اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-22

یہود کی دوسری غدّاری، جمع وترتیب قرآن ،حضرت زینبؓکی شادی، واقعہ افک اورمنافقین کی فتنہ پردازی

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

اخراج بنونضیر،ربیع الاوّل4ہجری

جب کسی قوم کے بُرے دن آتے ہیں توپھر اسکی بینائی کم ہوجاتی ہے اورواقعات سے سبق اورعبرت حاصل کرنے کی طرف وہ توجہ نہیں کرتی۔چنانچہ بنوقینقاع کے جلاوطن کئے جانے پربجائے اسکے کہ یہود کے باقی ماندہ دو قبیلے عبرت حاصل کرتے اوراپنی شرارتوں اورفتنہ انگیزیوں سے باز آجاتے اورمسلمانوں کوامن کی زندگی بسرکرنے دیتے اور خود بھی امن کے ساتھ رہتے،انہوں نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا اورمسلمانوں کے خلاف اندر ہی اندر فتنے کے شرارے پیداکرتے رہے اور قریش مکہ کے ساتھ بھی ان لوگوں نے برابر ساز باز جاری رکھی بلکہ بنوقینقاع کے بعد ان کی عداوت اور بھی ترقی کرگئی اوران کے منصوبے دن بدن زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتے گئے۔چنانچہ ابھی واقعات رجیع اوربئر معونہ پرزیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ حالات نے ایسی نازک صورت اختیار کرلی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوخود حفاظتی کے خیال سے مجبور ہوکر بنونضیر کے خلاف فوج کشی کرنی پڑی جس کے نتیجہ میں بالآخر یہ قبیلہ بھی مدینہ سے جلاوطن ہوگیا۔اس غزوہ کا سبب بیان کرتے ہوئے ارباب حدیث وسیر مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں اور اس اختلاف کی وجہ سے اس غزوہ کے زمانہ کے متعلق بھی اختلاف پیداہوگیا ہے۔ابن اسحاق اورابن سعد جن کی اتباع مَیں نے اس جگہ بلا کسی خاص تحقیق کے اختیار کی ہے غزوہ بنونضیر کو غزوہ اُحد اورواقعہ بئر معونہ کے بعد بیان کرتے ہیں اور اسکا سبب یہ لکھتے ہیں کہ عمرو بن امیہ ضمری جنہیں کفار نے بئر معونہ کے موقع پرقید کرکے چھوڑ دیا تھا۔وہ جب واپس مدینہ کی طرف آرہے تھے توانہیں راستہ میں قبیلہ بنو عامر کے دو آدمی ملے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرچکے تھے چونکہ عمرو کو اس عہدوپیمان کا علم نہیں تھا اس لئے اس نے موقع پاکر ان دوآدمیوں کوشہداء بئر معونہ کے بدلے میں قتل کردیا جن کے قتل کا باعث قبیلہ بنوعامر کا ایک رئیس عامر بن طفیل ہوا تھا۔گوجیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے خود قبیلہ بنو عامر کے لوگ اس قتل وغارت سے دست کش رہے تھے۔جب عمرو بن امیہ مدینہ پہنچے توانہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سارا ماجراعرض کیا اوران دوآدمیوں کے قتل کاواقعہ بھی سنایا۔ آپؐکوجب ان دوآدمیوں کے قتل کی اطلاع ہوئی توآپؐعمروبن امیہ کے اس فعل پربہت ناراض ہوئے اورفرمایا کہ وہ تو ہمارے معاہد تھےاورآپؐنے فوراًان ہردومقتولین کا خون بہاان کے ورثاء کو بھجوادیا لیکن چونکہ قبیلہ بنوعامر کے لوگ بنو نضیر کے بھی حلیف تھے اوربنونضیر مسلمانوں کے حلیف تھے اس لئے معاہدہ کی رو سے اس خون بہا کابارحصہ رسدی بنو نضیر پر بھی پڑتا تھا۔چنانچہ آپؐاپنے چندصحابیوں کوساتھ لے کربنونضیر کی آبادی میں پہنچے اوران سے یہ سارا واقعہ بیان کرکے خون بہا کا حصہ مانگا۔انہوں نے بظاہر آپؐکے تشریف لانے پر خوشی کااظہار کیا اورکہا کہ آپؐتشریف رکھیں ہم ابھی اپنے حصہ کا روپیہ اداکئے دیتے ہیں۔چنانچہ آپؐمع اپنے چند اصحاب کے ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھ گئے اوربنو نضیر باہم مشورہ کیلئے ایک طرف ہوگئے اورظاہر یہ کیا کہ ہم روپے کی فراہمی کاانتظام کررہے ہیں لیکن بجائے روپے کاانتظام کرنے کے انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ یہ ایک بہت ہی اچھا موقع ہے۔محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) مکان کے سایہ میں دیوار کے ساتھ لگے بیٹھے ہیں کوئی شخص دوسری طرف سے مکان پرچڑھ جاوے اورپھر ایک بڑا پتھر آپؐکے اوپر گرا کر آپؐکا کام تمام کردے۔ یہود میں سے ایک شخص سلام بن مشکم نے اس تجویز کی مخالفت کی اورکہا کہ یہ ایک غداری کافعل ہے اوراس عہد کے خلاف ہے جو ہم لوگ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے ساتھ کرچکے ہیں،مگر ان لوگوں نے نہ مانا اوربالآخر عمرو بن حجاش نامی ایک یہودی ایک بہت بھاری پتھر لے کر مکان کے اوپر چڑھ گیا اورقریب تھا کہ وہ اس پتھر کواوپر سے لڑھکا دیتا مگر روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوخدا تعالیٰ نے یہود کے اس بدارادے سے بذریعہ وحی اطلاع دے دی اور آپؐجلدی سے وہاں سے اٹھ آئے اورایسی جلدی میں اٹھے کہ آپؐکے اصحاب نے بھی اور یہود نے بھی یہ سمجھا کہ شاید آپؐکسی حاجت کے خیال سے اٹھ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہوئے آپؐکاانتظار کرتے رہے،لیکن آپؐوہاں سے اٹھ کر سیدھے مدینہ میں تشریف لے آئے۔صحابہ نے تھوڑی دیرآپؐکاانتظارکیا،لیکن جب آپؐواپس تشریف نہ لائے تو وہ گھبراکراپنی جگہ سے اٹھے اورآپؐکو ادھرادھر تلاش کرتے ہوئے بالآخر خود بھی مدینہ پہنچ گئے۔اسکے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کویہود کی اس خطرناک سازش کی اطلاع دی اورپھر قبیلہ اوس کے ایک رئیس محمد بن مسلمہ کوبلاکرفرمایا کہ تم بنونضیر کے پاس جائو اوران کے ساتھ اس معاملہ کے متعلق بات چیت کرو اوران سے کہو کہ چونکہ وہ اپنی شرارتوں میں بہت بڑھ گئے ہیں اوران کی غداری انتہاء کوپہنچ گئی ہے اس لئے اب انکا مدینہ میںرہنا ٹھیک نہیں ہے۔بہتر ہے کہ وہ مدینہ کوچھوڑ کر کہیں اورجاکر آباد ہوجائیں اورآپؐنے ان کیلئے دس دن کی معیاد مقررفرمائی۔
محمد بن مسلمہ جب ان کے پاس گئے تووہ سامنے سے بڑے تمرّد سے پیش آئے اورکہا کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے کہہ دو کہ ہم مدینہ سے نکلنے کیلئے تیار نہیں ہیں تم نے جوکرنا ہوکر لو۔جب ان کا یہ جواب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوپہنچا توآپؐنے بے ساختہ فرمایا’’اللہ اکبریہودتو جنگ کیلئے تیار بیٹھے ہیں اسکے بعد آپؐنے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور صحابہ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنو نضیر کے خلاف میدان میں نکل آئے۔
یہ وہ روایت ہے جس کی اکثر مؤرخین نے اتباع کی ہے۔حتّٰی کہ یہی روایت تاریخ میں عام طورپر شائع اور متعارف ہوگئی ہے ،لیکن اس کے مقابل پرامام زہری کی یہ روایت صحیح احادیث میں مروی ہوئی ہے کہ جنگ بدر کے بعد مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خاص طورپر کس سال اورکس ماہ میں مکہ کے رئوساء نے بنونضیر کویہ خط لکھا تھا کہ تم محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) اورمسلمانوں کے خلاف جنگ کرو ورنہ ہم تمہارے خلاف جنگ کریں گے۔ اس پر بنونضیر نے باہم مشورہ کرکے یہ فیصلہ کیا کہ کسی حکمت عملی کے ساتھ آنحضرت ( صلی اﷲ علیہ وسلم) کو قتل کردیا جاوے اوراس کیلئے انہوں نے یہ تجویز کی کہ آپؐکو کسی بہانہ سے اپنے پاس بلائیں اوروہاں موقع پاکر آپؐکو قتل کردیں۔چنانچہ انہوں نے آپؐکو کہلا بھیجا کہ ہم آپؐ کے ساتھ اپنے علماء کامذہبی تبادلہ خیالات کروانا چاہتے ہیں۔ اگر ہم پر آپؐکی صداقت ظاہر ہوگئی توہم آپؐپرایمان لے آئیں گے۔