اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-13

سیرت المہدی
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ ) 

(985) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپور تھلہ میں ایک شخص شرابی، فاسق وفاجر تھا۔ ایک رات وہ کسی جگہ سے شب باش ہوکر آیا۔ راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مکان میں وعظ فرما رہے تھے ۔ یہ شخص بھی وعظ کا سن کر وہاں آگیا۔ وعظ میں حضور علیہ السلام افعالِ شنیعہ کی بُرائی بیان فرما رہے تھے۔ اس شخص نے مجھ سے کہا ۔ حضرت صاحب کے وعظ کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ لوگوں کو مخاطب کر کے مجھے سمجھا رہے ہیں ۔ اُس دن سے اُس نے توبہ کی ۔ شراب وغیرہ چھوڑ دی اور پابند صوم وصلوٰۃ ہوگیا۔
(986)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد کپورتھلہ حاجی ولی اللہ غیر احمدی لاولد نے بنائی تھی ۔ اس کے دو برادر زادے تھے۔ انہوںنے حبیب الرحمن صاحب کو مسجد کا متولی قرار دیا اور رجسٹری کرادی ۔ متولی مسجد احمدی ہوگیا۔ جب جماعت احمدیہ کو علیحدہ نماز پڑھنے کا حکم ہوا۔ تو احمدیوںاور غیر احمدیوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ غیر احمدیوں نے حکام بالا اور رؤسائے شہر کے ایماء سے مسجد پر جبراً قبضہ کر لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کو حکم دیا کہ اپنے حقوق کو چھوڑنا گناہ ہے۔ عدالت میں چارہ جوئی کرو۔ اس حکم کے ماتحت ہم نے عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ یہ مقدمہ سات برس تک چلتا رہا۔ ان ایام میںجماعت احمدیہ اپنے گھرو ں میں نماز پڑھ لیا کرتی تھی۔ خاکسار ہمیشہ حضور کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتا رہتا تھا ۔ ایک دفعہ حضور دہلی سے قادیان واپس آرہے تھے کہ لدھیانہ میں حضور کالیکچر ہوا۔ لیکچر سننے کے لئے خاکساراور منشی عبد الرحمن صاحب مرحوم لدھیانہ گئے ۔ لیکچر ختم ہونے پر خاکسار نے مسجد کپور تھلہ کے واسطے دعا کی درخواست کی ۔ حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر یہ سلسلہ خد اکی طرف سے ہے تو مسجد تمہارے پاس واپس آجائے گی‘‘ اس وقت چہرہ مبارک پر ایک جلال رونما تھا ۔ اس پیشگوئی کو سن کر بہت خوشی ہوئی ۔ جس کا اظہاراخباروں میں بھی ہوگیا۔ میں نے تحریر وتقریر میں ہر ایک مدعا علیہ سے اس پیشگوئی کا اظہار کردیا۔اور میں نے تحدّی کے ساتھ مدعا علیھم پر حجت تمام کر دی کہ اپنی ہر ممکن کوشش کرلو۔ اگرچہ حکام بھی غیر احمدی ہیں جن پر تم سب کو بھروسہ ہے مگر مسجد ضرور ہمارے پاس واپس آئے گی۔ میرے اس اصرار پر ڈاکٹر شفاعت احمدکپور تھلہ نے وعدہ کیا کہ اگر مسجد تمہارے پاس واپس چلی گئی تو میں مسیح موعود ؑ پر ایمان لے آؤں گا۔ میں ایک مرتبہ ضرور تاً لاہور گیا اورجمعہ اد اکرنے کے لئے احمدیہ مسجد میں چلا گیا۔ خواجہ کمال الدین صاحب سے اس پیشگوئی کا ذکر آگیا۔ انہوںنے کہا کہ منبر پر چڑھ کر سب کو سنا دو۔ میںنے مفصل حال اور یہ پیشگوئی احباب کو سنا دی تاکہ پیشگوئی پورا ہونے پر جماعت کی تقویت ایمان کا باعث ہو۔ پہلی اور دوسری دو عدالتوں میں باوجود مدعا علیھم کی کوشش وسعی کے مقدمہ احمدیوں کے حق میں ہوا۔ ڈاکٹر صادق علی ان ہر دوحکام کا معالج خاص تھا۔ اور اس نے بڑی کوشش کی ۔ آخر اس کی اپیل آخری عدالت میں دائر ہوئی۔ یہ حاکم غیر احمدی تھا۔ مقدمہ پیش ہونے پر اُس نے حکم دیا ’’ کہ یہ مسجد غیر احمدی کی بنائی ہوئی ہے ۔ اس مسجد میں احمدیوں کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ احمدی جماعت نے جدید نبی کے دعویٰ کو قبول کر لیا ہے اس لئے وہ اپنی مسجد علیحدہ بنائیں ۔ پرسوں میں حکم لکھ کر فیصلہ سناؤں گا۔‘‘ ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب نے مجھ سے کہا۔ کہو صاحب! مرزا صاحب کی پیشگوئی کہاں گئی؟ مسجد کا فیصلہ تو تم نے سن لیا ۔ میں نے اس کو جواب دیا کہ شفاعت احمد! ابھی دو تین روز درمیان میں ہیں۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان احکم الحاکمین کی ہستی ہے۔ اس بات کا انتظار کرو کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ یاد رکھو۔ زمین وآسمان ٹل جائیں گے مگر خدا کی جو باتیں مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے نکل چکی ہیں وہ نہیں ٹلیں گی۔ میری اس تحدّی سے وہ حیرت زدہ ہوگیا۔ رات کو حبیب الرحمن متولی مسجد نے خواب میں دیکھا اور جماعت کو وہ خواب بھی سنا یا کہ یہ حاکم ہماری مسجد کا فیصلہ نہیں کر ے گا۔ اس کا فیصلہ کرنے والا اور حاکم ہے ۔ یہ خواب بھی مدعا علیھم کو سنا دی گئی ۔ مدعا علیھم ہماری ان باتوں سے حیرت زدہ ہوجاتے تھے کیونکہ فیصلہ میں دو روز باقی تھے اور حاکم اپنا فیصلہ ظاہر کر چکا تھا۔ ایک احمدی کہتا ہے زمین آسمان ٹل جائیں گے مگر مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوکر رہے گی ۔ دوسرا کہتا ہے کہ یہ حاکم فیصلہ نہیں کرے گا وہ اور ہے جو فیصلہ کرے گا۔ مقررہ دن آگیا مگر حاکم فیصلہ نہیں لکھ سکا۔ دوسری تاریخ ڈال دی او ر ہر پیشی پر خدا ایسے اسباب پیدا کرد یتا رہا کہ وہ حاکم فیصلہ نہ لکھ سکا۔ اس سے مخالفوں میں مایوسی پیدا ہونے لگی کہ کہیں پیشگوئی پوری نہ ہوجائے۔ اسی اثناء میں عبد السمیع احمد ی نے ایک رؤیا دیکھا جو اس وقت قادیان میں موجود ہے کہ میں بازار میں جارہا ہوں راستہ میں ایک شخص مجھے ملا اور اس نے کہا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہوگیا ہے ۔ یہ خواب بھی مخالفوں کو سنا دی گئی۔ ایک ہفتہ کے بعد عبد السمیع مذکور بازار میں جارہا تھا کہ اسی موقعہ پر وہ شخص جس نے خواب میں کہا تھا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہوگیا ہےاُن کوملا اور اُس نے حاکم کی موت کی خبردی۔ حاکم کی موت کا واقعہ یوں ہوا کہ وہ حاکم کھانا کھا کر کچہری جانے کے واسطے تیاری کررہا تھا، سواری آگئی تھی۔ خدمت گار کسی کام کے لئے باورچی خانہ میں گیا ہی تھا کہ دفعتاً حرکت قلب بند ہوئی اور وہ حاکم وہیں فوت ہوگیا۔ اس کے ماتم پر لوگ عام گفتگو کرتے تھے کہ اب ہمارے پاس مسجد کے رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس کی جگہ ایک آریہ حاکم فیصلہ کرنے کے لئے مقرر ہوا۔ یہ بھی احمدیوں کا سخت دشمن تھا۔ اوروہ بھی مخالفوں کی طرف ہی مائل تھا۔ آخر وکلاء کی بحث کے بعد یہ بات قرار پائی کہ کسی انگریزی علاقہ کے بیرسٹر سے فیصلہ کی رائے لی جائے۔ پچاس روپیہ فریقین سے فیس کے لئے گئے اور اُس حاکم نے اپنے قریبی رشتہ دار آریہ بیرسٹر کے پاس مشورہ کے واسطے وہ مسل بھیج دی ۔ اس جگہ بھی غیر احمدیوں نے بے حدکوششیں کیں اور یہ بات قابل غور ہے کہ مقدمہ میں کس طرح پیچ در پیچ پڑتے چلے جارہے تھے۔ ہاں عدالت ابتدائی کے دوران میں ایک احمدی نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان بنایا جارہا ہے ۔ اس کی چاروں طرف کی دیواریں غیر احمدی کے واسطے تعمیر کی گئی ہیں ۔ مگر چھت صرف احمدیوں کے واسطے ڈالی گئی ہے جس کے سایہ میں وہ رہیں گے۔ جس سے یہ مراد تھی کہ گو مسل کا فیصلہ غیر احمدیوں کے حق میں لکھا جارہا ہے لیکن جب حکم سنانے کا موقعہ آئے گا تو مسجد احمدیوں کو دی جائے گی اور جس طرح کوئی بالاطاقت قلم کو روک دیتی ہے اور بے اختیار حاکم کے قلم سے احمدیوں کے حق میں فیصلہ لکھا دیتی ہے اور ہر ایک عدالت میں یہی بات ہوئی۔
میں نے بھی خواب میں دیکھا کہ آسمان پر ہماری مسل پیش ہوئی اور ہمارے حق میں فیصلہ ہوا۔ میں نے اپنا یہ خواب وکیل کو بتادیا۔ وہ مسل دیکھنے کے لئے عدالت گیا۔ اُس نے آکر کہا کہ تمہارا خواب بڑا عجیب ہے کہ فیصلہ ہوگیا ہے ،حالانکہ بیرسٹر کے پاس ابھی مسل بھیجی بھی نہیں گئی ۔ میں نے اُس سے کہا کہ ایک سب سے بڑا حاکم ہے اس کی عدالت سے فیصلہ آگیا ہے ۔ یہ دنیا کی عدالتیں اس کے خلاف نہیں جاسکیں گی۔ آخر اس آریہ بیرسٹر نے احمدیوں کے حق میں فیصلہ کی رائے دی اور مسل واپس آگئی اور حکم سنا دیا گیا۔ ہمارے وکیل نے کہا کہ ظاہری صورت میں ہم حیران تھے کہ کس طرح مسجد تم کو مل سکتی ہے ۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے ساتھ خد اکی امدا د ہے تبھی مسجد مل گئی۔ لیکن افسوس ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر بھی شفاعت احمد ایمان نہ لایا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسجد احمدیہ کپور تھلہ کا واقعہ روایت نمبر۷۹میں بھی درج ہوچکا ہے اور شاید کسی اور روایت میں بھی جو مجھے اس وقت یاد نہیں ۔
( 987) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار پہلی مرتبہ میر عباس علی صاحب کے ہمراہ قادیان آیا تھا ۔ میر صاحب نے آتے ہی گول کمرہ میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بذریعہ حافظ حامد علی صاحب اپنے آنے کی اطلاع دی کہ میرصاحب لدھیانہ سے آئے ہیں۔ ہم اطلاع دیتے ہی بڑی مسجد میں نما زعصر پڑھنے کے لئے چلے گئے۔ اس وقت اس مسجد میں کوئی نمازی نہ تھا۔ جب ہم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور واپس گول کمرہ میں آئے تو حافظ صاحب نے کہا کہ میر صاحب! آپ کو حضرت صاحب اوپر بلاتے ہیں ۔ اس پر میر صاحب پاؤں برہنہ ہی گئے۔ حضور علیہ السلام نے مجھے دیکھ کر میر صاحب سے پوچھا۔ یہی میر عنایت علی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘ غرض اس طرح پہلی مرتبہ میری حضور سے ملاقات ہوئی ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت میر عنایت علی صاحب فوت ہوچکے ہیں ۔ بہت سادہ مزاج بزرگ تھے۔ اور میر عباس علی صاحب ان کے چچا تھے یہ میر عبا س علی وہی ہیں جو بعد میں مرتد ہوگئے تھے۔