اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-29

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(1072)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی بیماری کے دوران میں بھی قادیان ہی میں حاضر تھا اور اُن کی وفات کے وقت بھی یہیں موجود تھا۔ چنانچہ ان کے جنازہ کو مقبرہ بہشتی میں لے جانے کیلئے ڈھاب کے ایک حصہ پر عارضی پل بنانا پڑاتھا۔ اس پل کے بنانے میں زیادہ تر تعلیم الاسلام ہائی اسکول کے لڑکوں کا حصہ تھا اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں بھی اُن کے ساتھ شامل ہوا تھا اور بعد میں صاحبزادہ صاحب کے جنازہ میں بھی شامل ہوا۔ جنازہ کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قبر سے تھوڑے فاصلہ پر بیٹھ گئے اور صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق اپنے الہامات اور پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے رہے ۔ میں اگرچہ اُس وقت بچہ ہی تھا لیکن یہ احساس اس وقت تک میرے دل میں قائم ہے کہ حضور باوجود اس قدر سخت صدمہ کے جوآپ کوصاحبزادہ صاحب کی وفات سے لازماًپہنچا ہوگا نہایت بشاشت سے کلام فرماتے رہے ۔
(1073)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دہلی سے واپسی پر امرتسر اُترے ۔ حضرت ام المومنین بھی ہمراہ تھیں ۔ حضور نے ایک صاحبزادے کو جو غالباً میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) تھے گود میں لیا۔ اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا اور مجھے فرمایا آپ پاندان لے لیں ۔ میں نے کہا حضور مجھے یہ بیگ دے دیں ۔ آپ نے فرمایا: نہیں۔ ایک دو دفعہ میرے کہنے پر حضور نے یہی فرمایا۔ تو میںنے پاندان اٹھا لیا اور ہم چل پڑے ۔ اتنے میں دو تین جوان عمر انگریز جو اسٹیشن پر تھے انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضور سے کہو ذرا کھڑے ہوجائیں ۔ چنانچہ میں نے عرض کی کہ حضور یہ چاہتے ہیں کہ حضور ذرا کھڑے ہوجائیں۔ حضور کھڑے ہوگئے اور انہوںنے اُسی حالت میں حضور کا فوٹو لے لیا۔
(1074)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ مقدمہ کرم دین میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا تار میرے نام آیا کہ آپ شہادت کیلئے گورداسپور پہنچیں۔ میں فوراً گورداسپور روانہ ہوگیا۔ کرم دین نے لمبی چوڑی جرح تیار کی ہوئی تھی۔ ہر ایک گواہ کیلئے ۔ خصوصاً پرانے خدام کیلئے لمبی جرح اُس نے تیار کی تھی ۔ چنانچہ مجھ پر اُس نے حسب ذیل سوالات کئے۔
س :قادیان میں کتنے پریس ہیں
ج :میں کیا جانوں کس قدر پریس ہیں
س :مرز اصاحب کی کس قدر تصانیف ہیں
ج :اسّی کے قریب ہوں گی
س :کتابوں کے کیا کیا نام ہیں
ج :مجھے یاد نہیں۔ میں کوئی کتب فروش نہیں ہوں
س :کس قدر سنگ ساز ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں
ج :ایک شخص کرم الٰہی کو میں جانتا ہوں اور پتہ نہیں
س :کاتب کس قدر ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں
ج :مجھے علم نہیں
س :آپ قادیان میں کتنی دفعہ آئے ہیں
ج :سینکڑوں دفعہ
س :تعداد بتائیں
ج : میں نے گنتی نہیں کی
اسی طرح چند اور سوال کئے ۔ جن کے جواب میں میں لاعلمی ظاہر کرتا رہا ۔ آخر مجسٹریٹ نے اسے اس قسم کے سوالات کرنے سے روک دیا اور میں کمرہ عدالت سے باہر چلا آیا۔ جس پراُس نے عدالت سے کہا کہ یہ دیگر گواہوں کو باہر جاکر بتادے گا۔ مگرحاکم نے اس کی بات نہ مانی کہ گواہ معزز آدمی ہے اور میں باہر چلا آیا۔
اسی درمیان میں مجسٹریٹ نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ آپ مرزاصاحب کے مرید ہیں۔ میں نے کہا: ہاں۔پھر اس نے پوچھا کہ آپ جان ومال اُن پر فدا کرسکتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ جان ومال کی حفاظت کیلئے ہم نے بیعت کی ہے ۔ وہ مجھے سوال میں پھانسنا چاہتا تھا ۔ مگر یہ جواب سن کر رہ گیا۔
