اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-29

حضرت اُم المؤمنین زینب بنت خزیمہ،ولادت حسینؓ شعبان4ہجری،غزوہ بدرالموعدذوقعدہ 4ہجری

تزوّج ام سلمہؓ شوال 4ہجری ،آنحضرت ﷺ کاکاتب خاص اورعبرانی کی تعلیم،جمع قرآن

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

حضرت اُم المؤمنین زینب بنت خزیمہ

آنحضرت ﷺ کے ایک پھوپھی زاد بھائی تھے جنکا نام عبداللہ بن جحش تھا۔ وہ جنگ اُحد میں شہید ہوگئے اوران کی بیوی زینب بنت خزیمہ بیوگی کی حالت میں بے سہارا رہ گئیں۔ آنحضرت ﷺ نے جو صلہ رحمی میں ایک بے نظیر نمونہ رکھتے تھے خود اپنی طرف سے زینب بنت خزیمہ کونکاح کاپیغام بھیجا اوران کی طرف سے رضامندی کااظہار ہونے پران کو اپنے عقد میں لے لیا۔اس وقت زینب بنت خزیمہ کی عمر کم وبیش تیس سال کی تھی،مگر ان کی شادی پرابھی صرف چندماہ ہی گزرے تھے کہ ربیع الآخر4 ہجری میں وہ انتقال کرگئیں اورآنحضرت ﷺنے انہیں جنت البقیع میں دفن فرمایا۔زینب بنت خزیمہ ایک بہت نیک اورپارسا بی بی تھیں اوراپنے صدقہ وخیرات اورغرباء پروری کی وجہ سے عام طورپر ام المساکین کے نام سے مشہور تھیں۔

ولادت حسینؓ شعبان4ہجری

اسی سال ماہ شعبان میں حضرت فاطمہؓ کے ہاں دوسرابچہ پیدا ہوا ،جس کا نام آنحضرتﷺ نے حسین رکھا،حسین بھی آنحضرت ﷺ کواسی طرح عزیز تھے جیسا کہ ان کے بھائی حسن تھے۔چنانچہ بعض اوقات آپؐ محبت میں ان دونوں کواپنے دو پھول کہہ کریاد فرمایا کرتے تھے۔ یہ وہی امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں جو یزیدبن معاویہ بن ابی سفیان کے زمانہ میں61 ہجری کے ماہ محرم کی دسویں تاریخ کوایک مظلوم حالت میں شہید ہوکراپنے محبوب حقیقی سے جاملے اورجن کی شہادت کی یاد میں شیعہ لوگ آج تک ماتم کرتے اورتعزیئے نکالتے ہیں۔

