اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-08

واقعہ بئر معونہ صفر4ہجری

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

قبائل سلیم وغطفان وغیرہ کی شرارتوں اورفتنہ انگیزیوں کاذکر اوپر گزرچکا ہے یہ قبائل عرب کے وسط میں سطح مرتفع نجد پر آباد تھے اورمسلمانوں کے خلاف قریش مکہ کے ساتھ ساز باز رکھتے تھے اور آہستہ آہستہ ان شریر قبائل کی شرارت بڑھتی جاتی تھی اورسارا سطح مرتفع نجد اسلام کی عداوت کے زہر سے مسموم ہوتا چلاجارہا تھا۔چنانچہ ان ایام میں جن کا ہم اس وقت ذکر کررہے ہیں ایک شخص ابوبراء عامری جووسط عرب کے قبیلہ بنو عامر کا ایک رئیس تھا، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ملاقات کیلئے حاضر ہوا ۔آپؐنے بڑی نرمی اورشفقت کے ساتھ اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی اوراس نے بھی بظاہرشوق اور توجہ کے ساتھ آپؐکی تقریر کو سنا ،مگر مسلمان نہیں ہوا۔البتہ اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ آپؐمیرے ساتھ اپنے چند اصحاب نجد کی طرف روانہ فرمائیں جووہاں جاکر اہل نجد میں اسلام کی تبلیغ کریں اور مجھے امید ہے کہ نجدی لوگ آپؐکی دعوت کورد نہیں کریں گے۔ آپؐنے فرمایامجھے تو اہل نجد پراعتماد نہیں ہے۔ ابوبراء نے کہا کہ آپؐہرگز فکر نہ کریں،میں ان کی حفاظت کاضامن ہوتا ہوں۔چونکہ ابوبراء ایک قبیلہ کا رئیس اورصاحب اثر آدمی تھا آپؐنے اسکے اطمینان دلانے پر یقین کرلیا اورصحابہ کی ایک جماعت نجد کی طرف روانہ فرمادی۔
یہ تاریخ کی روایت ہے،بخاری میں آتا ہے کہ قبائل رعل اورذکوان وغیرہ (جومشہور قبیلہ بنو سلیم کی شاخ تھے)ان کے چند لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کر کے درخواست کی کہ ہماری قوم میں سے جولوگ اسلام کے دشمن ہیں ان کے خلاف ہماری امداد کیلئے(یہ تشریح نہیں کی کہ کس قسم کی امداد،آیا تبلیغی یافوجی) چندآدمی روانہ کئے جائیں۔جس پر آپؐنے یہ دستہ روانہ فرمایا اوراسی کی تائید میں ابن سعد نے بھی ایک روایت نقل کی ہے گواسے دوسری روایت کے مقابل میں ترجیح نہیں دی۔ مگر بدقسمتی سے بئر معونہ کی تفصیلات میں بخاری کی روایات میں بھی کچھ خلط واقع ہوگیا ہے۔ جسکی وجہ سے حقیقت پوری طرح متعین نہیں ہوسکتی۔ مگربہرحال اس قدر یقینی طورپر معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر قبائل رعل اورذکوان وغیرہ کے لوگ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تھے اورانہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ چند صحابہ ان کے ساتھ بھجوا ئے جائیں۔
ان دونوں روایتوں کی مطابقت کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ رعل اورذکوان کے لوگوں کے ساتھ ابوبراء عامری رئیس قبیلہ عامر بھی آیا ہو اس نے ان کی طرف سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بات کی ہو۔چنانچہ تاریخی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ فرمانا کہ مجھے اہل نجد کی طرف سے اطمینان نہیں ہے اورپھر اسکا یہ جواب دینا کہ آپؐ کوئی فکر نہ کریں میں اسکا ضامن ہوتا ہوں کہ آپؐکے صحابہ کوکوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابوبراء کے ساتھ رعل اور ذکوان کے لوگ بھی آئے تھے جن کی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فکر مند تھے۔واللہ اعلم
بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صفر4 ہجری میں منذر بن عمروانصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ یہ لو گ عموماًانصار میں سے تھے اورتعداد میں ستر تھے اور قریباً سارے کے سارے قاری یعنی قرآن خوان تھے،جودن کے وقت جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے ان کی قیمت پر اپنا پیٹ پالتے اور رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزار دیتے تھے۔ جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جوایک کنوئیں کی وجہ سے بئر معونہ کے نام سے مشہور تھا توان میں سے ایک شخص حرام بن ملحان جوانس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اورابوبراء عامری کے بھتیجے عامر بن طفیل کے پاس آگے گئے اور باقی صحابہ پیچھے رہے۔