گواہوں کے بیانات نوٹ کرنے کیلئے حضرت صاحب مجھے تقریباً ہر مقدمہ میں اندر بلا لیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے میری اس خوش قسمتی بوجہ زود نویسی پر رشک کا اظہار فرمایا ۔
(1075)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سب سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے شرف نیاز کا موقعہ اُس روز ہوا جب کہ حضور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی اس درخواست پر کہ حضور ایک دفعہ ان کے گھر واقعہ قصبہ سنور متصل پٹیالہ میں قدم رنجہ فرمائیں، پٹیالہ تشریف لائے ۔ دس بجے صبح کے قریب پہنچنے والی ٹرین سے حضور کے راجپورہ کی جانب سے تشریف لانے کی اطلاع تھی۔ خاکسار پہلی ٹرین سے راجپورہ پہنچ گیا۔ آگے پٹیالہ آنے والی ٹرین تیار تھی۔ حضور گاڑی کے آگے معہ دو ہمراہیاں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی مرحوم وحاجی عبد الرحیم صاحب المعروف ’’پیسہ والے سوداگر‘‘ گاڑی کے آگے پلیٹ فارم پر کھڑے تھے ۔ چونکہ ہم لوگ اس سے قبل کسی کی صورت سے بھی آشنا نہ تھے ، اس لئے حاجی عبد الرحیم صاحب کی طرف مصافحہ کیلئے بڑھے کیونکہ حاجی صاحب لحیم وشحیم اور قدآور آدمی تھے اور لباس ظاہری بھی اُن کا شاندار تھا۔ حاجی صاحب نے ہمارا مقصد محسوس کرتے ہوئے حضرت صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اگر آپ لوگ حضرت صاحب کی زیارت کیلئے آئے ہیں تو حضرت صاحب یہ ہیں۔ اس پر ہم دو تین آدمیوں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا۔ حضرت صاحب نے حاجی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایاکہ حاجی صاحب! بہت تھوڑے لوگ ہیں جو صرف خد اکیلئے آتے ہیں ۔ دراصل دنیاعجائب پسند ہے ۔اگر یہ شہرت ہوجائے کہ انبالہ میں ایک چار آنکھوں والا آدمی ہے تو ا سکے دیکھنے کیلئے دنیا ٹوٹ پڑے۔ ایسا ہی لفظ الہام سے دنیا اجنبی ہوچکی تھی۔ اب جو وہ سنتے ہیں کہ ایک شخص کو خد اکی طرف سے الہام ہوتا ہے تو اُسی طرح تعجب سے وہ چاہتے ہیں کہ دیکھیں وہ آدمی جس کو الہام ہوتا ہے وہ کیسا ہے ۔ اسکے بعد گاڑی پٹیالہ کو روانہ ہوئی۔ پٹیالہ اسٹیشن پر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب جناب وزیر محمد حسین صاحب کی گاڑی میں سوار ہو کر جو اسی غرض سے خود گاڑی لے کر آئے تھے جانب شہر روانہ ہوگئے اور اُس کوٹھی میں جو اسٹیشن سے دو میل کے فاصلہ پر (جانب شرق پٹیالہ سے) واقع ہے موجود ہیں ۔ جب خاکسار بھی پتہ لگا کر وہاں پہنچ گیاتو حضور کوٹھی کے بڑے کمرے میں تقریر فرمارہے تھے اور بیس تیس مردماں کا مجمع تھا۔ تقریر کا مفہوم ’’ضرورت الہام‘‘معلوم ہوتا تھا کیونکہ خاکسار کے حاضر ہونے کے بعد جو الفاظ حضرت صاحب سے سنے تھے وہ یہ تھے۔ عقل صرف ہستی باری تعالی کے بارہ میں ’’ہونا چاہئے ‘‘ تک جاسکتی ہے لیکن یہ بات کہ ایسی ہستی ضرور ہے اس کی دسترس سے باہر ہے ۔ یہ صرف الہام ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ایسی ہستی ضرور موجود ہے ۔ تقریر والے کمرہ سے ملحقہ کمرہ کی طرف جو بند تھا اشارہ کر کے فرمایا کہ فرض کرو کہ اس کمرہ میں کسی شخص کے بند ہونے کا کوئی دعویٰ کرے اور کوئی دوسرا شخص اس کے شوق زیارت میں ہر روز بڑے الحاح اور عاجزی سے اسکو پکارے ۔ اگر سالہا سال بعد بکثرت لوگ ایسا ہی کریں اور کسی کو اُس شخص کی آواز تک نہ سنائی دے تو وہ سب تھک کر آخر اس کے ہونے سے انکار ی ہوجائیں گے۔ پس دہریہ تو عدم جہد وعدم معرفت کی وجہ سے دہریہ ہیں لیکن یہ خدا کے پرستار الہام سے تشفی یاب نہ ہونے کی صورت میں ایک تجربہ کار دہریہ ہوتے۔ پس یقینی ایمان الہا م کے بغیر میسر نہیں ہوسکتا۔ یقینی ایمان کیلئے الہام از بس ضروری ہے ۔ اس تقریر کے ختم کرنے کے بعد حضور بسواری گاڑی وزیر صاحب سنور تشریف لے گئے ۔