پس آپ مہربانی کرکے اپنے کوئی سے تیس اصحاب کو ساتھ لے کر تشریف لے آئیں۔ہماری طرف سے بھی تیس علماء ہوں گے اورپھر باہم تبادلہ خیالات ہوجائے گا۔ایک طرف تو انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ پیغام بھیجا اور دوسری طرف یہ تجویز پختہ کرکے اسکے مطابق پوری پوری تیاری بھی کرلی کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائیں تو یہی یہودی’’علماء‘‘ جن کے پاس خنجریں پوشیدہ ہوں موقع پاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوقتل کردیں۔ مگرقبیلہ بنو نضیر کی ایک عورت نے ایک انصاری شخص کو جو رشتہ میں اسکا بھائی لگتا تھااپنے قبیلہ والوں کے اس بدارادے سے بروقت اطلاع دے دی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جوابھی گھر سے نکلے ہی تھے یہ اطلاع پاکر واپس تشریف لے آئے اورفوراًتیاری کاحکم دیااورصحابہ کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر بنونضیر کے قلعوں کی طرف روانہ ہوگئے اور جاتے ہی ان کا محاصرہ کرلیا اورپھر ان کے رئوساء کو پیغام بھیجا کہ جو حالات ظاہر ہوئے ہیں ان کے ہوتے ہوئے میں تمہیں مدینہ میں نہیں رہنے دے سکتاجب تک کہ تم ازسرنومیرے ساتھ معاہدہ کرکے مجھے یقین نہ دلائو کہ آئندہ تم بدعہدی اورغداری نہیں کرو گے۔مگر یہود نے معاہدہ کرنے سے صاف انکار کردیا اوراس طرح جنگ کی ابتدا ہوگئی اوربنونضیر نہایت متمرّدانہ طریق پرقلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔دوسرے دن آپؐکویہ اطلاع ملی یا آپؐنے قرآئن سے خود معلوم کرلیا کہ یہود کا دوسرا قبیلہ بنو قریظہ بھی کچھ بگڑ بیٹھا ہے۔چنانچہ آپؐصحابہ کے ایک دستہ کوساتھ لے کر بنو قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے اوران کا محاصرہ کرلیا۔بنوقریظہ نے جب دیکھا کہ راز کھل گیا ہے تووہ ڈر گئے اور معافی کے خواستگار ہوکر از سرنوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ امن وامان اورباہمی اعانت کامعاہدہ کرلیا۔جس پرآپؐنے ان کا محاصرہ اٹھا لیا اورپھر بنو نضیر کے قلعوںکی طرف تشریف لے آئے،لیکن بنو نضیر بدستور اپنی ضد اورعداوت پراَڑے رہے اورایک باقاعدہ جنگ کی صورت پیداہوگئی۔
یہ وہ دومختلف روایتیں ہیں جوغزوہ بنونضیر کے باعث کے متعلق بیان کی گئی ہیں اور گوتاریخی لحاظ سے مؤخر الذکر روایت زیادہ درست اورصحیح ہے اوردوسری احادیث میں بھی زیادہ تر اسی روایت کی تائید پائی جاتی ہے،لیکن چونکہ پہلی روایت کومؤرخین نے زیادہ کثرت کے ساتھ قبول کیا ہے اور بعض صحیح احادیث میں بھی اس کی صحت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔چنانچہ امام بخاری نے باوجود زہری کے قول کوترجیح دینے کے قبیلہ عامر کے دو مقتولوں کی دیت کابھی ذکر کیا ہے۔ اس لئے ہماری رائے میں اگر دونوں روایتوں کوصحیح سمجھ کرملالیا جاوے توکوئی حرج لازم نہیں آتا۔البتہ اس سے غزوہ کے زمانہ کے متعلق ان روایتوں میں سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینی پڑے گی کیونکہ زمانہ کے لحاظ سے ہر دوروایات کوصحیح تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنو نضیر کی طرف سے مختلف مواقع پرمختلف اسباب جنگ کے پیدا ہوتے رہے ہیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم انہیں ڈھیل دیتے رہے اور درگزر سے کام فرمایا۔لیکن جب آخری سبب بئر معونہ کے واقعہ کے بعد ہوا،توآپؐنے انہیں ان کی ساری کارروائیاں جتلا کران کے خلاف فوج کشی فرمائی۔گویا یہ جتنے مختلف اسباب بیان ہوئے ہیں یہ سب اپنی اپنی جگہ درست تھے مگرآخری تحریکی سبب وہ تھاجوبنوعامر کے دو مقتولوں کی دیت کے مطالبہ کے وقت پیش آیا۔واللہ اعلم بالصواب۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کعب بن اشرف جس کے قتل کاذکر اوپر گزرچکا ہے اور جس نے مسلمانوں کے خلاف گویا ایک آگ بھڑکا رکھی تھی وہ بھی بنونضیر سے تعلق رکھتا تھا۔
