اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-01

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

(1036) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں زیارت کی تو میرے دل میں اس وقت کسی قسم کے عقائد کی تنقید نہیں تھی۔ جو اثر بھی میرے دل میں اس وقت ہوا وہ یہی تھا کہ یہ شخص صادق ہے اور جو کچھ کہتا ہے وہ سچ ہے اور ایک ایسی محبت میرے دل میں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈال دی گئی کہ وہی میرے لئے حضور علیہ السلام کی صداقت کی اصل دلیل ہے ۔ میں گو اس وقت بچہ ہی تھا لیکن اس وقت سے لے کر اب تک مجھے کسی وقت بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑی۔ بعد میں متواتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جو میرے ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوئے ۔ لیکن میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر ہی مانا تھا اور وہی اثر اب تک میرے لئے حضور کے دعاوی کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ میں3؍ستمبر1904ء کے دن سے ہی احمدی ہوں۔
(1037) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک دفعہ مَیں قادیان میں تقریباً ایک ماہ تک ٹھہرا رہا۔ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری بھی وہاں تھے ۔ مولوی صاحب نے میرے لئے جانے کی اجازت چاہی اور میں نے اُن کے لئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ابھی نہ جائیں۔ اس عرصہ میں مولوی صاحب کو ان کے گھر سے لڑکے کی ولادت کا خط آیا جس پر مولوی صاحب نے عقیقہ کی غرض سے جانے کی اجازت چاہی ۔ حضور نے فرمایا اس غرض کیلئے جانا لازمی نہیں۔ آپ ساتویں دن ہمیں یاد دلادیں اور گھر خط لکھدیں کہ ساتویں دن اس کے بال منڈوادیں ۔ چنانچہ ساتویں روز حضور نے دو بکرے منگوا کر ذبح کرادئیے اور فرمایا گھر خط لکھ دو۔
(1038) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورانِ سر کا عارضہ تھا ۔ ایک طبیب کے متعلق سنا گیا کہ وہ اس میں خاص ملکہ رکھتا ہے اُسے بلوایاگیا، کرایہ بھیج کر اور کہیں دور سے ۔ اس نے حضور کو دیکھا اور کہا کہ دودن میں آپ کو آرام کردوں گا۔ یہ سن کر حضرت صاحب اندر چلے گئے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو رقعہ لکھا کہ اس شخص سے میں علاج ہر گز نہیں کرانا چاہتا۔ یہ کیا خدائی دعویٰ کرتا ہے۔ اس کو واپسی کرایہ کے روپیہ اور مزید بیس پچیس روپے بھیج دئیے کہ یہ دے کر اُسے رخصت کردو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔
(1039) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سردرد کا دورہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس قدر سخت ہوا کہ ہاتھ پیر برف کی مانندسرد ہوگئے ۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو نبض بہت کمزور ہوگئی تھی ۔ آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسلام پر کوئی اعتراض یاد ہوتو اس کا جواب دینے سے میرے بدن میں گرمائی آجائے گی اور دورہ موقوف ہوجائے گا۔ میں نے عرض کی کہ حضور اس وقت تو مجھے کوئی اعتراض یاد نہیں آتا۔ فرمایا ! کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت میں کچھ اشعار آپ کو یاد ہوں تو پڑھیں ۔میںنے براہین احمدیہ کی نظم ’’اے خدا! اے چارۂ آزارما‘‘ خوش الحانی سے پڑھنی شروع کردی اور آپ کے بدن میں گرمائی آنی شروع ہوگئی۔ پھر آپ لیٹے رہے اور سنتے رہے۔ پھر مجھے ایک اعتراض یاد آگیاکہ آیت وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً(البقرۃ:31)پر یہ اعتراض ہے کہ جو مشورہ کا محتاج ہے وہ خدائی کے لائق نہیں ۔ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کا علم بھی کامل نہیںکیونکہ اُسے معلوم نہ تھا کہ یہ آئندہ فساد اور خون ریزی کرے گا ۔ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۔ اُس سے معلوم ہو اکہ وہ پاکوں سے دشمنی اور ناپاکوں سے پیار کرتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اس خلافت کیلئے پیش کیا تھا۔ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ بھلا یہ بھی کوئی جواب ہے جس سے عجز ظاہر ہوتا ہے ۔ پھر یہ کہا کہ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّہَا۔ ایک آدمی کو الگ لے جاکر کچھ باتیں چپکے سے سمجھادیںاور پھر کہا کہ تم بتاؤ اگر سچے ہو۔ اس میں فریب پایا جاتا ہے ۔ جب میں نے یہ اعتراضات سنائے تو حضور کو جوش آگیا اور فوراً آپ بیٹھ گئے اور بڑے زورکی تقریر جواباً کی اور بہت سے لوگ بھی آگئے اور دورہ ہٹ گیا۔ بہت لمبی تقریر فرمائی کہ کہیں آدم کا خونریزی وغیرہ کرناثابت نہیں ۔ وغیرہ