غزوہ بدرالموعدذوقعدہ 4ہجری

جنگ اُحد کے حالات میں یہ ذکر گزرچکا ہے کہ میدان سے لوٹتے ہوئے ابوسفیان نے مسلمانوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پرہماری تمہاری جنگ ہوگی اور آنحضرت ﷺ نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔اس لئے دوسرے سال یعنی 4ھ ہجری میں جب شوال کے مہینہ کاآخر آیا تو آنحضرتﷺ ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کو ساتھ لے کرمدینہ سے نکلے اورآپؐنے اپنے پیچھے عبداللہ بن عبداللہ بن ابیّ کوامیر مقرر فرمایا۔
دوسری طرف ابوسفیان بن حرب بھی دوہزار قریش کے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلا مگر باوجود اُحد کی فتح اوراتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے اسکا دل خائف تھا اور اسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمعیت کاانتظام نہ ہوجاوے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو۔چنانچہ ابھی وہ مکہ میں ہی تھا کہ اس نے ایک شخص نعیم نامی کوجوایک غیر جانبدار قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا،مدینہ کی طرف روانہ کردیا اوراسے تاکید کی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کوڈرا دھمکا کراور جھوٹ سچ باتیں بتاکرجنگ سے نکلنے کیلئے باز رکھے۔چنانچہ یہ شخص مدینہ میں آیا اورقریش کی تیاری اور طاقت اوران کے جوش وخروش کے جھوٹے قصے سناسناکراس نے مدینہ میں ایک بے چینی کی حالت پیدا کردی۔ حتّٰی کہ بعض کمزور طبیعت لوگ اس غزوہ میں شامل ہونے سے خائف ہونے لگےلیکن جب آنحضرت ﷺ نے نکلنے کی تحریک فرمائی اورآپؐنے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کوقبول کرکے اس موقع پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے،اس لئے ہم اس سے تخلّف نہیں کرسکتے اورخواہ مجھے اکیلا جانا پڑے میں جائوں گا اوردشمن کے مقابل پراکیلا سینہ سپر ہوں گا، تولوگوں کاخوف جاتا رہا اوروہ بڑے جوش اوراخلاص کے ساتھ آپؐکے ساتھ نکلنے کوتیار ہو گئے۔
بہرحال آنحضرت ﷺ ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور دوسری طرف ابوسفیان اپنے دوہزار سپاہیوں کے ہمراہ مکہ سے نکلا،لیکن خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان توبدر میںاپنے وعدہ پرپہنچ گئے،مگر قریش کالشکر تھوڑی دورآکر پھر مکہ کو واپس لوٹ گیا۔اور اسکا قصہ یوں ہوا کہ جب ابوسفیان کونعیم کی ناکامی کاعلم ہوا تو وہ دل میں خائف ہوا اوراپنے لشکر کو یہ تلقین کرتا ہوا راستہ سے لوٹا کرواپس لے گیا کہ اس سال قحط بہت ہے اور لوگوں کوتنگی ہے اس لئے اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں ہے۔جب کشائش ہوگی تو زیادہ تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کریں گے۔
اسلامی لشکر آٹھ دن تک بدر میں ٹھہرا اورچونکہ وہاں ماہ ذوقعدہ کے شروع میں ہرسال میلہ لگا کرتا تھا۔ان ایام میںبہت سے صحابیوں نے اس میلہ میں تجارت کرکے کافی نفع کمایا۔حتّٰی کہ انہوں نے اس آٹھ روزہ تجارت میں اپنے رأس المال کودوگنا کرلیا۔جب میلے کا اختتام ہوگیا اورلشکر قریش نہ آیا توآنحضرت ﷺ بدر سے کوچ کرکے مدینہ میں واپس تشریف لے آئے اور قریش نے مکہ میں واپس پہنچ کر مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں۔ یہ غزوہ غزوہ بدرالموعد کہلاتا ہے۔

تزوّج ام سلمہؓ شوال 4ہجری

اسی سال ماہ شوال میں آنحضرت ﷺنے ام سلمہؓ سے شادی فرمائی۔ام سلمہؓ قریش کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اوراس سے پہلے ابوسلمہ بن عبدالاسد کے عقد میں تھیں جوایک نہایت مخلص اورپرانے صحابی تھے اوراسی سال فوت ہوئے تھے۔جب اُمّ سلمہ کی عدت (یعنی وہ میعاد جواسلامی شریعت کی رو سے ایک بیوہ یامطلقہ عورت پرگزرنی ضروری ہوتی ہے پیشتر اس کے کہ وہ نکاح ثانی کرے)گزر گئی توچونکہ اُمّ سلمہ ایک نہایت سمجھ دارباسلیقہ اورقابل خاتون تھیں اس لئے حضرت ابوبکر کوان کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مگر ام سلمہ نے انکار کیا۔آخر آنحضرت ﷺ کوخود اپنے لئے ان کا خیال آیا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امّ سلمہ کی ذاتی خوبیوں کے علاوہ جن کی وجہ سے وہ ایک شارع نبی کی بیوی بننے کی اہل تھیں وہ ایک بہت بڑے پائے کے قدیم صحابی کی بیوہ تھیں اورپھر صاحب اولادبھی تھیں جس کی وجہ سے ان کا کوئی خاص انتظام ہونا ضروری تھا۔علاوہ ازیں چونکہ ابوسلمہ بن عبداللہ آنحضرتﷺ کے رضاعی بھائی بھی تھے، اس لئے آنحضرتﷺ کو ان کے پسماندگان کا خاص خیال تھا۔ بہر حال آنحضرت ﷺنے ام سلمہؓ کو اپنی طرف سے شادی کاپیغام بھیجا۔ پہلے توام سلمہؓ نے اپنی بعض معذوریوں کی وجہ سے کچھ تامل کیا اور یہ عذر بھی پیش کیا کہ میری عمر اب بہت زیادہ ہوگئی ہے اورمیں اولاد کے قابل نہیں رہی لیکن چونکہ آنحضرتﷺ کی غرض اورتھی اس لئے بالآخر وہ رضا مند ہوگئیں اوران کی طرف سے ان کے لڑکے نے ماں کاولی ہوکر آنحضرتﷺ کے ساتھ ان کی شادی کردی۔جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے ام سلمہ ایک خاص پائے کی خاتون تھیں اورنہایت فہیم اورذکی ہونے کے علاوہ اخلاص وایمان میں بھی ایک اعلیٰ مرتبہ رکھتی تھیں اوران لوگوں میں سے تھیںجنہوں نے آنحضرت ﷺ کے حکم سے ابتداء ً حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔مدینہ کی ہجرت میںبھی وہ سب مستورات سے اول نمبر پر تھیں۔ حضرت ام سلمہؓ پڑھنا بھی جانتی تھیں اور مسلمان مستورات کی تعلیم وتربیت میں انہوں نے خاصہ حصہ لیا۔چنانچہ کتب حدیث میں بہت سی روایات اور احادیث ان سے مروی ہیں اوراس جہت سے ان کا درجہ ازواج النبی میں دوسرے نمبرپر اورکل صحابہ (مردوزن) میں بارہویں نمبر پر ہے۔ حضرت ام سلمہؓنے بہت لمبی عمر پائی اوریزیدبن معاویہ کے زمانہ میں 84سال کی عمر میں فوت ہوئیںاوروہ امہات المؤمنین میں سب سے آخری فوت ہونے والی تھیں چونکہ حضرت اُمّ سلمہؓ آنحضرت ﷺ کی ازواج میں سب سے بڑی عمر کی تھیں۔ حتّٰی کہ وہ شادی کے وقت اولاد پیدا کرنے کے بھی ناقابل ہوچکی تھیں اس لئے آنحضرتﷺ کی عادت تھی کہ جو دورہ آپؐاپنی بیویوں کے گھروں میں دریافت خیریت کیلئے روزانہ عصر کی نماز کے بعد فرمایا کرتے تھے اس میں سب سے پہلے آپؐحضرت ام سلمہؓ کے پاس تشریف لے جاتے اورسب سے آخر میں حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں جاتے تھے جو عمر میں سب سے چھوٹی تھیں اورپھر اسکے بعد جس بیوی کی باری ہوتی تھی اسکے گھر تشریف لے جاتے تھے۔