جب حرام بن ملحان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایلچی کے طور پر عامر بن طفیل اور اسکے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طورپر آئو بھگت کی،لیکن جب وہ مطمئن ہوکربیٹھ گئے اوراسلام کی تبلیغ کرنے لگے توان میں سے بعض شریروں نے کسی آدمی کواشارہ کرکے اس بے گناہ ایلچی کو پیچھے کی طرف سے نیزہ کاوار کرکے وہیں ڈھیر کردیا۔اس وقت حرام بن ملحان کی زبان پریہ الفاظ تھے۔اَللّٰہُ اَکْبَرُفُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ یعنی’’اللہ اکبر کعبہ کے رب کی قسم! میں تو اپنی مراد کوپہنچ گیا۔‘‘ عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایلچی کے قتل پرہی اکتفاء نہیں کی بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنوعامر کے لوگوں کواکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ آور ہوجائیں مگر انہوں نے اس بات سے انکار کیا اورکہا کہ ہم ابوبراء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پرحملہ نہیں کریں گے۔اس پر عامر نے قبیلہ سلیم میں سے بنورعل اورذکوان اورعصیہ وغیرہ کو(وہی جو بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس وفد بن کر آئے تھے) اپنے ساتھ لیا اوریہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اوربے بس جماعت پرحملہ آور ہوگئے۔ مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرض نہیں ہے۔ہم تورسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ایک کام کیلئے آئے ہیں اورہم تم سے لڑنے کیلئے نہیں آئے ۔مگرانہوں نے ایک نہ سنی اورسب کوتلوار کے گھاٹ اتاردیا۔ ان صحابیوں میں سے جو اس وقت وہاں موجود تھے صرف ایک شخص بچا جو پائوں سے لنگڑا تھا اورپہاڑی کے اوپرچڑھ گیا ہوا تھا۔ اس صحابی کا نام کعب بن زید تھا اوربعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ کفار نے اس پر بھی حملہ کیا تھا جس سے وہ زخمی ہوا اور کفار اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے مگر دراصل اس میں جان باقی تھی اوروہ بچ گیا۔
صحابہ کی اس جماعت میںسے دو شخص یعنی عمرو بن امیہ ضمری اورمنذر بن محمد اس وقت اونٹوں وغیرہ کے چرانے کیلئے اپنی جماعت سے الگ ہوکر ادھر ادھر گئے ہوئے تھے انہوں نے دور سے اپنے ڈیرہ کی طرف نظر ڈالی توکیا دیکھتے ہیں کہ پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔وہ ان صحرائی اشاروں کوخوب سمجھتے تھے۔فوراًتاڑگئے کہ کوئی لڑائی ہوئی ہے۔واپس آئے تو ظالم کفار کے کشت وخون کاکارنامہ آنکھوں کے سامنے تھا۔دور سے ہی یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ایک نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراً بھاگ نکلنا چاہئے اورمدینہ میں پہنچ کرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواطلاع دینی چاہئے ۔مگردوسرے نے اس رائے کو قبول نہ کیا اورکہا کہ میں تو اس جگہ سے بھاگ کرنہیں جائوں گا جہاں ہمارا امیرمنذر بن عمرو شہید ہوا ہے۔چنانچہ وہ آگے بڑھ کر لڑا اورشہید ہوا اور دوسرے کوجس کا نام عمر وبن امیہ ضمری تھا کفار نے پکڑ کرقید کرلیااورغالباً اسے بھی قتل کردیتے مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ قبیلہ مضر سے ہے تو عامر بن طفیل نے عرب کے دستور کے مطابق اسکے ماتھے کے چند بال کاٹ کر اسے رہا کردیا اور کہا کہ میری ماں نے قبیلہ مضر کے ایک غلام کے آزاد کرنے کی منت مانی ہوئی ہے میں تجھے اسکے بدلے میں چھوڑتا ہوں۔گویا ان سترصحابہ میں صرف دو شخص بچے۔ ایک یہی عمروبن امیہ ضمری اور دوسرے کعب بن زید جسے کفار نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔
بئر معونہ کے موقع پر شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام اوراسلام کے دیرینہ فدائی عامر بن فہیرہ بھی تھے۔ انہیں ایک شخص جبار بن سلمی نے قتل کیا تھا۔ جبار بعد میں مسلمان ہوگیا اور وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فہیرۃ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے اختیار نکلا فزت واللہ۔یعنی’’خدا کی قسم میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں۔‘‘ جبار کہتے ہیںکہ میں یہ الفاظ سن کرسخت متعجب ہوا کہ میں نے تو اس شخص کو قتل کیا ہے اوروہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں مراد کوپہنچ گیا ہوںیہ کیا بات ہے۔چنانچہ میںنے بعد میں لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی تو مجھے معلوم ہوا کہ مسلمان لوگ خدا کے رستے میں جان دینے کو سب سے بڑی کامیابی خیال کرتے ہیں اور اس بات کامیری طبیعت پرایسا اثر ہوا کہ آخر اسی اثر کے ماتحت میں مسلمان ہوگیا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐکے صحابہ کوواقعہ رجیع اورواقعہ بئر معونہ کی اطلاع قریباً ایک ہی وقت میں ملی اورآپؐکو اس کا سخت صدمہ ہوا۔ حتّٰی کہ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسا صدمہ نہ اس سے پہلے آپؐکو کبھی ہوا تھا اورنہ بعد میں کبھی ہوا۔ واقعی قریباً اسّی صحابیوں کااس طرح دھوکے کے ساتھ اچانک مارا جانا اورصحابی بھی وہ جو اکثر حفاظ قرآن میں سے تھے اورایک غریب بے نفس طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ عرب کے وحشیانہ رسم ورواج کومدنظر رکھتے ہوئے بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اورخود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کیلئے تو یہ خبر گویا اسّی بیٹوں کی وفات کی خبر کے مترادف تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر،کیونکہ ایک روحانی انسان کیلئے روحانی رشتہ یقینا اس سے بہت زیادہ عزیز ہوتاہے جتنا کہ ایک دنیا دار شخص کودنیاوی رشتہ عزیز ہوتا ہے۔پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوان حادثات کاسخت صدمہ ہوا،مگر اسلام میں بہرصورت صبرکاحکم ہے آپؐنے یہ خبر سن کر اِنَّا لِلہِ وَاِنّٰا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اورپھریہ الفاظ فرماتے ہوئے خاموش ہوگئے کہ ھَذَا عَمَلُ اَبِیْ بَرَّاءَ وَقَدْ کُنْتُ لِھٰذَا کَارِھًا مُتَخَوِّفًایعنی’’یہ ابوبراء کے کام کا ثمرہ ہے ورنہ میں تو ان لوگوں کے بھجوانے کوپسند نہیں کرتا تھا اوراہل نجد کی طرف سے ڈرتا تھا۔
واقعات بئر معونہ اوررجیع سے قبائل عرب کے اس انتہائی درجہ کے بغض وعداوت کاپتہ چلتا ہے جووہ اسلام اورمتبعین اسلام کے متعلق اپنے دلوں میں رکھتے تھے۔حتیٰ کہ ان لوگوں کواسلام کے خلاف ذلیل ترین قسم کے جھوٹ اوردغا اورفریب سے بھی کوئی پرہیز نہیں تھا اورمسلمان باوجود اپنی کمال ہوشیاری اوربیدار مغزی کے بعض اوقات اپنی مومنانہ حسن ظنی میں ان کے دام کا شکار ہوجاتے تھے۔حفاظ قرآن،نماز گزار، تہجدخوان، مسجدکے ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کانام لینے والے اورپھر غریب مفلس فاقوں کے مارے ہوئے یہ وہ لوگ تھے جن کو ان ظالموں نے دین سیکھنے کے بہانے سے اپنے وطن میں بلایا اورپھر جب مہمان کی حیثیت میں وہ ان کے وطن میں پہنچے تو ان کو نہایت بے رحمی کے ساتھ تہ تیغ کردیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوان واقعات کا جتنا بھی صدمہ ہوتا کم تھا۔مگر اس وقت آپؐنے رجیع اوربئر معونہ کے خونی قاتلوں کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں فرمائی۔البتہ اس خبر کے آنے کی تاریخ سے لے کر برابر تیس دن تک آپؐنے ہرروز صبح کی نماز کے قیام میں نہایت گریہ زاری کے ساتھ قبائل رعل اورذکوان اورعصیہ اوربنولحیان کانام لے لے کر خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی اے میرے آقا توہماری حالت پر رحم فرما اور دشمنان اسلام کے ہاتھ کو روک جوتیرے دین کو مٹانے کیلئے اس بے رحمی اورسنگدلی کے ساتھ بے گناہ مسلمانوں کاخون بہا رہے ہیں۔ (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ517تا 521،مطبوعہ قادیان2011)