(1040) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اور عبد الحکیم مرتد جس زمانے میں لاہور پڑھتے تھے وہاں پر ایک شخص جو برہمو سماج کا سیکرٹری اور ایم اے تھا، آیا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں تھے۔ اُس نے آکر کہا کہ تقدیر کے مسئلہ کو میں نے ایسا سمجھا ہوا ہے کہ شاید کسی اور نے نہ سمجھا ہو۔ وہ دلائل میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں اس پر حضور نے خود ہی تقدیر پر تقریر شروع فرمادی اور یہ تقریر مسلسل دو گھنٹے جاری رہی ۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالحکیم صاحب بھی اس میں موجود تھے اور نواب فتح علی خان صاحب قزلباش بھی موجود تھے ، تقریر کے ختم ہونے پر جب سب چلے گئے تو نواب صاحب بیٹھے رہے اور نواب صاحب نے کہا کہ آپ تو اسلام کی روح بیان فرماتے ہیں اور اسلام کی صداقت آفتاب کی طرح سامنے نظر آتی ہے ۔ وہ لوگ بڑے ظالم ہیں جو آپ کے متعلق سخت کلامی کرتے ہیں۔ ظالم کا لفظ سن کر حضور نے شیعہ مذہب کی تردید شروع کردی۔ گویا ثابت کیا کہ شیعہ ظلم کرتے ہیں جو صحابہ کا فیض یافتہ صحبتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا نہیں مانتے۔ اور صحابہ کا تقدس ظاہر کرکے بڑے جوش میں فرمایا کہ کیا کوئی شیعہ اس بات کو گوارا کر سکتا ہے کہ ا س کی ماں کی قبر دو نابکاروں کے درمیان ہو۔ مولوی عبد الکریم صاحب کا چہرہ اُترا ہوا ساتھا ۔ پھر نواب صاحب نہایت ادب سے اجازت لے کر چلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب نے حضور سے دریافت کیا کہ کیا حضور کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ شیعہ مذہب رکھتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا۔ ان کے ہمارے بزرگوں سے تعلقات چلے آتے ہیں ۔ ہم خوب جانتے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ یہ بڑے آدمی کہاں کسی کے پاس چل کر آتے ہیں اس لئے میں نے چاہا کہ حق اُن کے گوش گزار کردوں۔
(1041) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلی دفعہ غالباًفروری1891ء میں مَیں قادیان آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی نے مجھ پر خاص اثر کیا ۔ دسمبر1892ء میں پہلے جلسہ میں شریک ہوا۔ ایک دفعہ میںنے حضرت صاحب سے علیحدہ بات کرنی چاہی گوبہت تنہائی نہ تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت پریشان پایا ۔ یعنی آپ کو علیحدگی میں اور خفیہ طور سے بات کرنی پسند نہ تھی۔ آپ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی بات ہوتی تھی۔ اسی جلسہ1892ء میں حضرت بعد نماز مغرب میرے مکان پر ہی تشریف لے آتے تھے اور مختلف امور پر تقریر ہوتی رہتی تھی۔ احباب وہاں جمع ہوجاتے تھے اور کھانا بھی وہاں ہی کھاتے تھے۔ نمازعشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔میں علماء اور بزرگان خاندان کے سامنے دو زانوبیٹھنے کاعادی تھا۔ بسااوقات گھٹنے دکھنے لگتے۔ مگر یہاں مجلس کی حالت نہایت بے تکلفانہ ہوتی۔ جس کو جس طرح آرام ہوتا بیٹھتا۔ بعض پچھلی طرف لیٹ بھی جاتے مگر سب کے دل میں عظمت وادب اور محبت ہوتی تھی۔ چونکہ کوئی تکلّف نہ ہوتا تھا اس لئے یہی جی چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریرفرماتے رہیں اور ہم میں موجود رہیں ۔ مگر عشاء کی اذان سے جلسہ برخاست ہوجاتا۔
(1042) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب سورج گرہن اور چاند گرہن رمضان میں واقع ہوئے تو غالباً1894ء تھا ۔ میں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے نماز پڑھائی تھی۔ اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رو رہے تھے۔ اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہوجاتی ۔ اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آموجود ہوتے جہاں تہجد کی نماز ہوتی۔ سحری کھائی جاتی اور اول وقت صبح کی نماز ہوتی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے سب خدام ساتھ ہوتے۔ یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا۔ اسکے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہوجاتی اور پھر نماز عصر بھی اپنے اول وقت میں پڑھی جاتی ۔ بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کا وقت ملتا تھا۔ مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر آٹھ ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہوجاتی اور ایسا ہُو کا عالم ہوتا کہ گویا کوئی آباد نہیں ۔ مگر دو بجے سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہوجاتی۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…