ جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ کھانا کھا رہے تھے۔ دال ، مولیاں سرکہ اس قسم کی چیزیں تھیں۔ جب آپ کھانا کھا چکے تو آپ کا پس خوردہ ہم دونوں نے اٹھا لیا اور باوجود یکہ کے مجھے مسہل آور دوائیں دی ہوئیں تھیں اور ابھی کوئی اسہال نہ آیا تھا، میں نے وہ چیزیں روٹی سے کھالیں اور حضور نے منع نہیں فرمایا۔ چند منٹ کے بعد درد کو آرام آگیا۔ کچھ دیر بعد ظہر کی اذان ہوگئی۔ ہم دونوں مسجد میں آپ کے ساتھ نما زپڑھنے آگئے ۔ فرضوں کا سلام پھیر کر حضور نے میری نبض دیکھ کر فرمایا آپ کو تو اب بالکل آرام آگیا۔ میرا بخار بھی اُتر گیا تھا۔ میںنے کہا حضور بخار اندر ہے ۔ اس پرآپ ہنس کر فرمانے لگے ۔ اچھا آپ اندر ہی آجائیں۔ عصر کے وقت تک میں اندر رہا۔ بعد عصر میں نے خود ساتھ جانے کی جرأت نہ کی ۔ میں بالکل تندرست ہوچکا تھا۔

(1087)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم انبالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کوٹھی میں مقیم تھے توایک امر کے متعلق جو کہ دینی معاملہ نہ تھا بلکہ ایک دوائی کے متعلق تھا ،حضور سے استفسار کی ضرورت پیش آئی ۔ احباب نے خاکسار کو اس کام کیلئے انتخاب کیا۔ چنانچہ میں اجازت لے کر اندر حاضر ہوا۔ حضور اپنے کمرہ میں صرف تنہا تشریف فرماتھے۔ خاکسار نے اس امر کے جواب سے فارغ ہوکر موقعہ کو غنیمت خیال کرتے ہوئے اپنے متعلق ایک واقعہ عرض کرنے کی اجازت چاہی ۔ حضور نے بڑی خندہ پیشانی سے اجازت دی ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ میں اس سے قبل نقش بندیہ خاندان میں بیعت ہوں اور ان کے طریقہ کے مطابق ذکر واذکار بھی کرتاہوں ۔ ایک رات میں ذکر نفی اثبات میں حسب طریقہ نقشبندیہ اس طرح مشغول تھا کہ لفظ لاکو وسط سینہ سے اُٹھا کر پیشانی تک لے جاتا تھا ۔ وہاں سے لفظ اِلٰہَ کو دائیں شانہ پر سے گزار کر دیگر اطراف سے گذارتے ہوئے لفظ الّااللہ کی ضرب قلب پر لگاتا ۔ کافی وقت اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد قلب سے بجلی کی رَو کی طرح ایک لذت افزا کیفیت شروع ہوکر سر سے پاؤں تک اس طرح معلوم ہوئی کہ جسم کا ذرہ ذرہ اس کے زیر اثر تھا۔ آخر وہ کیفیت اس قدر بڑھی اور ناقابل برداشت معلوم ہونے لگی کہ میںنے خیال کیا اگر یہ کیفیت اس سے زیادہ رہی تو اغلب ہے کہ میں بے ہوش ہوکر چارپائی سے نیچے گر جاؤں ۔ چونکہ تنہا تھا اس لئے خیال ہوا کہ صبح اگر گھر کے لوگوں نے اس طرح گرا ہوا دیکھا تو شاید وہ کسی نشہ وغیرہ کا نتیجہ خیال کریں۔ میں نے ذکر کو قصداً بند کر دیا ۔ چونکہ رات کافی گذر چکی تھی ا سلئے تھوڑی دیر میں ہی نیند آگئی ۔ صبح بیدار ہونے پر حالت حسب معمول تھی۔ اس کے بعد میں نے بارہا اس طرح عمل کیا مگر وہ کیفیت پید انہ ہوئی۔ حضور نے سن کر فرمایا کہ اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ کیفیت پھر پید اہو۔ میں نے عرض کیا کہ میری خواہش تو یہی ہے ۔ حضور نے فرمایا کس غرض سے آپ ایسا چاہتے ہیں ؟ میںنے عرض کیا کہ اس میں ایک عالَم سرور اور ایک قسم کی لذت تھی۔ اس جیسی لذت میں نے کسی اور شئے میں نہیں دیکھی۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ خدا کی عبادت لذت کیلئے نہیں کرنی چاہئے بلکہ حکم کی تعمیل اور اپنا فرض سمجھ کر کرنی چاہئے ۔ خداچاہے تو اس میں بھی اس سے بہتر لذت پید اہوسکتی ہے ۔ اگر لذت کو مدنظر رکھ کر عبادت کی جائے تو لذت نفس کی ایک کیفیت ہے ۔ اس کے حصول کیلئے عبادت نفس کے زیر اتباع ہے ۔ خد اکی عبادت ہر حال میں کرنی چاہئے ۔ خواہ لذت ہو یا نہ ہو ۔وہ اس کی مرضی پر ہے ۔ پھر فرمایا یہ حالت جو آپ نے دیکھی یہ ایک سالک کیلئے راستہ کے عجائبات اور غول راہ کے طور پر ہوتے ہیں اور عارضی ہوتے ہیں۔ اس کے عارضی ہونے کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگاکہ آپ اس کو پھر چاہتے ہیں ۔ اسی طرح ذکر کرنے پر بھی وہ لذت حاصل نہ ہوئی۔ ہم آپ کو ایسی بات بتاتے ہیں جس میں مستقل لذت پیدا ہوگی جو پھر جد انہیں ہوگی ۔ وہ اتباع سنت اور اسوۂ حسنہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے جس کی غرض خداتعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ ان فانی لذتوں کے پیچھے نہ پڑو۔ پھرفرمایا نماز خشوع وخضوع سے پڑھنی چاہئے ۔ منہیات سے پرہیز ضروری ہے ۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)