اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-25

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(1025)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سبز کاغذ پر جب اشتہار حضور نے جاری کیا تو میرے پاس بھی چھ سات اشتہار حضور نے بھیجے ۔ منشی اروڑا صاحب فوراً لدھیانہ کو روانہ ہوگئے ۔ دوسرے دن محمد خاں صاحب اور میں گئے اور بیعت کر لی ۔ منشی عبدالرحمن صاحب تیسرے دن پہنچے کیونکہ انہوںنے استخارہ کیا اور آوازآئی’’عبد الرحمن آجا‘‘ ہم سے پہلے آٹھ نو کس بیعت کر چکے تھے ۔ بیعت حضور اکیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے۔ اشتہار پہنچنے کے دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح ہم نے بیعت کی ۔ پہلے منشی اروڑاصاحب نے، پھر میں نے ۔ میں جب بیعت کرنے لگا تو حضور نے فرمایا:تمہارے رفیق کہاں ہیں ؟ میں نے عرض کی منشی اروڑا صاحب نے تو بیعت کر لی ہے اور محمد خاں صاحب تیار ہی ہیں کہ بیعت کر لیں۔ چنانچہ محمد خاں صاحب نے بیعت کر لی۔ اسکے ایک دن بعد منشی عبدالرحمن صاحب نے بیعت کی ۔ منشی عبد الرحمن صاحب ، منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب تو بیعت کرکے واپس آگئے کیونکہ یہ تینوں ملازم تھے ۔ میں پندرہ بیس روز لدھیانہ ٹھہرا رہا اور بہت سے لوگ بیعت کرتے رہے ۔
حضور تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے ۔ بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقّت طاری ہوجاتی تھی۔ اور دعا اور بیعت بہت لمبی فرماتے تھے ۔ اس لئے ایک دن میں بیس پچیس آدمی کے قریب بیعت ہوتے تھے ۔
(1026)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت کے بعد جب میں لدھیانہ میں ٹھہرا ہو اتھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند سوالا ت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آیا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کیلئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا کہ یا جس پر خد اکا فضل ہوجائے ۔ اسی رات میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔
(1027)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ میرے دو تین خواب ازالہ اوہام کی جلد کے ساتھ جو کورے کاغذ تھے، اُن پر اپنی قلم سے درج فرمائے ۔ اسی طرح الٰہی بخش اکونٹنٹ نے جب حضرت صاحب کے خلاف کچھ خواب شائع کئے تو حضور نے مجھے لکھا کہ اپنے خواب لکھ کر بھیجو ۔ میںنے بھیج دئیے ۔ حضور نے وہ خواب اشتہار میں چھپوا دئیے ۔ خواب سے پیشتر میں نے یہ شعر بھی لکھا تھا ؎
الا اے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا د اغے کہ من درسینہ دارم تو کجا داری
عسل مصفّٰی میں وہ اشتہارا ور خواب چھپے ہوئے موجود ہیں ۔
(1028)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ منشی اروڑا صاحب مرحوم اور میں نے لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کبھی حضور کپور تھلہ بھی تشریف لائیں۔ اُن دنوں کپور تھلہ میں ریل نہ آئی تھی۔ حضور نے وعدہ فرمایا کہ ہم ضرور کبھی آئیں گے۔ اسکے بعد جلد ہی حضور بغیر اطلاع دئیے ایک دن کپور تھلہ تشریف لے آئے اور یکہ خانہ سے اتر کر مسجد فتح والی نزد یکّہ خانہ واقع کپورتھلہ میں تشریف لے گئے ۔حافظ حامد علی صاحب ساتھ تھے۔ مسجد سے حضور نے ملاں کو بھیجا کہ منشی صاحب یا منشی ظفر احمد صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع کردو ۔ میں اور منشی اروڑا صاحب کچہری میں تھے کہ ملاں نے آکر اطلاع دی کہ مرزا صاحب مسجد میں تشریف فرما ہیں اور انہوں نے مجھے بھیجا ہے کہ اطلا ع کردو۔ منشی اروڑا صاحب نے بڑی تعجب آمیز ناراضگی کے لہجے میں پنجابی میں کہا ’’دیکھو ناں تیری مسیت وچ آکے مرزاصاحب نے ٹھہرنا سی؟ ‘‘ میں نے کہا کہ چل کر دیکھنا تو چاہئے ۔ پھر منشی صاحب جلد ی سے صافہ باندھ کر میرے ساتھ چل پڑے ۔ مسجد میں جاکر دیکھا کہ حضور فرش پر لیٹے ہوئے تھے اور حافظ حامد علی صاحب پاؤں دبا رہے تھے اور پاس ایک پیالہ اور چمچہ رکھا ہوا تھا۔ جس سے معلوم ہو اکہ شاید آپ نے دودھ ڈبل روٹی کھائی تھی ۔ منشی اروڑا صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے اس طرح تشریف لانی تھی ؟ ہمیں اطلاع فرماتے ۔ہم کرتار پور سٹیشن پر حاضر ہوتے۔ حضور نے جواب دیا اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنا تھا۔ پھر حضور کو ہم اپنے ہمراہ لے آئے اور محلہ قائم پورہ کپور تھلہ میں جس مکان میں پرانا ڈاکخانہ بعد میں رہا ہے، وہاں حضور کو ٹھہرایا ۔ وہاں بہت سے لوگ حضور کے پاس جمع ہوگئے ۔ کرنیل محمد علی خاں صاحب ، مولوی غلام محمد صاحب وغیرہ ۔ حضور تقریر فرماتے رہے ۔ کچھ تصوف کے رنگ میں کرنیل صاحب نے سوال کیا تھا جس کے جواب میں یہ تقریر تھی۔ حاضرین بہت متاثر ہوئے ۔ مولوی غلام محمد صاحب جو کپور تھلہ کے علماء میں سے تھے آبدیدہ ہوگئے اور انہوںنے ہاتھ بڑھائے کہ میری آپ بیعت لے لیں ۔ مگر حضور نے بیعت لینے سے انکار کردیا۔ بعد میں مولوی مذکور سخت مخالف رہا۔
(1029)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ سے کپور تھلہ تشریف لائے تو صرف ایک دن قیام فرماکر قادیان کو تشریف لے گئے ۔ ہم کرتارپور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے ۔ یعنی منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور میں ۔ اگر کوئی اور بھی ساتھ کرتارپور گیا ہوتو مجھے یاد نہیں ۔
کرتارپور کے اسٹیشن پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ ظہر وعصر کی نماز جمع کی ۔ نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کرسکتے ہیںاور قصر کرسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایاانسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے ۔ ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہو تو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کرسکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدلفہ میں نماز قصر کی حالانکہ وہ مکہ شریف سے قریب جگہ ہے ۔
(1030)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری نظر سے پہلے موٹا اشتہار بابت براہین احمدیہ 1885ء میں گزرا۔ مگر کوئی التفات پید انہ ہوا۔88۔1887ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاشہرہ سنتا رہا۔ 1890ء میں آپ نے مولوی عبد اللہ صاحب فخری کی تحریک پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دعاکی استدعا کی ۔ اس طرح خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔ غالباًستمبر 1890ء میں مَیں بمقام لدھیانہ حضرت صاحب سے ملا اور چند معمولی باتیں ہوئیں۔ وہاں سے واپسی پر میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا کہ میں تفضیلی شیعہ ہوں۔ یعنی حضرت علی ؓ کودوسرے خلفاء پر فضیلت دیتا ہوں کیا آپ ایسی حالت میں میری بیعت لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ آپ نے لکھا کہ ہاں ایسی حالت میں آپ بیعت کر سکتے ہیں ۔ باقی اگر ہم ان خدمات کی قدر نہ کریں جو خلفائے راشدین نے کیں تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ قرآن وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا کیونکہ انہی کے ذریعہ قرآن واسلام ، حدیث واعمال ہم تک پہنچتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے غالباًستمبر یاا کتوبر 1890ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی اور بعد بیعت تین سال تک شیعہ کہلاتا رہا۔