آنحضرت ﷺ کاکاتب خاص اورعبرانی کی تعلیم

آنحضرت ﷺکی خط وکتابت کا سلسلہ اب وسیع ہو رہا تھا اوراس بات کی ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ آپؐکا کوئی مخلص صحابی عبرانی سے بھی واقفیت پیدا کرے تاکہ یہود کے ساتھ خط وکتابت اورمعاہدات وغیرہ کی تکمیل میں آسانی ہو اوردھوکے وغیرہ کا احتمال نہ رہے چنانچہ اس غرض سے آپؐ نے اپنے ایک نوجوان صحابی زید بن ثابت انصاری سے جنہوں نے جنگ بدر کے قیدیوں سے عربی لکھنا پڑھنا سیکھا تھا اور جو گویا آنحضرت ﷺ کے کاتب خاص یاپرائیوٹ سیکرٹری کاکام کرتے تھے،ارشاد فرمایا کہ وہ عبرانی کالکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیں۔چنانچہ زید نے جو خاص طور پر ذہین واقع ہوئے تھے صرف پندرہ دن کی محنت سے عبرانی سیکھ لی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ وہی زید بن ثابت ہیں جنہوں نے حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں ان کے حکم کے ماتحت قرآن شریف کوایک مصحف یعنی کتاب کی صورت میں جمع کرکے لکھا۔