(1076)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سنور سے شام کو پٹیالہ واپس تشریف لائے تو پھر وزیر محمد حسین صاحب کی کوٹھی پر حضور نے تقریر فرمائی۔ لیکن خاکسار اس کو سن نہ سکا۔ کیونکہ تقریر اوپر کے حصہ مکان میں ہورہی تھی اور مجمع اس قدر کثیر تھا کہ چھتوں کے گرجانے کے خوف سے پہرہ قائم کردیا گیا تاکہ اور آدمی اندر نہ آنے پائیں۔ واپسی پر اسٹیشن پٹیالہ پر بھی ایسی ہی لوگوں کی کثرت تھی ۔
(1077)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام واپسی پر پٹیالہ کے اسٹیشن پر تشریف لائے تو حضور نے نماز مغرب خود پڑھائی۔ اس وقت ایک ناگوار واقعہ یہ ہوا کہ حضور وضو فرمانے لگے تو ہاتھ میں ایک رومال تھا جس میںقریباً یکصد روپیہ تھا تو حضور نے لوٹا ہاتھ میں لیتے وقت بے خیال کسی اجنبی شخص کو وہ رومال پکڑا دیا اور نما زاد اکرنے کے بعد جب حضور نے رومال کے متعلق دریافت کیا تو کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب اس امر کا چرچا ہونے لگا تو حضور نے منع فرمایا کہ زیادہ تجسس نہ کرو۔ شاید کسی ضرورت مند کیلئے خدا نے اپنے رحم سے ایسا کیا ہو۔ اسکے بعد گاڑی میں سوار کر راجپورہ پہنچ گئے ۔ خاکسار بھی راجپورہ تک ساتھ گیا۔ اور جب حضور ریل گاڑی میں جو پنجاب کی طرف جانے والی تھی تشریف فرما ہوئے تو خاکسار نے ایک روپیہ بطور نذرانہ پیش کیا کہ حضور اسے قبول فرمائیں ۔ حضور نے فرمایا کہ آپ تو طالب علم معلوم ہوتے ہیں اس لئے یہ تکلیف نہ کریں ۔ خاکسار نے عرض کی کہ میری آرزو یہ ہے کہ میرا یہ روپیہ اُس کتاب کی اشاعت کے مصارف میں شامل ہوجائے جو حضور نے تصنیف فرمائی ہے (یعنی براہین احمدیہ) اس پر حضور نے وہ روپیہ بخوشی قبول فرما کر جزائے خیر کی دعا کی ۔
(1078)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چندولعل مجسٹریٹ آریہ تھا اور اُس زمانہ میں ہی وہ کھدر پوش تھا۔ ایک دن دوران مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان ہورہا تھا اور اس دن آدمیوں کی بہت کثرت تھی اس لئے چند ولعل نے باہر میدان میں کچہری لگائی اور بیان کے دوران میں حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو نشان نمائی کا بھی دعویٰ ہے ؟ آپ نے فرمایا:ہاں ۔ اور تھوڑی دیر میں آپ نے فرمایا: جو نشان آپ چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں اور یہ بڑے جوش میں آپ نے فرمایا۔ اس وقت وہ سناٹے میں آگیا اور لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا۔
(1079)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ چند ولعل مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الہام ’’ اِنِّی مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَک ‘‘ کے متعلق سوال کیا کہ یہ خد انے آپ کو بتایا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اسکا مجھ سے وعدہ ہے۔ وہ کہنے لگا جو آپ کی ہتک کرے وہ ذلیل وخوار ہوگا ؟ آپ نے فرمایا: بے شک ۔ اس نے کہا ’’اگر میں کروں؟‘‘ آپ نے فرمایا’’چاہے کوئی کرے‘‘ تو اس نے دو تین دفعہ کہا ’’اگر میں کروں؟‘‘ آپ یہی فرماتے رہے ’’چاہے کوئی کرے‘‘ پھر وہ خامو ش ہو گیا۔
(1080)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک مقدمہ کے تعلق سے میں گورداسپور میں ہی رہ گیا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا پیغام پہنچا کہ واپسی پر مل کر جائیں۔ چنانچہ میں اور شیخ نیا ز احمد صاحب اور مفتی فضل الرحمن صاحب یکے میں قادیان کو روانہ ہوئے ۔ بارش سخت تھی اس لئے یکے کو واپس کرنا پڑااور ہم بھیگتے ہوئے رات کے دو بجے کے قریب قادیان پہنچے۔ حضور اُسی وقت باہر تشریف لے آئے ۔ ہمیں چائے پلوائی اور بیٹھے باتیں پوچھتے رہے ۔ ہمارے سفر کی تمام کوفت جاتی رہی ۔ پھر حضور تشریف لے گئے ۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)