اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-06

سیرت المہدی

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(976) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ہمارے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ جس روز پنڈت لیکھرام کے قتل کے معاملہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کی تلاشی ہوئی۔تو اچانک پولیس کپتان بمعہ ایک گروہ سپاہیوں کے قادیان آگیااور آتے ہی سب ناکے روک لئے ۔ باہر کے لوگ اندر اور اندر کے باہر نہ جاسکتے تھے۔ میر صاحب قبلہ یعنی حضرت والد صاحب جو مکان کے اندر تھے فوراً حضور کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ ایک انگریز بمعہ سپاہیوں کے تلاشی لینے آیا ہے ۔ فرمایا بہت اچھا آجائیں ۔ میرصاحب واپس چلے تو آپ نے اُن کو پھر بلایا اور ایک کتاب یا کاپی میں سے اپنا الہام دکھا یا جو یہ تھا کہ مَاھٰذَا اِلَّا تَہْدِیْدُ الْحُکَّامِ یعنی یہ حکام کی طرف سے صرف ایک ڈراوا ہے ۔ اس کے بعد جب انگریز کپتان بمعہ پولیس کے اندر داخل ہوا تو آپ اُسے ملے ۔ اُ س نے کہا کہ مرزاصاحب! مجھے آپ کی تلاشی کا حکم ہو اہے ۔ حضور نے فرمایا !بیشک تلاشی لیں میں اس میں آپ کو مدد دوں گا۔ یہ کہہ کر اپنا کمرہ اور صندوق ، بستے اور پھرتمام گھر اور چوبارہ سب کچھ دکھایا۔ انہوں نے تمام خط وکتابت میں سے صرف دو خط لئے جن میں سے ایک ہندی کا پرچہ تھا۔ جو دراصل آٹاوغیرہ خریدنے اور پسوانے کی رسید یعنی ٹومبو تھا۔ دوسرا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی مرزا امام الدین یعنی محمدی بیگم کے ماموں کا تھا ۔ پھر وہ چند گھنٹے بعد چلے گئے ۔ چاشت کے وقت وہ لوگ قادیان آئے تھے ۔ اس کے بعد دوبارہ دوہفتہ کے بعد اس خط کی بابت دریافت کرنے کے لئے ایک انسپکٹر پولیس بھی آیا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے اور اس کے متعلق مزید تفصیل دوسری روایتوں میں مثلاً روایت نمبر۴۶۰میں گذر چکی ہے ۔ یہ روایت ہمارے ماموں حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے خود بیان کی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت حضرت میر صاحب وفات پاچکے ہیں۔
نوٹ: حضرت میر محمد اسماعیل صاحب جولائی۱۹۴۷ء میں قادیان میں فوت ہوئے تھے اور میں اس تالیف کی نظر ثانی اکتوبر۱۹۴۹ء میں لاہور میں کررہاہوں ۔
(977) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تمام انبیاء کے نام چونکہ خدا کی طرف سے رکھے جاتے ہیں اس لئے ہر ایک کے نام میں اس کی کسی بڑی صفت کی پیشگوئی موجود ہوتی ہے ۔ مثلاً آدم ، گندم گوں اقوام کا باپ ۔ ابراہیم ، قوموں کا باپ۔ اسماعیل ، خدا نے دعا کو سن لیا۔ یعنی اولاً اولاد کے متعلق ابراہیم کی دعا کو سن لیا اور پھر مکہ کی وادی غیرذی زرع میں اسماعیل کی پکار سن لی اور پانی مل گیا اور آبادی کی صورت پید اہوگئی۔ اسحق ، اصل میں اضحاک ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰـھَا بِاِسْحٰق(ھود:72) نوح کا اتنی لمبی عمر نوحہ کرنا مشہور ہے ۔مسیح ، سفر کرنے والا ، خدا کاممسوح۔ سلیمان جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے ۔ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن(النحل:45) ایسا بادشاہ جو نہ صرف خود مسلم تھا بلکہ جس کے طفیل ایک شہزادی بمعہ اپنے اہل ملک کے اسلام لائی۔ مریم بتول یعنی کنواری ۔ چنانچہ فرماتا ہے اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا(آل عمران:36)یعقوب پیچھے آنے والا وَمِنْ وَّرَآئِ اِسْحَاقَ یَعْقُوْبَ(ھود:72) یوسف۔ یَااَسَفٰی عَلٰی یُوسُفَ (یوسف:85) محمد ﷺ، تمام کمالات کا جامع جس کی ہر جہت سے تعریف کی جائے یعنی کامل محمود ومحبوب اور معشوق ۔ احمد ،نہایت حمد کرنے والا یعنی عاشق صادق وغیرہ وغیرہ ۔