(1031)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائے خط وکتابت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ میں شیعہ ہوں اور شیعوں کے ہاں ولایت ختم ہوگئی ہے ۔ اس لئے جب ہم کسی کو ولی نہیں مانتے تو بیعت کس طرح کر سکتے ہیں ؟ آپ نے لکھا ’’ ہم جو ہر نما زمیں اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیھم کی دعا مانگتے ہیں، اسکا کیافائدہ ہے ؟ کیونکہ مے تو پی گئے اب تو دُرد رہ گیا۔ پھر کیا ہم مٹی کھانے کیلئے رہ گئے؟ اور جب ہمیں انعام ملنا نہیں تو یہ دعا عبث ہے ۔ مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ انعامات کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔1893ء میں مَیں نے خاص طور پر سے شیعیت کی بابت تحقیقات کی اور شیعیت کو ترک کردیا۔
(1032)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں قیام پذیر تھے میں اور محمد خان مرحوم ڈاکٹر صادق علی صاحب کو لے کر لدھیانہ گئے ۔ (ڈاکٹر صاحب کپور تھلہ کے رئیس اور علماء میں سے شمار ہوتے تھے)کچھ عرصہ کے بعد حضور مہندی لگوانے لگے۔ اس وقت ایک آریہ آگیا جوایم . اے تھا۔ اس نے کوئی اعتراض اسلام پر کیا ۔ حضرت صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے فرمایا آپ ان سے ذرا گفتگو کریں تو میں مہندی لگوالوں ۔ ڈاکٹر صاحب جواب دینے لگے۔ مگر اُس آریہ نے جوجوابی تقریر کی تو ڈاکٹر صاحب خاموش ہوگئے ۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر فوراً مہندی لگوانی چھوڑ دی اور اسے جواب دینا شروع کیا اور وہی تقریر کی جو ڈاکٹر صاحب نے کی تھی مگر ا س تقریر کو ایسے رنگ میں بیان فرمایا کہ وہ آریہ حضور کے آگے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نے ہاتھ سے اُسے اٹھایا۔ پھروہ دونوں ہاتھوں سے سلام کر کے پچھلے پیروں ہٹتا ہوا واپس چلا گیا۔ پھر شام کے چار پانچ بجے ہوں گے تو ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں تخلیہ چاہتاہوں میں نے حضور سے عرض کی ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب حضرت صاحب کے پاس تنہائی میں چلے گئے اور میں اور مولوی عبد اللہ سنوری اور محمدخان صاحب ایک کوٹھڑی میں چلے گئے ۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا کہ میں نے بہت اصرار کیا کہ مجھے بیعت میں لے لیں مگر آپ نے فرمایا آپ جلدی نہ کریں۔ سوچ سمجھ لیں۔ دو دن رہ کر ہم واپس آگئے ۔
(1033)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی شخص نے بیعت کرنی چاہی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بیعت نہ لی اور انکار کردیا۔
(1034)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک شخص نے ایک کتاب لکھی۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور وہ کتاب پیش کی ۔ حضور نے ہاتھ سے کتاب پرے کر دی کہ جب مسلمانوں کے سینکڑوں بچے عیسائی ہوگئے اس وقت یہ کتاب نہ لکھی۔ اب جو مصنف کا اپنا لڑکا عیسائی ہوگیا تو یہ کتاب لکھی ۔ اس میں برکت نہیں ہوسکتی ۔
(1035)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شروع ستمبر1904ء میں میرے والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ لاہورلے گئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن دنوں لاہور ہی میں تشریف رکھتے تھے۔3؍ستمبر کو آپ کا لیکچر میلارام کے منڈوے میں ہوا۔ والد صاحب بھی مجھے اپنے ہمراہ وہاں لے گئے ۔ میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال کی تھی لیکن وہ منظر مجھے خوب یاد ہے کہ مجھے سٹیج پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرسی کے قریب ہی جگہ مل گئی اور میں قریباً تمام وقت آپ ہی کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتا رہا۔ گو معلوم ہوتا تھا کہ میں نے لیکچر بھی توجہ سے سنا ہوگا یاکم سے کم بعد میں توجہ سے پڑھا ہوگا کیونکہ اس لیکچر کے بعض حصے اس وقت سے مجھے اب تک یاد ہیں لیکن میری توجہ زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی طرف رہی ۔ آپ ایک آرام کرسی پر تشریف فرماتھے اور ایک سفید رومال آپ کے ہاتھ میں تھا جو اکثر وقت آپ کے چہرہ مبارک کے نچلے حصہ پر رکھا رہا۔

(سیرۃ المہدی ، جلد2،حصہ چہارم ،مطبوعہ قادیان 2008)
…٭…٭…٭…