جمع قرآن

ہم نے جو اوپر یہ لکھا ہے کہ زید بن ثابت انصاری نے حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت میں قرآن کریم کو مصحف کی صورت میں جمع کرکے لکھا تھا،اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس سے پہلے قرآن مجید جمع نہیں تھا بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن کریم جوں جوں آنحضرت ﷺ پر نازل ہوتا جاتا تھا، آپؐاسے الٰہی تفہیم کے ماتحت اسے ترتیب دے کر نہ صرف خود اسے یاد کرتے جاتے تھے بلکہ بہت سے دوسرے صحابہ کو بھی یاد کرادیتے تھے اورجو صحابہ اس معاملہ میں زیادہ ماہر تھے ان کا آپؐنے یہ فرض مقررکیا تھا کہ وہ دوسروں کو سکھائیں اورمزید احتیاط کے طور پر آپؐ اسے ساتھ ساتھ لکھواتے بھی جاتے تھے۔چنانچہ حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ یہی زید بن ثابت جنہوں نے بعد میں قرآن شریف کوایک جلد کی صورت میں اکٹھا کرکے لکھا اورجوایک غیر معمولی طورپر ذہین آدمی تھے آنحضرت ﷺکے زمانہ میں قرآنی وحی کے قلمبند کرنے پر مامور تھےاوران کے علاوہ بعض اور اصحاب بھی اس خدمت کو سرانجام دیتے تھے۔مثلاًحضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ،زبیرؓ بن العوام، شرجیلؓ بن حسنہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح،اُبیّ ؓبن کعب،عبداللہؓ بن رواحہ وغیرہ۔ غرض قرآن مجید کے جمع وترتیب کا حقیقی کام سب آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہی آپؐکی ہدایت کے ماتحت ہوگیا تھااوریہ صرف ایک قیاس ہی نہیں ہے بلکہ حدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر آتا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس سے روایت آتی ہے کہ حضرت عثمان بن عفان خلیفۂ ثالث فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺکا یہ طریق تھا کہ جب آپؐپر کوئی وحی نازل ہوتی تھی توآپؐ اپنے کاتب وحی کو بلواکر اسے وہ وحی لکھوادیتے تھے اورساتھ ہی یہ فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں موقع پر رکھو۔اسی طرح آپؐخود ہی سورتوں کی ترتیب بھی فرما دیتے تھے اوریہ طریق آپؐ کاابتداء دعویٰ نبوت سے تھا۔چنانچہ کتاب کے حصہ اول میں ہم لکھ چکے ہیںکہ جب مکہ کے ابتدائی سالوں میں حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو انہیں اسلام کی تحریک قرآن کی تلاوت سے ہی ہوئی تھی جوخباب بن الارت ایک لکھے ہوئے صحیفہ سے حضرت عمر کی بہن اوربہنوئی کوپڑھ کر سنا رہے تھے۔الغرض قرآن شریف شروع سے ہی ساتھ ساتھ ضبط تحریر میںآکر مرتب ہوتا اورجمع ہوتا گیا تھا۔اسکا مزید ثبوت یہ ہے کہ آپؐاور آپؐکے صحابہ اپنی نمازوں میں قرآن شریف کی باقاعدہ تلاوت فرمایا کرتے تھے اوربعض اوقات نمازوں میں لمبی لمبی قرأتیں پڑھتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دفعہ آپؐنے ایک ہی تہجد یعنی نصف شب کی نماز میں قرآن شریف کی پہلی پانچ سورتوں کی جو مجموعی طورپر قرآن کریم کے پنجم حصہ کے برابر بنتی ہیں اکٹھی اور بالترتیب قرأت فرمائی تھی اوریہی وہ لمبے قیام ہیں جن کی وجہ سے بسا اوقات آپؐکے پائوں متورم ہوجاتے تھے اور بعض روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ آپ ہرسال ماہ رمضان میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن شریف کا دورفرمایا کرتے تھے اورآخری سال دو دفعہ مکمل دور فرمایا۔ یہ سب باتیں اس بات کو یقینی طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن شریف کی ترتیب اورجمع کاحقیقی کام آنحضرت ﷺکی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔پس زید بن ثابت کے جمع کرنے سے صرف یہ مراد ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ خلیفۂ اول کے حکم اوران کی نگرانی کے ماتحت قرآن مجید کو ایک مصحف یعنی جلد یاکتاب کی صورت میں اکٹھا کرکے لکھا تاکہ آنحضرت ﷺ کے مرتب کردہ قرآن کی ایک مستند اوریکجائی کاپی ضبط میں آجاوے اورروایات سے پتہ لگتا ہے کہ پھر اسی مصحف سے بعد میں حضرت عثمان خلیفۂ ثالث نے متعدد مصدّقہ نقلیں تیار کراکے انہیں اس وقت کی اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں میں بھجوادیا اورپھر انہی مصدّقہ نقول سے آگے مزیداشاعت ہوتی گئی۔ علاوہ ازیں ہرزمانہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں حفاظ نے قرآن کریم کواپنے سینوں میں لفظ بلفظ محفوظ کرکے اسکی حفاظت کا ایک مزید ظاہری سبب مہیا کیا۔اس بات کا اندازہ کرنے کیلئے کہ مسلمانوں کو قرآن شریف کے حفظ کرنے کا کس قدر شوق رہا ہے صرف یہ روایت کافی ہے کہ جب ایک دفعہ کسی غرض سے حضرت عمرؓ کو قرآن کے حفاظ کے پتہ لینے کی ضرورت پیش آئی تو معلوم ہوا کہ اس وقت کی اسلامی افواج کے صرف ایک دستہ میں تین سو سے زائد حافظ قرآن تھے۔ موجودہ زمانہ میں بھی جبکہ لوگوں میں دین کا شوق بہت کم ہوگیا ہے اسلامی دنیا میں حفاظ قرآن کی تعداد یقیناً لاکھوں سے کم نہیں ہوگی۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ528تا533،مطبوعہ قادیان2011)