بہرحال یہود کے قبیلہ بنو نضیرنے خلاف عہدی اور غداری کی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ باندھا اورجب ان سے یہ کہا گیا کہ ان حالات میں تمہارا مدینہ میں رہنا ٹھیک نہیں ہے تم یہاں سے چلے جائو تو انہوں نے تمرّد اورسرکشی سے کام لیا اورتجدید معاہدہ سے انکار کرکے جنگ کیلئے تیار ہوگئے۔اس لئے مجبوراً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبھی ان کے خلاف میدان میں نکلنا پڑا۔ چنانچہ آپؐنے اپنے پیچھے مدینہ کی آبادی میں ابن مکتوم کوامام صلوٰۃ مقرر فرمایااورخود صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکل کر بنو نضیر کی بستی کامحاصرہ کرلیااور بنونضیر اس زمانہ کے طریق جنگ کے مطابق قلعہ بند ہوگئے غالباًاسی موقع پرعبداللہ بن ابیّ بن سلول اور دوسرے منافقین مدینہ نے بنو نضیر کے رئوساء کو یہ کہلا بھیجا کہ تم مسلمانوں سے ہرگز نہ دبنا،ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور تمہاری طرف سے لڑیں گے۔لیکن جب عملاًجنگ شروع ہوئی تو بنو نضیر کی توقعات کے خلاف ان منافقین کویہ جرأت نہ ہوئی کہ کھلم کھلا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف میدان میں آئیں اور نہ بنو قریظہ کویہ ہمت پڑی کہ مسلمانوں کے خلاف میدان میں آکر بنو نضیر کی برملا مددکریں۔ گو دل میں وہ ان کے ساتھ تھے اوردرپردہ ان کی امداد بھی کرتے تھے جس کا مسلمانوں کو علم ہوگیا تھا ۔ بہرحال بنونضیر کھلے میدان میں مسلمانوں کے مقابل پرنہیں نکلے اورقلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے، لیکن چونکہ ان کے قلعے اس زمانہ کے لحاظ سے بہت مضبوط تھے اس لئے ان کو اطمینان تھا کہ مسلمان ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے اورآخر کار خود تنگ آکر محاصرہ چھوڑ جائیںگے اوراس میں شک نہیں کہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت ایسے قلعوں کافتح کرنا واقعی ایک بہت مشکل اور پرازمشقت کام تھااورایک بڑاطویل محاصرہ چاہتا تھا۔ چنانچہ کئی دن تک مسلمان برابر محاصرہ کئے رہے،لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ جب محاصرہ پرچند دن گزرگئے اورکوئی نتیجہ نہ نکلا اوربنونضیر بدستور مقابلہ پر ڈٹے رہے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا کہ بنو نضیر کے ان کھجوروں کے درختوں میںسے جو قلعوں کے باہر تھے بعض درخت کاٹ دئے جائیں۔یہ درخت جوکاٹے گئے لینہ قسم کی کھجور کے درخت تھے۔ جو ایک ادنیٰ قسم کی کھجور تھی جس کا پھل عموماً انسانوں کے کھانے کے کام نہیں آتا تھا اور اس حکم میں منشاء یہ تھا کہ تاان درختوں کوکٹتا دیکھ کربنو نضیر مرعوب ہوجائیںاوراپنے قلعوںکے دروازے کھول دیں اوراس طرح چند درختوں کے نقصان سے بہت سی انسانی جانوں کا نقصان اورملک کافتنہ وفساد رک جائے۔چنانچہ یہ تدبیر کارگر ہوئی اور ابھی صرف چھ درخت ہی کاٹے گئے تھے کہ بنو نضیر نے غالباً یہ خیال کرکے کہ شاید مسلمان ان کے سارے درخت ہی جن میں پھل دار درخت بھی شامل تھے، کاٹ ڈالیں گے آہ وپکار شروع کردی۔حالانکہ جیسا کہ قرآن شریف میں تشریح کی گئی ہے صرف بعض درخت اوروہ بھی لینہ قسم کے درخت کاٹنے کی اجازت تھی اورباقی درختوں کے محفوظ رکھنے کا حکم تھا اورویسے بھی عام حالات میں مسلمانوں کو دشمن کے پھل دار درخت کاٹنے کی اجازت نہیں تھی۔