(978)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ خواب میں چور کی تعبیر داماد بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی ایک قسم کا چور ہوتا ہے ۔ اسی طرح جوتی کی تعبیر عورت ہوتی ہے اور عورت کی تعبیر دنیا۔ ہاتھوں کی تعبیر بھائی ہوتی ہے اور دانت ٹوٹ جائے تو تعبیر یہ ہے کہ کوئی عزیز مر جائے گا ۔ اوپر کا دانت ہو تو مرد نیچے کا ہوتو عورت ۔
(979) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کپورتھلہ کی جماعت میں ہم پانچ آدمی جماعت کے نام سے نامزد تھے۔ (۱)خاکسار فیاض علی (۲)منشی اروڑا صاحب تحصیل دار مرحوم (۳)منشی محمد خان صاحب مرحوم(۴)منشی عبد الرحمن صاحب (۵)منشی ظفر احمد صاحب کاتب جنگ مقدس۔ ان سب کو حضرت مسیح موعود نے۳۱۳میں شمار کیاہے اور مجموعی طور پرا ور فرداً فرداً حضرت اقدس نے ان کو جو دعائیں دی ہیں وہ ازالہ اوہام اور آئینہ کمالات اسلام میں درج ہیں۔ ان دعاؤں کی قبولیت سے ہماری جماعت کے ہر فرد نے اپنی زندگی میںبہشت کا نمونہ دیکھ لیا ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں فیاض علی صاحب پرانے صحابی تھے ۔افسوس ہے کہ اس وقت(۱۹۴۹ء )میں وہ اور منشی عبدالرحمن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب سب فوت ہوچکے ہیں ۔
(980)بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاکسار کو دعا دی تھی ’’اے خد اتو اس کے اندر ہو کر ظاہر ہو۔‘‘(ملاحظہ ہو ازالہ اوہام) اس سے پیشتر میں قطعی بے اولاد تھا ۔ شادی کو چودہ سال گذر چکے تھے ۔ دوسری شادی کی۔ وہ بیوی بھی بغیر اولاد نرینہ کے فوت ہوگئی۔ تیسری شادی کی ۔ اُس سے پے در پے خدا نے چار لڑکے اور دو لڑکیاں عطا کیں۔ ایک لڑکا چھوٹی عمر میں فوت ہوگیا۔ تین لڑکے اور لڑکیاں اس وقت زندہ موجود ہیں۔ اُن میں سے ہر ایک خدا کے فضل سے خوش حال وخوش وخرم ہے لڑکیاں صاحب اقبال گھر بیاہی گئیں۔ ان میں سے ہر ایک احمدیت کا دلدادہ ہے۔ بڑ ا لڑکا مختار احمد ایم. اے . بی .ٹی سر رشتہ تعلیم دہلی میں سپرنٹنڈنٹ ہے ۔ دوسرا لڑکا نثاراحمد بی اے ، ایل ایل بی ضلع شاہجہان پور میں وکالت کرتا ہے ۔ تیسرا لڑکا رشید احمد بی۔ ایس۔ سی پاس ہے اور قانون کا پرائیویٹ امتحان پاس کرچکا ہے ۔ اور اس وقت ایم. ایس. سی کے فائنل کے امتحان میں ہے ۔
(981)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے ایک لڑکے کو مرگی کا عارضہ ہوگیا تھا ۔ بہت کچھ علاج کرایا مگر ہر ایک جگہ سے مایوسی ہوئی۔ قادیان میں مولانا حکیم نورا لدین صاحب خلیفہ اولؓ کی خدمت میں بھی مع اس کی والدہ کے لڑکے کو بھیجا گیا مگر فائدہ نہ ہوا۔ اور اس کی والدہ مایوس ہو کر گھر واپس آنے لگی ۔ اس وقت حضرت ام المومنین کے مکان میں اُن کا قیام تھا ۔ حضرت ام المومنین نے لڑکے کی والدہ سے فرمایا ۔ ٹھہرو ہم دعا کریں گے ۔ چنانچہ حضور دام اقبالھا قریباً دو گھنٹہ بچہ کی صحت کے واسطے سربسجود رہیں ۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ رات کو لڑکے نے خواب میں دیکھاکہ چاندنی رات ہے اور میں دورہ مرگی میں مبتلا ہوں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیت الدعا کی کھڑکی سے تشریف لائے اور مجھ کودیکھ کر دریافت کیا کہ تیرا کیا حال ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور ملاحظہ فرمالیں۔ مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ گھبراؤنہیں ، آرام ہوجائے گا۔ اس کے بعد اس کی والدہ لڑکے کو لے کر گھر واپس چلی آئی ۔ پھر میں ہر مشہور ڈاکٹر اور طبیب سے لڑکے کا علاج کرواتا رہا۔ آخر قصبہ ہاپڑ ضلع میرٹھ میں ایک طبیب کے پاس گیا۔ اس نے نسخہ تجویز کیا اور رات کو اپنے سامنے کھلایا ۔ اس وقت لڑکے کو نہایت سختی کے ساتھ دورہ ہوگیا ۔ طبیب اپنے گھر کے اندر جاکر سوگیا۔ اور ہم دونوں باہر مردانہ میں سوگئے۔ صبح ہوئی نماز پڑھی ۔ طبیب بھی گھر سے باہر آیا۔ طبیب نے کہا کہ رات کو میںنے ایک خواب دیکھا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب دی گئی۔ جب میں نے اس کو کھولا تو اس کے شروع میں لکھا ہوا تھا۔ اس مرض کا علاج املی ہے ۔ چھ سات سطر کے اندر یہی لکھا ہوا تھا کہ اس مرض کا علاج سوائے املی کے دنیا میں اور کوئی نہیں۔ طبیب نے کہا کہ نہ تو میں مرض کو سمجھااور نہ علاج کو ۔ میں نے تمہیں اپنا خواب سنا دیا ہے ۔ میں نے طبیب کے اس خواب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارت کے مطابق خداکی طرف سے الہام سمجھااور لڑکے کو لے کر گھر چلا آیا۔ املی کااستعمال شروع کردیا۔ رات کو چار تولہ بھگو دیتا تھا ۔ صبح کو چھان کر دو تو لہ مصری ملا کر لڑکے کو پلا دیتا تھا۔ دو ہفتہ کے اندر اُس مرض سے لڑکے نے نجات پالی۔ اور اس وقت خداکے فضل سے گریجویٹ ہے اور ایک اچھے عہدہ پر ممتاز ہے ۔
(982)بسم اللہ الرحمن الرحیم-میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ریاست کپور تھلہ میں ڈاکٹر صادق علی صاحب مشہور آدمی تھے اور را جہ صاحب کے مصاحبین میں سے تھے۔ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی درخواست کی ۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو بیعت کی کیا ضرورت ہے ۔ دوبارہ اصرار کیا ۔ فرمایا آپ تو بیعت میں ہی ہیں۔ مگر باوجود اصرار کے بیعت میں داخل نہ فرمایا ۔ نہ معلوم کہ اس میں کیا مصلحت تھی ۔
(983) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کپور تھلہ تشریف لائے تو ایک شخص مولوی محمد دین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیعت کی درخواست کی۔ حضور نے جواب دیاآپ سوچ لیں۔ دوسرے دن اس نے عرض کی تو پھر وہی جواب ملا ۔ تیسرے دن پھر عرض کی فرمایا آپ استخارہ کرلیں۔ غرض اس طرح ان مولوی صاحب کی بیعت قبول نہ ہوئی ۔
(984)بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپور تھلہ میں حکیم جعفر علی ڈاکٹر صادق علی کے بھائی تھے۔ جماعت کپور تھلہ جلسہ پر قادیان جارہی تھی۔ جعفر علی نے کہا کہ لنگر خانہ میں پانچ روپیہ میری طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کئے جائیں۔ وہ روپے منشی ظفر احمد صاحب کاتب جنگ مقدس نے حضورکی خدمت میںپیش کئےمگر حضور نے قبول نہ فرمائے ۔ دوسرے دن دوبارہ پیش کئے۔ فرمایایہ روپے لینے مناسب نہیں ہیں۔ تیسرے دن منشی ظفر احمد صاحب نے پھر عرض کی کہ بہت عقیدت سے روپے دئیے گئے ہیں ۔ اس پر فرمایا: تمہارے اصرار کی وجہ سے رکھ لیتے ہیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی ظفر احمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص محبّوں میں سے تھے اور مجھے ان کی محبت اور اخلاص کو دیکھ کر ہمیشہ ہی رشک آیا۔ ٭٭