بہرحال یہ تدبیر کارگر ہوئی اوربنونضیر نے مرعوب ہوکر پندرہ دن کے محاصرہ کے بعد اس شرط پرقلعہ کے دروازے کھول دیئے کہ ہمیں یہاں سے اپنا سازو سامان لے کر امن وامان کے ساتھ جانے دیا جاوے یہ وہی شرط تھی جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود پہلے پیش کرچکے تھے اورچونکہ آپؐکی نیت محض قیام امن تھی آپؐنے مسلمانوں کی اس تکلیف اوران اخراجات کو نظر انداز کرتے ہوئے جو اس مہم میں ان کو برداشت کرنے پڑے تھے اب بھی بنونضیر کی اس شرط کومان لیا اورمحمد بن مسلمہ صحابی کو مقرر فرمایا کہ وہ اپنی نگرانی میں بنو نضیر کوامن وامان کے ساتھ مدینہ سے روانہ کردیں۔ چنانچہ بنو نضیر بڑے ٹھاٹھ اورشان وشوکت سے اپنا سارا ساز وسامان حتّٰی کہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے مکانوں کو مسمار کرکے ان کے دروازے اور چوکھٹیں اورلکڑی تک اکھیڑ کراپنے ساتھ لے گئے اور لکھا ہے کہ یہ لوگ مدینہ سے اس جشن اوردھوم دھام کے ساتھ گاتے بجاتے ہوئے نکلے کہ جیسے ایک برات نکلتی ہے۔ البتہ ان کا سامان حرب اورجائیداد غیر منقولہ یعنی باغات وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور چونکہ یہ مال بغیر کسی عملی جنگ کے ملا تھا اس لئے شریعت اسلامی کی رو سے اسکی تقسیم کااختیار خالصتہً رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا اورآپؐنے یہ اموال زیادہ تران غریب مہاجرین میں تقسیم فرمادیئےجن کے گزارہ جات کابوجھ ابھی تک اس ابتدائی سلسلہ مواخات کے ماتحت انصار کی جائیدادوں پرتھا اوراس طرح بالواسطہ انصار بھی اس مال غنیمت کے حصہ دار بن گئے۔
جب بنونضیر محمد بن مسلمہ صحابی کی نگرانی میں مدینہ سے کوچ کررہے تھے توبعض انصار نے ان لوگوں کو ان کے ساتھ جانے سے روکنا چاہا جو درحقیقت انصار کی اولاد سے تھے مگر ان کےمنت ماننے کے نتیجے میں یہودی ہوچکے تھے اور بنو نضیر ان کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے،لیکن چونکہ انصار کایہ مطالبہ اسلامی حکملَآ اِکْـرَاہَ فِی الدِّیْنِ (یعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہ ہونا چاہئے)کے خلاف تھا، اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے خلاف اوریہود کے حق میں فیصلہ کیااور فرمایا کہ جو شخص بھی یہودی ہے اورجانا چاہتا ہے ہم اسے نہیں روک سکتے۔ البتہ بنو نضیر میں سے دو آدمی خود اپنی خوشی سے مسلمان ہوکر مدینہ میں ٹھہر گئے۔
ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے متعلق یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ شام کی طرف چلے جائیں۔یعنی عرب میں نہ ٹھہریں ،لیکن باوجود اس کے ان کے بعض سردار مثلاً سلام بن ابی الحقیق اورکنانہ بن ربیع اورحیی بن اخطب وغیرہ اورایک حصہ عوام کابھی حجاز کے شمال میں یہودیوں کی مشہور بستی خیبر میں جاکر مقیم ہوگیا اورخیبر والوں نے ان کی بڑی آئو بھگت کی اور جیساکہ آگے چل کر اپنے موقع پربیان ہوگا یہ لوگ بالآخر مسلمانوں کے خلاف خطرناک فتنہ انگیزی اوراشتعال جنگ کا باعث بنے۔بنو قریظہ جنہوں نے اس جنگ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے غداری کرکے اوراپنے عہدوپیمان کو بالائے طاق رکھ کر بنو نضیر کی اعانت کی تھی ان پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے احسان کیا اور معاف فرمادیا۔ مگر ان بدبختوں نے اس احسان کا جو بدلہ دیا اس کا ذکر آگے آتا ہے۔
غزوہ بنونضیر کاواقعہ قرآن کریم کی سورۃ حشر میں بیان ہوا ہے جوقریباًساری کی ساری سورۃ اسی غزوہ کے متعلق ہے۔ (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ522تا 528،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…